وزیر اعلی گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے کہا ہے کہ دیامر کے عوام کا مطالبہ تھا کہ دہشت گردوں کو قانون کی گرفت میں لائیں۔ بے گناہوں کو تنگ نہ کریں۔ ٹارگٹڈ آپریشن کے دوران چند لوگوں کی جانب سے مزاحمت ہوئی دوفیصد لوگ دیامر کے امن کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔ ہم بدامنی کی اجازت نہیں دیں گے، چلاس میں گرینڈ جرگے سے خطاب کرتے ہوئے حاجی گلبر خان نے کہا کہ علماکوہستان نے دہشت گردی کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ علمااور عمائدین سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ اپنے علاقے اور گھروں کو بچائیں۔ دیامر کو چند لوگوں نے بدنام کررکھا ہے اور یہی دہشت گرد علاقے کی ترقی کے دشمن ہیں۔ علمائ، عمائدین اور ہم سب نے مل کر علاقے کو پرامن بنانا ہے اور دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہے۔ امن کیلئے بحیثیت قوم ہم سب کو قربانی دینی ہوگی اور ہر ایک کو دہشت گردی کے لعنت سے پاک کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ادھر حسینؑ امن کا پیغام کے عنوان سے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے رکن گلگت بلتستان اسمبلی راجہ زکریا نے کہا کہ کہ ہمیں آپس میں اتفاق و اتحاد سے رہنے کی ضرورت ہے۔ روز محشر وہی جنت میں جائےگا جو تقوی اور پرہیزگار ی کرےگا۔ انسان کو جنت اور جہنم بانٹنے کا کوئی اختیار نہیں۔ ہمیں اہل بیت کا دامن تھامے رکھنا ہے اسی میں نجات اور فلاح ہے۔ حکومت مختلف محلوں کے افراد کو اور بالخصوص سولہ سے پےنتےس سال تک کے نوجوانوں کو آپس میں بٹھانے میں اپنا کردار ادا کرے آپس میں اتحاد اور اتفاق کو فروغ دینے کےلئے کمیٹیاں قائم کی جائیں۔ اس موقع پر دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا اور کہا کہ ماضی میں ہمارے بزرگان آپس میں بھائی بھائی کی طرح رہتے تھے۔ ایک دوسرے کے گھر آنا جانا کرتے تھے ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے عقیدے سے محبت کریں اور دوسرے کے عقیدے کا احترام کریں ۔اس ازلی و ابدی حقےقت سے انکار نہےں کےا جا سکتا کہ قوموں کا عروج و زوال، اقبال مندی و سربلندی، ترقی، تنزلی اور خوشحالی میں اتفاق واتحاد، باہمی اخوت و ہمدردی اور آپسی اختلافات و انتشار اور تفرقہ بازی، باہمی نفرت و عداوت بہت اہم رول ادا کرتے ہیں۔چنانچہ ہمیں یہ بخوبی معلوم ہو جاتا ہے کہ جب تک مسلمانوں میں اتفاق و اتحاد قائم رہا اس وقت تک وہ فتح و نصرت اور کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوتے رہے اور جیسے ہی مسلمان اتفاق و اتحاد کے دامن کو چھوڑ کر اختلاف و انتشار میں لگے تب سے ہی شکست اور ناکامی اور طرح طرح کے مسائل ان کا مقدر بن گئی۔ امت مسلمہ کے درمیان اتفاق واتحاد کی دو مضبوط بنیادیں موجود ہیں۔ بیشک اتحاد و اتفاق کسی بھی قوم کی ترقی و اعلی اہداف کے حاصل کرنے اور سربلندی و سرخروی کیلئے بہت اہم اور ضروری ہے، یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ اجتماعیت اسلام کی روح ہے، اتحاد اور آپسی محبت کے بغیر مسلمان اسی طرح ہے جیسا کہ بغیر روح کے انسان کا جسم۔علاقہ،نسل، رنگ، ملک، قوم، وطن، زبان،خاندان،حسب و نسب وغیرہ کی بنیاد پر گروہ بندی ہی عصبیت ہے۔ ا گر کسی فرد یا گروہ کی کسی تقریر، تحریریا عمل سے عصبیت کی بو آئے تو اسے فوری طور پر روکنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے کہ ایک آدمی کی شورش بھی بڑی چیز ہے۔دیا سلائی کی ایک سلائی پوری دنیا کو جلا سکتی ہے، ٹھیک اسی طرح ایک انسان بھی پوری دنیا میں فتنہ برپا کر سکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ عصبیت سے پوری طرح بچا جائے نیز ہر حال میں اتحاد کو قائم و دائم رکھا جائے کیونکہ یہ ایسی اجتماعی ضرورت ہے، جس کے بغیر کسی بھی خاندان و قوم کی بقا و ترقی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔اتحاد کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ عصبیت ہے، یہ جذبات کو منفی سمت میں پروان چڑھاتی ہے۔ یہ اندھی ہوتی ہے، یہ عقل کو ماﺅف اور مفلوج کرتی ہے، یہ تفریق پیدا کرتی ہے۔عصبیت اتحاد کی ضد ہے، جہاں عصبیت ہوگی، وہاں اتحاد قائم نہیں رہ سکتا، جہاں اتحاد ہوگا، وہاں عصبیت کا گزر نہیں ہو سکتا۔جس طرح ایک ایک اینٹ جوڑ کر عمارت بنائی جاتی ہے اسی طرح ایک ایک فرد مل کر معاشرہ بنتا ہے اور جس طرح ہر اینٹ دوسری اینٹ کو سہارا دیتی ہے اور عمارت بلند اور مضبوط ہوتی چلی جاتی ہے ۔ اسی طرح پورے اسلامی معاشرے میں ہر فرد کو وہی کردارادا کرنا چاہیے جو ایک مضبوط عمارت کی ہر اینٹ اس عمارت کے استحکام اور اس کی بقا کیلئے اپنا فرض ادا کرتی ہے۔ہم جانتے ہےں کہ سیاسی انتہا پسندی و فرقہ واریت نے ہمیں اندر سے کھوکھلا اور کم زور بنا دیا ہے جس کی وجہ سے دنیا میں ہماری وقعت نہیں رہی۔اسلام واضح طور پر ہمےں ےہ تعلےم دےتا ہے کہ آپس میں نہ جھگڑو، ورنہ تمہارے قدموں میں لغزش پیداہوجائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی، جب لوگ گروہ بندیوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں تو ان سے سنجیدگی اور اعتدال کا دامن چھوٹ جاتا ہے پھر وہ بے راہ روی کے شکار ہوجاتے ہیں۔ جب اختلاف بڑھتا ہے تو اس کی خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی جاتی ہے اور آدمی کے حواس پر اس کے اثرات اس حد تک چھا جاتے ہیں کہ وہ نقطہ اتحاد کو بھول جاتا ہے اس کی نظر میں اسلامی اخلاق کی ابتدائی چیزیں بھی نہیں آپاتیں جس کی وجہ سے اس کا معیار فکر بدل جاتا ہے پھر اس سے وحدت امت کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ سپین کے مسلمانوں نے جس وقت مسیحی قوتوں سے شکست کھائی اس وقت وہ علم و تہذیب اور سائنس و ٹےکنالوجی کے میدان میں اپنے حریف سے بدرجہا بڑھے ہوئے تھے اس کے باوجود ان کے شکست و ریخت کی وجہ یہ تھی کہ عیسائی باہم متحدومنظم تھے جب کہ مسلمان فرقوں اور جماعتوں میں بٹ گئے، امرا وعمال نے مرکز سے بغاوت کرکے اپنی چھوٹی چھوٹی خود مختار حکومتیں قائم کرلی تھیں ۔اب وقت آگیا ہے کہ تمام خود غرضیوں اور مصلحتوں سے اوپر اٹھ کر ملت اسلامیہ کے اتحاد میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔موجودہ حالات سے نمٹنے کیلئے اتحاد واتفاق کی ضرورت ہے،عوام سمےت سیاسی جماعتیں ملک کی وسیع تر مفاد میں اتحاد واتفاق کامظاہرہ کرتے ہوئے صبر وتحمل کامظاہرہ کرےں،پاکستان احتجاج،امن وامان کی ابتر صورتحال سمیت منفی اثرات مرتب کرنے والی سرگرمیوں کا متحمل نہیں ہوسکتا، پاکستان کو ترقی وخوشحالی کی پٹڑی پر لانے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔پاکستان کو درپیش مشکلات ومسائل کے حل کیلئے تمام تر اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اتحاد واتفاق سے ان مسائل کے حل کیلئے جدوجہد کرنے اس دلدل سے نمٹنے کیلئے واحد راستہ اتفاق ہے۔ اس اختلاف نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے، اس سے ہماری داخلی قوت کمزور ہوئی ہے۔یہ قوم اتحاد اور یکجہتی کی صورت میں ہر برائی کا انسداد کرسکتی ہے۔ اس قوم کو اپنے اجتماعی کردار کو تشکیل دینا ہوگا۔ ہم اقوام عالم میں سے کسی قوم کی آج تعریف کرتے ہیں۔ وہ جھوٹ نہیں بولتے اور وہ دھوکہ نہیں دیتے اور اشیا میں ملاوٹ نہیں کرتے، مگر سوال یہ ہے کہ ساری دنیا میں اور اقوام عالم میں ہماری اجتماعی پہچان کیا ہے اور ہمارا اجتماعی کردار کیا ہے۔اس لےے اپنی اجتماعیت اور اپنی قومیت کو پھر سے دوبارہ زندہ کریں، ہم سب اہل وطن باہم اتحاد و اتفاق اور اکٹھا و یکجا ہونے کی بنیادیں تلاش کریں جو ہم کو پھر سے ایک قوم بنادیں اور پھر سے ہم کو ایک اخوت اسلامی کی لڑی میں پرودیں اور ہم ایک دوسرے سے اخوت کا اظہار کریں، ایک دوسرے سے محبت اور مودت کا برتاﺅ کریں، ایک دوسرے کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھیں باہم اتحاد اور اتفاق کو اپنی قوت بنائیں۔ ہم نے اپنے سیاسی مفادات کے حصول کےلئے اخوت اسلامی کو علاقائی تعصب کے ذریعے کمزور کیا، مسلمان ہونے اور پاکستانی ہونے کو چھوڑ کر متعصب و علاقائی پہچانوں میں گم ہوگئے۔ ہمارے سیاسی رہبروں نے ہمارے ساتھ سیاسی رہزنی کی، ہمیں پاکستانی ہونے کی بجائے تقسےم کر دےا ۔ہر صوبے کا سیاسی لیڈر ہمارے جذبات سے کھیلتا رہا۔ ہم ان نعروں کے ذریعے اپنی قوم کے جذبات سے کھیلتے رہے اور اپنے سیاسی مفادات حاصل کرتے رہے۔ہمارے معاشرے میں اب تک سب سے بڑا اثر ہمارے سیاستدانوں اور مذہب پرستوں کا رہا ہے۔ اس لیے ہماری قوم کی تقدیر اور ہماری قوم کا مستقبل ہمارے سیاستدانوں اور مذہب پرستوں کے ہاتھوں میں گروی ہے۔ان دونوں طبقات کو بھی قوم کی تقدیر سنوارنے کے لیے آنا ہوگا۔ دونوں طبقات نے اپنے سیاسی مفادات اور اپنے مذہبی مفادات خوب سمیٹ لیے ہیں۔ اب ان کو قوم کے مفاد کے لیے آگے بڑھنا ہوگا۔ اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات سے کنارہ کش ہونا ہوگا۔ہمےں چاہےے کہ اخوت اسلامی کی فصل اگائی جائے۔ نسلی، لسانی، علاقائی تعصبات کا قلع قمع کیا جائے۔ قوم کو پھر اکٹھا کیا جائے۔ قوم کے مشترکات کو ابھارا جائے، نفرت اور منافرت کے پہلووں کو دبایا جائے، محبت و یگانگت کے جذبات کو فروغ دیا جائے قوم کی وحدت اور یکجہتی کی بات کی جائے انتشار اور تفرقے کی ہر صورت کا خاتمہ کیا جائے۔
