منشیات اور نئی نسل

ایم ڈبلیو ایم کے ترجمان حاجی غلام عباس نے کہا ہے کہ تمباکو منشیات کی جانب راغب ہونے کی پہلی سیڑھی ہے لہذا نوجوان نسل کو سگریٹ،چرس اور دیگر نشہ آور چیزوں سے روکنے کے لئے مختلف اداروں بالخصوص محکمہ صحت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر مشتمل ٹیم تشکیل دی جائے،نئی نسل کو منشیات کی لعنت سے بچانے کے لئے سخت اقدامات اٹھانے ہوں گے اور تمباکو کنٹرول ایکٹ 2020 پر فوری عملدر آمد وقت کی عین ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان میں تمباکو کا استعمال تشویشناک حد تک بڑھ چکا ہے تعلیمی ادارے تمباکو کے آسان ٹارگٹ ہیں جہاں زیر تعلیم طلبہ میں نشہ آور چیزوں کا استعمال دن بدن بڑھ رہا ہے۔ خصوصا سگریٹ اور چرس کے استعمال میں بے تحاشا اضافہ ہو چکا ہے۔ہماری نوجوان نسل ہمارا مستقبل ہے ہمیں اس پر سوچنا ہوگا کہ ہم اپنی نسل کو تمباکو اور منشیات سے کیسے دور رکھ سکیں۔ چھوٹے بڑے سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں منشیات کا استعمال تشوشناک ہے ۔لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوںبھی تیزی سے اس لعنت میں مبتلاہورہی ہےں ۔طلباکو پک اینڈ ڈراپ کرنیوالے ڈرائیورز سمیت تعلیمی اداروں کے قریب واقع دکانوں، کینٹین ،مختلف ٹھیلوں والے،ہوٹلوں، لانڈری اور باربر شاپس والے ملازمین وغیرہ منشیات سپلائی کر تے ہیں ،سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں نشے کا بڑھتا ہو ارحجان نئی نسل کو تباہ کر رہا ہے۔ ےونیورسٹےز ، کالجز دےگر تعلیمی اداروں میں خفیہ طور پر آئس نشہ تیار کر کے فروخت کیے جانے پر ذرائع کا کہنا ہے کہ غیرقانونی لیبارٹریوں میں تیار ہونے والا یہ نشہ دوسرے درجے کانشہ ہے جس جگہ پر یہ نشہ تیار کیا جاتا ہے وہاںاِس نشے کی ایک پڑیا ایک ہزار سے دوہزار روپے میں فروخت کی جاتی ہے جبکہ اصل تیارکردہ آئس نشے کی ایک پڑیا مارکیٹ میں 5سے 10ہزار روپے میں فروخت ہوتی ہے۔ سرکاری ہی نہیں نجی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں بھی طلباو طالبات کو کھلے عام نشہ دستیاب ہو تاہے۔ صرف لڑکے ہی نہیں لڑکیاں بھی اس لعنت کی لت میں مبتلا ہیں اور مہنگے نشے کی عادی ہو رہی ہیں۔طلباو طالبات چرس افیون ہیروئن شیشہ برشاشا شراب کوکین نشہ آورامپورٹڈ چیونگم استعمال کر رہے ہیں۔اس کے علاوہ طلبہ میں نشے کے انجکشن لگانے کا استعمال بھی بڑھ رہا ہے۔ نشے کی فروخت صرف یونیورسٹیوں تک محدود نہیں ہے بلکہ سرکاری و نجی کالجوں میں بھی نشے کی فروخت ہو رہی ہے۔خفیہ اداروں کی رپورٹ کے مطابق پبلک اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں ایک رپورٹ کے مطابق تعلیمی اداروں میں زیادہ تر پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں کچھ طلبہ و طلبات سگریٹ نوشی ، شراب اور شیشے کا استعمال کر رہے ہیں ۔ سکول ، کالج اور یونیورسٹی کے جنرل سٹورز، کینٹین ،فروٹ شاپس،ہوٹلز، لانڈری اور باربر شاپس پر کام کرنے والے ملازمین اپنے تعلیمی اداروں میں منشیات سمگل کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں بلکہ کچھ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے گارڈز بھی منشیات فروخت کرنے میں ملوث ہیں جبکہ طلباو طالبات کو پک اینڈ ڈراپ دینے والے ٹیکسی اوررکشہ ڈرائیورز بھی یہ کام بڑی مہارت کے ساتھ کرتے ہیں۔ جہاں تعلیمی طور پر کارکردگی دکھانے کا دباو، ساتھیوں کا اثر و رسوخ، اور نگرانی کی کمی طلبا کو منشیات کا تجربہ کرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم کے ایک سروے کے مطابق، پاکستان میں یونیورسٹی کے تقریبا 8 فیصد طلبا نے کم از کم ایک بار غیر قانونی منشیات کا استعمال کیا ہے، جن میں بھنگ سب سے زیادہ استعمال ہونے والا مادہ ہے۔ منشیات کا استعمال نہ صرف کسی فرد کی صحت اور تندرستی کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ ان کی تعلیمی کارکردگی، تعلقات اور مستقبل کے امکانات کو بھی متاثر کرتا ہے۔منشیات کی لت مجرمانہ سرگرمیوں، تشدد اور ایچ آئی وی اور ہیپاٹائٹس سی جیسی متعدی بیماریوں کے پھیلاﺅ کا باعث بن سکتی ہے۔ لہذا، منشیات کے استعمال کے خطرات کے بارے میں بیداری پیدا کرنا اور ان کی روک تھام، مداخلت اور علاج کی خدمات فراہم کرنا بہت ضروری ہے۔ لوگ پاکستان افغانستان سے دیگر ممالک کو اسمگل کی جانے والی منشیات کا ایک ٹرانزٹ پوائنٹ ہے، اور یہ ناجائز منشیات کا ایک اہم صارف بھی ہے۔ منشیات کی لت معاشرے کے تقریبا تمام طبقات بشمول طلبا اور پیشہ ور افراد میں پائی جاتی ہے۔پاکستان کے تعلیمی اداروں میں نوجوانوں میں منشیات کی لت میں کئی عوامل کارفرما ہیں، ہم عمر دباﺅ ایک اہم عنصر ہے جو نوجوانوں میں منشیات کی لت کا باعث بنتا ہے۔ طلبا جو اپنے ساتھیوں سے متاثر ہوتے ہیں وہ اکثر منشیات کا استعمال شروع کر دیتے ہیں تاکہ ان میں فٹ ہونے یا قبول ہونے کا احساس ہو۔ پاکستان کے بہت سے علاقوں میں منشیات آسانی سے دستیاب ہیں، جس کی وجہ سے طالب علموں کے لیے ان تک رسائی آسان ہے۔موثر قانون کے نفاذ اور ضوابط کی کمی نے مارکیٹ میں منشیات کی دستیابی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ تعلیمی دباﺅ، خاندانی مسائل، اور زندگی کے دیگر تناو طلبا کو منشیات کے ذریعے راحت حاصل کرنے کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ منشیات کا استعمال ان کے مسائل سے عارضی طور پر نجات فراہم کر سکتا ہے، جس کی وجہ سے نشے کی عادت بڑھ جاتی ہے۔ بہت سے طالب علم نشے کی لت کے نتائج سے واقف نہیں ہیں، اور نہ ہی وہ ان منفی اثرات سے واقف ہیں جو منشیات ان کی صحت، تعلیم اور مستقبل پر پڑ سکتے ہیں۔ منشیات کی لت تعلیمی میدان میں ایک بڑھتا ہوا مسئلہ ہے۔دنیا بھر کے تعلےمی اداروں میں منشیات کا استعمال نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ اس کے استعمال کرنے والوں، ان کے ساتھیوں اور مجموعی تعلیمی ماحول پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ منشیات کا استعمال، خواہ غیر قانونی ہو یا نسخہ، طالب علم کی تعلیمی کارکردگی، صحت، کو نمایاں طور پر متاثر کر سکتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں منشیات کی لت عام ہے، اور یہ کسی خاص عمر کے گروپ یا آبادی تک محدود نہیں ہے۔ بہت سے طلبا اپنے کالج کے سالوں کے دوران منشیات کا استعمال سماجی یا تناﺅ کو دور کرنے کے ایک ذریعہ کے طور پر کرتے ہیں، جو نشے کا باعث بن سکتا ہے۔تعلیمی اداروں میں منشیات کی لت کے استعمال کنندہ اور تعلیمی ماحول دونوں کے لیے اہم نتائج ہیں۔ سب سے پہلے اور سب سے اہم، نشے کا طالب علم کی تعلیمی کارکردگی پر سنگین اثر پڑ سکتا ہے۔ عادی طلبا کلاسز سے محروم ہو سکتے ہیں یا کورس ورک مکمل کرنے کے لیے جد وجہد نہیں کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں گریڈز خراب ہو سکتے ہیں اور یہاں تک کہ تعلیمی معطلی بھی ہو سکتی ہے۔منشیات کی لت ذہنی صحت اور جسمانی تندرستی کے بگاڑ کا باعث بن سکتی ہے، تعلیمی کامیابیوں میں مزید رکاوٹ بن سکتی ہے۔ مجموعی طور پر تعلیمی برادری کے لیے نشے کے نتائج بھی ہو سکتے ہیں۔ کیمپس میں منشیات کا استعمال تمام طالب علموں کے لیے ایک غیر محفوظ ماحول پیدا کر سکتا ہے، کیونکہ منشیات کا استعمال ناقص فیصلے اور خطرہ مول لینے کے رویے کا باعث بن سکتا ہے۔منشیات کا استعمال کیمپس میں بڑھتے ہوئے جرائم اور تشدد کا باعث بن سکتا ہے، جو پوری تعلیمی برادری پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔تعلےمی اداروں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ طلبا کو منشیات کے استعمال کے خطرات سے آگاہ کریں اور منشیات کی لت سے جدوجہد کرنے والوں کے لیے وسائل فراہم کریں۔ تعلیمی اداروں کو نشے کے ساتھ جدوجہد کرنے والے طلبا کے لیے مشاورتی خدمات اور معاون گروپ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ کیمپس میں منشیات کے استعمال کو روکنے کے لیے پالیسیوں کو نافذ کرنا چاہیے۔منشیات کی لت ایک ایسا مسئلہ ہے جو عمر، جنس اور سماجی حیثیت سے بالاتر ہے۔ تعلیمی ادارے اپنے طلبا میں منشیات کے استعمال کو روکنے اور ان لوگوں کی مدد کرنے کے اقدامات پر عمل درآمد کرتے ہوئے جو پہلے سے نشے کے عادی ہیں ان سے نمٹنے میں سب سے آگے رہے ہیں۔طلبا میں منشیات کی لت کو روکنے میں اسکولوں اور کالجوں کا اہم کردار ہے۔ وہ مختلف تعلیمی پروگراموں اور آگاہی مہموں کے ذریعے منشیات کے استعمال کے خطرات کے بارے میں آگاہی پیدا کر سکتے ہیں۔ وہ ایک ایسا معاون ماحول بھی بنا سکتے ہیں جو طلبا کو مدد طلب کرنے کی ترغیب دیتا ہے اگر وہ نشے کے ساتھ جدوجہد کر رہے ہوں۔ اسکولوں اور کالجوں میں منشیات کی لت سے نمٹنے کے لیے سب سے موثر طریقوں میں سے ایک منشیات کی جانچ کے پروگراموں کا نفاذ ہے۔ منشیات کی جانچ کے پروگرام ان طلبا کے لیے روک کے طور پر کام کر سکتے ہیں جو منشیات کے استعمال پر غور کر رہے ہیں۔ وہ ایسے طلبا کی شناخت میں بھی مدد کر سکتے ہیں جو پہلے ہی عادی ہیں اور انہیں مدد کی ضرورت ہے۔ وہ ایسے تعلیمی پروگرام بھی پیش کر سکتے ہیں جو تناﺅ کے انتظام، صحت مند زندگی، اور مقابلہ کرنے کی مہارتوں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں جو نشہ آور مادے کے استعمال کو روکنے میں مدد کر سکتے ہیں۔ والدین اور خاندانوں کا اپنے بچوں کے رویے اور فیصلہ سازی پر خاصا اثر ہوتا ہے۔ وہ اپنے بچوں کے لیے محفوظ اور معاون ماحول پیدا کر کے منشیات کی لت کو روکنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ والدین اپنے بچوں میں منشیات کے استعمال کو روکنے کے لیے اقدامات کر سکتے ہیں۔