کانگو وائرس پھر سر اٹھا رہا ہے

راولپنڈی کے بینظیر بھٹو اسپتال میں کانگو وائرس کے دو مریض انتقال کرگئے۔ تین مریض رواں ماہ اٹک سے لائے گئے تھے، جن میں سے دوانتقال کرگئے جب کہ کانگو وائرس کا تیسرا مریض زیر علاج ہے۔ڈی ایم ایس بینظیر بھٹو اسپتال ڈاکٹر جنید کے مطابق کانگو جان لیوا وائرس ہے اور اس سے بچاﺅ کے امکانات صرف دس فیصد ہیں،کانگو وائرس جانوروں سے انسان اور انسان سے انسان میں منتقل ہوتا ہے۔ مسوڑھوں، ناک اور فضلے میں خون آنا اور تیز بخار کانگو وائرس کی علامات ہیں۔دوسری جانب ضلعی انتظامیہ اٹک نے اٹک سے دوسرے علاقوں کو مویشیوں کی منتقلی پر پابندی لگادی ہے۔انتظامیہ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق اٹک سے مویشیوں کی بین الاضلاعی اور بین الصوبائی منتقلی پر پابندی سات روز کے لیے ہوگی۔عید الاضحی کے پیش نظر مویشی منڈیوں کی کڑی نگرانی کی جائےگی۔اس کے علاوہ محکمہ ہیلتھ پنجاب نے نو رکنی ڈاکٹروں کی خصوصی ٹیم اٹک بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے، ڈاکٹروں کی ےہ ٹیم کانگو کے پھیلنے کی وجوہات کا پتا لگائے گی اور کانگو سے متعلق محکمہ لائیو اسٹاک کے اقدامات کا بھی جائزہ لےگی۔ محکمہ صحت نے عوام کو خبردار کیا ہے کہ وہ اس جان لیوا وائرس سے بچاﺅ کے لیے ہر ممکن احتیاط کریں۔ایک ایسے وقت میں جب لوگوں کی ساری توجہ عید الاضحی کے لیے قربانی کے جانور خریدنے پر ہو گی، ایسے میں کانگو وائرس سے ایک شخص کی ہلاکت باعثِ تشویش ہے۔معالجین کے مطابق کانگو وائرس مویشیوں میں پایا جاتا ہے اور اس وائرس کے پھیلنے کی سب سے اہم وجہ جانور ہی ہیں، جن میں گائے، بھینس اوربھیڑ، بکریاں شامل ہیں۔دراصل کانگو وائرس کو کریمین کانگو ہیمورہیجک فیور بھی کہا جاتا ہے۔ یہ وائرس کریمیا میں 1944 میں سامنے آیا تھا اور اس وقت اس وائرس کی موجودگی بر اعظم افریقہ کے ملک کانگو میں بھی نظر آئی تھی جس کی بنیاد پر اس کا نام سی سی ایچ ایف رکھا گیا تھا۔اس وائرس سے لگنے والی بیماری ایشیا کے کئی ممالک میں بھی پائی جاتی ہے جس میں پاکستان سمیت، ایران، عراق، ترکی اور دیگر شامل ہیں۔کانگو وائرس کی انسانوں میں منتقلی کے دو طریقے ہو سکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ جانوروں کے جسم میں ایک چھوٹا سا کیڑا جسے ٹک کہتے ہیں وہ اگر کسی انسان کو کاٹ لے تو اس سے یہ بیماری لگ سکتی ہے۔ کسی جانور کو یہ بیماری لاحق ہو اور یہ کیڑا اس کا خون چوس رہا ہو تو وہ انسان کوکاٹنے کے بعد اس وائرس کو خون میں منتقل کردیتا ہے۔دوسری صورت میں یہ جانوروں کے خون سے بھی براہ راست منتقل ہوسکتا ہے خاص کر قربانی کرتے وقت جب جانور کے جسم سے خون نکلتا ہے۔ اس کا کوئی قطرہ انسان کے ناک، منہ یا آنکھ میں چلا جائے تو یہ وائرس پھیل سکتا ہے۔متاثرہ جانور کی کھال میں چھپے یہ کیڑے قربانی کے وقت جانور کی کھال اتارنے کے دوران انسانی جلد پر چپک کر بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اگر اس سے کوئی انسان متاثر ہوجائے تو پھر ایک انسان سے دوسرے میں وائرس منتقل ہونا عام بات ہے۔ یہ ایک شخص سے دوسرے شخص میں خون، لعاب یا پسینے سے منتقل ہوسکتا ہے۔اگر کانگو وائرس جانوروں کو لگ جائے تو ان میں اس کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں کیوں کہ اس وائرس کے باوجود بھی جانور صحت مند ہی نظر آرہے ہوتے ہیں۔ کانگو وائرس کی علامات میں تیز بخار کے ساتھ ساتھ گلے میں درد، نزلہ، جوڑوں اور ریڑھ کی ہڈی میں درد ہوناشامل ہے۔ اس کے علاوہ چہرے اور آنکھوں کا سرخ ہوجانا، جسم پر سرخ دھبے نمودار ہونا بھی کانگو وائرس کی علامات ہیں۔کانگو وائرس ہوتے ہی مریض کے پلیٹیلٹس میں واضح کمی ہونے لگتی ہے اور جب یہ وائرس مریض کے بدن میں پھیل جائے تو پھر قوتِ مدافعت کم ہو جانے کے بعد ہونے والا بخار ہیمورجک فیور کی شکل اختیار کرجاتا ہے جس میں انسانی جسم کے کسی بھی حصے ناک، منہ، پیشاب کی جگہ سے خون آنے لگتا ہے۔کانگو وائرس سے متاثرہ مریض کا خون پتلا ہونے لگتا ہے جس سے خون کے بہنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ وائرس جگر اور گردوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔کانگو وائرس کا آغاز تیز بخار سے ہوتا ہے تو اسی لیے وائرس کی بروقت تشخیص کرنا تھوڑا مشکل ہو سکتا ہے۔ تاہم اس بیماری کی تشخیص کے لیے کرونا کی طرح کا ایک پی سی آر ٹیسٹ ہی ہوتا ہے لیکن اس میں خون کے نمونے لیے جاتے ہیں۔معالجین کے مطابق اب جب عید الاضحی قریب ہے اور لوگ مویشیوں کی خریداری کے لیے منڈیوں کا رخ کریں گے تو انہیں ایسا لباس پہننا چاہیے جس سے ان کا جسم مکمل طور پر ڈھکا ہوا ہو۔منڈی جاتے وقت ہلکے رنگ کا لباس پہنیں تاکہ اگر کوئی جراثےم ان کے لباس پر ہو تو انہیں فورا نظر آجائے۔ مویشی منڈی سے واپس آنے کے بعد اپنا بغور جائزہ لیں کہ کہیں آپ کے کپڑوں یا جسم پر کوئی ایسا کیڑا تو نہیں ہے، اس کے علاوہ آپ جو جانور خرید رہے ہوں اس کا بھی بغور معائنہ کرنا بہتر ہے۔قربانی کرتے وقت ماسک کا استعمال لازمی کریں تاکہ خون اچھلنے کے صورت میں وہ منہ یا ناک میں نہ جائے۔ جب کہ جانور کی کھال اتارنے کے بعد اسے دور رکھیں۔ قربانی کے بعد جو گوشت سامنے ہو جس پر خون لگا ہوا ہے اسے اٹھاتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ وہ ہاتھ چہرے یا آنکھوں پر نہ لگے۔کچھ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ مکمل طور پر پکائے جانے والا گوشت کھانے سے یہ وائرس انسان کو نقصان نہیں پہنچاتا لیکن اگر کوئی جانور اس سے متاثر ہے تو اس کے کچے گوشت کو ہاتھ لگاتے وقت احتیاط لازم ہے۔ ایسے جانور یا فرد جن میں یہ وائرس ہو ان سے دور رہنے اور احتیاط کرنے سے ہی اس وائرس سے بچاﺅ ممکن ہے۔ اگر اس وائرس کی تشخیص بروقت ہوجائے تو اس کا علاج کچھ ادویات کی مدد سے ممکن ہے جن سے وائرس کو ختم کیا جاسکتا ہے لیکن اگر تشخیص میں تاخیر ہو تو یہ بیماری مہلک ثابت ہوسکتی ہے۔کانگو وائرس جسمانی اعضا کو تیزی سے خراب کرنا شروع کردیتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ جب کانگو کی علامات ظاہر ہوں تو مریض کو معالج کو یہ بات ضرور بتانا چاہیے کہ حال ہی میں وہ جانوروں سے کتنا قریب رہا۔ابھی تک اس وائرس سے بچاﺅ کے لیے کوئی ویکسین نہیں بنائی گئی ہے جسے استعمال کرتے ہوئے اس سے بچا جاسکے۔ عید الاضحی کے قریب آتے ہی کانگو وائرس کے ممکنہ بڑھتے کیسز کی روک تھام کے لیے مویشی منڈیوں میں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کےلئے آگاہی بینرز آویزاں کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔ یہ بیماری ہر سال ملک بھر میں سر اٹھاتی ہے۔ نتیجے میں چند خاندان اپنے پیاروں کو کھو دیتے ہیں۔اب تک یہ صرف ایک مخصوص علاقے تک محدود ہے مگر بے احتیاطی کے باعث بعید نہیں کہ یہ وبائی صورت حال اختیار کرے۔ اس لیے صورت حال کی سنگینی سے نمٹنے کے لیے اس کے بارے میں جاننا اور احتیاط کرنا ضروری ہے۔ براعظم افریقہ کے ملک کانگو میں بھی اس وائرس کی وبائی صورت حال پیدا ہوئی۔ انہی دو علاقوں کے مشترکہ نام پر اس وائرس کا نام رکھا گیا۔ متاثرہ جانور یا انسان کے خون، دیگر رطوبت، جسمانی ملاپ، مریض کی دیکھ بھال یا پھر متاثرہ میت کو غسل دینے میں بے احتیاطی کہ وجہ سے بھی یہ مرض پھیل سکتا ہے۔ اس لیے اس وائرس کا زیادہ تر شکار قصاب اور جانوروں کی دیکھ بھال کرنے والے یا پھر صحت کے شعبے سے وابستہ افراد ہوتے ہیں۔بعض ماہرےن کے مطابق یہ مرض لاعلاج نہیں، اس لیے مذکورہ بالا علامات کی روشنی میں ابتدائی طبی امداد کے بعد متاثرہ شخص کو فوری طور پر ٹرشری کئیر سینٹر منتقل کرنا چاہیے تاکہ بروقت علاج ممکن ہو۔متعدی بیماریوں کے صورت میں جہاں متاثرہ افراد کا علاج ضروری ہے، وہیں ان کی مزید روک تھام کے لیے احتیاطی تدابیر بھی اہم ہیں اور یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اب تک کانگو وائرس سے بچنے کی ویکسین نہیں بنی۔ وائرس زدہ کیڑوں کی موجودگی کے باوجود بھی مویشیوں میں علامات نہیں ہوتیں اس لیے بھی بچاﺅ کے لیے احتیاطی تدابیر لازمی ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے اہم حکومت کی جانب سے درج ذیل آگاہی مہم ہے جو عوامی سطح پر دی جانی چاہیے۔انسان ایک ایسی مخلوق ہے جس کی نس نس میں احساس برتری اور تکبر کا عنصر کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ جس کا مظاہرہ وقتا فوقتا کرکے وہ اپنے ظرف کا پتا دیتا ہے۔ ایک طرف وہ زمین اور آسمان کی تسخیر میں جان کی بازی لگا کر ارتقا کی بلندیوں کو چھو رہا ہے اور یہی احساس برتری اس کے تکبر کا سبب ہے۔خالق کائنات نے ایک طرف انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر تمام مخلوقات کو اس کے آگے سجدہ ریز کرایا تو وہیں اسے اتنا کمزور رکھا کہ وہ غیر مرئی جانداروں کے سامنے بے بس ہوگیا اور یہی امر انسان کی اصل حقیقت کو آشکارا کرنے کے لیے کافی ہے۔اس کی مثال اب تک آنے والے تمام قدرتی آفات اور وبائیں ہیں جن کے سامنے انسان لاچار اور بے بس ہوجاتا ہے۔ کرونا کی وبا نے بھی دنیا بھر میں اپنے تباہ کن اثرات ظاہر کیے۔ گو کہ انسان اپنی بہترین حکمت عملی کے باعث اس پر قابو پاگیا مگر بے شمار قیمتی جانوں کے زیاں کے بعد۔ اس کے علاوہ بھی کئی وبائی امراض وقتا فوقتا سر اٹھاتے اور لوگوں میں خوف و دہشت پھیلاتے ہیں جن سے بچاﺅ کے لےے تمام اقدامات کےے جانا بہت ضروری ہےں ۔