حکومت نے عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی ایک اور اہم شرط پرعمل درآمد کرتے ہوئے بجلی کے بنیادی ٹیرف میں اضافہ کردیا، وفاقی کابینہ نے سرکولیشن کے ذریعے بجلی کے بنیادی ٹیرف میں اضافے کی منظوری دی۔ وفاقی کابینہ نے گھریلو صارفین کے لیے بجلی کا فی یونٹ بنیادی ٹیرف تقرےبا انچاس روپے تک مقررکردیا، تاہم اٹھارہ فیصد سیلز ٹیکس کے بعد فی یونٹ بنیادی ٹیرف ستاون روپے سے بڑھ جائے گا، جب کہ ایڈجسٹمنٹ اور دیگر ٹیکسز ملاکر فی یونٹ بجلی کا زیادہ سے زیادہ ٹیرف پےنسٹھ روپے سے زیادہ میں پڑے گا۔چودہ جون کو نیپرا نے بجلی کے بنیادی ٹیرف میں 5.72 روپے فی یونٹ اضافے کی منظوری دی تھی، ٹیرف میں اضافہ مالی سال 2024-25 کے لیے کیا گیا تھا۔ نیپرا نے بجلی کے ٹیرف میں اضافے کا فیصلہ وفاقی حکومت کو بھجوا دیا تھا، اور اب حکومت کی منظوری کے بعد اس فیصلے کا اطلاق ہو جائے گا۔نیپرا کا کہنا تھا کہ بجلی کے بنیادی ٹیرف میں اضافے کا اطلاق یکم جولائی 2024 سے ہوگا، تاہم اس کا حتمی فیصلہ وفاقی کابینہ نے کرنا ہے کہ یہ اضافہ ایک ساتھ کیا جائے یا پھر مرحلہ وار کیا جائے گا۔آئی ایم ایف شرائط کے تحت وفاقی حکومت کو دس جولائی تک بجلی کے بنیادی ٹیرف میں اضافہ کرنا ہوگا۔نیپرا کے فیصلے کے مطابق بجلی کے بنیادی ٹیرف میں اضافے سے بجلی صارفین پر تقریبا 600 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا- اس کی بنیادی وجہ گزشتہ تین دہائیوں کی بدانتظامی اور توانائی کی غلط پالیسیاں ہیں۔بجلی کے ان 32.5 ملین صارفین میں سے چھبےس ملین گھرانے کم درمیانی آمدنی والے طبقے کے زمرے میں آتے ہیں۔ واضح رہے کہ پہلے ہی حکومت نے رہائشی بجلی صارفین کو دو سو روپے سے ہزار روپے فی یونٹ ماہانہ چارجز عائد کیے ہیں۔ماضی کے برعکس جب سمری پہلے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے پاس جاتی تھی، اس بار وزارت توانائی نے خاموشی سے سمری کو وفاقی کابینہ میں ارسال کیا اور سرکولیشن کے ذریعے اس کی منظوری مانگی۔درےں اثناءجماعت اسلامی نے مہنگی بجلی کے خلاف بارہ جولائی کو اسلام آباد میں دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے۔منصورہ میں نیوز کانفرنس کے دوران امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ حق دو تحریک کا آغاز کر دیا ہے، حکومت کو ظالمانہ ٹیکس ختم کرنے پر مجبور کردیں گے۔حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ اب دھرنے میں بیٹھ کر ہی حکومت سے بات کریں گے۔حےرت اس بات پر ہے کہ بات بات پر دھرنے دےنے‘ جلوس نکالنے‘ لانگ مارچ کرنے والی سےاسی جماعتےں مہنگائی، بیروزگاری، معاشی بدحالی اور بجلی کے بلوں میں ظالمانہ اضافہ پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ حکومتی دعوووں کے باوجود لوڈشیڈنگ کا عذاب جاری ہے۔ مہنگی بجلی، اوور بلنگ نے عوام کی زندگی اجیرن بنا دی۔بجلی کے بل میں فی یونٹ کی قیمت استعمال کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہے۔ یعنی جیسے جیسے استعمال شدہ یونٹ بڑھتے جائیں گے، ویسے ہی یونٹ کی قیمت بھی بڑھتی رہتی ہے۔ بجلی کے بل میں ایک حصہ بجلی فراہم کرنے والی کمپنی کو واجب الادا رقم ہوتی ہے جبکہ دوسری طرف براہ راست حکومتی محصولات ہوتے ہیں جو بجلی کے بل کے ذریعے صارف سے وصول کیے جاتے ہیں۔بجلی کی قیمت کے علاوہ بل میں ایک اہم چیز فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ ہے جو بجلی پیدا کرنے کے ذرائع یعنی ایندھن جیسا کہ کوئلہ، فرنس آئل یا گیس کی لاگت پر منحصر ہوتی ہے جس کا تخمینہ ہر ماہ لگایا جاتا ہے اور پھر صارف سے وصول کر لیا جاتا ہے۔دوسری جانب فنانسنگ کاسٹ سرچارج کی مد میں فی یونٹ 0.43 پیسے صارفین سے وصول کیے جاتے ہیں جو دراصل گردشی قرضے کو کم کرنے کے لیے لگایا گیا ہے۔ کے الیکٹرک کی جانب سے جارہ کردہ بلوں میں یہ رقم پی ایچ ایل ہولڈنگ کے نام پر لی جاتی ہے۔اسی طرح سہ ماہی یا کوارٹرلی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ یا ڈی ایم سی کی مد میں بھی صارفین سے اس وقت پیسے وصول کیے جاتے ہیں جب حکومت بجلی کی قیمت میں رد و بدل کرتی ہے۔دوسری جانب چند اخراجات یا ٹیکس ایسے ہیں جو براہ راست حکومت کی جانب سے عائد کیے جاتے ہیں اور ان کا بجلی فراہم کرنے والی کمپنی سے کوئی براہ راست تعلق نہیں ہوتا۔اگر لیے جانے والے بل کی بات کریں تو اس میں سب سے زیادہ ٹیکس جنرل سیلز ٹیکس کی مد میں وصول کیا جا رہا ہے جو 18 فیصد کے حساب سے ہے۔اگر آپ ٹیکس فائلر نہیں ہیں، تو بجلی کے بل میں انکم ٹیکس بھی لگ کر آئے گا۔پچےس ہزار روپے سے زیادہ کے بجلی کے بل پر ہی انکم ٹیکس لگتا ہے اور یہ مجموعی بل کی لاگت کا ساڑھے سات فیصد ہوتا ہے۔اسی طرح حکومت دو اور مدوں میں بھی صارف سے براہ راست پیسے وصول کرتی ہے جن میں سے ایک تو فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے اوپر لگایا جانے والا جی ایس ٹی ہے اور دوسرا ٹی وی فیس ہے۔بجلی کی قیمت میں اضافہ حکومت کی نااہلی کا ثبوت ہے، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں اور ترسیلی نظام میں اصلاحات کیے بغیر یہ بوجھ عوام پر ڈالا جا رہا ہے۔گزشتہ پانچ سال سے عام آدمی کے بجلی کے استعمال میں کمی ہو رہی ہے، بجلی کم استعمال کرنے کی وجہ سے پاکستان کی معاشی شرح نمو بھی کم ہوتی جار ہی ہے۔ موجودہ حالات میں ملکی برآمدات عالمی مارکیٹ میں دیگر ممالک کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے فیکٹریوں سے نوکریاں ختم ہوں گی، مزید سرمایہ کاری نہیں ہو گی اور برآمدات کم ہوں گی۔ ایک جانب تو ملک میں بجلی کے بلوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ مگر دوسری جانب اس کے باوجود بجلی کے شعبے میں گردشی قرضے میں بھی اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور پاور سیکٹر میں گردشی قرضہ مسلسل بڑھ رہا ہے ۔بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے ذریعے گردشی قرضہ ختم کرنے کی پالیسی نتیجہ خیز نتائج دینے میں ناکام رہی ہے۔ چوری اور لائن لاسز سے نمٹنے کی حقیقی معنوں میں کوششیں نہیں ہو رہیں۔ جب کہ زیادہ بلوں اور کم آمدنی کی وجہ سے ڈسٹریبیوشن کمپنیوں کی وصولیاں بھی مسلسل کم ہو رہی ہیں لیکن حکام اس مسئلے کا حل نکالنے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔ آئی ایم ایف نے جنوری میں جاری رپورٹ میں حکومت سے توانائی کے سیکٹر میں ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ وسیع پیمانے پر اصلاحات کا بھی مشورہ دیا تھا جس کے لیے ملک میں بجلی کی ڈسٹریبیوشن کمپنیوں کی کارکردگی کو بہتر بنانا، ٹرانسمیشن لائنز کی بہتری، اداروں کے نقصانات کو کم کرنا، ان کمپنیوں کی مینجمنٹ کو پرائیوٹائز کرنا شامل ہے۔بجلی پیدا کرنے والے نجی بجلی گھروں سے ٹیرف پر دوبارہ بات چیت کرنے کا بھی مشورہ دیا گیا تھا تاکہ بجلی کی پیداواری قیمت کو کم کیا جا سکے جب کہ فنڈ کی رپورٹ میں توانائی کے قابل تجدید ذرائع پر زیادہ انحصار کرنے کا مشورہ بھی شامل ہے۔یہ اضافہ کسی صورت بھی قابلِ قبول نہیں کیوں کہ اس سے نہ صرف کاروباری لاگت مزید بڑھے گی بلکہ عام آدمی کی مشکلات میں بھی اضافہ ہو گا جو مہنگائی کے موجودہ دور میں کسی نہ کسی طرح مشکل سے اپنا گزارا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔عام صارف تو پرےشان ہے ہی کاروباری طبقہ بھی پہلے ہی زائد لاگت کی وجہ سے اپنی بقا قائم رکھنے کے لیے سخت جدوجہد کر رہا ہے کیوں کہ پاکستانی اشیا بین الاقوامی منڈیوں میں مسابقتی اور عام آدمی کے لیے ناقابل برداشت ہو گئی ہیں۔ ریگولیٹر بے خوفی اور بے رحمی سے ٹیرف میں اضافہ کر تا چلا جارہا ہے اس سے قطع نظر کہ ان کے اقدامات کے نتیجے میں معیشت، تجارت و صنعت اور غریب عوام کی زندگیوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ ان کےلئے بھاری بھرکم بجلی کے بل ادا کرنا ناممکن ہوگیا ہے۔بجلی کے ناقابلِ برداشت بھاری بل خوف ناک صورتِ حال پیدا کر رہے ہیں جس میں صنعت کاروں کو اپنے یونٹس کو فعال رکھنا ناممکن لگتا ہے بلکہ بہت سی چھوٹے پیمانے پر صنعتیں یعنی ایس ایم ایز مکمل طور پر بند ہو چکی ہیں۔ بڑی صنعتوں نے بھی اپنی سرگرمیاں کم کر دی ہیں جس کے نتیجے میں درحقیقت پورے ملک میں لاکھوں افراد بے روزگار ہو چکے ہیں۔ بڑی تعداد میں لوگ اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھنے اور بجلی کے ناقابلِ برداشت بلوں کو دیکھ کر ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا کہ وہ بجلی کے بل ادا نہ کریں اور کنڈا لگانے پر مجبور ہو جائیں۔ بجلی منقطع کرنے کے لیے آنے والے بجلی عملے کا سامنا کریں یا پھر سڑکوں پر نکل کر احتجاج کریں جس سے امن و امان کی صورتِ حال خراب ہو سکتی ہے اور معاشرے کا سارا نظام برباد ہو جائے گا۔
