گلاف ٹو پراجیکٹ اور موسمیاتی تبدیلیاں


 گلگت بلتستان ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے زیراہتمام گلاف ٹو پراجیکٹ کے تحت ڈویژنل لیول اسٹیک ہولڈرز کمیونیکیشن اینڈ کوآرڈینیشن  ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے سیکرٹری قانون گلگت بلتستان سجاد حیدر نے کہا کہ گلگت بلتستان موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور قدرتی آفات کے خطرات سے ہمہ وقت متاثر رہتا ہے، ایسے میں ان آفات سے موثر انداز میں نمٹنے کے لئے گلاف ٹو جیسے منصوبے خطے کے لئے انتہائی اہمت کے حامل ہیں۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ گلاف ٹو پراجیکٹ کے منصوبوں پر عملدرآمد کے لئے سرکاری اداروں کے ساتھ ساتھ مقامی کمیونٹی کو بھی شراکت داری دی گئی ہے جوکہ عوامی فلاح وبہبود کے منصوبوں کی کامیابی کے لئے انتہائی اہیمت رکھتی ہے۔ اس طرح کے منصوبوں سے مقامی لوگوں کو قدرتی آفات کے خطرات سے موثر انداز میں نمٹنے میں مدد ملے گی۔ اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے ڈائریکٹرجنرل گلگت بلتستان ڈیزاسٹرمنیجمنٹ اتھارٹی شجاع عالم نے کہا کہ گلاف ٹو جیسے منصوبوں پر عملدرآمد کے سلسلے میں مقامی کمیونٹی کی شراکت داری انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔یو این ڈی پی کے صوبائی کوارڈینیٹر عبدالباسط نے گلاف ٹو پراجیکٹ کی مجموعی کارکردگی پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ گلاف ٹو پراجیکٹ کے تحت گلگت بلتستان کے دس اضلاع کی سولہ وادیوں میں مختلف نوعیت کے منصوبوں پر کام جاری ہے، جن میں حفاظتی بند، واٹرچینلز، شجرکاری، کمیونٹی سنٹرز اور پونی ٹریکس کی تعمیر اور ممکنہ آفات سے متعلق پیشگی اطلاعی نظام ارلی وارننگ سسٹم کی تنصیب شامل ہیں، ان منصوبوں کی تکمیل سے مقامی لوگوں کو قدرتی آفات سے نمٹنے اورممکنہ آفات سے انسانی جان ومال کو ہونے والے نقصانات میں کمی لانے میں مدد ملے گی۔گلاف ٹو پراجیکٹ بلاشبہ ایک اہم پراجیکٹ ہے۔موسمیاتی تبدیلیاں، بے موسمی بارشیں اور سیلاب زرعی طبقات کو بری طرح متاثر رہے ہیں۔ فصلوں کی پیداوار میں ہر سال کمی ہورہی ہے۔ اناج کی غذائیت اور مویشیوں کی پیداواری صلاحیت کم ہو رہی ہے۔ زمین سیم و تھورکا شکار ہو رہی ہے اور زمین کا کٹائوبڑھ رہا ہے۔موسمیاتی تبدیلی دنیا کی معیشت کو اربوں کا نقصان پہنچا رہی ہے جبکہ ترقی پذیر ممالک سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ایسی موسمیاتی تبدیلیاں جن کی وجہ انسان بنے ہیں، یا جو ہیومن کاز کی وجہ سے  رونما ہوئی ہیں ان  کے اثرات نے گزشتہ سال عالمی اقتصادی پیداوار میں 6.3  فیصد کمی پیدا کی ہے۔یہ اعداد و شمارموسمیاتی  تبدیلی کے دونوں براہ راست نتائج یعنی  زراعت اور مینوفیکچرنگ میں رکاوٹیں اور زیادہ گرمی سے پیداوار میں کمی کی عکاسی کرتے ہیں۔ نیز عالمی تجارت اور سرمایہ کاری پر پڑنے والے اثرات کا بھی اندازہ لگایا گیا ہے۔سب سے کم ترقی یافتہ ممالک کو آبادی کے لحاظ سے جی ڈی پی میں 8.3 فیصد کے زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ جس میں جنوب مشرقی ایشیا اور جنوبی افریقہ کے ممالک خاص طور پر متاثرہوئے۔ ان خطوں کے ممالک کو بالترتیب اپنی جی ڈی پی کے 14.1 فیصد اور  11.2 فیصد کا نقصان ہوا۔دوسری جانب کچھ ترقی یافتہ ممالک جن کا تعلق یورپ سے ہے کو، کم سردیوں یا سردی کی کم شدت والے موسم سرما کے سبب گزشتہ سال جی ڈی پی میں تقریبا پانچ فیصد اضافہ ہوا۔ اس طرح کے فوائد عارضی ہو سکتے ہیں کیونکہ بہت گرم موسم گرما ہلکی سردی کے مثبت اثرات پر حاوی  آ سکتا ہے۔کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک نے گزشتہ تیس سالوں میں سرمائے اور جی ڈی پی میں مجموعی طور پر اکیس ٹریلین ڈالر کا نقصان اٹھایا ہے، جو کہ ترقی پذیر دنیا کے 2023  کی کل جی ڈی پی کا نصف ہے۔پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں ساتویں نمبر پر ہے، گزشتہ  بیس  سالوں میں پاکستان میں 139 قدرتی آفات رونما ہوئیں، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کیا جائے۔ 2015  میں پہلا گلیشیئر لیک آئوٹ برسٹ فلڈ کا واقع پیش آیا، ہمارے گلیشیئرز پر کاربن ڈیپوزٹس پائے جاتے ہیں گرمی کے باعث گلیشیئرز کے پگھلنے کا عمل تیز ہو جاتا ہے، واقعات کی پیشگوئی کے لیے ضروری ہے کہ گلوبل اور لوکل ماڈلز کو اپڈیٹ کیا جائے۔پاکستان کب تک موسمیاتی تبدیلی کے رحم وکرم پر رہے گا اس کیلئے قدرت کے ساتھ ان ممالک کے اقدامات کا بھی انتظار ہے جو ماحولیاتی تبدیلی کا سبب بن رہے ہیں۔دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کی سب سے بڑی وجہ گرین ہائوس گیسوں کے اخراج میں اضافہ ہے جو ہر سال مزید بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ زمین کی فضا میں موجود ایسی گیسز ہیں جو زمین کی سطح کا درجہ حرارت بڑھاتی ہیں، جو چیز انہیں دیگر گیسوں سے ممتاز کرتی ہے یہ ہے کہ وہ اس ہیٹ ریڈی ایشن کو جذب کر لیتی ہیں جو سیارہ خارج کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں گرین ہائوس اثرات پیدا ہوتے ہیں۔ انسانوں کی جانب سے ایسی سرگرمیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جن سے زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اور یہی بڑھتا ہوا درجہ حرارت موسمیاتی تبدیلیوں کی بنیادی وجہ ہے۔انسان کی جانب سے تیل، گیس اور کوئلے کا بڑھتا ہوا استعمال اور جنگلات کا تیزی سے کاٹا جانا ایسے عوامل ہیں، جن کی وجہ سے گرین ہائوس گیسوں کی مقدار بڑھ رہی ہے اور زمین کی سطح کا درجہ حرارت بھی۔ یہ درجہ حرارت کس رفتار سے بڑھ رہا ہے اس کا اندازہ اِس بات سے لگائیے کہ اب تک دنیا کا مجموعی درجہ حرارت تقریبا 1.2 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ چکا ہے۔ پاکستان سمیت کئی خطوں میں تیز اور بے موسم کی بارشیں، ریکارڈ برف باری، ہوا میں نمی کے تناسب کا معمول سے زیادہ بڑھنا یا کم ہونا، کہیں زیادہ سردی پڑنا یا زیادہ گرمی پڑنا یہ سب موسمیاتی تبدیلیوں اور عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے ہی ہو رہا ہے۔موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں موسم مسلسل گرم ہو رہا ہے اور اموات کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث دنیا بھر میں گرم موسم کے دورانیے اور شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ انسانوں کے باعث آنے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث دنیا بھر میں شدید گرم دنوں کی تعداد میں اوسطا 26 دنوں کا اضافہ ہوا ہے۔شدید گرمی سے گزشتہ بارہ ماہ کے دوران لاکھوں افراد ہلاک ہوئے مگر حقیقی تعداد کروڑوں میں ہوسکتی ہے۔سیلاب اور سمندری طوفان شہ سرخیوں کی زینت بنتے ہیں مگر شدید گرمی بھی اتنی ہی زیادہ جان لیوا ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں موسمیاتی تبدیلی عالمی سطح پر خطرناک صورت اختیار کر رہی ہے اور آنے والے دور میں یہ دنیا کے لیے ایک بڑا خطرہ ہو گا۔ اس کا سب سے زیادہ اثر زمین پر اور زمین پر رہنے والی مخلوقات پر ہو رہا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کے باعث درجہ حرارت میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے اور سائنس دانوں نے متنبہ کیا ہے کہ زمین کو موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہونے والی تباہی سے بچانے کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ انسانی سرگرمیوں نے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں اضافہ کیا ہے، جو درجہ حرارت کو بڑھاتا ہے۔ موسم میں شدت اور قطبی برف کا پگھلنا اس کے ممکنہ اثرات میں شامل ہیں۔ ماحول میں بہت بڑی مقدار میں پائی جانے والی گرین ہائوس گیسوں کے باعث پورے کرہ ارض پر زمین، سمندروں اور فضا میں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ پاکستان میں ریکارڈ توڑ بارشوں اور چین و یورپ میں اب تک آنے والی گرمی کی شدید ترین لہروں جیسے موسمی واقعات نے کروڑوں لوگوں کو متاثر کیا۔ ان واقعات کے باعث غذائی عدم تحفظ میں اضافہ ہوا، بڑے پیمانے پر لوگوں نے نقل مکانی کی اور اربوں ڈالر کا نقصان اور تباہی ہوئی۔ملک کے کئی علاقوں میں گرمی میں درجہ حرارت پچاس ڈگری سینٹی گریڈ تا جا پہنچا۔ اس سال بھی پاکستان میں شدید گرمی پڑ رہی ہے ۔ صنعتوں اور ذاتی مقاصد کیلئے جنگلات کی بے دریغ کٹائی بھی جاری ہے اور جنگلات کے کٹائو سے فضا میں آکسیجن بتدریج کم ہو رہی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں جنگلات کا کل رقبہ چار فیصد رہ گیا ہے جبکہ صحت مند ماحول کے لیے کم سے کم بیس فیصد جنگلات کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ فطرت کے حسن کو فیکٹریوں سے اٹھنے اور گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں نے دھندلا دیا ہے اور ساری فضا زہریلی بن گئی ہے۔ سمندروں اور دریائوں میں فیکٹریوں اور کارخانوں سے نکلنے والے کیمیائی فضلے کی موجودگی نے پانی کو زہر آلود کر دیا ہے۔ فضائی آلودگی نے کرہ فضائی یعنی زمین کے حفاظتی غلاف اوزون کی تہہ کو کافی حد تک نقصان دیا ہے جس سے سورج کی تیز شعاعوں کے ساتھ بالائے بنفشی لہریں بھی سطح زمین تک زیادہ مقدار میں پہنچنے لگی ہیں۔بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ابھی تک ماحولیاتی تبدیلی کو سنجیدہ نہیں لیا جا رہا اور ترقی کے نام پر زرخیز زمینوں، پہاڑوں اور چراگاہوں کو بلڈرز مافیا کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ دریائوں کی قدرتی گزرگاہوں پہ بند باندھ کر ڈیم بنائے جا رہے ہیں جس سے زراعت اور آبی حیات تباہی کے دہانے پر ہے۔ انسان، جنگلی حیات سمیت ماحولیات کو شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ان خطرات سے نمٹنے کیلئے ہمیں بحیثیت مجموعی اپنا کردار ادا کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہو گا۔