امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کا کہنا ہے عوام مایوس ہو رہے ہیں اور بات اب خود کشیوں تک پہنچ گئی ہے، ملک بھر کے لوگوں نے اس دھرنے سے اپنی امیدیں وابستہ کر لی ہیں۔ہم نے بڑی ہمت اور تدبر سے پرامن مزاحمت کا مظاہرہ کیا، شدید گرمی اور بارش میں بھی لوگ مری روڈ پر دھرنے میں موجود ہیں۔ لاہور میں ناکہ بندی کرکے دھرنے میں شرکت کیلئے آنے والی خواتین کو روکا گیا، پنجاب حکومت اور وفاق کو کہتا ہوں رکاوٹیں ڈال کر اپنے لیے حالات خراب کر رہے ہیں، دھرنے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔حافظ نعیم کا کہنا تھا ہم ہر صورت میں پرامن رہنا چاہتے ہیں، پاکستان تصادم کے راستے کا متحمل نہیں ہو سکتا، جب آپ رکاوٹیں کھڑی کریں گے تو رکاوٹیں توڑی جائیں گی۔جماعت اسلامی نے مذاکرات کی کامیابی تک دھرنا جاری رکھنے کا اعلان کےا ہے جماعت اسلامی کا کہنا ہے حکومت پانچ سویونٹ بجلی استعمال والوں کو پچاس فیصد رعایت دے،انہوں نے کہا کہ لوگ دو دو مزدوریاں کر رہے ہیں پھر بھی اخراجات پورے نہیں ہوتے، تنخواہ سے بھی زیادہ بجلی کا بل آرہا ہے، 1994 سے رہنے والی حکومتوں نے آئی پی پیز کو طاقتور بنایا، آئی پی پیز سے ہونے والے معاہدے سامنے لائے جائیں، بجلی کی قیمت کا تعین بجلی کی لاگت کے حساب سے کیا جائے، ہم نے واضح طور پر اپنے مطالبات پیش کردیے ہیں، ہم نے کہہ دیا ہے کہ مراعات ختم کرنی پڑیں گی، ناجائز معاہدوں کے پیسے عوام کیوں دیں؟ وزیراعظم اور وزیراعلی سمیت تمام سرکاری افسران کے لیے طے کیا جائے کہ وہ 1300سی سی سے زیادہ کی گاڑی استعمال نہیں کریں گے، ساری قربانیاں عوام سے نہ مانگیں، خود بھی کچھ کریں، انہیں استعمال کرنا ہے تو اپنی ذاتی گاڑیوں میں بیٹھیں، اپنی جیب سے فیول کی قیمت ادا کریں، وزیراعظم چاہیں تو آج ہی اس پر عمل درآمد کر سکتے ہیں، تنخواہ دار طبقے پر سارا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔بجلی کی قیمت کم ہونی چاہیے، بجلی کے بلوں کی وجہ سے گھر میں لڑائی جھگڑے ہونے لگے ہیں، آئی پی پیز کا آڈٹ کیا جائے، 2019 میں آئی پی پیز سے معاہدوں کو ریوائز کیا گیا۔دھرنے پر موجود جماعت اسلامی کے مطالبات پوری قوم کی آواز ہےں کےونکہ قوم اب قربانےاں دے دے کر تنگ آ گئی ہے اگر طبقہ اشراف قربانےاں نہےں دےتا تو اسے حکمرانی کا کوئی حق نہےں ہے نہ ہی اسے عوامی خزانے کو اپنے اللوں تللوں پر استعمال کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ سابق نگران وفاقی وزیر برائے کامرس اور انڈسٹریز، سرماری کاری گوہر اعجاز کی جانب سے یہ دعوی سامنے آیا کہ حکومت ایک آئی پی پی سے 750 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی خرید رہی ہے جب کہ آئی پی پیز کو کل دو ہزار ارب سالانہ کی ادئیگیاں کی جا رہی ہیں۔ پاکستان میں نوے آئی پی پیز ہیں اور ہر ماہ جب بل آتا ہے تو اس میں کل استعمال کیے گئے یونٹ کے علاوہ انکم ٹیکس، فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ ساتھ بلوں میں کپیسٹی پیمنٹ چارجز بھی شامل ہوتے ہیں۔کپیسٹی پیمنٹ سے مراد وہ ادائیگی ہے جو ہر ماہ صارف کی جانب سے بجلی بنانے والی کمپنی کو اس کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کو برقرار رکھنے کے لیے کی جاتی ہے جو صارفین کی جانب سے بجلی کی اضافی مانگ کی صورت پر مہیا کی جا سکے۔اگر سردیوں میں بجلی کی مانگ دس ہزار میگا واٹ ہے جبکہ گرمیوں میں یہ بڑھ کر بےس ہزار تک پہنچ جائے تو ایسی صورت میں حکومت کو پورے سال بےس ہزار میگا واٹ کی پیداواری صلاحیت برقرار رکھنی پڑے گی تاکہ بوقت ضرورت بجلی کی مانگ پوری کی جا سکے۔لیکن جب کوئی پلانٹ اپنی پوری صلاحیت پر اس لیے بجلی پیدا نہیں کرتا کیونکہ ملک میں اس کی مانگ نہیں ہے تو ایسے وقت ان پاور پلانٹس کو فعال رکھنے کے لیے کپیسٹی پیمنٹ کی جاتی ہے۔اس ادائیگی کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ پاور پلانٹ لگانے میں ایک خطیر سرمایہ لگتا ہے اور اسی لیے حکومت سرمایہ کاروں کو مختلف مراعات دینے کا وعدہ کرتی ہے جن میں ان کا یقینی منافع، پلانٹ لگانے کے لیے حاصل کردہ قرض اور اس پر دیے جانے والے سود کی ادائیگی میں مدد بھی شامل ہے۔گوہر اعجاز کا دعوی ہے کہ 2015 میں بجلی کی کھپت اوسطا تےرہ ہزار میگاواٹ تھی جبکہ کل پیداواری صلاحیت بےس ہزار تھی جس کے لیے 200 ارب روپے کپیسٹی پیمنٹ کی جا رہی تھی۔ وہ کہتے ہیں 2024 میں بجلی کی مانگ کی اوسط تےرہ ہزار میگاواٹ ہی ہے تاہم اس دوران پیداوار بڑھ کر تنتالےس ہزار سے بھی زیادہ پر آگئی ہے جس میں 23 ہزار 400 میگاواٹ کے نئے آئی پی پیز شامل ہیں۔ان کے مطابق پیداواری صلاحیت میں اضافے کے باعث کپیسٹی پیمنٹ دس گنا بڑھ کر دو ہزار ارب روپے پر پہنچ چکی ہے۔باون فیصد آئی پی پیز حکومت کی ملکیت جبکہ بقایا اڑتالےس فیصد میں نجی اور سی پیک کے تحت چلنے والے پلانٹس شامل ہیں۔حکومت کو بجلی کی فی یونٹ قیمت تقریبا پےنتےس روپے پڑتی ہے جس میں دس روپے ساٹھ پیسے فیول کے اور چوبےس روپے کپیسٹی چارجز شامل ہیں۔تقسیم کار کمپنیاں یہ بجلی صارفین کو ساٹھ روپے فی یونٹ کے حساب سے بیچ رہی ہیں اس کے باوجود حکومت کو کھربوں کا نقصان ہو رہا ہے۔وفاقی وزیرِ پانی و بجلی اویس لغاری نے دعوی کیا ہے کہ نجی بجلی گھروں سے معاہدے انتہائی مجبوری کی حالت میں کیے گئے تھے کیونکہ اس وقت ملک میں لوڈ شیڈنگ کا بحران تھا۔ ادائیگیوں میں اضافے کی وجہ ایک حصہ نیشنل ٹرانسمیشن لائن پر آنے والی لاگت ہے جو تقریبا تین روپے فی یونٹ ہے، جبکہ تقسیم کار کمپنیاں پانچ روپے فی یونٹ لیتی ہیں۔اس کے علاوہ انرجی قےمت آٹھ سے دس روپے فی یونٹ ہے۔ باقی 18 روپے ان پلانٹس کا کرایہ ہے جو ان پلانٹس کو لگانے کا سود اور قرضے کی واپسی، روپے اور ڈالر ریٹ کا فرق، اور اس کا منافع ہے جو سرمایہ کاروں کو دیا جاتا ہے۔ اس کو کپیسٹی پیمنٹ کہتے ہیں۔اس میں اضافہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر شرح سود میں اضافہ ہے۔سابق وفاقی وزیر تجارت گوہراعجاز بجلی تقسیم کار کمپنیوں آئی پی پیزکو کی جانے والی ادائیگیوں کا ریکارڈ مانگنے کے علاوہ کہا ہے کہ آئی پی پیز کے معاہدے پڑھے اور ان کی تفصیلات بھی جانتا ہوں، بدانتظامی اور بدعنوانی کے نام پر سرمایہ کاروں کا اعتماد ٹوٹنے کی وجہ سے ہمیں لوٹا جا رہا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ تمام 106 آئی پی پیز کا ڈیٹا پبلک کیا جائے اور قوم کو بتایا جائے کہ کس بجلی گھر نے اپنی صلاحیت کے مطابق کتنی بجلی پیدا کی ؟ بجلی کی اصل قیمت تےس روپے فی یونٹ سے کم ہونی چاہیے، آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کو ٹیک اینڈ پے میں تبدیل کیا جائے۔اڑتالےس فیصد آئی پی پیز چالےس بڑے خاندانوں کی ملکیت ہیں، بجلی کی اصل قیمت تےس روپے یونٹ کی بجائے ساٹھ روپے ناجائز وصول کی جارہی ہے۔قانونی ماہرین کے مطابق آئی پی پیز سے کیے گئے معاہدے 2050 تک چلیں گے، مذکورہ مسئلے کے حل کیلئے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کی شدید ضرورت ہے۔ سب سے پہلے حکومت اس بات کا تہیہ کرلے کہ کسی بھی آئی پی پی کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی مدت میں توسیع نہیں کی جائے گی۔کچھ اس طرح کی افواہیں بھی گردش کررہی ہیں کہ جن آئی پی پیز کے معاہدوں کی مدت پوری ہونے والی ہے یا ہوچکی ہے ان میں توسیع کی گنجائش نکالی جائے گی۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ کوئی بھی معاہدہ یکطرفہ طور پر منسوخ نہیں کیا جاسکتا لیکن ان معاہدوں کو ان پیرا میٹرز کے اندر استعمال کیا جاسکتا ہے جیسے کہ ان آئی پی پیز کے پیچھے کون سی طاقتیں ہیں اس کے ساتھ ساتھ ان کمپنیز کے ہیٹ آڈٹ، ٹیکس اور فرانزک آڈٹس کیے جائیں۔ اگر کوئی بجلی گھر دس میگا واٹ بجلی بنا سکتا ہے لیکن کاغذات میں اس نے پندرہ میگاواٹ لکھا ہوا ہے، اسی صورت میں ان پر ہاتھ ڈالا جاسکتا ہے، اگر حکومت ایسا نہیں کرپاتی یا ان سے بات نہیں کرتی تو یہ لوگ حکومت کو عالمی قوانین سے ڈراتے رہیں گے۔ اس تمام صورتحال کے باوجود آئی پی پیز کی جانب سے کسی قسم کا ردعمل سامنے نہیں آرہا بلکہ اس کے برعکس حکومتی عہدایداران ٹی وی پر آکر ان کے ترجمان بنے ہوئے ہیں۔یہ بات سب جانتے ہیں کہ ان معاہدوں میں سراسر دھوکہ ہے اس میں اختیارات کو استعمال کیا گیا، لہذا ان میں کچھ تکنےکی خامیاں بھی ہیں جن کی نشاندہی کرکے اس مسئلہ کا حل نکالا جاسکتا ہے۔جو کمپنےاں پاکستانی ہےں ان سے انسانی حقوق کی پامالی کی بنا پر ےہ معاہدے منسوخ بھی کےے جا سکتے ہےں کےونکہ ناروا معاہدوں سے کہےں زےادہ انسانی حقوق فوقےت رکھتے ہےں۔
