بجٹ اور گلگت بلتستان میں صحافیوں کے مسائل

بلتستان یونین آف جرنلسٹس اور گلگت یونین آف جرنلسٹس کے مشترکہ اجلاس میں گلگت بلتستان کے صحافیوں کے مسائل پر تفصلی گفت و شنید ہوئی‘ اجلاس میں نئے مالی سال کے بجٹ میں گلگت بلتستان کے صحافیوں کو درپیش مسائل کے حوالے سے تاحال خاموشی پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا۔ اجلاس میں متفقہ طور پر یہ طے پایا کہ صحافیوں کے مسائل اور نئے بجٹ میں خطیر رقم مختص کروانے کے حوالے سے نمائندہ وفد وزیراعلی گلگت بلتستان سے ملاقات کرے گا تا کہ بجٹ میں گلگت بلتستان کے صحافیوں کی فلاح و بہبود کیلئے خاطر خواہ رقم مختلص کی جا سکے، اجلاس میں یہ بھی طے پایا کہ بجٹ میں صحافیوں کی فلاح و بہبود کیلئے بجٹ مختص نہ کیا گیا تو گلگت بلتستان بھر میں احتجاج سمیت بجٹ اجلاس کا بائیکاٹ کرنے پر بھی غور کیا جائے گا، اجلاس میں حکومت گلگت بلتستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ صحافیوں کی فلاح و بہبود کیلئے چارٹر آف ڈیمانڈ کو پیش نظر رکھ کر خطیر رقم مختص کرے۔جب سالانہ مےزانےے میں ہر شعبہ زندگی کےلئے بجٹ مختص کےا جاتا ہے تو شعبہ صحافت کے لےے بجٹ مختص کےا جانا چاہےے۔ حال ہی میں وفاقی حکومت نے بجٹ میں صحافی برادری کیلئے ہیلتھ انشورنس اسکیم کا اعلان کیا ہے۔وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بجٹ تقریر میں کہا تھاکہ شہباز شریف صاحب نے جب دوسری بار وزارت عظمی کا منصب سنبھالا تو اس کے بعد صحافیوں اور میڈیا ورکرز کیلئے انہوں نے ہیلتھ انشورنس کی بحالی کا حکم فرمایا، میں اپنے صحافی بھائیوں کو اسکیم بحالی کی خوشخبری سناتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ پہلے مرحلے میں ملک کے بھر پانچ ہزار صحافیوں اور میڈیا ورکرز کی ہیلتھ انشورنس ہوگی، جبکہ دوسرے مرحلے میں دس ہزار صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو صحت کا یہ بنیادی حق فراہم کریں گے۔پنجاب حکومت نے بھی صحافیوں کے لیے ہیلتھ انشورنس کی مد میں ایک ارب روپے مختص کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔رقم مختص کرنے کا فیصلہ وزیر اعلی پنجاب مریم نواز کی زیر صدارت کابینہ کے اجلاس میں کیا گیاجو میڈیا کے پیشہ ور افراد کی فلاح و بہبود کو بڑھانے کے لیے حکومت کے عزم کی عکاسی کرتا ہے۔صوبائی سیکرٹری انفارمیشن پنجاب احمد عزیز تارڑ نے کہا تھا کہ صحافیوں کے مسائل کا فوری حل اور ان کی فلاح و بہبود کے لیے اقدامات کرنا انکی اولین ترجیح ہے۔ وزیراعلی پنجاب سے ضرورت مند صحافیوں کے لیے خصوصی فنڈز کے اجرا کے لیے منظوری لی جائے گی تاکہ ایسے صحافی جو کسی مالی، معاشی مشکلات یا بیماری کا شکار ہیں ان کی مالی امداد کی جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ محکمہ اطلاعات و ثقافت کی کوشش ہوگی کہ علاقائی صحافیوں کے مسائل بھی ترجیحی بنیادوں پر حل کیے جائیں ۔کچھ عرصہ قبل سابق وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگ زیب نے کہا تھا کہ صحافیوں کی فلاح و بہبود اور تحفظ کے مجوزہ بل کا مسودہ تیار کرلیا گیا ہے، جسے بہت جلد منظوری کے لیے کابینہ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔مجوزہ بل میں صحافیوں کی بہبود کے لیے ایک فنڈ قائم کرنے کی تجویز بھی شامل تھی، جس میں حکومت اور صحافتی اداروں کے مالکان نے مساوی فنڈ فراہم کرنا تھا ۔مریم اورنگ زیب نے کہا تھا کہ صحافیوں کے بہبود و تحفظ کے لیے پالیسی تمام فریق کی مشاورت سے بنائی گئی ہے۔صحافیوں کی نمائندہ تنظیموں نے اس اقدام کو ایک خوش آئند پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اقدام پاکستانی صحافیوں کی بہبود کے لیے اہم ہوگا، جنہیں اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی کے لیے کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔تاہم ےہ بل تاحال منظور نہےں ہو سکا۔رواں سال جنوری میں معاون خصوصی گلگت بلتستان ایمان شاہ نے کہا تھا کہ گلگت بلتستان کی تاریخ میں پہلی بار میڈیا انڈسٹری کے مسائل کے صحافیوں اور حقوق کے تحفظ کیلئے جامع پالیسی اور قانون سازی کیلئے اعلی سطحی کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جو تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے سفارشات کابینہ میں پیش کریگی تاکہ عامل صحافیوں کے حل طلب مسائل، پریس کلبز کی تعمیر اور گرانٹس اور صحافیوں کی استعداد کار کیلئے جامع حکمت عملی وضع کی جا سکے۔ےہ بھی کہا گےا تھا کہ گلگت بلتستان کے صحافیوں کی مشکلات اور مسائل کا ادراک کرتے ہوئے ٹھوس اقدامات بروئے کار لانے تمام اسٹیک ہولڈرز کے نمائندوں پر مشتمل ورکنگ گروپ تشکیل دیا جا رہا ہے تاکہ دیگر صوبوں میں میڈیا انڈسٹری اور صحافیوں کے حقوق کیلئے ہونیوالی قانون سازی کا جائزہ لیکر گلگت بلتستان کے صحافیوں کی فلاح و بہبود اور صحافت کے فروغ کیلئے جامع سفارشات مرتب کی جا سکیں۔ اس تناظر میں صحافیوں کا کا مذکورہ مطالبہ درست ہے۔۔صحافت حقیقی معنوں میں اہم قومی ستون ہے ،حکومت کو میڈیا انڈسٹری کو درپیش موجودہ بحران سے آگاہ ہونا چاہےے ۔ملک کی میڈیا انڈسٹری تاریخ کے سب سے بڑے بحران سے گزر رہی ہے۔حکومتےں میڈیا کے مسائل سے قطعی بے توجہی کا مظاہرہ کرتی رہی ہے۔دنیا کے ہر جمہوری ملک میں میڈیا کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ پاکستان کی میڈیا انڈسٹری بھی یہی توقع کر رہی تھی کہ حکومتےں میڈیا کی ترقی کے لیے خصوصی توجہ دےں گی۔رائے عامہ کی تبدیلی میں میڈیا انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے وہ اہل قلم جو برسہا برس سے عوام کو سسکتے دیکھ رہے تھے وہ امید کر رہے تھے کہ اب غریب عوام کی زندگی میں کچھ بہتری آئے گی وہ حیران ہیں کہ اور زیادہ سنگین مسائل کا شکار ہو رہے ہیں۔ میڈیا اور صحافےوں کو بھی اس کے پیروں پر کھڑا رہنے کی سبیل کی جائے لیکن یہ کس قدر دکھ کی بات ہے کہ میڈیا کی حالت بہتر ہونے کے بجائے بد تر ہو رہی ہے۔صحافی کوئی سرمایہ دار نہیں ہوتا بلکہ قلمی مزدور ہوتا ہے ترقی یافتہ ملکوں میں صحافی اپنی محنت کا مناسب معاوضہ لیتا ہے۔ ایک آسودہ زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنے بچوں کو اعلی اسکولوں میں پڑھاتا بھی ہے لیکن پاکستان میں میڈیا انڈسٹری میں کام کرنے والے انتہائی نامناسب معاشی حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ صحافی برادری سخت معاشی مشکلات کا شکار ہے ۔ صحافیوں کی انجمنیں فعال ہیں ان کی ذمے داری ہے کہ وہ میڈیا کی مالی مشکلات کا اپنی اولین فرصت میں حل کرنے کی کوششیں کریں ۔عوام کے مسائل کے حل کےلئے میڈیا انڈسٹری کی ایک اپنی اہمیت ہوتی ہے جس کی وجہ ہر جمہوری ملک میں اس کو اولین ترجیح دی جاتی ہے۔پاکستانی معاشرے کی تربیت میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ فوجی آمروں کے دور میں صحافیوں نے بہت مشکلات کا مقابلہ کیا۔ سرمایہ دارانہ نظام میں ہر شعبہ زندگی میں دولت اہم کردار ادا کرتی ہے۔آج ہم تیزی سے بدلتی ہوئی ڈیجیٹل دنیا میں رہ رہے ہیں، جہاں میڈیا اداروں اور ان کے ملازمین کے لئے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ وہ میڈیا کے منظر نامے میں اپنی موجودگی کو بڑھانے میں جدید ٹیکنالوجی کے ذریعہ فراہم کردہ متبادلات کے ساتھ ہم آہنگ رہیں۔اس ڈیجیٹل دورجس میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور تکنیکی ٹولز کا غلبہ ہے اور مصنوعی ذہانت پروگرام جو روایتی میڈیا اداروں اور سرکاری ذرائع سے آزادانہ طور پر خبروں کی تشہیر اور گردش پر نمایاں طور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔اخبارات کو مالی مشکلات، معلومات تک محدود رسائی، سیاسی مداخلت، سےکیورٹی خدشات اور پیشہ وارانہ مہارت کے فقدان سمیت اہم چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان چیلنجوں سے نمٹنا اس بات کو یقینی بنانے کے لیے بہت ضروری ہے کہ اپنے قارئین کو درست، بروقت اور متعلقہ خبریں فراہم کرتے رہیں۔ الیکٹرانک میڈیا نے حالیہ برسوں میں نجی ٹیلی ویژن چینلز اور ڈیجیٹل میڈیا کے عروج کے ساتھ نمایاں ترقی کی ہے۔ تاہم، صنعت کو اہم چیلنجوں کا بھی سامنا ہے جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کو بھی نمایاں مالی مشکلات کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے صنعت اشتہارات کی آمدنی پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا کے عروج کی وجہ سے یہ آمدنی گزشتہ برسوں سے کم ہو رہی ہے، جس کی وجہ سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا دونوں کے لیے مالیاتی بحران کا سامنا ہے۔الیکٹرانک میڈیا کو درپیش چیلنجز پاکستان میں اخباری صنعت کو درپیش چیلنجز سے ملتے جلتے ہیں، ان چیلنجز سے نمٹنے کے ذریعے پاکستان میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی صنعتیں متعلقہ رہ سکتی ہیں اور اپنے ناظرین کی ضروریات کو پورا کر سکتی ہیں۔ پچھلے چند سال سے صحافت کو بہت زیادہ دباﺅ کا سامنا ہے۔ صحافیوں اور صحافتی اداروں کی آزادی سلب ہو کر رہ گئی ہے۔ عمومی طور پر صحافت کی تعلیم اور صنعت کو لازم و ملزوم سمجھا جاتا ہے۔ عوام کو درست اور بروقت خبروں کی فراہمی کے لےے ضروری ہے کہ حکام بالا ےہ خبرےں عوام تک لانے والوں کے بارے میں بھی سوچے انہےں مالی مشکلات سے نکالنے کا لائحہ عمل مرتب کرے ‘ تاکہ انہےں بھی اپنے بچوں کے لےے اےک بہتر زندگی کے مواقع مل سکےں ۔