کچے کے ڈاکو:مزیدغفلت کی گنجائش نہیں

چند روز قبل پنجاب میں کچے کے گینگز کے حملے میں بارہ پولیس اہلکار شہےد ہوئے جبکہ ڈاکو احمد نواز کو اغوا کر کے اپنے ساتھ لے گئے۔ کانسٹیبل احمد نواز کو دو روز بعد باحفاظت بازیاب کروا لیا گیا ہے جو پولیس کی ایک اہم کامیابی ہے۔واقعے کے بعد وزیر اعلی پنجاب مریم نواز نے رحیم یار خان کا دورہ کیا اور جاں بحق ہونے والے پولیس اہلکاروں کے اہلِخانہ سے تعزیت بھی کی۔ اس دوران ایک پیغام میں انہوں نے اس واقعے کو افسوسناک قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس کا انتقام لیا جائے گا جبکہ آئی جی پنجاب عثمان انور نے اس موقع پر کہا کہ کچے کے ایریا سے تمام شرپسندوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔کہا جاتا ہے کہ پولیس اور کچے کے ڈاکوﺅں کے درمیان مخاصمت نئی نہیں ہے۔ جولائی 2023 میں پنجاب اور سندھ کی پولیس نے ایک مخبر عثمان چانڈیہ کے ذریعے رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے کچے کے ڈاکوں کے ایک گینگ کے سرغنہ جانو اندھڑ کو کشمور میں ان کے پانچ ساتھیوں سمیت ہلاک کرنے کا دعوی کیا تھا۔رواں برس مئی میں بگٹی قبیلے کی شاخ کلپر نے سندھ کے سرحدی علاقے گھوٹکی میں کچے کے ڈاکوں کے گینگ پر حملہ کیا تھا اور اس حوالے سے مقامی پولیس پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ان کی جانب سے ان کی معاونت کی گئی۔اسی طرح اگست 2024 کے اوائل میں گھوٹکی میں ڈاکوﺅں اور پولیس کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا تھا جس میں تین پولیس اہلکار اور چار ڈاکو ہلاک ہوئے تھے۔ اپریل 2023 میں پولیس کی جانب سے کچے کے ڈاکوﺅں کے خلاف آپریشن کیا گیا تھا جس کے بارے میں اس وقت کی نگران حکومت نے کہا تھا کہ ایسا کچے کے علاقوں میں دہشت گردی میں ملوث افراد کی موجودگی کے ٹھوس شواہد ملنے کے بعد کیا گیا تھا۔دریائے سندھ کی جنوبی پنجاب کے قریب وسعت اسے ایک بڑے دریا سے کئی ندی نالوں میں تبدیل کر دیتی ہے جن کے درمیان کئی چھوٹے چھوٹے جزیرے نمودار ہوتے ہیں جن تک رسائی ریتلی زمین اور سڑکوں کی عدم موجودگی میں مشکل ہوتی ہے۔ ڈاکو یہاں پناہ گاہیں بنا کر آس پاس کے علاقوں میں دہشت پھیلاتے اور پولیس کی دسترس سے دور یہاں پناہ لیتے ہیں اور وقت پڑنے پر قانون نافذ کرنے والوں کا مقابلہ بھی کرتے ہیں۔یہ ساحلی پٹی جنوبی پنجاب، بلوچستان، سندھ، خیبر پختونخوا اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کے سنگم پر واقع ہے اور نوآبادیاتی دور سے ڈاکوﺅں اور آزادی کےلئے لڑنے والے جنگجوں کے لیے چھپنے کا ٹھکانہ رہا ہے۔ یہ علاقہ مختلف عملداریوں کے درمیان واقع ہے جس کی وجہ سے یہاں تک قانون کی رسائی مشکل ہو جاتی ہے۔ےہ جنوبی پنجاب کے ضلع رحیم یار خان اور راجن پور کے درمیان کا علاقہ ہے۔ کہنے کو تو یہ بمشکل بیس سے تیس کلومیٹر کا علاقہ ہے جہاں دریائے سندھ کا پانی سارا سال موجود رہتا ہے لیکن ندی نالوں کے درمیان جزیروں پر ڈاکوﺅں کی پناہ گاہوں تک پلوں کی عدم موجودگی میں پہنچنا مشکل کام ہے۔ اس علاقے کی ساخت ایسی ہے کہ کہیں جنگل ہے، کہیں پانی ہے اور کہیں خشکی۔ اسی لیے پولیس کے لیے یہاں کے ڈاکوﺅں سے مقابلہ کرنا اور ان کا خاتمہ کرنا خطروں سے پر ہوتا ہے اور عام طور پر پولیس کے لیے یہ نو گو ایریاسمجھا جاتا ہے۔ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کا کہنا تھا کہ بزدلانہ کارروائیاں ملک و قوم کی حفاظت میں جانیں قربان کرنے والی پولیس فورس کا مورال پست نہیں کر سکتیں۔کچے کے ڈاکوﺅں کے خلاف پولیس آپریشن بھرپور طاقت سے جاری رہے گا اور جوانوں کا خون رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔ پنجاب پولیس نے کچے میں ڈاکوﺅں کے خلاف بھرپور کریک ڈاﺅن کے لیے آئی جی سندھ غلام نبی میمن سے بھی رابطہ کیا ہے اور ڈاکووں کے خلاف انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کا فیصلہ کیا گیا۔کہا جا رہا ہے کہ کچے کا واحد حل وہاں فوج اور سی ٹی ڈی کی موجودگی ہے۔ پولیس کو ہٹا کر ان پکٹس پر فوج کو تعینات کیا جائے۔ اگر فوج کو بلوچستان، کراچی اور شورش زدہ علاقوں میں تعینات کیا جا سکتا ہے تو کچے کے علاقوں میں کیوں نہیں؟ پنجاب میں کچھ ماچھکہ کے علاقے میں ڈاکوں کے پولیس پر حملے کے بعد علاقے میں پولیس کی جوابی کارروائی جاری ہے۔ پولیس کے مطابق ڈاکوﺅں کے خلاف آپریشن میں پولیس پر حملے کا مرکزی ملزم ہلاک جب کہ اس کے پانچ قریبی ساتھی زخمی ہوگئے ہیں۔انسپکٹر جنرل آف پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور کے مطابق واقعے میں ملوث ڈاکوں کے خلاف آپریشن جاری ہے۔ پولیس اہلکاروں پر حملے میں ملوث تمام افراد کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا۔پولیس کے مطابق پولیس ٹیم پر حملے کے بعد کچھ ماچھکہ کے علاقے میں شروع کیے گئے آپریشن کی نگرانی آئی جی پنجاب پولیس اور ہوم سیکریٹری پنجاب کر رہے ہیں۔ایڈیشنل آئی جی پنجاب پولیس کامران خان کہتے ہیں کہ یہ بڑا سانحہ اور پنجاب پولیس کا بڑا نقصان ہے۔ اس حملے میں جن لوگوں نے اپنی جانیں دی ہیں وہ رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔پولیس ڈاکوﺅں کے خلاف حکمتِ عملی بنا رہی ہے۔ پولیس اہلکار ڈاکوﺅں کو ان کی پناہ گاہوں میں اندر گھس کر ماریں گے۔ایڈیشنل آئی جی پنجاب پولیس کامران خان کے مطابق کچے کے علاقے میں پولیس اہلکاروں پر حملے کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ ان کے بقول رواں ماہ کا یہ تیسرا واقعہ ہے۔ اس سے قبل دو مرتبہ ڈاکو گروہوں کی صورت پر پولیس پر حملہ کر چکے ہیں۔صرف اگست کے مہینے میں پولیس والوں کی دو شہادتیں بھونگ جب کہ تین راجن پور میں ہوئی ہیں۔ مگر تازہ واقعہ سب سے بڑا نقصان ہے۔ڈاکوﺅں کے حملوں میں بعض اوقات پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنانے کی رپورٹس بھی آتی ہیں جن کی بازیابی کے لیے پولیس آپریشن کرتی ہے۔ پولیس کے مطابق ہر جمعرات کو کچے کے علاقے میں پولیس اہلکاروں کی ڈیوٹی تبدیل کی جاتی ہے۔ ڈیوٹی کی تبدیلی کے دوران ہی ڈاکوﺅں نے پولیس اہلکاروں پر حملہ کیا ۔ حملے میں بچ چانے والے پولیس اہلکاروں کے مطابق پولیس کی دو گاڑیاں واپس آرہی تھیں جن میں سے ایک راستے میں گزشتہ دنوں ہونے والی بارش کے باعث ہونے والی کیچڑ میں پھنس گئی۔ پھنسی ہوئی پولیس گاڑی کو نکالنے کے لیے دوسری گاڑی کے اہلکار بھی کوششیں کرنے لگے۔ اسی اثنا میں ڈاکوں نے اچانک پولیس پر حملہ کردیا۔ بچ جانے والے اہلکار کے مطابق حملے میں پہلے راکٹ پھینکا گیا جس کے بعد اچانک شدید فائرنگ شروع ہوگئی۔حملہ اس قدر اچانک اور شدید تھا کہ پولیس اہلکاروں کو سنبھلنے اور جوابی کارروائی کا موقع نہیں مل سکا۔ وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی جب قائم مقام وزیرِ اعلی پنجاب تھے تو کچے کے علاقے میں ڈاکوﺅں کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا تھا۔ اس کی نگرانی کے لیے وہ خود بھی وقتا فوقتا کچے کے علاقے میں جاتے رہے ہیں۔ماضی میں بھی مختلف حکومتوں نے مختلف ادوار میں کچے کے علاقے میں ڈاکوں کے خلاف آپریشنز کیے ہیں۔کچے کے علاقے میں ڈاکوﺅں کے خلاف گزشتہ ڈیڑھ سال سے آپریشن چل رہا ہے جس میں پولیس کو کامیابیاں بھی ملی ہیں اور ڈاکوﺅں کو نقصان پہنچا ہے۔ پولیس نے یکم اگست کو ایک کارروائی میں چار ڈاکو ہلاک کیے تھے۔کچے کا علاقہ پنجاب کے ضلع رحیم یار خان سے تقریبا سو کلو میٹر جنوب سے شروع ہو جاتا ہے جو ریتلے علاقوں پر مشتمل ہے۔کچے کا علاقہ پاکستان کے تین صوبوں پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے سنگم پر واقع ہے۔ اس علاقے میں نہ صرف تینوں صوبوں کے ڈاکو آپس میں رابطے میں رہتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے رہتے ہیں۔ کچے کے علاقے میں ڈاکوﺅں کے پاس جدید ہتھیار اور فون ہیں جو تینوں صوبوں میں کارروائیاں کرکے اپنے علاقے میں جا کر چھپ جاتے ہیں۔ یہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں روپوش ڈاکو آکر چھپتے ہیں جن میں سے بیشتر سندھ سے آتے ہیں اور یہاں آکر کارروائیاں کرتے ہیں۔اب تینوں صوبے مل کر ایک مشترکہ آپریشن کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں جس میں صوبائی پولیس کے علاوہ دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد بھی لی جائے گی۔ مشترکہ آپریشن کو ایک مکمل ہوم ورک کر کے شروع کیا جائے گا جس کی کامیابی کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ماضی میں بھی منصوبہ بندی کے تحت ڈاکوﺅں کے خلاف آپریشن کیے ہیں لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تینوں صوبوں کی سرحد ہونے کے باعث اس علاقے میں ڈاکوﺅں کی رسائی بہت آسان ہے۔ مون سون کے سیزن میں دریاﺅں میں پانی کی آمد بڑھ جاتی ہے۔ اسی لیے پولیس اہلکاروں کے لیے محدود وسائل کے باعث ان علاقوں میں جانا مشکل ہو جاتا ہے۔ دوسری وجہ اِس علاقے میں کماد کی فصل ہے جو دس سے بارہ فٹ اونچی ہوتی ہے جس میں ڈاکو چھپ جاتے ہیں اور فصل میں ڈاکوں کو ڈھونڈنا ایک مشکل کام ہوتا ہے۔یہ حملہ بےس سے پچےس ڈاکوﺅں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے کیا ہے۔