غزہ میں اڑتےس ہزار سے زائد جانوں کے ضیاع کے بعد سلامتی کونسل نے بالآخر فوری جنگ بندی کی قرارداد منظور کرلی، امریکا نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ سات اکتوبر کے حماس حملوں کے جواب میں اسرائیل کی جوابی کارروائیوں میں اڑتےس ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ ان میں تےرہ ہزار بچے بھی شامل ہیں۔ یہ پچھلے چار برسوں میں کسی بھی عالمی تنازع میں ہلاک بچوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ اسرائیل پورے غزہ کو ملیامیٹ کرچکا ہے۔ مکانات، اسپتال، مساجد، پناہ گاہیں سب تباہ کردیں۔سلامتی کونسل کے چودہ مستقل ارکان نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔ قرارداد دس منتخب ارکان نے پیش کی۔ قرارداد میں یرغمالیوں کی غیر مشروط رہائی اور غزہ میں بلا رکاوٹ امداد کی رسائی بھی شامل ہے۔ سلامتی کونسل کے پندرہ میں سے چودہ ارکان نے قرارداد کی حمایت کی جبکہ امریکا نے غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد پر ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ ووٹنگ سے چند منٹ پہلے امریکا نے قرارداد میں مستقل جنگ بندی کے الفاظ کو طویل جنگ بندی میں تبدیل کرا دیا۔ اسرائیل نے قرارداد ویٹو نہ کرنے پر اسرائیلی وفد کا دورہ امریکا منسوخ کر دیا۔اقوام متحدہ سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ سلامتی کونسل نے طویل انتظار کے بعد غزہ پر قرار داد منظور کرلی۔ اپنے بیان میں سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا کہ قرار داد میں فوری جنگ بندی اور یرغمالیوں کی غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قرار داد پر فوری عمل ہونا چاہیے، ناکامی ناقابل معافی ہو گی۔دوسری جانب رفح میں اسرائیلی فوج کے فضائی حملوں میں تیزی آ گئی، کل سے اب تک مزید 107 فلسطینی شہید کر دیے گئے۔ الشفا، ناصر اور ال امل اسپتالوں کا محاصرہ جاری ہے، اسرائیلی فوج نے الشفا اسپتال میں بلڈوزروں اور ٹینکوں سے لاشوں کو روند ڈالا۔اسپین، مالٹا، آئرلینڈ، سلووینیا نے فلسطین کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اسرائیل کی مذمت کرتے ہوئے کہنا ہے کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اقدام علاقائی عدم استحکام بڑھائے گا۔درےں اثناءچین کے سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق 23 جولائی کو چودہ فلسطینی گروہوں کے نمائندوں نے چین کی دعوت پر بیجنگ میں مصالحتی مذاکرات کے بعد تقسیم کے خاتمے اور فلسطینی قومی اتحاد کو مضبوط بنانے سے متعلق بیجنگ اعلامیے پر دستخط کیے ہیں۔چودہ فلسطینی گروہوں نے جنگ کے بعد غزہ پر حکومت کرنے کے لیے قومی مفاہمت کی ایک عبوری حکومت بنانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ یہ معاہدہ بیجنگ میں ہونے والے مذاکرات کا نتیجہ ہے جس میں حماس کے سینئر نمائندے موسی ابو مرزوق اور الفتح کی مرکزی کمیٹی کے رکن محمود علول شریک تھے۔ الفتح اب غرب اردن جبکہ حماس غزہ میں برسراقتدار ہے۔ تاہم 2006 کے انتخابات میں حماس کی کامیابی اور غزہ کی پٹی پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد ان کے تعلقات بہت کشیدہ ہو گئے تھے۔چینی دفترِ خارجہ کی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ما ننگ نے اعلامیے میں سب سے اہم کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا کہ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن فلسطینی عوام کی واحد نمائندہ ہے۔ مذاکرات کی سب سے اہم اور نمایاں بات غزہ کی جنگ کے بعد کی حکومت کے لیے عبوری قومی مصالحتی حکومت کے قیام پر اتفاق رائے ہے۔اعلامیے میں فلسطینی عوام کے حقوق کی حمایت، تقسیم کے خاتمے کے لیے چین کی مخلصانہ کوششوں کو سراہا گیا اور اس بات پر زور دیا گیا کہ اقوام متحدہ کے زیرِ اہتمام علاقائی اور بین الاقوامی شرکت کے ساتھ ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کیا جانا چاہئے۔اعلامیے کے مندرجات میں اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق یروشلم کے دارالحکومت کے ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام۔غرب اردن، یروشلم اور غزہ سمیت فلسطین کی علاقائی سالمیت کو برقرار رکھنا۔تمام فلسطینی گروہوں کے اتفاق رائے اور موجودہ بنیادی قانون کے مطابق ایک عبوری قومی مصالحتی حکومت کی تشکیل۔غزہ کی تعمیرِ نو اور منظور شدہ انتخابی قانون کے مطابق جلد از جلد عام انتخابات کی تیاری۔اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ منظور شدہ انتخابی قانون کے مطابق ایک نئی قومی کمیٹی تشکیل دی جائے گی اور مشترکہ سیاسی فیصلے کرنے کے لیے ایک عارضی متحد قیادت تشکیل دی جائے گی۔اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ اعلامیے کی شقوں پر مکمل عمل درآمد کے لیے ایک اجتماعی لائحہ عمل قائم کیا جائے گا جس پر عمل درآمد کے لیے ٹائم ٹیبل ہوگا۔ فلسطین کے چودہ بڑے گروہوں کے نمائندوں کے علاوہ مصر، الجزائر، سعودی عرب، قطر، اردن، شام، لبنان، روس اور ترکی کے سفیروں اور نمائندوں نے اختتامی تقریب میں شرکت کی۔وزیر اعظم شہباز شریف نے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں اسرائیلی پالیسیوں پر عالمی عدالت انصاف کی رولنگ کا خیر مقدم کرتے ہوئے عالمی برادری اور اقوام متحدہ پر زور دیا تھا کہ وہ اس فیصلے پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ آئی سی جے کی جانب سے اسرائیل کو اپنا قبضہ اور غیر قانونی آباد کاری ختم کرنے کے حوالے سے دی گئی رولنگ بہادر فلسطینی عوام کی قانونی جدوجہد کی تصدیق ہے۔ عالمی عدالت انصاف کے مطابق فلسطینی علاقوں میں موجود قدرتی وسائل کی تلاش کی اسرائیلی پالیسی عالمی قوانین کے خلاف ہے۔نیدرلینڈز کے شہر دی ہیگ میں واقع عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسرائیل کو فلسطینی علاقوں پر اپنے قبضے کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کی تلافی کرنی چاہیے۔ اسرائیل کی مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں بستیوں کی تعمیر عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے جبکہ فلسطینی علاقوں میں موجود قدرتی وسائل کی تلاش کی اسرائیلی پالیسی بھی عالمی قوانین کے خلاف ہے۔عالمی عدالت نے اسرائیل کو مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کے ساتھ منظم طریقے سے امتیازی سلوک کا مرتکب بھی قرار دیا۔گزشتہ سال اکتوبر میں غزہ میں اسرائیل کے حملے کے بعد سے سلامتی کونسل تذبذب کا شکار تھی کہ اس جنگ کو کیسے ختم کیا جائے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ جب سلامتی کونسل نے فوری طور پر غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے جوکہ اسرائیل کی جارحانہ زمینی اور فضائی کارروائیوں کی وجہ سے مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے۔اس سے قبل سلامتی کونسل نے رمضان کے مہینے میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن اسرائیل جنگ بندی سے انکاری تھا۔ دلچسپ طور پر سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی گزشتہ قراردادوں میں امریکا نے ویٹو کیا تھا۔ بائیڈن انتظامیہ نسل کشی میں مکمل طور پر اسرائیل کا ساتھ دے رہی تھی۔البتہ یہ جنگ بندی کا مطالبہ بہت دیر سے سامنے آیا ہے کہ جب 38 ہزار مظلوم فلسطینی اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیوں میں لقمہ اجل بن چکے ہیں جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے جبکہ غزہ کی 80 فیصد عمارتیں مکمل طور پر تباہ ہوچکیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ قرارداد نسل کشی کے خاتمے کے لیے امید کی کرن ہے۔ عمل درآمد کے حوالے سے ابہام کے باوجود اسے غزہ میں مستقل جنگ بندی کی جانب پیش قدمی کے معنوں میں لیا جاسکتا ہے۔روس کے علاوہ سلامتی کونسل کے تمام اراکین نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔ روس نے تجویز دی تھی کہ اس قرارداد میں ترمیم لائی جائے اور مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کیا جائے۔چین نے اس موقع پر کہا کہ وہ قرارداد کی حمایت کرتا ہے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ جنگ ختم ہو اور یرغمالیوں کی رہائی عمل میں آئے۔ اقوامِ متحدہ میں چینی مندوب نے کہا، ہمیں اب بھی خدشات ہیں کہ آیا فریقین جنگ بندی کی شرائط کو قبول کریں گے یا نہیں اور اس قرارداد پر آسانی سے عمل درآمد ممکن ہوگا یا نہیں۔جنگ بندی کے متعلقہ منصوبے میں پہلا مرحلہ جنگ بندی کی تجویز پیش کرتا ہے جس میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے بدلے اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی، غزہ کے گنجان علاقوں سے اسرائیلی افواج کا انخلا اور بےدخل فلسطینیوں کی اپنے علاقوں میں واپسی شامل ہے۔ اس کے لیے غزہ کی پٹی پر بڑے پیمانے پر انسانی امداد کی تقسیم کی ضرورت ہے۔ اقوامِ متحدہ میں اسرائیل کے مندوب نے کہا کہ اس جنگ میں ملک کے مقاصد میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور وہ یرغمالیوں کو آزاد کرنے کے لیے ملٹری آپریشنز کرے گا، بالکل اسی طرح جس طرح وہ سلامتی کونسل کی قرارداد منظور ہونے سے پہلے کررہا تھا۔یہ تو واضح ہے کہ اسرائیل فوری جنگ بندی پر رضامند نہیں ہوگا۔ بنیامن نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل اس وقت تک لڑے گا جب تک حماس کی عسکری اور حکومتی صلاحتیں تباہ نہیں ہوجاتیں۔ اس میں کوئی عندیہ نہیں کہ دائیں بازو کی اسرائیلی حکومت اس امن منصوبے کی شقوں کو قبول کرنے کی جانب کوئی جھکاﺅ رکھتی ہے۔
