اٹھائیس مئی :یوم تکبیر

آج ملک بھر میں یومِ تکبیر منایا جارہا ہے۔یوم تکبیر ہر سال28 مئی کو منایا جاتا ہے اور یہ وہ یادگار دن ہے جب پاکستان دنیا کے سامنے پہلی اسلامی ایٹمی قوت بن کر ابھرا اور پاکستان نے ایٹمی تجربات کرکے ملکی دفاع ناقابل تسخیر بنادیا۔بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے دورِ حکومت میں پاکستان نے28مئی1998کو بلوچستان کے علاقے چاغی کے مقام پر پانچ کامیاب ایٹمی دھماکے کیے جس کے بعد اس دن کو یوم تکبیر کے نام سے یاد رکھا جاتا ہے۔ درحقیقت یہ بھارت کے پہلے ایٹمی دھماکے نہیں تھے بلکہ اس سے قبل18مئی1974 کو بھارت سمائےلنگ بدھا کے نام سے ایٹمی دھماکہ کر چکا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس ایٹمی دھماکے کے لیے استعمال ہونے والا پلوٹونیم، کینیڈا کی جانب سے فراہم کردہ ایٹمی ریکٹر میں تیار ہوا تھا اور اس دھماکے میں استعمال شدہ بھاری پانی امریکہ نے فراہم کیا تھا۔ اس کے باوجود عالمی برادری نے بھارت کے ایٹمی عزائم کی روک تھام کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہ کیے۔ بصورت دیگر پاکستان روز اول سے چاہتا تھا کہ اس خطے میں ایٹمی دوڑ کا آغاز نہ ہوا ۔ اس سلسلے میں پاکستان بھارت کو کئی ایسی تجاویز دے چکا تھا۔پاکستان نے1974میں یہ تجویز پیش کی کہ جنوبی ایشیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک علاقہ قرار دیا جائے لیکن بھارت نے پاکستان کی تجویز رد کر دی۔ 1978 میں پاکستان نے یہ تجاویز دیں کہ پاکستان اور بھارت مشترکہ طور پر ایٹمی ہتھیار نہ بنانے کا اعلان کریں اور جنوبی ایشیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک علاقہ قرار دیا جائے۔1979میں پاکستان نے تجویز کیا کہ پاکستان اور بھارت ایک ساتھ اےن پی ٹی پر دستخط کر دیں اور ایک دوسرے کی ایٹمی تنصیبات کے معائنے کی اجازت بھی دے دیں۔1987میں پاکستان نے تجویز کیا کہ پاکستان اور بھارت ایٹمی دھماکے نہ کرنے کا مشترکہ اعلان کریں لیکن بھارت نے ہمیشہ پاکستان کی ان کوششوں کو رد کیا کیونکہ اس کے پس پردہ عزائم کچھ اور تھے۔ 1974کے ایٹمی دھماکوں اور اسکے بعد کے بھارتی ایٹمی عزائم کے جواب میں پاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ پاکستان بھی اپنے دفاع کے لیے ایٹم بم بنائے۔ یہ اقدام اسکی بقا کے لیے ناگزیر ہو گیا تھا۔پاکستان اٹامک انرجی کمیشن1956میں قائم ہوا تھا لیکن اس کا مقصد کسی طور بھی ایٹم بم بنانا نہیں تھا۔ ساٹھ کی دہائی میں پاکستان کو مصدقہ اطلاعات مل چکی تھیں کہ بھارت بھا بھا ایٹمی تنصیبات میں ایٹم بم کی تیاری کی کوشش کر رہا ہے۔ اس وقت کے وزیر خارجہ مسٹر بھٹو نے دسمبر1965کو لندن کے ایک ہوٹل میں صدر ایوب خان اور ڈاکٹر منیر احمد کی ایک ملاقات کروائی اور دونوں نے مل کر ایوب خان کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ ان حالات میں ، ایٹمی اسلحے کی دوڑ میں شامل ہونا پاکستان کی مجبوری بن چکا ہے۔ ایوب خان اس سلسلے قائل نہ ہو سکے۔ پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد بھارت دعوی کر رہا تھا کہ اس نے دو قومی نظریے کو ختم کر دیا ہے۔اس تمام صورتحال نے آخر کار پاکستان کے پالیسی سازوں کو یہ یقین دلا دیا تھا کہ پاکستان کو اپنی سلامتی کے لیے امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں پر یقین کرنے کی بجائے اپنے زور بازو سے کچھ کرنا ہو گا ۔ اس میں اہم ترین رول بلاشبہ بھٹو کا بھی تھا جو اب وزیر اعظم کی حیثیت سے فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں تھے۔ بےس جنوری 1972کو، ملتان میں پاکستان کے سرکردہ سائنسدانوں اور انجئینرز کی ایک میٹنگ وزیر اعظم بھٹو کی زیر صدارت ہوئی ، جسے ملتان میٹنگ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس میٹنگ میں پاکستان کی اس وقت کی حکومت نے کسی بھی قیمت پر ایٹم بم بنانے کا اصولی فیصلہ کیا۔ اور پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے اس وقت کے سربراہ منیر احمد کی سربراہی میں سائنس دانوں نے اس سلسلے میں کام کا آغاز کیا۔ ان میں ریاض الدین، فیاض الدین اور فہیم حسین سمیت بہت سے سائنس دان شامل تھے ۔ اسی دوران 1974 میں بھارت نے اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ کر دیا جبکہ پاکستان کو اس سلسلہ میں ابھی تک خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی تھی۔ اسی سال یعنی 1974 میں ڈاکٹر عبدالقدیر نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں شمولیت اختیار کی اور کہوٹہ ریسرچ لیباٹریز کا قیام عمل میں لایا گیا۔ آگے کی داستان سب کو معلوم ہے۔بھارت نے جب 1998میں آپریشن شکتی کے نام سے پوکھران کے مقام پر مزید پانچ ایٹمی دھماکے کئے تو شاید اسے غلط فہمی تھی کہ پاکستان بھارت کی اس بلا جواز اشتعال انگیزی کا جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ عالمی برادری خاص طور پر امریکہ اور مغربی دنیا نے بھارت کی اس عالمی جارحیت کا کوئی زیادہ برا نہ منایا اور بھارت کے ساتھ انکے تعلقات معمول کے مطابق ہی چلتے رہے۔ پاکستان کی حکومت اور اداروں نے جب یہ صورتحال دیکھی تو آخر کار وہ پاکستان کی بقا اور حفاظت کے لیے اس بات پر مجبور ہو گئے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیں اور پاکستان نے بھارتی دھمکی کا جواب28مئی 1998 کو اپنے پہلے ایٹمی دھماکے چاغی اول کی شکل میں دیا۔ 30مئی تک پاکستان نے چھ ایٹمی دھماکے کیے اور اسطرح پاکستان دنیا کی ساتویں اور عالم اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت بن گیا۔پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں بھٹو سے لے کر میاں نواز شریف کے دور میں دھماکوں تک ہر حکمران اور سائنسدانوں کا ناقابل فراموش کردار رہا ہے،اس دوران ایسے حکمران بھی آئے جو ایک دوسرے کا نام سننے پر تیار نہ تھے مگر پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر کہیں کوئی سرِ مو بھی اختلاف نظر نہیں آتا۔بھارت کے دھماکوں کے جواب میں دوہفتے کا وقفہ حیران کن نظر آتا ہے۔بھارت کے دھماکے تو عالمی برادری نے بڑی آسانی سے قبول کر لئے،پاکستان کے ہضم نہیں ہورہے تھے،پاکستان کی طرف سے دھماکوں کو آپشن قرار دینے پر امریکہ اور دیگر ممالک کا پاکستان پر دباﺅ بڑھ گیا جس سے وزیراعظم نواز شریف بھی متاثر ہوگئے۔مگر ملک کے اندر سے ان پردھماکے کرنے کیلئے دباو تھا وہ تذبذب میں تھے،اس دوران انہوں نے وسیع تر مشاورت کا سلسلہ شروع کیا،میڈیا کے لوگوں کو بلایا تومجید نظامی نے یہ کہہ کر نواز شریف کا مخمصہ اور تذبذب دور کردیا کہ میاں صاحب دھماکہ کر دیں ورنہ قوم آپ کا دھماکہ کردے گی۔ان ایٹمی دھماکوں کے بعد امریکہ اور مغرب کی جانب سے پاکستان کو بیشمار پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا، حالانکہ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کا مقصد ، علاقے میں امن کا قیام اور بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف کسی ممکنہ جارحیت کے سدباب کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔آنے والی دنوں نے ثابت کیا کہ پاکستان کی حکمت عملی درست تھی اور ایٹمی طاقت بننے کے بعد پاکستان اور بھارت کے تعلقات کتنے ہی کشیدہ کیوں نہ ہو گئے ہوں دونوں ممالک میں جنگ نہ ہو سکی۔2002 میں بھارت نے اپنی پانچ لاکھ سینا پاکستان کے بارڈر پر لا کر کھڑی کر دی، جو گیارہ ماہ پاکستان کے بارڈر پر کھڑی رہی۔ سینکڑوں فوجیوں کی موت اور اربوں روپے کے خرچ کے باوجود بھارت کو پاکستان پر حملہ کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔اسکے بعد2008 اور حال میں 2019کو بھی دیکھا گیا کہ تمام تر خواہش کے باوجود بھارت پاکستان پر حملہ کرنے کی ہمت نہ کر سکا کیونکہ الیکشن مہم کی گرما گرم تقاریر اپنی جگہ، مودی سرکار بھی اندر سے جانتی ہے کہ پاکستان کے خلاف کوئی بڑا جارحانہ قدم اٹھانے کی ہمت دراصل کتنی بڑی حماقت ہو گی۔ افسوس کی بات تو صرف یہ ہے کہ تمام حقیقت جاننے کے باوجود بھارت علاقے کا چوہدری بننے کی خواہش میں پاگل ہو رہا ہے ۔بھارت کا بلاسٹک میزائل پروگرام ہو یا آبدوزوں کے ذریعے ایٹمی میزائل داغنے کی تیاری، یہ سب نہ صرف اس خطے بلکہ تمام دنیا کے امن اور سلامتی کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔ ایٹمی پاکستان کے خلاف بھارت نے کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن بنائی لیکن پاکستان نے ایٹمی صلاحیت کے حامل النصر میزائل اور ٹیکٹیکل نیوکلیئر ویپن بنا کر بھارتی کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن کو ہمیشہ کے لیے ٹھنڈا کر دیا ہے۔ اس کا عملی مظاہرہ دنیا نے رواں سال27 اور 28 فروری کو دیکھا۔ یوم تکبیر کوپاکستان کو دشمنوں کے تکبر کو خاک میں ملانے کی توفیق عطا کرنے پراللہ تعالی کا شکر اد ا کےا جاتا ہے کہ اللہ کے نام پر بننے والے پاکستان کے خلاف دشمنوں کے عزائم کبھی کامیاب نہیں ہونگے کیونکہ اصل فیصلے اوپر کی ذات کر رہی ہے جو سب سے بڑی ہے۔