وزیر اعلی گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے قرشی گروپ کے اعلی عہدیداروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ گلگت بلتستان میں کام کرنے والے فلاحی اداروںکی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ اس حوالے سے صوبے کے دور دراز علاقوں میں صحت کے بہتر سہولیات کی دستیابی کے حوالے سے سیکرٹری صحت کو ہدایت کی کہ قرشی گروپ کے متعلقہ عہدیداروں کے ساتھ مل کر اپنی سفارشات تیار کریں۔ وزیر اعلی نے کہا کہ گلگت بلتستان میں میڈیسن پلانٹ بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ میڈیسن پلانٹ کی کوئی واضح پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے ان اہم میڈیسن پلانٹ سے فائدہ نہیں لیا جارہاہے۔ میڈیسن پلانٹ کی پالیسی تیار کرنے کیلئے متعلقہ محکمے کو ہدایت دی جائے گی تاکہ ان قدرتی وسائل سے استعفادہ حاصل کیا جاسکے۔بلاشبہ نیک نیتی و خلوص سے کام کرنے والے فلاحی ادارے معاشرے کیلئے بہت بڑی نعمت ہیں۔آج بھی کئی ایسے ادارے یا شخصیات ہیں جو حکومت وقت کا سہارا بنتے ہیں اور عوام الناس کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے وسائل پیدا کرتے ہیں۔یہ ریاستی ذمہ داریاں ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کی بہتری کے لیے بھی اپنی خدمات دیتے ہیں۔ چاہے کوئی ملک پسماندہ ہو، ترقی پذیر ہو یا ترقی یافتہ، ان اداروں کی موجودگی وہاں اپنی اہمیت رکھتی ہے۔ فلاحی اداروں کا موجود ہونا ملک و قوم کی ترقی کے لیے راستے ہموار کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ جیسے ترقی یافتہ خطے میں بھی بے شمار فلاحی ادارے کام کر رہے ہیں۔ان اداروں کی تشکیل کے پیچھے کسی نہ کسی شخص کا ایک خواب چھپا ہوتا ہے اور قیام کی وجہ بنتا ہے۔یہ ہے اصل انسانیت کا درس جو ہمیں ہمارے دین سے بھی ملتا ہے۔ دکھی انسانیت کی خدمت ہی اصل کام ہے اور الحمد اللہ ہمارے ملک میں ایسے بہت سارے گمنام ہیروز ہیں جو بغیر کسی لالچ اور تمنا کے فلاحی کاموں میں مصروف عمل ہیںانسانی المیہ جنم لینے کی صورت میں حکومت اور فوج کے بعد ریلیف کے کاموں میں بے شمار این جی اوز اپنی بساط سے بڑھ کر کام کرنے کی کوشش میں مصروف ہوتی ہیں ۔ویسے تو پورے ملک میں چھوٹی بڑی این جی اوز موجود ہیں جو کام کر رہی ہیں مگر کارکردگی کے لحاظ سے چند ہی نام ہیں ۔ یہ تنظیمیں مشکل کی گھڑی میں جس انداز میں کام کرتی رہی ہے وہ بلاشبہ قابل تعریف ہے۔ آفات سے متاثرہ ہر ضلع میں ان کے رضا کار موجود ہیں اور دکھی لوگوں کو ریلیف فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش میں شب و روز کام کرتے رہے ہیں۔بعض ادارے خدمت خلق اور بالخصوص مریضوں کو خون کی دستیابی کے حوالے سے حقیقی معنوں میں انسانیت کی خدمت میں شب و روز کام کر رہے ہیں ۔ان کے ساتھ ہزاروں نوجوان منسلک ہوتے ہیں جو رضا کارانہ طور پر کام کرتے ہیں اور ہزاروں مریضوں کی زندگیاں بچاتے ہیں۔ یہ ایک بلاشبہ قابل تقلید امر ہے۔ سیلاب کے حوالے سے مختلف جگہوں پر امدادی کیمپس بھی لگا کر سیلاب زدگان کو ریلیف فراہم کرنے میں کوشاں رہتے ہیں۔ان اداروںکے ساتھ منسلک ہزاروں رضا کار اپنا قومی فریضہ سر انجام دے رہے ہوتے ہیں۔فلاحی ادارے معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے ہیں۔ جب بھی کوئی مشکل آن پڑے یا حکومت عوامی فلاح و بہبود کے معاملات کو نظرانداز کرے تو یہ ادارے معاشرے میں بسنے والے لوگوں کا سہارا بنتے ہیں۔ یہ فلاحی تنظیمیں معاشرے کا حسن ہوتی ہیں۔ تاریخ کی اولین داستانوں سے لے کر موجودہ دور تک ایسے کئی ادارے یا شخصیات ہیں جو حکومت وقت کا سہارا بنتے ہیں اور عوام الناس کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے وسائل پیدا کرتے ہیں۔یہ ریاستی ذمہ داریاں ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کی بہتری کے لیے بھی اپنی خدمات دیتے ہیں۔ چاہے کوئی ملک پسماندہ ہو، ترقی پذیر ہو یا ترقی یافتہ، ان اداروں کی موجودگی وہاں اپنی اہمیت رکھتی ہے۔ فلاحی اداروں کا موجود ہونا ملک و قوم کی ترقی کے لیے راستے ہموار کرتا ہے۔ مختلف ممالک میں یہ فلاحی ادارے صحت، تعلیم، صاف پانی کی فراہمی، روزگار کے مواقع اور خوراک کی تقسیم جیسے عظیم مقاصد پر کام کر رہے ہیں جو درحقیقت حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ ان فلاحی اداروں سے منسلک افراد دن ہو یا رات آندھی ہو یا بارش یا وبائی امراض ہوں، یہ بہادر لوگ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے اور صرف انسانی خدمت کو یاد رکھتے ہیں اور خدمت و فلاحی کاموں کو اہمیت دیتے ہیں اور خدمت کے کاموں کو عملی طور پر جاری رکھتے ہیں تاکہ دکھی انسانیت کے زخموں پر مرہم رکھا جاسکے۔پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جس کی معیشت اکثر خسارے میں رہتی ہے۔ ملک کا نظام چلانے کے لئے حکومتوں کو اندرونی اور بیرونی مالی اداروں قرض لے کر گزارا کرنا پڑتا ہے اور پھر اس پر سود کی شرح بڑھنے پر عوام پر ٹیکسز کا نیا بوجھ لاد دیا جاتا ہے۔ملک میں غربت کی زندگی گزارنے والوں کی تعداد بڑھ کر آٹھ کروڑ ستر لاکھ تک جا پہنچی ہے۔آبادی کے اس بڑے حصے کی مدد اور دیکھ بھال کے لیے حکومتی اقدامات ناکافی ہیں۔ ریاستی ادارے بنیادی سہولیات کی فراہمی میں ناکام رہے ہیں۔ لیکن جب حکومت وقت ان مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہے تو یہ فلاحی ادارے اپنی خدمات پیش کرنے کے لیے سامنے آتے ہیں۔ پاکستان کے اندر کئی فلاحی ادارے اللہ کی مخلوق کی خدمت کا فرض ادا کر رہے ہیں ۔فلاحی ادارے اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کر کے ان متاثرین کی مشکلوں کو حل کر رہے ہیں۔ یہ ادارے ملکی سطح پر کام کرتے ہیں اور کچھ ادارے علاقائی سطح پر ان نیک کاموں میں مصروف عمل ہیں۔ ہمارے آس پاس کئی شخصیات ہیں جو لوگوں کی مشکلات کو حل کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ان میں جتنی استطاعت ہو وہ فلاحی کاموں میں مصروف رہ کر اپنی دنیا و آخرت کی کامیابی کے ساتھ ساتھ غریبوں کی دعائیں بھی سمیٹتے ہیں۔ بڑے شہروں میں اپنے دفاتر قائم کرنے اور فلاحی کاموں میں مصروف عمل تنظیمیں چھوٹے شہروں یا قصبوں تک رسائی حاصل نہیں کرتیں اور وہاں موجود ضرورت مند افراد امداد کی راہ تکتے رہتے ہیں۔ایسی تنظیموں کے ہونے سے کسی بھی مشکل میں رفاہی کاموں کا دائرہ کار گلی محلوں تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ ایسے بہت سے ادارے ہیں جو اپنی استطاعت کے مطابق دکھی انسانیت کی خدمت اور مسائل میں گھرے آبادی کے حصے کو بنیادی انسانی ضروریات فراہم کر رہے ہیں۔ ان کی دیکھ بھال اور ان کے وسائل میں اضافے کے لیے عطیات کی فراہمی کو ممکن بنانا اور ان کا ساتھ دینا ہماری ذمہ داری ہے۔ کرونا کی وبا کے بعد لاک ڈائون کے دوران ان تنظیموں نے لاکھوں خاندانوں کو راشن فراہم کیا ہے۔لیکن موجودہ حالات اور درپیش چینلجز کی وجہ سے ایسے فلاحی اداروں کا دائرہ کار مختصر ہو رہا ہے، ان کے فنڈز میں کمی آ رہی ہے جس کے باعث بہت سے محتاجوں کے لیے مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ اب ضرورت ہے کہ ان فلاحی اداروں کو مضبوط کیا جائے اور ان کی معاونت کی جائے تاکہ کوئی غریب انسان کسی کے دروازے پر کشکول تھامے نہ کھڑا ہو بلکہ اس کی ضرورت اس کے دروازے پر پوری ہو جائے۔وہ ادارے جن کی وجہ سے معاشرے میں خیر کا جذبہ قائم ہے اور کچھ امیدیں باقی رہتی ہیں وہی مشکلات سے دوچار ہیں،فلاحی اداروں کو تعلیم کے میدان میں بھی کافی مشکلات کا سامناہے جبکہ وہ غریب بچوں کو ابتدائی سے لے کر اعلی تعلیم کی فراہم کیلئے کوشاں ہیں۔ مختلف فلاحی تنظیموں کی جانب سے جدید آئی ٹی کے مہنگے ترین کورسز مفت کرائے جانے ،ٹیکنیکل ہنر سکھانے اور پرائمری سے میٹرک تک مفت تعلیم کی فراہمی جیسے اقدامات کو حکومت کو سراہنا چاہیے۔ یہ ادارے حکومت، عدلیہ اور ریاست کے علاوہ ملک و ملت کی ترقی میں خوب کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کا وجود یکساں طور پر کسی بھی ترقی یافتہ اور پسماندہ ممالک کیلئے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ حکومتیں کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہوں، مگر ان اداروں کی محتاج رہتی ہیں۔ اگر ان اداروں کو ریاست کا پانچواں ستون کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ یہ وقت کی ضرورت ہونے کے علاوہ ملک و قوم کی بہترین خدمت کا ذریعہ بھی ہیں۔ فلاحی اداروں کا مضبوط ہونا ملک و قوم کے مضبوط ہونے کی علامت ہیں آج اگر اسباب کی دنیا میں، یورپ ایک مستحکم خطہ ہے تو اس کے پیچھے فلاحی اداروں کا راز پنہاں ہے۔ہمارے ملک میں متعدد فلاحی ادارے خدمت خلق کے جذبے سے سرشار ہیں سب کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے۔ تمام فلاحی اداروں کو ایک دوسرے سے مربوط ہونا ضروری ہے۔ ہر گائوں اور ضلع میں باہمت اور تعلیم یافتہ نوجوانوں نے خالصتا خدمت خلق کے جذبے کے تحت جو فلاحی ادارے قائم کیے ہیں، ان کی حوصلہ افزائی کرنا مہذب اداروں اور صاحب ثروت افراد کا فرض ہے۔ ان اداروں میں کام کرنے والے نوجوان خالصتا دینی، دنیوی اور خدمت خلق کے بے لوث جذبے، لگن اور شوق کے تحت ان اداروں کو چلانے، اسے فعال، مضبوط اور آگے بڑھانے میں قابل تقلید اور موثر کردار ادا کررہے ہوتے ہیں۔ بلاتفریق سماجی، خدمات فراہم کررہے ہوتے ہیں اور اس کا کوئی معاوضہ نہیں لیتے۔خالصتا اپنی مدد آپ کے تحت گائوں اور علاقے میں بلاتفریق، بلامعاوضہ گائوں میں اور علاقے میں لوگوں کو سماجی سہولتیں فراہم کررہے ہوتے ہیں ۔ اس لیے ان کے فروغ و ترقی کیلئے سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
۔
