وزیراعظم شہبازشریف نے کہا ہے کہ قیمتی پتھروں کی اسمگلنگ کی اجازت بالکل بھی نہیں دی جائے گی، قیمتی پتھروں کی صنعت کی ترقی اورشعبے کی اصلاحات کی اسٹرینگ کمیٹی کی خود صدارت کرونگا۔ وزیرِ اعظم کی زیرِ صدارت قیمتی پتھروں کی صنعت کی ترقی اور اصلاحات کا جائزہ اجلاس منعقد ہوا جس میں وزیرِ اعظم نے صنعت کی ترقی اور برآمدات میں اضافے کے لیے اصلاحات کا فیصلہ کیا۔وزیرِ اعظم نے وفاقی وزیرِ نجکاری عبدالعلیم خان کو اصلاحات کے نفاذ کی ذمے داری سونپ دی۔اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ حکومت گلگت بلتستان میں کان کنی اور ویلیو ایڈیشن پائلٹ پراجیکٹ شروع کرے گی، گلگت بلتستان حکومت کو مکمل مالی معاونت فراہم کریں گے، قیمتی پتھروں کی روایتی طریقے سے کان کنی سے قیمتی اثاثہ ضائع کیا جا رہا ہے۔انہوں نے ہدایت کی کہ اےک ماہ میں لائحہ عمل تشکیل دے کر اس کے نفاذ کے لیے اقدامات شروع کیے جائیں، قیمتی پتھروں کی صنعت اور شعبے کی اصلاحات سے متعلق عملی اقدامات اور نتائج پیش کیے جائیں، وزیرِ اعظم شہباز شریف نے ہدایت کی کہ گلگت بلتستان حکومت سے مشاورت کے بعد ایک ہفتے میں رپورٹ پیش کی جائے، قیمتی پتھروں کی عالمی سطح پر رائج سرٹیفیکیشنز کے لیے اقدامات کیے جائیں۔اس موقع پر وزیرِ اعظم شہباز شریف کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ پاکستان میں قیمتی پتھروں کی کان کنی سے متعلق 178 بڑے لائسنسز دیے جا چکے ہیں، پاکستان میں اٹھارہ قیمتی پتھروں کی اقسام پائی جاتی ہیں، پاکستان کی قیمتی پتھروں کی برآمدات کا 80 فیصد حصہ خام مال پر مبنی ہے۔کان کنی پاکستان میں ایک اہم صنعت ہے ۔ پاکستان میں کوئلہ، تانبا، سونا، کرومائیٹ، معدنی نمک، باکسائٹ اور کئی دیگر معدنیات سمیت متعدد معدنیات کے ذخائر ہیں۔ مختلف قسم کے قیمتی اور نیم قیمتی معدنیات بھی ہیں جن کی کان کنی بھی کی جاتی ہے۔ ان میں پیریڈوٹ، ایکوامیرین، پکھراج، روبی، زمرد، نایاب زمینی معدنیات باسٹناسائٹ اور زینو ٹائم، اسفینی، ٹورملین اور کوارٹج کی بہت سی اقسام شامل ہیں۔پاکستان منرل ڈیولپمنٹ کارپوریشن کان کنی کی صنعت کی مدد اور ترقی کے لیے ذمہ دار اتھارٹی ہے۔ جیم اسٹون کارپوریشن آف پاکستان ایک سرکاری ادارے کے طور پر قیمتی پتھروں کی کان کنی اور پالش کرنے میں حصہ داروں کے مفادات کا خیال رکھتا ہے۔ پاکستان کے صوبوں میں سب سے زیادہ معدنی ذخائر بلوچستان میں ہیں، سندھ کوئلے کے ذخائر سے مالا مال ہے اور خیبر پختونخوا جواہرات سے مالا مال ہے۔ جوہری توانائی کے مقاصد میں استعمال ہونے والے تیل، گیس اور معدنیات کی کان کنی وفاقی حکومت کرتی ہے۔ دیگر معدنیات کی کان کنی صوبائی تشویش ہے۔ اس وقت پاکستان میں تقریبا باون معدنیات کی کان کنی اور پراسیس کی جاتی ہے۔ مقامی اور برآمدی مقاصد کے لیے متعدد قیمتی پتھروں کی کان کنی اور پالش کی جاتی ہے۔ اس آپریشن کا مرکز خیبر پختون خواہ اور گلگت بلتستان ہے۔ ان میں ایکٹینولائٹ ، ہیسونائٹ ، روڈنگائٹ ، عقیق ، آئیڈوکریس ، روٹائل ، ایکوامارائن ، جیڈائٹ ، روبی ، ایمیزونائٹ ، کنزائٹ ، سرپینٹائن ، ایزورائٹ ، کیانائٹ ، اسپیسارٹائن گارنیٹ ، بیرل ، ایمیڈیلڈ ، ٹاپ سٹون شامل ہیں ۔ اوٹ ، پارگیسائٹ ، ٹورملائن ، گارنیٹ ، پیریڈوٹ ، فیروزی ، گراسولر ، کوارٹج اور ویسوویانائٹ ۔ ان جواہرات سے برآمد ہونے والی آمدنی دو سو ملین ڈالر سے زیادہ ہے۔ پاکستان معدنیات کا بڑا گھر ہے، جن میں بے مثال گریڈ یاقوت، زمرد، پکھراج، ایکوامیرین، فلورائٹ، اور لازولی کی کان کنی گلگت، چترال ،ہنزہ، سوات، آزاد کشمیر، کی وادیوں میں کی گئی ہے ، قیمتی پتھروں کے کاروبار میں بڑے مواقع ہیں اور بےرونی سرمایہ کار زیادہ منافع حاصل کرنے کے لیے اس میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔ یہ کاروبار زیادہ تر مناسب سہولیات کی کمی، کان کنی کی ناقص مہارت اور محدود ٹیکنالوجی اور متعلقہ معلومات کی وجہ سے خود کو دنیا کی پہلی پانچ مارکیٹوں میں سے ایک کے طور پر قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے قیمتی پتھروں کی کان کنی، کاٹنے اور پالش کرنے کے آلات کو درآمد کرنے میں آسانی فراہم کی جانی چاہیے اس شعبے میں مسائل کے حل کے لیے ایک ورک گروپ بھی تشکیل دیا جانا چاہیے۔ چین پاکستان کے قیمتی پتھروں کی سب سے بڑی منڈی ہے اور پاکستان میں چین کو قیمتی پتھروں کی برآمدات بڑھانے کے بے پناہ امکانات ہیں۔ پاکستانی کمپنیوں کو چینی مارکیٹ میں اپنی موجودگی بڑھانے کے لیے چینی خریداروں کی ترجیحات اور ضروریات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔دنیا کے پانچ قیمتی ونیم قیمتی پتھروں میں سے تےن نایاب قسم کے پتھر پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔ ان قیمتی پتھروں میں سے زمرد سوات، شموزئی، گجر کلے، چار باغ اور کاٹلنگ میں پایا جاتا ہے۔ جب کہ مردان میں دنیا کا بہترین گلابی پکھراج پایا جاتا ہے۔ اسی طرح ہزارہ اور کوہستان میں پیراڈاٹ، گلگت اوراسکردو میں ایکوامرین، ٹورملین پا یا جاتا ہے۔ ان پتھروں کا شمار دنیا کے نایاب پتھروں میں کیا جاتا ہے جو پاکستان کے شمالی علاقہ میں وافر مقدار میں موجود ہیں۔جدید اور سا ئنسی کان کنی نہ ہونے کے باعث ان علاقوں میں قیمتی و نیم قیمتی پتھروں کی دولت ضائع ہو رہی ہے۔ اکثر ناتجربہ کاری کے باعث یہ دولت نہ صرف ضائع ہو رہی ہے بلکہ تراش خراش کے بعد ان کی خوبصورتی بھی ماند پڑ جاتی ہے۔ہمےں جیمز اینڈ جمالوجیکل انسٹی ٹیوٹ میں بین الاقوامی ماہرین کی ضرورت ہے جو یہاں کے لوگوں کو پتھروں کی تراش خراش کی صحیح معنوں میں تربیت دے سکیں۔ قیمتی پتھروں کے شعبے کو صنعت کا درجہ دے کر پاکستان کی معیشت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے، پاکستان متنوع اور نایاب اقسام کے قیمتی پتھروں کے ذخائر کا گھر ہے جس میں ہر سال آٹھ لاکھ کیرٹس روبی، ستاسی ہزارکیرٹس زمرد اور پانچ ملین کیرٹس پیریڈوٹ برآمد کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ قیمتی پتھر ایک اہم معدنی شعبہ بن سکتا ہے اگر اسے جدید خطوط پر ترقی دی جائے۔ اس سے پاکستان کی خراب معاشی صورتحال کو بہتر بنانے میں نمایاں مدد مل سکتی ہے۔ بھاری ٹیکسوں کے علاوہ ٹیکنالوجی اور پیشہ وارانہ تربیت کی کمی گلگت بلتستان میں جواہرات کی کان کنی پر منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ےہاں کے جےمز اسٹون کی امریکا،جرمنی،فرانس سمیت یورپی اور خلیجی ممالک میں کافی مانگ ہے کیونکہ ان پتھروں کی ساخت صاف اور واضح ہے جبکہ انڈیا کے پتھروں کی ساخت صاف نہیں۔ملک میں پچانوے فیصد جم اسٹون مائننگ کے فرسودہ طریقے کے سبب ضائع ہو رہے ہیں، حکومت کو نہ صرف بہتر اقدامات اٹھاکر ملک کے اس قدرتی اثاثے کو عالمی منڈی تک زیادہ رسائی دینی چاہیے بلکہ ان قیمتی اور نایاب پتھروں کی جانچ کے لیے تحقیقی ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں قیمتی پتھروں کے اربوں ٹن کے ذخائر موجود ہیں تاہم متعلقہ اداروں کی عدم توجہ کے سبب یہ ذخائر پہاڑ کی شکل میں کھڑے ملک اور قوم کی حالت پر افسوس کر رہے ہیں۔ پاکستان کے جم سٹونز کی امریکا، آسٹریلیا، دبئی، جرمنی، چین، اٹلی، فرانس، برطانیہ اور دوسرے یورپی ممالک میں کافی طلب ہے۔ ان کا زیادہ تر استعمال زیورات میں کیا جاتا ہے، یہ افغانستان کے پنج شیر کے پتھروں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں پنک ٹوپاز ملتا ہے، جو دنیا میں اور کہیں بھی نہیں ملتا اور یہ روبی کا مقابلہ کرتا ہے۔گو کہ پاکستان ان قیمتی پتھروں سے مالامال ہے لیکن بدقسمتی سے ان پر دوسرے ممالک کی اجارہ داری ہے۔ یہاں سے نکالے جانے والے اکثر قیمتی پتھروں کو امریکا، جرمنی اور برطانیہ کے باشندوں نے اپنے ناموں سے منسوب کیا ہے، جس کی بڑی وجہ پاکستان میں ان پتھروں سے متعلق لاعلمی اور وسائل کی کمی ہیں۔ معدنیات یہاں پاکستان میں ہیں اور ان کے انسٹیٹیوٹ جرمنی اور امریکا میں ہیں، یہ ہماری بہت بڑی بدقسمتی ہے۔کچھ پتھروں کی یہاں پر قیمت چند ہزار روپوں سے زیادہ نہیں ہے، جبکہ باہر ممالک میں ان کی قیمت لاکھوں ڈالرز میں لگائی جاتی ہے۔پاکستان میں اب بھی سینکڑوں اقسام کے مزید نایاب اور قیمتی پتھر موجود ہیں جن کے بارے میں تحقیق، سمجھ اور مہارت کی ضرورت ہے۔ حکومت کو نہ صرف بہتر اقدامات اٹھاکر ملک کے اس قدرتی اثاثے کو عالمی منڈی تک زیادہ رسائی دینی چاہیے بلکہ ان قیمتی اور نایاب پتھروں کی جانچ کے لیے تحقیقی ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کے وسائل سے ےہاں کے عوام پورے طور پر مستفےد ہو سکےں ۔
