بلتستان یونیورسٹی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فورس کمانڈر میجر جنرل کاشف خلیل نے کہا ہے کہ وطن عزیز کو ترقی سے ہمکنار کرنے کےلئے ہمیں معاشی طور پر مستحکم ہونا ہو گا ، استحکام معاشی ترقی سے مربوط ہے وطن عزیز کے نوجوان صلاحیتوں سے بھرپور ہیں‘ تفرقہ پھیلانے اور وطن عزیز کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والے عوامل کی ہر صورت حوصلہ شکنی ہونی چاہئے انہوں نے نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ تفرقہ پھیلانے والوں اور منفی پروپےگنڈا کرنے والوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں ترقی کے حصول کے لیے ہمیں درست سمت کا انتخاب کرنا پڑے گا۔ ملک کو دہشت گردی کی نحوست سے نجات دلائیں گے۔ےہ درست ہے کہ ملکی ترقی کےلئے معےشت کا استحکام بہت ضروری ہے‘ اس حوالے سے نوجوانوں کو اپنی صلاحےتوں کا استعمال کرنا ہو گا۔اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ علما، مذہبی رہنما اور اسکالر اسلام کے حوالے سے لادین اور اسلام دشمن عناصر کی جانب سے پھیلائے جانے والے منفی پروپیگنڈے کانہ صرف تدارک کرسکتے ہیں بلکہ غیر مسلموں کے سامنے اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرکے اسلام کے بارے میںپیدا کیے جانے والے غلط تاثرات کا خاتمہ بھی کرسکتے ہیں،تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ علما کرام اپنے ذاتی مفادات سے بلند ہوکر اسلام کی خدمت پر توجہ دیں، علما کرام نہ صرف یہ کہ دنیا بھر میںاسلام کے بارے میں پھیلائے جانے والے منفی تاثرات کاتدارک کرسکتے ہیں بلکہ ملک کے اندر بھی مسلمانوں کو متحد کرنے اورانہیں اپنے فروعی اختلافات ختم کرکے صرف دین کی خاطر متحد اور منظم کرنے کے حوالے سے بھی نمایاں کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ ارباب اختیار کے ساتھ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عز م کے اظہار کے باوجود دہشت گردی کے واقعات رکتے نظر نہیں آتے جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اس عزم نو کی بنیاد پر قوم کو سیکےورٹی اداروں کی ٹھوس عملیت پسندی کے مظاہر نظر بھی آنے چاہئیں۔ اگر ہر ایسے عزم کے بعد دہشتگرد کسی نہ کسی واردات کے ذریعے ہماری سول اور عسکری قیادتوں کو دہشت گردی کے خاتمہ کا نیا چیلنج دیتے رہیں گے تو پھر دہشتگردی کا خاتمہ ہمارے لیے خواب ہی بنا رہے گا۔ دہشت گردی کی جنگ درحقیقت ملک کی بقاو سلامتی کی جنگ ہے جس میں سرخرو ہونا ہی ہمارا مطمع نظر ہے۔ اس لیے اب ہماری سیکےورٹی فورسز اور سیکےورٹی ایجنسیوں کی ساری توجہ ملک میں دہشت گردی کے خاتمہ کے اقدامات پر مرکوز ہونی چاہیے۔ اگر ان اقدامات میں کہیں کوئی کمزوری یا خامی رہ جائے تو دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو اس سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل جاتا ہے۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان رابطوں کو زیادہ مستحکم کیاجائے تاکہ کسی بھی جانب سے دہشت گردی کے حوالے سے ملنے والی کسی بھی اطلاع پر تمام فورسز مل کر فوری اور موثر کارروائی کرسکیں اور دہشت گردوں کی واردات سے قبل ہی انہیں گرفتار کیاجاسکے۔ اس طرح دہشت گردوں کے سہولت کاروں اور ان کے نیٹ ورک کا پتہ چلاکر ان کاقلع قمع کرنے میں بھی مدد ملے گی اور دہشت گردی کے واقعات کاسدباب بھی ہوسکے گا، ہر کام صرف پاک فوج پر چھوڑ کر مطمئن ہوجانے کی یہ روش ترک کیے بغیر دہشت گردی اور انتہا پسندی کے اس ناسور پر کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہوسکتا ۔پروپیگنڈا دراصل نفسیاتی جنگ کا ہتھیار ہے۔ دشمن کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ پروپیگنڈے کے ذریعے خوف اور ہیجان کی کیفیت پیدا کر کے فرد یا اجتماع کے رویے میں حسب خواہش تبدیلی لائے۔ اس جنگ میں توپ و تفنگ استعمال نہیں ہوتے بلکہ یہ جنگ ذرائع ابلاغ کے ذریعے لڑی جاتی ہے۔ دنیا میں پروپیگنڈے پر خوب رقم خرچ کی جاتی ہے اور اس سے وہ نتائج حاصل کیے جاتے ہیں جو عملی جنگ سے حاصل نہیں ہوتے۔ پروپیگنڈے کی غرض و غایت مدِمقابل کو ذہنی شکست سے دوچار کر کے اس کے حوصلے پست کرنا ہوتا ہے۔پروپیگنڈے کی تہہ میں نظریاتی معاشی اور سیاسی مفادات اور احساسِ کمتری پیدا کرنے کے عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ یہ ایک بھرپور جنگ ہوتی ہے مگر آتشیں اسلحے کے بغیر لڑی جانے کے سبب اس کو سرد جنگ کا نام دیا جاتا ہے۔ پروپیگنڈا بذات خود اچھا یا برا نہیں ہوتا مقاصد اور طریقہ کار کا حسن و قبح اِسے مثبت یا منفی بنا دیتا ہے۔مذہبی حوالے سے بھی پروپیگنڈے کا وجود نہایت قدیم اور ازلی ہے۔پروپیگنڈے اور نفسیاتی جنگ کے شواہد قبل از اسلام تاریخ میں ملتے ہیں۔ قبائل کے سرداران اور عمائدین دشمنوں میں فتنہ انگیزیاں کرنے آپس میں پھوٹ ڈالنے دوسروں کے لیے خود کو پرہیبت اور طاقت ور ظاہر کرنے کے لیے متعدد حیلے اور طریقے استعمال کرتے تھے۔دشمنوںکی اس ملت واحدہ کا اہل ایمان کے خلاف درپردہ سازشوں کا سلسلہ عرصے سے جاری ہے۔ اس لیے منافقین مسلمانوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے اور پروپیگنڈے کے ذریعے بدگمانیاں پھیلانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے تھے ۔حقیقت یہ ہے کہ مسلم معاشرے کے مرد و زن کا آپس میں نیک گمان اور حسنِ ظن ایک ایسی ڈھال ہے جس سے ٹکرا کر تمام بے بنیاد افواہوں اور جھوٹے پروپیگنڈے کا زور ٹوٹ جاتا ہے۔ چاہے پس پردہ مکار دشمن کا سرمایہ منصوبہ اور وسائل کا زور ہی کیوں نہ ہو۔ اگر مسلمانوں کے نظریاتی دشمنوں کی من گھڑت خبریں اور گمراہ کن افواہیں ہماری زبان اور ہمارے قلم پر نہ چڑھ جائیںتو پھر کیا مجال کہ یہ شر پھیل کر ہمارے دلوں میں کدورتوں اور ہماری صفوں میں انتشار کو جنم دے؟ لہذا ہمیں فکر دشمن کی افترا پردازیوں کی نہیں بلکہ اپنے ذرائع ابلاغ کے کردار اور اپنے معاشرتی رویے کی ہونی چاہیے۔مسلم معاشرے کے اندر دوسروں کی عزت سے کھیلنا کوئی تماشا نہیں جسے تفریح طبع کے لیے ڈرامائی اور رومانوی شکل دی جائے بلکہ یہ جرم عظیم ہے۔ اس لیے ریاست کی قوتِ سے اس کو روکنا ضروری ہے۔سردجنگ کے خاتمے کے بعد ہتھیاروں کے عدم پھیلاﺅ کا مقصدِ اولین مغرب مخالف معاشروں میں بڑھتی ہوئی فوجی صلاحیت کو روکنا ہے اس کام کی انجام دہی کی کوشش مغرب بین الاقوامی معاہدوں معاشی دباﺅ اور ٹکنالوجی کی منتقلی کو روک کر کرتا ہے چونکہ نفسیاتی جنگوں میں خفیہ اداروں کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے لہذا ذرائع ابلاغ کو بالادست طاقتوں کے پروپیگنڈے سے متاثر ہونے کے بجائے اپنے اپنے دائرہ کار میں معاشی اور دفاعی طاقت اور ٹےکنالوجی کے حصول کی ضرورتوں کو اسلامی دنیا کے میڈیا میں اجاگر کرنا چاہیے۔ پروپیگنڈا زمانہ امن میں بھی ہوتا ہے اور زمانہ جنگ میں بھی۔ زمانہ جنگ میں افواہ سازی اور پروپیگنڈا اپنے پورے عروج پر ہوتا ہے۔ اس لیے ذرائع ابلاغ کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے تاکہ پروپیگنڈے سے خوف و ہراس نہ پھیلے اور دشمن اپنے عزائم میں کامیاب نہ ہو۔ ایسے مواقع پر ذرائع ابلاغ کیا کردار ادا کریں؟ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں اور میڈیا مینیجرز کے لیے ضروری ہے کہ وہ خبر اور افواہ میں تمیز کریں اور اس کام کی خاطر کوئی مخصوص ادارہ یا سیکشن قائم کریں جو تحقیق و تجزیے کا ذمہ دار ہو اور وہ خبر کی حقیقت معلوم کرے۔ ایسے تجزیاتی اور تحقیقی ادارے زمانہ جنگ میں خصوصی طور پر فعال ہونے چاہیں۔ خبر چاہے جنگ چھڑنے سے متعلق ہو یا جنگ بندی سے بہرحال دور رس اثرات کی حامل ہوتی ہے۔ لہذا محض مالی مفاد کی خاطر دوسرے اخبار یا نشریاتی اداروں سے مسابقت کی خاطر افواہوں کی سرخی جمانا یا بلاتحقیق خبر نشر کردینا کوئی قابل تحسین عمل نہیں ہے۔ اس طرح کی جلدبازی شرپسندی اور شرانگیزی پھےلتی ہے ۔دشمن کا پروپیگنڈا سٹرےٹیجک مقاصد کے لیے ہو یا ڈپلومیٹک یا پھر کسی لیڈر یا سپہ سالار کی ہتک عزت کے لیے افواہ اڑائی جا رہی ہو حالات کا اور خبروں کا معروضی اور ٹھنڈے دل سے جائزہ لینا ذمہ دارانہ ابلاغ کے لیے ضروری ہے۔ اس میں نظریے کا تحفظ بھی ہوتا ہے اور ملک و قوم کے جائز مفادات کا خیال بھی کےونکہ خبر افواہ اور پروپیگنڈے کے غلبے کے سبب عوام الناس کے لیے باعث پریشانی بن سکتی ہے ۔ذرائع ابلاغ کی حیثیت چونکہ امیج بلڈرز کی سی ہوتی ہے لہذا وہ معاشرے کی مثبت رہنمائی کر کے اس کو بہتری کی طرف موڑ سکتے ہیں اور مشکلات سے بچا سکتے ہیں۔ اس کے برعکس منفی پروپیگنڈا کر کے وہ معاشرے کو خیر اور بہترین کے بجائے بدترین نتائج سے بھی دوچار کر سکتے ہیں۔
