وزیر اعلی گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے وزیر اعظم شہباز شریف کو قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی اور بلتستان یونیورٹی کو درپیش مالی بحران کے حل کیلئے خصوصی مراسلہ تحریر کیا ہے ،مراسلے میں استدعا کی گئی ہے کہ گلگت بلتستان کونسل کے فنڈز سے ایک ارب روپے صوبائی حکومت کو منتقل کئے جائیں تاکہ دونوں جامعات کیلئے انڈومنٹ فنڈ قائم کیا جاسکے، مراسلے میں کہا گیا ہے کہ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی 10ہزار سے زائد طالب علموں کو تعلیم و تحقیق کے مواقع فراہم کررہی ہے۔ سال 2018 سے ہائر ایجوکیشن کی جانب سے قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کیلئے گرانٹ 430 ملین پر جمود کا شکار ہے، جس کی وجہ سے قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کو شدید مالی بحران کا سامنا ہے۔ اسی طرح بلتستان یونیورسٹی کو بھی آپریشنل اخراجات اور معیار تعلیم برقرار رکھنے میں مالی مشکلات کا سامنا ہے۔ درپیش مالی بحران کی وجہ سے حکومت گلگت بلتستان کو مالی معاونت فراہم کرنے کی درخواست کی گئی ہے تاکہ گلگت بلتستان کے طالب علم بلاتعطل اعلی تعلیم جاری رکھ سکیں۔ محدود وسائل کی وجہ سے صوبائی حکومت کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ ان دونوں یونیورسٹیز کیلئے مستقل بنیادوں پر مالی معاونت فراہم کرتی رہے ۔ لہذا بحیثیت چیئرمین گلگت بلتستان کونسل آپ سے گزارش ہے کہ گلگت بلتستان کونسل سے ایک ارب روپے قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی اور بلتستان یونیورسٹی کیلئے انڈومنٹ فنڈز کے قیام کی غرض سے صوبائی حکومت کو منتقل کئے جائیں۔دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ قراقرم یونیورسٹی اور بلتستان یونیورسٹی بدانتظامی اور بے جا اخراجات کے باعث مالی بحران کا شکار ہیں،مالی مشکلات کے باعث نہ صرف فیسوں کی مد میں طلباپر اضافی بوجھ ڈالا جارہا ہے بلکہ قراقرم یونیورسٹی نے اپنے ذیلی کیمپس بھی بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس سے سٹاف پر بے روزگاری کی تلوارلٹک گئی ہے ،ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک ارب کے انڈومنٹ فنڈکا قیام درست فیصلہ ہے تاہم جامعات کو فنڈز کی فراہمی کے ساتھ انتظامی خرابیوں اور بے جا اخراجات کو بھی کنٹرول کرنا ہوگا تب ہی جامعات مالی بحران سے نکل سکیں گی ورنہ چاہے جتنے بھی فنڈز دیدیئے جائیں اگر بدانتظامی نہ رکی تو مالی بحران بھی ختم نہیں ہوسکے گا۔ممتاز صحافی سلمان عابد کے بقول جامعات مالی بحران کا شکار ہےں کےونکہ وفاق جامعات کو گرانٹ نہیں دے رہا ہے ، وفاق نے 18ویں ترمیم یا اےن اےف سی رپورٹ کو بنیاد بنا کر یہ معاملہ صوبائی حکومتوں پر چھوڑ دیا ہے ۔گزشتہ مالی سال کے دوران کل جی ڈی پی کا محض 1.5فیصد تعلیم پر خر چ کیا گیا تھا حالانکہ سیاسی جماعتوں کے منشور میں یہ رقم چار فیصد تک مختص کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ پہلے اساتذہ اور محققین کے لیے 75فیصد ٹیکس چھوٹ 2103 تک نافذ العمل تھی لیکن پہلے اسے کم کرکے چالےس فیصد کیا گیا اوربعد میں مزید کمی کرکے پچےس فیصد اوراب اسے یکسر ہی ختم کردیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں جامعات ملک کی تعلیمی اور تحقیقی ترقی میں اپنا موثر کردار ادا کرنے سے قاصر ہوجائیں گی ۔ اساتذہ پہلے ہی کم تنخواہوں کی وجہ سے مالی بحران سے گزررہے ہیں اور ٹیکس استثنی کے خاتمہ کے بعد مالی معاملات زیادہ گمبھیر ہوجائیں گے۔ بجٹ کی ترامیم میں اس فیصلہ کو واپس لے لیا گیا ہے ، جو خوش آئند فیصلہ ہے۔لہذا جامعات کی ریکرنگ گرانٹ میں کماحقہ اضافہ کیا جائے تاکہ شدید مالی بحران سے دوچارجامعات ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں وگرنہ ان جامعات کو اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہوگا۔18ویں ترمیم کے بعد تعلیم صوبائی سبجیکٹ ہے ۔ یہاں جامعات وفاق سے مالی گرانٹ پر تو ماتم کرتی ہیں مگر صوبوں نے جو مالی اختیارات کی تقسیم کے ماڈل کو خراب کیا ہوا ہے اس پر بھی غور ہونا چاہیے ۔ جب تعلیم کو صوبوں میں منتقل کیا گیا ہے تو پھر اصل ذمے داری صوبائی حکومتوںاور صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ہے کہ وہ اپنی ذمے داری کو بخوبی اداکریں ۔صوبوں میں ہائر ایجوکشن کمیشن کو زیادہ سے زیادہ خودمختاری دیں اور ان کو یہ اختیاردیں کہ وہ اپنے فیصلے خود کرسکیں ۔جو مالی وسائل ہیں وہ براہ راست ہائر ایجوکیشن کی نگرانی میں جامعات کو دیے جائیں ۔سندھ نے ایچ ای سی کی مدد سے وسائل جامعات کو بہتر طریقے سے تقسیم کیے ہیں جب کہ باقی صوبے ان معاملات پر کوئی توجہ نہیں دے رہے ۔ صوبوں سطح پر جو جامعات ہیں وہ خود مختار ہیں تو پھر ان کو اپنی خودمختاری کا مظاہرہ بھی کرنا چاہیے ۔لیکن ایک مسئلہ یہ بھی ہے وفاق میں موجود ہائر ایجوکیشن کمیشن کس حد تک صوبوں میں موجود کمیشنوں کو مضبوط بنانا چاہتا ہے یا وہ بھی معاملات کو مرکزیت کی بنیاد پر چلانا چاہتا ہے ۔بنیادی طور پر ہم اعلی تعلیم اور جامعات کی خود مختاری کے بحران سے دوچار ہیں ۔ وفاقی ، صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن ، وفاقی و صوبائی وزیر ہائر ایجوکیشن ، وفاقی اور صوبائی حکومتیں ، تعلیمی سے جڑی بیوروکریسی اور جامعات کی سطح پر وائس چانسلرز سب ہی ایک دوسرے مقابلے میں موجود ہیں ۔ مقابلہ بازی اور ایک دوسرے کی حیثیت کو قبول نہ کرنے کی روش نے پورے اعلی تعلیم کے نظام کو مشکل صورتحال سے دوچار کیا ہوا ہے اور ہمارے پاس سوائے بے بسی کے اور کچھ بھی نہیں ۔مثال کے طور پر وائس چانسلرز کی تقرری کا معاملے کو ہی دیکھ لیں۔ان تقرریوں میں عملی طور پر ایک اہم کردار حکومت کی جانب سے تشکیل دی جانے والی سرچ کمیٹیوں کا ہوتا ہے ۔ان کمیٹیوں میں ریٹائرڈ بیوروکریٹس ہیں اور کئی دہائیوں کا بیوروکریسی کا تجربہ رکھتے ہیں ،لیکن تعلیمی معاملات ، جامعات کے معاملات پر ان کی کوئی دسترس نہیںہے ۔یہاں تک کہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اور بیوروکریسی میں شمولیت کے بعد ان کا کوئی تعلق جامعات سے رہا ہے اورنہ ہی ان کی حیثیت ماہر تعلیم یا ایسے فرد کی ہے جو وائس چانسلرز کی تقرری کے معیارات کو سمجھ سکتا ہے اور نہ ہی اس کی کوئی دسترس دنیا میں ہونے والی جدید تعلیمی رجحانات پر ہے کہ وہ اس کو بنیاد بنا کر میرٹ پر وائس چانسلرز کو منتخب کرسکے ۔کچھ ایسے افراد ہیں جو تسلسل کے ساتھ سرچ کمیٹیوں میں شامل ہوتے ہیں مگر ان کمیٹیوں میں آپ کو سابق وائس چانسلرز یا معروف ماہر تعلیم جن کی ساری زندگیاں جامعات میں گزری ہیں، ان کو نظراندازکردیا جاتا ہے، پورے اعلی تعلیم کے نظام کو بیوروکریسی تک محدود کردیا گیا ہے ۔اسی طرح جامعات میں سنڈیکیٹ کے محاذ پر حکومتی صوبائی ارکان اسمبلی کی تقرری کے عمل سے براہ راست سیاسی مداخلتوں کا دروازہ کھول دیا گیا ہے ۔اصولی طور پر وائس چانسلرز کی تقرری میں بنیادی بات کو ہی اہمیت دی جانی چاہیے جن میں اس لیڈر شپ، بولنے کی صلاحیت ، طلبہ و اساتذہ کے ساتھ سماجی روابطے، جدید تعلیمی تقاضوں سے اہم آہنگی ، غیر نصابی سرگرمیوں کو بنیاد بنانا ، فکری آزادیوں پر یقین رکھنا اور عمل کرنا ، میرٹ کی بالادستی ، تحقیق کے شعبو ں کی جہتوں کو سمجھنا ، مالی طور پر ان اداروں کو خود مختاری میں تبدیل کرنا ، سیاسی وابستگیوں سے بالاتر، سیاسی مداخلتوں کے خلاف کھڑا ہونا ۔لیکن یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہم وائس چانسلرز کی تقرری کو بھی میرٹ کی بنیاد پر ترجیح دیں گے اور سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر ان تقرریوں کی حوصلہ شکنی کی جائے گی ۔دنیا بھر میں جامعات ریاستی ، حکومتی اور ادارہ جاتی نظام کو چلانے میں ایک واچ گروپ یا متبادل سوچ، فکر اور پالیسی دیتی ہے ۔ وہ ان تمام ریاستی معاملات کا گہرائی سے تجزیہ کرتی ہے ، تحقیق کو بنیاد بنا کرایک درست تصویر فیصلہ کرنے والوں کے سامنے رکھتی ہے ، مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ یہاں جامعات اور ریاست کے نظام کے درمیان ایک بڑی خلیج ہے ، ریاست یا حکومت جامعات کو نظرانداز کرکے نظام کو چلانے کی جو کوشش کررہی ہے وہ مثبت نتائج کے بجائے مزیدحالات کو بگاڑ رہی ہے ۔عجیب بات یہ ہے کہ تعلیمی ادارے ہی کرپشن سے لڑنے والی فوج تیار کرتے ہیں اور ان کا کام یہی ہوتا ہے کہ وہ اعلی اقدار کو فروغ دے کر طالبعلموں کو کرپشن کے خلاف ایک سیسہ پلائی دیوار بنائیں لیکن جب یہی ادارے کرپشن میں غرق ہوجائیں تو گلہ کس سے کیا جائے؟ہماری جامعات میں بدعنوانی کا اِس سے بھی بھیانک چہرہ وہ ہے جو علم کی شمع روشن کرنے والے اساتذہ کی جانب سے سامنے آتا ہے، جس میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طالبعلموں، خاص طور پر طالبات کے نتائج روک کر انہیں ہراساں کیا جانا ہے، جس کی کئی مثالیں جامعہ کراچی میں سامنے آچکی ہیں۔ مرد اساتذہ کی جانب سے دورانِ کلاس طلبا اور طالبات میں امتیازی سلوک رواں رکھنا اور جنس کی بنیاد پر نتائج دینا بھی بدعنوانی کی ایک قسم ہے۔ یہاں تک کہ بعض پروفیسرز تو سرقہ بازی کے ذریعے ریسرچ جرنلز چھپواتے ہیں تاکہ انہیں ترقی مل سکے اور ایسا کرکے وہ میرٹ کی دھجیاں بکھیر دیتے ہیں۔سرکاری جامعات میں طلبا کی اکثریت غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ ملک کا وہ متوسط طبقہ ہے جو سرکاری جامعات کی فیسیں اور اخراجات بھی بہت ہی مشکل سے برداشت کرپاتے ہیں، بلکہ کئی طالبعلم پڑھائی کے ساتھ ساتھ ملازمت بھی کرتے ہیں تاکہ علم کا حصول ممکن بنایا جاسکے۔اب بار بار سمسٹر فےس میں اضافہ کر دےا جاتا ہے اِس تناظر میں بڑھتی ہوئی فیسیں، کلرکوں کے ناجائز مطالبات اور قدم قدم پر رشوت طلب کرنا بھی طلباءکے لےے مسائل کا باعث ہے جس کی بےخ کنی ضروری ہے۔اس پس منظر میں جامعہ قراقرم اوربلتستان ےونےورسٹی کے فنڈز میں اضافہ ناگزےر ہے۔
