تمباکو ایکٹ پر عملدرآمد کی یقین دہانی

گلگت بلتستان کے معاون خصوصی برائے اطلاعات ایمان شاہ نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان کو منشیات سے پاک کرنے کیلئے صوبائی حکومت ہر ممکن اقدامات اٹھائے گی۔ نوجوان نسل کی تباہی کا سبب بننے والے تمباکو کی مصنوعات پر پابندی عائد کی جائے گی اور تمباکو مصنوعات کے خلاف اسمبلی سے منظور ہونے والے ضابطے پر عملدرآمد کےلئے اقدامات اٹھائے جائیں گے۔سماجی تنظیم سیڈو کے کوآرڈنیٹر سے گفتگو کرتے ہوئے معاون خصوصی برائے اطلاعات نے کہا کہ تمباکو کی مصنوعات معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں اس لعنت پر فوری قابو نہ پایا گیا تو مستقبل میں اس کے برے نتائج مرتب ہو سکتے ہیں ایمان شاہ نے کہا کہ تمباکو مافیا کے خلاف گلگت بلتستان حکومت اقدامات اٹھائے گی اور منشیات کی لعنت سے علاقے کو پاک کرنے کے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں گے۔ گلگت بلتستان حکومت تمباکو ایکٹ پر عملدرآمد یقینی بناتے ہوئے تمباکو کی نئی مصنوعات پر مکمل طور پر پابندی عائد کرے گی۔تمباکو اےکٹ کی پابندی کا عندےہ حوصلہ افزاءامر ہے۔امریکہ میں تمباکو نوشی کی شرح میں 1960 کی دہائی کے بعد سے کافی کمی آئی ہے ۔تاہم امراض کی روک تھام اور بچاﺅ سے متعلق امریکی محکمے سینٹر فار ڈزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کا کہنا ہے کہ اب بھی چار کروڑ 60لاکھ یا ہر پانچ میں سے ایک امریکی سگریٹ نوشی کا عادی ہے ۔ اور یہ بھی کہ اندازا چار لاکھ 43 ہزار امریکی ہر سال تمباکو نوشی سے پیدا ہونے والے امراض سے ہلاک ہوتے ہیں ۔سی ڈی سی کے مطابق سگریٹ نوشی مردوں میں پھیپھڑوں کے سرطان سے ہونے والی کل اموات کے نوے فیصد جبکہ خواتین میں اسی فیصد اموات کی ذمے دار ہے ۔سی ڈی سی کے ڈائرےکٹر ڈاکٹر تھامس فرائیڈن کہتے ہیں کہ امریکہ کی کئی کھرب ڈالرز کی تمباکو کی صنعت ہر وقت نئی منڈیو ں کی تلاش میں رہتی ہے اور اب اس کی توجہ سمندر پار ملکوں کی جانب منتقل ہو رہی ہے۔افریقی ملکوں میں جہاں سگریٹ نوشی اتنی عام نہیں انہیں اس کی شرح میں اضافے کا امکان نظر آرہا ہے اور چین جیسے ممالک میں جہاں سموکنگ عام ہے وہ اس کی شرح کو برقرار رکھنے کے خواہش مند ہیں ۔کہا جا رہا ہے کہ سگریٹ کی قیمتوں میں خاطرخواہ اضافے کے بعد اٹھارہ فیصد لوگوں نے سگریٹ نوشی ترک کردی ہے۔ےہ حےال بھی ہے کہ ٹیکس میں اضافہ صحت عامہ اور حکومتی محصول دونوں کے لیے کامیابی کا باعث بنتا ہے، یہ نتائج تمباکو کے استعمال سے نمٹنے کے لیے ایک اہم اقدام کے طور پر تمباکو پر زیادہ ٹیکس لگانے کی تاثیر کو اجاگر کرتے ہیں، جیسا کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی طرف سے بھی اس کی تجویز دی گئی ہے۔ماضی میں اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں تمباکو کی صنعت پر ملٹی نیشنل کارپوریشنز کا بہت زیادہ اثر و رسوخ پایا گیاتاہم حالیہ حکومتی فیصلے صنعت کے مفادات پر صحت عامہ کو ترجیح دینے کے مقصد سے پالیسی میں اصلاحی تبدیلی کا اشارہ دیتے ہیں۔حکومت نے برسوں کے جمود کے بعد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح میں اضافہ کیا ہے، پالیسی کی تبدیلی نہ صرف صحت عامہ کی حفاظت کا باعث بنی ہے بلکہ تمباکو نوشی سے متعلق صحت کی دیکھ بھال پر اٹھنے والے اخراجات سے وابستہ معاشی بوجھ کو کم کرنے کی جانب بھی ایک اہم قدم ثابت ہورہی ہے۔2023 کے فنانس ایکٹ میں اکانومی برانڈز کے لیے ایف ای ڈی کی شرح میں 146 فیصد اور پریمیم برانڈز کے لیے 154 فیصد اضافہ سامنے آیا جو پچھلی پالیسیوں سے علیحدگی کی علامت ہے، اس اسٹریٹجک فیصلے نے پہلے ہی ٹھوس نتائج ظاہر کیے ہیں جس کے باعث سگریٹ کی کھپت میں واضح کمی دیکھی جا رہی ہے۔عالمی مالیاتی فنڈ نے اس مثبت رجحان کو تسلیم کیا ہے کیونکہ ٹیکس میں اضافے کے بعد سگریٹ کی کھپت میں بےس پچےس فیصد کمی دیکھی گئی ہے۔اےک سروے میں حصہ لینے والوں میں سے تقریبا پندرہ فیصد جواب دہندگان نے بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے سگریٹ کے استعمال میں کمی کی بات کی ہے، اس ردعمل نے گےارہ ارب سے زیادہ سگریٹ کی کھپت میں تخمینہ کمی کی ہے۔پاکستان میں سگریٹ کی کل کھپت سالانہ بہترسے اسی بلین سٹکس کے درمیان ہے جس میں مختلف ذرائع جیسے کہ سرکاری طور پر تیار کردہ، سمگل شدہ اور بغیر ٹیکس کی مصنوعات بھی شامل ہیں۔ےہ مشورہ دےا جاتا ہے کہ سگریٹ کی قیمتوں میں اضافے کی پالیسی کو جاری رکھا جائے تاکہ کھپت میں کمی کا رجحان برقرار رکھا جا سکے۔ پاکستان اب بھی علاقائی ممالک اور باقی دنیا سے پیچھے ہے کیونکہ سگریٹ کی قیمتیں دیگر کے مقابلے میں ابھی بھی کم ہیں، بھاری ٹیکس لگانے کا مطالبہ بین الاقوامی رہنما خطوط کے مطابق ہے، خاص طور پر ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن فریم ورک کنونشن آن ٹوبیکو کنٹرول جو بڑھتی ہوئی قیمتوں اور کم کھپت کے درمیان تعلق پر زور دیتا ہے۔سگریٹ بنیادی طور پر زہریلے کیمیکلز کا مرکب ہے۔ سگریٹ اور اس کے دھویں میں کم از کم چار ہزار کیمیکلز ہوتے ہیں۔ جن میں سے پچپن ایسے ہیں جو کینسر کا باعث ہوسکتے ہیں ۔انڈس ہسپتال کراچی کے ڈاکٹر سہےل اختر کے مطابق سگریٹ میں شامل نکوٹین نہ صرف انسانی مزاج اور روئیے میں منفی تبدیلیوں کا سبب ہے بلکہ یہ ایک طاقتور نشہ ہے۔ زہریلے کیمیکلز میں سے ایک تارکول جس سے سڑکیں بنتی ہیں باریک ذرات کی صورت میں پھیپھڑوں میں داخل ہوتے ہیں اور گاڑھی جھلی بناتے ہیں جس سے جسم متاثر ہوتا ہے، جو سانس کی نالیوں کو صاف رکھنے کا کام کرتے ہیں۔تمباکو کو جلانے سے ایک بغیر رنگ و بو والی زہریلی گیس کاربن مونوآکسائیڈ خارج ہوتی ہے۔ یہ وہی گیس ہے جو گاڑیوں کے دھویں میں پائی جاتی ہے۔ یہ گیس خون میں آکسیجن لے جانے کی صلاحیت کو متاثر کرتی ہے۔تمباکو کے استعمال سے انسانی جسم میں کچھ طویل المدت اور کچھ فوری منفی اثرات پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے طویل المدت مضر اثرات میں دل کی بیماری، فالج، پھیپھڑوں کی دائمی بیماری ، مختلف طرح کے کینسرز بشمول پھیپھڑے، منہ، غذائی نالی، مثانہ، گردہ، معدہ، لبلبہ، حلق، گال، ہونٹ، نرخرہ ، اور بچہ دانی کے کینسر شامل ہیں۔دمہ، السر، بانجھ پن،بھی تمباکو کے نقصانات میں شامل ہیں۔ اسی طرح تمباکو سے ہونے والے قلیل المدت مضر اثرات میں کھانسی، سانس لینے میں مشکل، سانس کی بیماری میں اضافہ، پھیپھڑوں کی صلاحیت میں کمی، ہائی بلڈ پریشر، گھبراہٹ، مسوڑھوں اور دانتوں کی بیماریاں، سانس کی بدبو، چہرے کی جھریاں، ذائقہ اور سونگھنے کی حس میں کمی شامل ہے۔تمباکو نوشی کے منفی اثرات اس کے استعمال کرنے والے شخص پر ہی نہیں موقوف ہوتے، بلکہ اس کے ساتھ موجود دوسرے لوگ بھی متاثر ہوتے ہیں۔ اس کو سیکنڈ ہینڈ اسموک کہا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال تقریبا چھے لاکھ افراد سیکنڈ ہینڈ سموکنگ کی وجہ سے قبل از وقت موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔سیکنڈ ہینڈ سموکنگ بالغ افراد میں دل اور سانس کی بیماریوں، ہارٹ اٹیک، پھیپھڑوں کے کینسر اور بچوں میں اچانک موت کا سبب بن سکتا ہے۔شیشہ اور حقہ کے بارے میں عام خیال پایا جاتا ہے کہ سگریٹ کے مقابلے میں اس کا دھواں کم خطرناک ہے۔سگریٹ نوشی اپنی صحت کی بربادی بھی ہے اور پیسے کا ضیاع بھی۔ وہ پیسہ جو ہم محنت کے ساتھ کماتے ہیں، اسے اپنے آپ کو تکلیفوں اور بیماریوں میں مبتلا کرنے کے لیے خرچ کرنے کے بجائے کسی تعمیری کام میں صرف کر سکتے ہیں۔اگر ایک سگریٹ نوش دوسو روپے کا ایک پیکٹ روزانہ استعمال کرتا ہے تو ایک ہفتے میں وہ چودہ سو روپے، ایک مہینے میں چھے ہزار روپے، ایک سال میں بہتر ہزار اور پانچ سالوں میں تین لاکھ ساٹھ ہزار روپے پھونک دے گا۔ اگر اس رقم کو اپنی صحت، اپنے کھانے، اپنے گھر والوں کے لیے خرچ کرے تو کیا کچھ فائدے حاصل ہو سکتے ہیں۔حکومت کی جانب سے تمباکونوشی کی عادت کی حوصلہ شکنی کے لیے کئی قوانین بنائے گئے ہیں۔ لیکن صرف قانون بنا دینا کافی نہیں، حکومت کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ان قوانین پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنائے۔ بطور شہری ہماری بھی یہ ذمہ داری ہے کہ ہم قوانین کا احترام کریں اور دوسروں کے لیے کوئی بھی بری مثال قائم نہ کریں۔ کم از کم عوامی جگہیں یعنی دفتر، ہوٹل، بسیں، شادی ہال وغیرہ میں سگریٹ کے استعمال سے پرہیز کریں تاکہ دوسرے محفوظ رہیں۔ حکومت کو تمباکو کی تمام مصنوعات پر ٹیکس بڑھانے چاہئیں۔جن ممالک میں ٹیکس زیادہ رکھے گئے، تمباکو کی کھپت میں کمی دیکھنے میں آئی ، بالخصوص نوجوانوں اور غریب لوگوں میں۔ تمباکو کی وبا عام ہے لیکن اپنے اور اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے اور صحت مند معاشرے کے قیام کے لیے ہم سب کو اس کی روک تھام میں اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔نوجوان نسل فےشن کے طور پر سگرےٹ نوشی کی طرف مائل ہو رہی ہے حکومت کو چاہےے کہ وہ تمباکو کی مصنوعات کے ذرےعے رےونےو اکھٹا کرنے کی بجائے نوجوان نسل کو اس زہر سے بچائے اور تمباکو کی مصنوعات پر مکمل پابندی عائد کرے۔