چھ ستمبر کی یاد اور ہمارے قابل فخر شہدائ

آج پوری قوم چھے ستمبر کے شہداء کی یاد منا رہی ہے جنہوں نے دشمن کے دانت کٹھے کر کے اس کی طاقت کے غرور کو خاک میں ملا دیا۔ ستمبر 1965 کو بھارت نے اپنی تباہی کی جانب ایک اور قدم اٹھاتے ہوئے پاکستان کے مغربی حصے میں دو اور محاذ کھول دئیے۔سیالکوٹ اور حیدرآباد کے نزدیک دو مقامات پر اس نے ہماری سرحدوں میں گھسنے کی کوشش کی۔ سیالکوٹ کے علاقہ میں زبر دست جوابی کاروائی میں پاکستانی فوج نے دشمن کے 25 ٹینک تباہ کر دئیے پانچ فیلڈ گنیں قبضہ میں لے کر بہت سارے فوجی قیدی بھی بنائے گئے۔ چھمب کے علاقہ میں بھی بھارتی فوج کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ اسی روز پاک فضائیہ کے بہادر جوانوں نے ہلواڑہ اور جودھ پور کے ہوائی اڈوں میں نیچی پروازیں کر کے رَن ویز کو سخت نقصان پہنچانے کے علاوہ دشمن کے بہت سے طیارے بھی تباہ کر دئیے۔ بھارت نے 20 کینبرا طیارے بھیج کر سرگودھا کے ہوائی اڈے کو پھر نشانہ بنانے کی کوشش کی لیکن پاک فضائیہ نے انکی کوئی پیش نہ چلنے دی۔ منوڑہ کراچی پر بھی اِسی روز حملے کے جواب میں پاک بحریہ نے دشمن کے تین طیارے تباہ کر دئیے۔ستمبر5 196 ء  پاک فوج نے قصور اور واہگہ کے سیکٹروں میں زبردست جنگ کے بعد دشمن کی فوجوں کو پوری طرح پیچھے ہٹا دیا اور بھارت کی بھاگتی ہوئی فوج بہت سا جنگی سامان بھی پیچھے چھوڑ گئی۔ جس میں توپیں، گاڑیاں اور گولہ بارود بھی شامل تھا۔ پاک فضائیہ نے پٹھان کوٹ اور جودھ پور کے ہوائی مرکزوں پر اپنے حملے جاری رکھے اور رَن ویز کے علاوہ فوجی اہمیت کے دوسرے ٹھکانوں کو زبردست نقصان پہنچایا۔ ستمبر 1965ء  پاک فوج نے جنگ کا پانسہ پلٹتے ہوئے دشمن کے علاقے کے کافی اندر جا کر کئی چوکیوں پر قبضہ کر لیا۔ واہگہ محاذ پر بھی دشمن کو پیچھے دھکیل دیا گیا۔ بیدیاں اور کھیم کرن سیکٹر میں دشمن پر دبائو بڑھتا جا رہا تھا۔ سیالکوٹ کے محاذ پر دشمن کے سات ٹینک تباہ کر دئیے گئے۔ جوڑیاں کے علاقہ میں آزاد کشمیر کی فوجوں نے دو اہم چوکیوں پر قبضہ بھی کر لیا۔ستمبر 1965ء پاک فوج نے بھارتی علاقہ کھیم کرن پر قبضہ کر لیا اور پیش قدمی اِس مقام سے آگے جارہی تھی۔ اِس روز سیالکوٹ محاذ پر سخت لڑائی جاری تھی جس میں دشمن کے 36 ٹینک تباہ کر دئے گئے۔ اکھنور کے علاقہ میں بھی بھارت کا کافی نقصان ہو رہا تھا۔ جبکہ دیوا کے شمال میں بھی ایک اور چوکی پر قبضہ کر لیا گیا اور پوزیشن مستحکم کر لی گئی۔ہمارے طیاروں نے مغربی بنگال میں باغ ڈوگر کے ہوائی اڈے پر حملہ کر کے ایک ہنٹر اور ایک ویمپائر طیارہ اور بہت سے فوجی ٹھکانے بھی تباہ کر دئیے۔ سیالکوٹ کے علاقہ میں ہمارے طیاروں نے دشمن کی بکتر بند گاڑیوں اور ٹینکوں کو بھی نقصان پہنچایا۔ لاہور اور ہلواڑہ میں بھی اِس روز دشمن کو کافی نقصان پہنچا۔ ستمبر 1965ء  کو پاکستان کی بہادر فوج نے خونریز جنگ کے بعد دشمن کے ٹینکوں کے حملے کو پسپا کر دیا اور دشمن کی فوج کو بھاری نقصان پہنچایا۔ اسکے مزید 45 ٹینک تباہ ہو گئے۔ کھیم کے قریب 358 بھارتی سپاہیوں نے ہماری فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے ان کا تعلق چوتھی رجمنٹ سے تھا اور ان میں بیشتر سکھ تھے۔سلیمانکی کے نزدیک بھی ہماری فوج نے دشمن کی بہت سی چوکیوں پر قبضہ کر لیا۔ یہاں پاک فضائیہ نے اٹھائیس ٹینک اور 123 بھاری گاڑیاں تباہ کر کے بری فوج کا ہاتھ بٹایا۔ ستمبر 1965  ہماری فوجوں نے زمین پر اور ہوا میں دشمن کے 9 طیارے اور 47 ٹینک تباہ کر دئیے۔ بھارتی فضائیہ کے دو مرکزوں میں آگ لگا دی اور دشمن کی بہت سی چوکیوں پر قبضہ کر لیا۔ لاہور محاز پر پاکستانی فوج کا دبا مسلسل بڑھ رہا تھا۔ سیالکوٹ جموں سیکٹر میں دشمن کے کئی حملوں کو پسپا کر دیا گیا اور انہیں پیچھے ہٹا کر دم لیا۔ میر پور خاص ریلوے لائن پر بھارتی علاقہ میں ایک ریلوے اسٹیشن مونابا پر بھی قبضہ کر لیا گیا۔ ہماری فضائیہ نے امرتسر کے مضافاتی علاقوں کے علاوہ پٹھان کوٹ، آدم پور، جودھپور اور آدم نگرکے ہوائی مرکزوں میں فوجی ٹھکانوں کو خاکستر کر دیا۔ ہر آنے والا دِن بھارتی فوج کو تمام محاذوں پر ذلیل و خوار کر رہا تھا 6 ستمبر 1965 ء  سے لے کر 23 ستمبر 1965ء تک 17 دن جاری رہنے والی اِس جنگ میں بھارتی فوج کی تاریخی پٹائی ہوئی۔23 ستمبر 1965ء کی صبح تھی جب سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق سارے محاذوں پر جنگ بند ہو گئی۔ جنگ بندی 23ستمبر 1965ء کو دن بارہ بجے ہونی تھی۔ مگر بھارت نے پندرہ گھنٹے کی مہلت لے لی۔ اسے خوش فہمی تھی کہ فائر بندی کے فیصلہ کے بعد پاکستانی فوج غافل ہو جائے گی چنانچہ اس نے اس مہلت سے ناجائز فائدہ اٹھانا چاہا اور تین بجے صبح سے پہلے اپنی مخصوص مکارانہ ذہنیت کا ثبوت دیا۔ اس نے بعض محاذوں پر پیش قدمی کی کوشش کے علاوہ ہماری بحریہ پر بھی وار کرنے کی کوشش کی۔ کھلے سمندر میں بھارت کے جنگی جہازوں نے ہماری بحریہ کے ایک یونٹ پر حملہ کر دیا۔ ہماری یونٹ نے جوابی کارروائی کرکے دشمن کا ایک چھوٹا جنگی جہاز غرق کر دیا اور ہماری بحریہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکا۔ واہگہ بارڈر پر بھی بھارتی فوجوں نے قدم بڑھانے کی کوشش کی لیکن ہماری بہادر فوج نے انکا حلیہ بگاڑ دیا۔ اِس جنگ میں ہمارے بھی بہت سارے بہادر جوانوں نے جان کے نذرانے دئیے۔جنگ ستمبر لازوال جذبوں کی داستان ہے' یہ آہنی عزم سے اپنے سے کئی گنا بڑے اور طاقتور ملک کو ناکوں چنے چبوانے کی داستان ہے' یہ جنگ دشمن کو اس حقیقت سے آگاہ کرنے کے لیے تھی کہ پاک فوج کے جوان رات کی تاریکی میں بھی وطن کی سرحدوں کی حفاظت میں کووی دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھتے۔ کون نہیں جانتا کہبھارتی فوج نے سترہ دنوں کے اندر تیرہ بڑے حملے کئے لیکن وہ لاہور کے اندر داخل نہ ہو سکی۔ ستمبر 1965 کو دشمن نے اپنی کارروائی کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے راولپنڈی، کراچی، سرگودھا، ڈھاکہ، چٹا گانگ، جیسور اور رنگ پور پر فضائی حملے کئے جن کا نشانہ نہتے شہری بنے۔ دوسری جانب پاک فضائیہ نے بھی دشمن کی اِس حرکت پر اِسے پوری سزا دی۔سری نگر کے ہوائی اڈے پر کامیاب حملے کئے گئے اور مختلف فضائی حملوں میں بھارت کے31طیارے تباہ کر دئیے گئے۔ بھارت کے مشرقی حصوں پر بھی حملے کر کے پاکستانی فضائیہ نے بھارت کے 11 کینبرا اور 4 دوسرے جہاز زمین پر تباہ کر دئیے۔یہ مختصر جنگ پاکستانی تاریخ میں ایک طلسماتی داستان سے زیادہ کا درجہ رکھتی ہے جب ایک قوم نے اچانک ہونے والے حملے کو اپنے عزم و ہمت سے ناکام بناکر اسے عبرتناک شکست دی۔سپاہیوں نے شجاعت و جرات کی نئی داستانیں رقم کیں تو شاعروں نے لہوگرمادینے والا کلام لکھا، عام افراد کا حوصلہ ساتویں آسمان پر اس وقت دیکھا گیا جب 80 سال کا ایک عام بوڑھا گھر سے خندق کھودنے نکلا۔ مائیں اور بہنیں مصلے پر بیٹھ کر دعا گو رہیں اور پوری قوم یک جان و یک قالب ہوگئی۔ اور اس عظیم جذبے کا اظہار کیا جو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔مصنف ایم ار شاہد نے اپنی کتاب ''شہیدانِ وطن'' میں بہت تحقیق کے بعد پاکستانی شہداء کا احوال پیش کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ 6 ستمبر کی صبح ٹھیک 3 بج کر 45 منٹ پر ہندوستان کی جانب سے واہگہ پر ایک گولہ آکر گرا جسے بھارت کی جانب سے پہلا فائر قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس موقع پر ایس جے سی پی پوسٹ پر موجود پلاٹون کمانڈر محمد شیراز چوکنا ہوگئے اور پوسٹ پر بھارت کی جانب سے مزید فائرنگ شروع ہوگئی۔ محمد شیراز نے جوابی فائرنگ کی اور یوں دونوں اطراف سے فائرنگ کا تبادلہ شروع ہوا جو ستمبر کی تاریخی جنگ کی ابتدا تھی۔ لڑائی اتنی شدید ہوگئی کہ بھارتی فوجیوں نے قریب آکر دستی بم بھی پھینکنے شروع کردیے۔ اگرچہ یہ حملہ اچانک تھا لیکن پاکستانی سپاہیوں نے اس کا دلیرانہ مقابلہ کیا۔ جب پاکستانی دستی بموں کی ضرورت پڑتی تو سپاہی رینگ کر کمک کے پاس آتے اور رینگ کر آگے موجود سپاہیوں کو بم تھماتے تھے۔ اسی اثناء میں محمد شیراز دشمن کی گولیوں سے شہید ہوکر جنگِ ستمبر کے پہلے شہید کا اعزاز حاصل کرگئے۔اگرچہ جنگِ عظیم دوم میں کئی ممالک کے لاتعداد ٹینک استعمال ہوئے تھے لیکن 1965 کی جنگ میں بہت کم دنوں میں لگ بھگ 600 ٹینکوں نے حصہ لیا تھا۔ جس میں بھارت کے سنچورین ٹینک بھی شامل تھے۔ عددی برتری کے لحاظ سے بھارت کے پاس بہت اسلحہ تھا اور ان ٹینکوں کو ناکام بنانے کے لیے پاکستان کے عظیم سپاہیوں نے مادرِ وطن کی حفاظت کے لیے اپنے سینوں پر بم باندھ کر ٹینکوں کے نیچے لیٹ کر انہیں تباہ کرکے ناکارہ بنادیا۔ چونڈہ کا مقام اب بھی ٹینکوں کے قبرستان کے نام سے مشہور ہے کیونکہ پاکستانی سپاہیوں نے بھارتی صفوں میں گھس کر ان کی سفلی تدابیر کو ناکام بنایا تھا۔ دوسری جانب میجر راجہ عزیز بھٹی شہید نے اسی طرح کے معرکے میں شجاعت اور عظمت کی نئی داستان رقم کی تھی۔میجر عزیز بھٹی اپنے جانثاروں کے ساتھ بی آر بی نہر کے پاس ڈٹے تھے، جس پر بھارتی افواج قبضہ کرنا چاہتی تھی۔ لیکن پاک فوج کے جانثاروں نے دشمن کی تمام چالوں کو ناکام بنا کر اسے شکست فاش دی۔