امن وامان اور ہماری ذمہ داریاں

 سیکرٹری داخلہ گلگت بلتستان کیپٹن رےٹائرڈ سید علی اصغر نے کہا کہ محرم الحرام کے دوران امن و امان کو یقینی بنانے کے لئے عملی اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ صوبائی حکومت کے احکامات کی روشنی میں محرم الحرام کے ایام میں امن و امان کو یقینی بنانے کےلئے محکمہ داخلہ میں مرکزی کنٹرول روم کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔گلگت بلتستان کے دیگر اضلاع کے کنٹرول رومز کیساتھ باقاعدہ رابطے میں رہیں گے۔محرم الحرام کے ایام میں جلوس روٹس کی سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے نگرانی کی جائےگی اور ساتھ ساتھ حساس روٹس کی نگرانی ڈرون کیمروں کی مدد سی کی جائےگی۔ادھرصوبائی وزیر ترقی ونسواں دلشاد بانو نے ماہ محرم کے حوالے سے اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ محرم الحرام کا مہینہ ہمیں امن اور بھائی چارے کا درس دیتا ہے ملکی استحکام کیلئے امن،وحدت اور باہمی احترام کو یقینی بنانا ہے اور ہمیں باہمی اختلافات بھلا کر اتحاد بھائی چارے کی فضا قائم کرنی چاہیے ،تمام مذاہب ومسالک کے افراد محرم الحرام کے موقع پر تحمل اور برداشت کا دامن کسی صورت نہ چھوڑیں ،باہمی اخوت مذہبی ہم آہنگی اور بھائی چارے کی فضا کو قائم رکھیں، محرم الحرام ہمیں حق اور سچ کے ساتھ کھڑے ہونے کا درس دیتا ہے ،محرم الحرام کے دوران تمام مکاتب فکر کے علما کرام ومشائخ عظام کو مذہبی ہم آہنگی اور بھائی چارے کو فروغ دینا چاہیے اور علاقے میں پائیدارامن کے قیام کے لئے ہم سب کو اپنے اپنے حصہ کا کردار ادا کرنا ہوگا۔رواداری انسانی عقل کے پیدا کردہ اہم ترین مفاہیم میں سے ہے۔ فلسفیانہ معنوں میں یہ ایثار اور دوسروں کی بہبود کے مفاہیم میں سے ہے یعنی کہ اس کا تعلق تعمیر کی خاطر دوسروں کے ساتھ مل کر حصہ لینے کے ساتھ ہے جس میں کم سے کم زیادتی اور اختلاف واقع ہو۔کسی بھی شخص کو کسی صورت یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دوسرے شخص سے صرف اس وجہ سے بغض رکھے کہ اس کا تعلق دوسرے فرقے سے ہے یا وہ کسی دوسرے مذہب پر ایمان رکھتا ہے۔ انسان یا ہم وطن ہونے کی حیثیت سے اس شخص کو جو تمام تر حقوق اور مراعات حاصل ہیں لازم ہے کہ وہ اس کے لیے بنا کسی خلاف ورزی کے محفوظ ہوں۔یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم انصاف ، محبت اور احسان کے لیے تنگ دلی پر مبنی معیار وضع کرنے پر قائل نہ ہوںبلکہ ہمیں چاہیے کہ رواداری کا بھی اضافہ کریں۔ یہ تمام وہ امور ہیں جن کی تعلیم مذہب دیتا ہے اور عقل جن کے ذریعے ہدایات دیتی ہے۔ فرد اور اس کے دیگر ساتھیوں کے درمیان تعلق کی طبیعت کے تناظر میں ہم سے یہ ہی مطلوب ہے۔ رواداری انسان اور اس کے گرد موجود دیگر افراد کے درمیان تعلقات کا فارمولا ہے۔ یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے اگر کوئی بھی معاشرہ اس پہلو کو کھو دے۔ قانونی راستوں کے بنا رواداری کو معاشرے اور لوگوں پر حکمرانی کرنے والا بنیادی اسلوب بنانا ممکن نہیں۔ اس کے لیے ایک پورا ادارہ ہونا چاہیے جس کے اپنے پروگرام ، منصوبے ، نظام اور ایجنڈا ہو۔رواداری کے مفہوم کو اس کی عملی صورت میں لیا جانا چاہیے سماجی آداب کا یہ رنگ حقیقتا منعکس ہوتا ہے اور آپ اسے لوگوں کے روز مرہ معمولات ، ان کی زندگی اور معاشرے میں ان کی نقل و حرکت میں دیکھتے ہیں۔ رواداری دوسرے کے ساتھ ایثار سے جوڑتی ہے۔ رواداری کسی مخصوص ذات کے حوالے سے نہیں ہوتی۔ انسان کے لیے رواداری اسی وقت ممکن ہے اگر وہ معاشرے کی تشکیل کا حصہ بننے والے افراد کے درمیان اپنے پورے وجود کو یقینی بنائے۔ بصورت دیگر اس کا وجود ناقص اور دراڑوں والا ہوگا۔ رواداری کے نتیجے میں معیشت ، سرمایہ کاری اور سیاست کی سطح پر بھی فائدہ پہنچنے گا۔ رواداری سے اقوام کا احیا ہوتااور افراد کی شخصیات سنورتی ہیں۔ اسلام رواداری، امن و سلامتی اور احترام انسانیت کا دین ہے، اسلامی شریعت اور اسلامی ضابطہ حیات کے مطابق اسلامی معاشرے کا ہر فرد بلاتفریق مذہب و ملت، عزت و مساوات اور بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے یکساں حیثیت کا حامل ہے۔رواداری، عدم تحمل کی ضد ہے یعنی کہ یہ صبر و تحمل اور برداشت کرنے کا دوسرا نام ہے، اسلام میں انسانیت اور مذہبی رواداری کی بے شمار روایات ہیں جن سے بخوبی اندازہ ہوگا کہ اسلام ایک ایسا عالمگیر مذہب ہے جس میں انسانیت کے ساتھ حسن سلوک، انسانوں کی خدمت اور ان کی بہتری ہی سرفہرست ہے۔اسلام ایک ایسا دین ہے جو کسی بھی مذہب کو بری نگاہ سے نہیں دیکھتا بلکہ تمام آسمانی مذاہب کی تصدیق کرتا اور ان کے پیروکاروں کو مکمل آزادی دیتا ہے، قرآن کریم میں واضح حکم ہے کہ دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں، اسلام نے غیر مسلموں کے ساتھ عزت و احترام کا معاملہ کیا اور ان کا ہر طرح پاس و لحاظ رکھا، اگر انہوں نے اسلامی ریاست میں رہنا قبول کر لیا اور ان سے عہد وپیمان ہوچکا تو اب ان کی حفاظت مسلمانوں کی ذمے داری قرار پائی۔اگر کسی ملک میں مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم بھی رہتے ہیں تو مسلمانوں کو اسلام کی یہ ہدایت ہے کہ وہ امن و سلامتی، عدل و انصاف، مساوات و رواداری، ہمدردی و یکجہتی، فیاضی اور انسانیت نوازی پر مشتمل اسلامی تعلیمات سے غیر مسلم حضرات کو روشناس کرائیں اور انہیں موثر نصیحت اور حکمت کے ساتھ دین کی دعوت پیش کریں،لیکن کسی طرح دباﺅ ڈالنے اور زور و زبردستی کی کوشش نہ کی جائے۔اسلام سلامتی اور ایمان امن سے عبارت ہے، یہ دین انسانیت اور امن و سلامتی کا علمبردار ہے، دنیا کے تمام مذاہب میں اسلام کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس کی اساس اور بنیاد امن و سلامتی اور مذہبی رواداری پر قائم ہے،اسلام تمام انسانوں کے مذہبی معاملات کو تسلیم کرنے کے ساتھ ان کی صحیح رہنمائی کا حکم بھی دیتا ہے، یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اسلام رواداری، امن و سلامتی اور احترام انسانیت کا درس دیتا ہے، یہ دنیا کا واحد مذہب ہے جس نے پرامن بقائے باہمی کا درس دیا، یہ مکالمے اور دلیل کی بنیاد پر دین کی دعوت دیتا ہے، اسلام دیگر مذاہب کے حوالے سے احترام کی تعلیم دیتا، تمام انبیائے کرام حتی کہ تمام مذاہب کے علمبرداروں کے ادب و احترام کا درس دیتا ہے۔ انسانوں کی تباہی و بربادی کا سب سے بڑا سبب عدم برداشت، رواداری سے احتراز اور تحمل و بردباری سے گریز رہا ہے۔اسلام اپنے افکارونظریات کو بزور طاقت مسلط کرنے اور اپنے مذہب و تہذیب میں دوسروں کوضم کرنے کی کوشش کرنے سے منع کرتا ہے۔ہر انسان کو خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہواپنی اپنی عبادت گاہوں سے والہانہ عقیدت ہوتی ہے،ان کے مسمار کر دینے سے ان فسادیوں کے تئیں اس کے دل میں نفرت و عداوت کا شعلہ بھڑکتا رہتا ہے، جب بھی اسے موقع ملتا ہے اس کے جذبات مشتعل ہوجاتے ہیں اور وہ تشددو فساد پر ا ترآتا ہے،جس سے پورا شہر اور ملک دہشت و فساد کا شکار ہوجاتا ہے۔اسلام تمام انسانوں کے مذہبی معاملات کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی صحیح رہنمائی اور خدائی نظام کی دعوت دینے کا حکم بھی دیتا ہے؛ تا کہ انسان کو دنیا میں امن و سکون حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی پر سکون زندگی نصیب ہو۔دنیا کے ذخیرہ اخلاق میں مذہبی رواداری کے تعلق سے یہ بات نادر الوجود ہے کہ اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب نے دشمنوں، بطور خاص مذہب و عقیدہ کی بنیاد پر جانی دشمنوں کے ساتھ عفو و درگزرکے برتاﺅ کو لازمی قرار دیا ہو۔اسلام نے بلا تفریق مذہب وملت انسانی برادری کا وہ نقشہ کھینچا ہے، جس پر سچائی سے عمل کرلیا جائے تو یہ شر وفساد ،ظلم و جبر اور بے پناہ انارکی سے بھری ہوئی دنیاجنت نشان بن جائے،محض انسانیت کی بنیاد پر تعلق و محبت کی جو مثال اسلام نے قائم کی ہے د نیا کی کسی تعلیم،کسی مذہب اور کسی مفکر کی وہاں تک رسائی نہ ہو سکی۔اسلام کی دی ہوئی رافت ورحمت کی تعلیم میں انسان کے ساتھ جانوروں اور کیڑوں مکوڑوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔رواداری اور احترامِ باہمی پر مبنی انسانی تعلقات کی استواری کسی بھی معاشرے میں خوشحالی، امن، استحکام اور ترقی کی ضامن ہوتی ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں انتشار اور بدامنی کی بڑی وجہ عدمِ برداشت ہے۔ مذہبی انتہاپسندی اور فرقہ واریت کے ساتھ ساتھ علاقائی تعصبات ہماری ملی وحدت اور یگانگت کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہوئے ہیں۔ حالیہ چند سالوں میں عالمی سطح پر بھی اِنتہا پسندی کے رجحانات میں شدت آئی ہے، جس کی بڑی وجہ مذہبی منافرت اور عدمِ برداشت کے پھیلتے ہوئے رجحانات ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ نوعِ انسانی کے لیے رواداری اور باہمی تعلقات میں بردباری کی جتنی اہمیت آج محسوس کی جا رہی ہے اتنی شاید تاریخ کے کسی دور میں نہیں تھی۔ اس کی ایک بڑی وجہ دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی اور ذرائع مواصلات کی تیز تر ترقی ہے جس نے مختلف خطوں کے انسانوں کو باہم قریب لا کھڑا کیا ہے۔اس لےے اخوت و بھائی چارہ ہی آج ہماری بقا ضامن بن سکتا ہے ۔

۔