موسمیاتی تبدیلیاں اور فوڈ سکیورٹی

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی میں وزارت کے حکام نے انکشاف کیاہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان کی سےنتےس فیصد آبادی فوڈ سیکےورٹی کے مسئلے سے دوچار ہے۔حکام نے بتایا کہ کلائنٹ اسمارٹ ایگریکلچر پر کام کررہے ہیں،سب سے بڑا چیلنج ہے کہ موجودہ انفراسٹرکچر کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچانے کے طریقے تلاش کرنا ہے۔چیئر پرسن کمیٹی نے کہا کہ وزارت نے پالیسی بنا دی ہے، اس پر عملدرآمد تو صوبوں نے کروانا ہے۔ رکن کمیٹی صاحبزادہ صبغت اللہ نے کہا کہ صوبوں سے بھی نمائندے بلائے جائیں تاکہ پتہ چل سکے کہ صوبوں میں کیا ہورہا ہے۔اس مطالبے پر چیئرپرسن کمیٹی شائشتہ پرویزنے کہا کہ جتنی مرضی پالیسی بن جائیں، ان پر عملدرآمد تو صوبوں نے کرنا ہے، آئندہ اجلاس میں چاروں صوبوں سے بریفنگ کے لیے آفیشلز کو بلائیں۔رکن کمیٹی شگفتہ جمانی نے کہا کہ بارش اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ڈپٹی کمشنر اپنی من مرضی سے ریلیف کا سامان فراہم کرتے ہیں، ہمیں، کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے رحم و کرم پر نہ چھوڑا جائے۔کمیٹی ممبر عقیل ملک نے کہا کہ آئندہ اجلاس میں صوبوں کے چیف سیکرٹریز، پی ڈی ایم ایز کو بلا کر بریفنگ لیں، عالمی ڈونر فنڈز لے کر کھڑے ہیں، ہماری نااہلی یہ ہے کہ ہم موسمیاتی تبدیلی کو سنجیدہ نہیں لے رہے۔چیئرپرسن کمیٹی نے کہا کہ سپریم کورٹ نے بھی موسمیاتی تبدیلی کے معاملہ کو اٹھایا ہے، وزارت کو کام تیز کرنا پڑے گا۔ رکن کمیٹی اویس جکھڑ کی طرف سے نجی ہاﺅسنگ سوسائٹیوں کا معاملہ زیر بحث لایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں ہزاروں ایکڑ زرعی زمین پر سوسائٹیاں بن رہی ہیں، ملک میں جنگلات ناپید ہوتے جارہے ہیں اس پر ایک واضح پالیسی کی ضرورت ہے، ضلع لیہ کے گردونواح کے علاقوں میں سیلاب آیا ہوا ہے،جنوبی پنجاب کے ساتھ ہمیشہ زیادتی ہوتی ہے، فنڈز نہیں دیے جاتے۔ وزارت موسمیاتی تبدیلی حکام نے بتایا2022 میں جو سیلاب آیا ہے اس کے بعد ہم 44 فیصد فوڈ ان سیکیورٹی کی طرف چلے گئے ہیں، سوائے لاہور میں باقی شہروں میں مون سون کا سیزن ایک ہفتہ پیچھے چلا گیا ہے، پرسوں جھل مگسی میں دو سو ملی میٹر بارش ہوگئی، اتنی بارش پہلے ایک سال میں ہوتی تھی، ڈیڑھ سو کلومیٹر شمالی علاقہ جات میں مون سون کی بارشیں جاری ہیں‘موسمیاتی تبدیلی کی وجہ فصلوں کے پیٹرن بھی تبدیل ہورہے ہیں، موسمیاتی تبدیلی سے گلیشیئرز پگھلنے کے اوقات میں تبدیلی آئی ہے، کاربن کا اخراج روزانہ کی بنیاد پر بڑھ رہا ہے۔امریکی حکام کہتے ہیں کہ پاکستان کی گرین الائنس صفر دلچسپی ہے، دنیاکے مختلف ادارے ہمیں فنڈز دینا چاہتے ہیں لیکن پاکستان کی جانب سے سنجیدگی نہیں دکھائی جارہی، گرین الائنس پر جو کام ہوا ہے، اس پر آئندہ اجلاس میں وزارت بریفنگ دی جائے۔موسمیاتی تبدیلی سے گلیشیئرز پگھلنے کے اوقات میں تبدیلی آئی ہے، کاربن کا اخراج زیادہ ہونے سے زمین کے درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ ہونے کا خدشہ ہے، موسمیاتی تبدیلی سے آئے روز پر سیلاب کے واقعات ہورہے ہیں۔ قائمہ کمیٹی نے کوپ 29 پر وزارت کی تیاریوں پر مفصل بریفنگ طلب کر لی ہے۔ےہ درست ہے کہ خشک سالی ، گرمی کی لہروں اور سیلاب کی وجہ سے پانی کی کمی کی وجہ سے بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور موسم کے بدلتے ہوئے نمونوں کے نتیجے میں فصلوں کی پیداوار کم ہوتی ہے ۔موسمیاتی تبدیلی کے یہ اثرات متعدد خطوں کے بیک وقت فصلوں کی ناکامی کا شکار ہونے کے خطرے کو بھی بڑھا سکتے ہیں ۔ فی الحال اس خطرے کو نایاب سمجھا جاتا ہے لیکن اگر یہ بیک وقت فصلوں کی ناکامی ہوتی ہے تو اس کے عالمی خوراک کی فراہمی کے لیے اہم نتائج ہوں گے۔ ساحلوں پر، سطح سمندر میں اضافے سے کچھ زرعی زمین کے ضائع ہونے کی توقع ہے ، جبکہ گلیشیئر پگھلنے کے نتیجے میں آبپاشی کا پانی کم دستیاب ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف ، زیادہ قابل کاشت زمین منجمد زمین پگھلنے کے طور پر دستیاب ہو سکتی ہے ۔ دیگر اثرات میں کٹاﺅ اور مٹی کی زرخیزی میں تبدیلی اور بڑھتے ہوئے موسموں کی لمبائی شامل ہیں۔آب و ہوا کے گرم ہونے کے ساتھ تیزی سے بڑھتے ہیں۔ ان کی نشوونما کے کھانے کی حفاظت ، خوراک کی کمی اور قیمتوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔مستقبل میں آبادی میں اضافہ،جو مستقبل قریب میں خوراک کی عالمی طلب میں اضافہ کرے گا ۔مستقبل میں مٹی کے کٹاﺅ اور زیر زمین پانی کی کمی مزید غیر یقینی صورتحال ہیں۔ سائنسی اتفاق رائے یہ ہے کہ عالمی غذائی تحفظ قریب قریب میں نسبتا کم بدلے گا۔ مستقبل میں شدید موسمی واقعات سے غذائی تحفظ پر اثرات کے بارے میں کچھ تشویش ہے ۔ زراعت موسم کے لیے حساس ہے، اور بڑے واقعات جیسے ہیٹ ویوز یا خشک سالی یا شدید بارشیں جسے کم اور زیادہ بارش کی انتہا بھی کہا جاتا ہے کافی نقصانات کا سبب بن سکتے ہیں۔2003 میں یورپی گرمی کی لہر کے باعث تےرہ بلین یورو غیر بیمہ شدہ زرعی نقصانات ہوئے۔ موسمیاتی تبدیلی گرمی کی لہروں کی تعدد اور شدت کو بڑھانے کے لیے جانا جاتا ہے اور بارش کو کم بیش قیاسی اور انتہاﺅں کا زیادہ خطرہ بناتا ہے، لیکن چونکہ موسمیاتی تبدیلی کا انتساب اب بھی ایک نسبتا نیا شعبہ ہے، جو کہ مخصوص موسمی واقعات اور ان کی وجہ سے ہونے والی خامیوں کو جوڑتا ہے۔ قدرتی تغیرات پر موسمیاتی تبدیلی اکثر مشکل ہوتی ہے۔ اب گرمی کی انتہا زیادہ بارہوئی ہے اور لگاتار ہونے کا امکان بھی زیادہ ہے، جبکہ سردی کی انتہا میں کمی آئی ہے۔ ایک ہی وقت میں، شمالی یورپ اور مشرقی یورپ کے بیشتر حصوں میں اکثر شدید بارش کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ بحیرہ روم خشک سالی سے زیادہ متاثر ہوا ۔ اسی طرح ، یورپی فصلوں کی پیداوار پر گرمی کی لہر اور خشک سالی کے اثرات کی شدت پچاس سال کی مدت میں تین گنا بڑھ گئی۔اگست کے مہینے کے دوران، زیادہ فصلوں کی ناکامی کے نتیجے میں خوراک کی عالمی قیمتوں میں اضافہ ہوا ۔موجودہ بحران جولاائی تا ستمبر 2022 کے اونچے درجے کے سیلاب سے جڑا ہے جس میں ملک کے ایک تہائی اضلاع ڈوب گئے۔ بتدریج گرم ہوتے سمندر سمیت بہت سے موسمی عوامل، کی وجہ سے شدید بارشیں ہوئیں، جس نے پاکستان کی پندرہ فیصد زرعی زمین کو معتدل یا شدید طور پر متاثر کیا۔پاکستان بھر میں اس طرح کے اثرات نے ملک کو 2022 میں گلوبل ہنگر انڈیکس میں ننانوے نمبر سے 2023 میں 102 ویں نمبر پر لانے میں کردار ادا کیا۔ فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن کے جنوری 2024 کے تجزیے کے مطابق، غربت کی شرح 2022 میں چونتےس فیصد سے بڑھ کر 2023 میں انتالےس فیصد ہو گئی، جس کی بڑی وجہ خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ اس سے غریب گھرانوں کی قوت خرید میں مزید کمی آئی۔ انٹیگریٹڈ فوڈ سیکیورٹی فیز کی درجہ بندی کے مطابق، دس ملین سے زیادہ لوگ اپریل سے اکتوبر 2023 کے درمیان شدید غذائی عدم تحفظ کی اعلی سطح کا سامنا کر رہے تھے۔۔خوراک کی افراط زر اور تحفظ سے نمٹنے کا حتمی حل درست زراعت کو اپنانے اور زیادہ پیداوار دینے والے بیجوں کے استعمال میں مضمر ہے۔ کسانوں کو اس سلسلے میں بہت کم یا کوئی اعانت نہیں ملتی۔ شروع سے آخر تک، کاشتکار بے بس ہیں، کاشتکاروں کو معیاری بیجوں، کھادوں اور کیڑے مار ادویات تک رسائی میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ اپنی فصلیں کم نرخوں پر فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ اس سے فصل کی پیداوار اور غذائی تحفظ متاثر ہوتے ہیں۔ پاکستان کی غذائی تحفظ اور سماجی استحکام کے لئے زرعی پالیسیاں بہت اہم ہیں۔ اگرچہ پاکستان اب دنیا میں گندم پیدا کرنے والا ساتواں بڑا ملک ہے لیکن یہ انڈیکس منڈی کے مطابق گندم کی اوسط پیداوار کے لحاظ سے صرف 38 ویں نمبر پر ہے، جس کی اوسط پیداوار تےن میٹرک ٹن فی ہیکٹر ہے۔ نیوزی لینڈ اس وقت دس میٹرک ٹن فی ہیکٹر کے حساب سے دنیا میں سب سے زیادہ گندم کی اوسط پیداوار رکھتا ہے۔ پاکستان کا زرعی شعبہ آبپاشی پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے، جس کا ساٹھ ستر فیصد برف پگھلنے اور گلیشیئر پگھلنے سے آتا ہے۔گرمی کی لہروں اور سیلاب سے بارشوں بدلتے پیٹرن اور برفانی تودوں کے غیر متوقع پگھلنے سے موسمیاتی تبدیلیاں جنوبی ایشیائی ملک میں کسانوں کےلئے زندگی مشکل بنا رہی ہیں۔اس کے علاوہ بارش کے بدلتے ہوئے پیٹرن نے پانی کی دستیابی اور ذخیرہ کو متاثر کیا ہے، شدید اور مختصر دورانیے کی بارشیں مٹی کے کٹاﺅ کا باعث بنتی ہیں جس سے علاقے اور ملک کے شمالی حصوں میں بارش پہ منحصر زراعت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔اس لےے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس حوالے سے ترجےحی بنےادوں پر اقدامات کےے جائےں۔