جدید علوم کی اہمیت و افادیت

چیف سیکرٹری گلگت بلتستان ابرار احمد مرزا نے روپانی فاﺅنڈیشن کے زیر اہتمام گلگت بلتستان رورل سپورٹ پروگرام اور محکمہ تعلیم گلگت بلتستان کے تعاون سے منعقدہ ضلع گلگت کے مختلف اسکولوں کے جماعت ششم سے ہشتم تک کے طلبا کے STEAM، کمپیوٹر اور انٹرپرینورشپ کے حوالے سے تیارکردہ پراجیکٹس اور ماڈلز کی نمائش میں شرکت کی۔ حکومت گلگت بلتستان نے روپانی فاﺅنڈیشن کے تعاون سے دو سال قبل سرکاری سکولوں کے طلبا کی صلاحیتوں کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کیلئے سٹیم، کمپیوٹر اور انٹرپرینیورشپ پراجیکٹ شروع کیا تھا جس کا مقصد طالب علموں کی تخلیقی صلاحیتوں اور مہارتوں کو نکھارنا اور انہیں مصنوعی ذہانت، انٹرپرینورشپ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی جدید سہولیات سے روشناس کرانا تھا۔ اس منصوبے کے تحت گلگت بلتستان کے سرکاری سکولوں کے بچوں کیلئے سٹیم، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور انٹرپرینورشپ کے حوالے سے سہولیات فراہم کی گئیں اور تربیتی پروگرام کا انعقاد کیا جس کے بعد گزشتہ دو سالوں میں سرکاری سکولوں کے طلبا کے سیکھنے کی صلاحیتوں میں بھی غیر معمولی نتائج سامنے آئے ہیں۔چیف سیکرٹری نے گلگت بلتستان کے طلبا کو ملک کا روشن مستقبل قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہاں کے طلبا ملک کا قیمتی اثاثہ ثابت ہونگے اور اپنی محنت اور لگن سے خطے سمیت ملک کی ترقی کا پیش خیمہ ثابت ہونگے۔ صوبائی حکومت طلبا کو مستقبل کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے اور جدید علوم اور مہارتوں سے لیس کرنے کیلئے تمام وسائل بروئے کار لائے گی۔جدےد علوم کی اہمےت بلاشبہ مسلمہ ہے لےکن یہ دور معلومات کی ہرطرف سے بوچھاڑ تو کررہا ہے لیکن علم کے خانے کو خالی چھوڑے ہوئے ہے، معلومات اور علم کے فرق کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ محض معلومات سے شخصیت کے جوہر نہیں کھلتے علم کے حصول اور اسے انگیز کرنے سے کھلتے ہیں کہ معلومات سے صرف حافظہ کا تعلق ہے جبکہ علم ذہن کو روشنی، روشن خیالی، عصری سوچ، بھائی چارہ اور شخصیت کو توانائی عطا کرتا ہے۔ ایسا علم اگر ہمیں سائنس و ٹیکنالوجی سے یا طب و انجینئری سے، تاریخ و فلسفہ کے اسباق سے ، یا زبان وادب کے دروس سے بھی جوڑے رکھے۔ اگر یہ تمام علوم و فنون انسان کو اس مقصد تک پہنچانے میں مفید و مددگار ثابت ہوتے ہیں توبلاشبہ یہ علوم و فنون حاصل کرناچاہئےں۔آج کے اس ترقیاتی دور میں بھی روز بہ روز نئی نئی ایجادات ہورہی ہیں۔ آئے دن ایک سے بڑھ کر ایک سہولیات کی چیزیں دستیاب ہورہی ہیں۔ لیکن تعلیم کا نہ کوئی متبادل آج تک پیدا ہوا اور نہ ہی مستقبل میں پیدا ہوگا۔ اس لیے ہمیں دین و دنیا کی ترقی و کامیابی کے حصول کے لیے تعلیم حاصل کرنا ہی ہوگی۔ تعلیم انسان کا بیش قیمت زیور ہے۔ تعلیم انسان کو صحیح معنوں میں انسان بناتی ہے۔تعلیم ہی اندھیری راہوں کو روشن کرتی ہے۔ علم نے ہی انسانیت کو اس کا مقام عطا کیا ہے۔ انسان کو شرف و منزلت تعلیم نے ہی بخشا ہے۔ تعلیم نے بدترین خلائق کو بہترین خلائق بنایا۔ چنانچہ انسان کو اپنے مقصد کے حصول کے لیے تعلیم و تربیت حاصل کرنا انتہائی لازمی و ضروری ہے اور ویسے بھی تعلیم و تربیت کا آپس میں گہرا تعلق ہے جو ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہے۔ قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ میں اگر کسی ایک موثر ترین تاریخ ساز عامل کی تلاش کی جائے تو یہ بات بلاخوف تردید کی جا سکتی ہے کہ اس میں سرفہرست تعلیم آتی ہے۔ تعلیم ہر زمانے ہر دور میں انسانوں کی ترقی کے لیے اہم رہی ہے۔ تعلیم ہی انسانوں کو مالکِ حقیقی کی پہچان کراتی ہے۔ زندگی بسر کرنے کے اطوار و عادات دیتی ہے۔ آج تک دنیا میں تعلیم یافتہ اقوام نے ہی حکومت کی ہے۔مختلف علوم کے ارتباط کا ایک سبب بڑھتی ہوئی عالمگیریت، بازار کی معیشت کے پھیلاﺅ اور ان کے نتیجے میں مقابلہ آرائی کی اس فضانے بھی فراہم کردیا جس میں ہر کوئی خود کو دوسرے کے مقابلے میں زیادہ بہتر امیدوار باور کرانے کی مشق میں مصروف رہتا ہے۔آج اگر بزنس ایڈ مینسٹریشن اور اطلاعات کی ٹیکنالوجی کے سرکردہ ترین غیر ملکی اور ملکی ادارے سماجی علوم کو شاملِ نصاب کررہے ہیں تو اس کا ایک سبب اپنے فارغ التحصیل طلبہ کو ملازمت کے بازار میں اضافی قدرکے ساتھ پہنچانا ہے۔آج یورپ، امریکہ اور مشرقِ بعید کے بہت سے ملکوں کی جامعات میں ایک سے زیادہ زبانوں کے جاننے والوں اور ان کی تعلیم کو خصوصی اہمیت دی جارہی ہے۔ یہ چیز صرف زبانوں کی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ بڑی بڑی جامعات میں کسی ایک شعبے میں ڈگری حاصل کرنے والے طالبعلم کو دوسرے شعبوں سے بھی مضامین کو منتخب کرنا پڑتا ہے۔ یہ رجحان عام جامعات ہی میں نہیں بلکہ میڈیسن، انجینئرنگ، بزنس ایڈمنسٹریشن اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے لیے مخصوص جامعات میں بھی بڑی تیزی کے ساتھ ترویج پارہا ہے۔ہم عصر دنیا میں عالمگیریت اور گلوبلائزیشن کے زیر اثربازار کی معیشت جس طرح تیزی سے دنیا کے مختلف خطوں پر اپنی عملداری قائم کررہی ہے ، اس میں تعلیم کا مقصد بھی اس معیشت کی عالمگیریت کو پشت پناہی فراہم کرنا قرار پایا ہے۔ چنانچہ ایک اصطلاح عِلم بردار معیشت وضع کی گئی ہے، جس کا مطلب ہے کہ علم ہو ہی معیشت کے لیے اور معیشت بھی اپنے ارتفاع کے لیے علم سے بھرپور استفادہ کرے۔ علم اور تعلیم کو معیشت برداری کے لیے مختص کرنے کے جو منفی پہلو ہوسکتے ہیں وہ اپنی جگہ،لیکن ارتباط کے پیچھے کارفرما ہوجانے والے ایک نئے اور ہم عصر رجحان کی طرف اشارہ کرنا تھا۔سماجی علوم کی اہمیت کے ادراک اور ان علوم کے فروغ کے ضمن میں یہ بات بھی بنیادی اہمیت کی حامل ہے کہ کسی ملک کی ریاست اور معاشرے کا رویہ ان کی طرف کیا ہے؟سماجی علوم زیادہ تر تعلیمی و تحقیقی اداروں کے وسیلے ہی سے ترقی پاتے ہیں چنانچہ ان اداروں خاص طور سے جامعات کا سماجی علوم کے فروغ میں بڑا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ ہر سال سائنس کے مختلف شعبوں میں جو نوبل انعام دیے جاتے ہیں وہ کم و بیش سب ہی جامعات سے وابستہ اساتذہ ہی کے حصے میں آتے ہیں۔ دنیا کی بڑی جامعات اپنے سائنسدانوں، ماہرینِ معیشت ، مفکرینِ عمرانیات وغیرہ ہی کی نسبت سے پہچانی جاتی ہیں۔یونیورسٹیوں میں نئے علم کی تخلیق تو دور کی بات ، دنیا میں چھپنے والی نئی کتابوں اور تحقیقی جرائد میں جاری علمی مباحثوں تک سے مکمل لاعلمی کی فضا پائی جاتی ہے۔ چند ایک اساتذہ یقینا چند شعبوں میں نئی کتابوں اور جرائد سے واقفیت رکھتے ہوں گے لیکن یونیورسٹیوں کا عمومی ماحول نئے علم اور تحقیق سے لاتعلقی اور بے خبری کا ماحول بن چکا ہے۔پچھلے پچھتربرسوں میں علم پرور دانشوروں نے اس امر پر غور کیا کہ ملک میں سماجی علوم کی کیا صورت حال ہے، اور ہمارے یہاں اس قدر پس پشت کیوں ڈال دیے گئے ہیں؟آخر ایسا کیوں ہے؟ سماجی علوم ہمارے یہاں کیوں نمایاں نہیں ہو پا رہے اور ہماری جامعات اس ضمن میں بڑی حد تک بنجر کیوں نظر آتی ہیں؟ اسباب پر غور کریں تو پہلی بات تو یہی سامنے آتی ہے کہ سائنس ،بزنس ایڈمنسٹریشن اور آئی ٹی کے لیے تو شاید یہ اتنا ناگزیر نہ ہو لیکن سماجی علوم کے لیے بالکل ناگزیر ہے کہ ملک کے اندر ایسی جمہوری فضا اور جمہوری کلچر ہو جس میں مختلف نقطہ ہائے نظر کو نہ صرف برداشت کیا جائے بلکہ ان کی حوصلہ افزائی بھی کی جائے۔ تعلیم کا مقصد نامعلوم اشیا کو جاننا، پہچاننا اور سمجھنا ہے۔ تعلیم کا تعلق علم اور جاننے سے ہے اور تربیت کا تعلق علم مکمل کرنے سے ہے۔ تربیت سے مراد ضمیر اور سیرت و کردار ہے۔ علم کے حصول کے بعد انسانی برتاﺅ میں مثبت تبدیلی اس کے کردار و اخلاق میں نمایاں ہونا تربیت کہلاتا ہے۔ علم سے نیک، اچھے اور بلند خیالات پروان چڑھتے ہیں۔ ان ہی خیالات کو انسان اپنی زندگی میں ڈھالتا ہے۔ اسے ہی تربیت کہاجاتا ہے۔ دراصل علم، مہارتوں او رویوں کو نئی نسل میں منتقل کرنا تعلیم کہلاتا ہے۔ یہ ایک منظم و منصوبہ بند اور مسلسل کوشش کرنے کا نام ہے۔ جس کے ذریعے اطلاعات، تصورات، مہارتوں، رویوں یا عادات کی ترسیل و تشکیل عمل میں لائی جاتی ہے۔ یہ ایک مقام، ایک ماحول یا ایک فرد کی کوششوں کی بجائے مختلف قسم کے ماحولیات میں اور بہت سے افراد کی کاوشوں کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ کیونکہ تعلیم وہ اجتماعی عمل ہے جس کے ذریعے معاشرہ اور نسلوں کو دستورِ حیات سکھایا جاتا ہے۔بدقسمتی سے ہم پچھلے پچھتر برسوں سے سنگ و خشت سے جہاں پیدا کرنے کی بے کار مشق میں مصرو ف ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ آزادی کے بعد سے اب تک ہم نے اس حقیقی آزاد فضا کا تجربہ نہیں کیا جو جمہوریت کی دین ہوتی ہے اور جس میں معاشرے عقل و خرد اور روشن خیالی کے وسیلے سے نت نئے راستے تلاش کرتے ہیں۔ علم کی پرورش اور پرداخت بھی ایسی جمہوری فضا ہی میں ممکن ہے۔چونکہ ہمارے یہاں وہ فضا میسر نہیں رہی لہذا ہمارے سماجی علوم کے شعبے روایتی اور برسوں سے دہرائے جانے والے بیانیوں کی تکرار تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ کیا یہ بات قابلِ توجہ نہیں کہ ملک ہی سے باہر جانے والے اور باہر کی جامعات میں تعلیم حاصل کرنے ، وہاں پی ایچ ڈی کرنے اور پھر وہیں سے اپنی تحقیقات کو شائع کرنے والے ماہرینِ سماجی علوم نے باہر جاکر وہ نمایاں کام کیے جن کا وزن علمی دنیا میں محسوس کیا گیا۔