وزیراعظم شہبازشریف نے کہا ہے کہ خیبر پختونخوا ، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر میں بے پناہ قدرتی وسائل ہیں، ان وسائل سے صحیح طور پر فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔وزیر اعظم کی زیر صدارت پاکستان میں جیمزاور قیمتی پتھروں کے شعبے کے حوالے سے اہم اجلاس وزیراعظم ہاﺅس اسلام آباد میں منعقد ہوا۔اجلاس میں پاکستان میں جیمز اور قیمتی پتھروں کے شعبے کی ترقی پر غور کیا گیا ۔وزیراعظم نے کہا کہ قیمتی پتھروں اورتیار ہونے والی مصنوعات کی بین الاقوامی سرٹیفیکیشنز پر کام کیا جائے ، عالمی نمائشوں میں پاکستانی نمائندگی یقینی بنائی جائے۔انہوں نے ہدایت کی کہ جیمز اور قیمتی پتھروں کے شعبے کو باقاعدہ صنعت کا درجہ دینے کے حوالے سے اقدامات اٹھائے جائیں ، جیمز اور قیمتی پتھروں کے شعبے کی ترقی کے لیے نجی شعبے اور صوبوں سے ضروری مشاورت کی جائے۔وزیراعظم نے جیمز اینڈ جیولری ڈیولپمنٹ کمپنی کو فی الفور فعال کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ قیمتی اور نایاب پتھروں کی صنعت کے فروغ کے لئے ضروری قانون سازی کا عمل شروع کیا جائے، قیمتی پتھروں کی صنعت میں ویلیو ایڈیشن کے حوالے سے تربیتی پروگرام شروع کیے جائیں۔قدرت نے پاکستان کو قیمتی پتھروں کے بے شمار خزانوں سے نوازا ہے۔ ان میں سے کچھ معدنی دنیا میں پاکستان کو نمایاں کرتے ہیں۔ دنیا کے سب سے زیادہ مطلوبہ رنگ کے قیمتی پتھر، جیسے ایمرالڈ، روبی، سیفائر، پکھراج، ایکوامیرین اور ٹورمالائن پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔پاکستان کے پاس قیمتی پتھروں کے وسیع ذخائر ہیں جن میں نایاب قیمتی پتھروں کی اقسام بھی شامل ہیں۔جیسے کٹلانگ مردان کا گلابی پکھراج دنیا بھر میں منفرد اور مشہور ہے۔ پاکستان دنیا کے تےس فیصد قیمتی پتھر پیدا کرتا ہے۔پاکستان کی علاقائی تاریخ کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے عوام اور بادشاہ جواہرات کو بہت پسند کرتے تھے۔ گندھارا اور سندھ کی تہذیبوں کے آثار اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ پاکستان کے شمالی اور شمال مغربی حصے ہندوکش، ہمالیہ اور قراقرم تین عالمی مشہور سلسلوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ یہ پہاڑ معدنیات کے ذخائر سے بھر پور ہیں۔ وادی سوات کا گہرا سبز زمرد اور کٹلانگ کا نایاب گلابی پکھراج عالمی منڈی کے قیمتی پتھروں میں سے ایک ہیں۔ جواہرات کے ذخائر بنیادی طور پر پاکستان کے شمالی حصے اور افغانستان کے ملحقہ علاقوں میں واقع ہیں۔ دنیا کے اعلی معیار کے زمرد، ایکوامیرین، ٹورمالین، یاقوت، کوارٹج، پکھراج، گارنیٹ اور مختلف قسم کے دوسرے قیمتی پتھروں کے ذخائر شامل ہیں۔ گلگت بلتستان میں 34 سے زائد اقسام کے قیمتی پتھر تیار کیے جا رہے ہیں۔اتنے بھرپور وسائل کے باوجود عالمی منڈی میں ہمارا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔پرانی انتظامی تکنیکوں، ناکافی سرمایہ اور استعمال کی وجہ سے کم شراکت اورقدیم تکنیکی معلومات کے علاوہ ان علاقوں میں امن و امان کی غیر تسلی بخش صورتحال اس کی اہم وجوہات ہیں۔پاکستان منفرد رنگوں، نمونوں اور طول و عرض کے پتھروں کے وسیع وسائل سے مالا مال ہے۔ پاکستان کو سنگ مرمر کے وسیع ذخائر سے نوازا گیا ہے جس میں نایاب ماربل بھی شامل ہے۔زیارت وائٹ، بلیک اینڈ وائٹ ماربل اور بلیک گرینائٹ جیسی اقسام جو دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ مزیدچالےس سے زائد اقسام کے قدرتی رنگ کے ماربل پورے خیبر پختونخوا، بلوچستان میں پھیلے ہوئے ہیں،صوبہ سندھ اور پنجاب میں ماربل اور گرینائٹ کا تخمینہ 297 بلین ٹن ہے۔گلگت بلتستان کو اللہ تعالی نے بے پناہ وسائل سے مالا مال کیا ہے، جہاں یہ خطہ خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے وہیں یہاں کی زمین نایاب پتھروں کا خزانہ بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ پہاڑوں سے نکلنے والے ان قیمتی پتھروں کی مالیت کروڑوں روپے میں ہوتی ہے۔ ہیرے سے بھی زیادہ قیمتی اور نایاب پتھر گلگت بلتستان کے پہاڑوں سے نکلتے ہیں۔قیمتی پتھروں میں ایکوا میرین فلورائیٹ اور اپیٹیٹائٹ، کوارٹز، ٹوپاز، فلورائیٹ اور ایپیٹائٹ جیسے کئی اور پتھر ان پہاڑوں میں پائے جاتے ہیں۔ یہ پتھر جو گلگت بلتستان کے پہاڑوں سے نکلتے ہیں وہ سستے داموں بک جاتے ہیں اور محنت کرکے نکالنے والوں کو فائدہ کم ہوتا ہے، جبکہ انہی پتھروں کو باہر کے ملکوں میں مہنگے داموں فروخت کیا جاتا ہے۔شگرسے تقریبا تےس میل مشرق کی سمت پہاڑی نالوں کو عبور کرنے کے بعد ایک سبز رنگ کا پہاڑ واقع ہے، جیسے مقامی زبان میں پزول کہتے ہیں۔سبز رنگ کا یہ پتھر عام پتھروں کی نسبت زیادہ نرم ہے۔ گلگت بلتستان دنیا کا دوسرا سب سے بڑا جوہر والا خطہ ہے۔ گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں دھاتی معدنیات کے علاوہ پچاس کے قریب مختلف اقسام کے قیمتی اور نیم قیمتی پتھر ہیں لیکن حکومت گلگت بلتستان اور وفاقی حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے گلگت کے دیسی باشندے ان قدرتی وسائل کو بروئے کار لاسکتے ہیں مطلوبہ سائنسی بنیاد پر سازوسامان اور کان کنی کی مناسب مہارت کی کمی کی وجہ سے۔سائنسی بنیاد پر کان کنی کی مشینری اور کان کنی کی تربیت کی کمی کی وجہ سے بارودی سرنگوں سے نکالنے کے دوران تقریبا ساٹھ فیصد کا سامان ضائع ہوتا ہے۔گلگت بلتستان کی حکومت کے متعلقہ اداروں اور وفاقی حکومت کو چاہئے کہ وہ گلگت بلتستان کے مقامی لوگوں کو خطے سے غربت کے خاتمے کے لئے کان کنی سے لے کر بازار تک کی سہولت فراہم کرے اور ساتھ ہی اس خطے میں روزگار کے مواقع پیدا کرے۔ کان کنی ، پروسیسنگ اور تجارت سے متعلق پاکستان کا قیمتی پتھر اور معدنیات ایسوسی ایشن نے بھی یہ مناسب سمجھا کہ گلگت بلتستان کی حکومت کا قومی اور بین الاقوامی منی بازاروں میں گلگت بلتستان کے قیمتی پتھروں کی مصنوعات کو متعارف کرانے میں کوئی کردار نہیں ہے۔ گلگت بلتستان کے لوگوں نے گلگت بلتستان کی حکومت کی مدد کے بغیر سنگل دستی قیمتی پتھر کی کانوں کا کھوج لگاےا ہے ۔گلگت بلتستان میں بہت ہی اعلی کوالٹی کا سونا پایا جاتا ہے اور اب تک کے مطالعے کے مطابق گلگت بلتستان میں ایک سو اڑسٹھ مقامات پر سونے کے ذخائر ، ایک سو چھ مقامات پر پلاٹینم ،چار سو ترانوئے مقامات پر کاپر لیڈ، دوسو اسی زنک، تین سو باون کوہالیٹ ،دوسو پچپن نیکل ،چار سو ستاسی بسمیتھ، سڑسٹھ مولیڈیم جبکہ آئرن کے ذخائر تین مقامات پر موجود ہیں ۔ اسی طرح قیمتی اور نیم قیمتی پتھروں کے بھی وسیع ذخائر گلگت بلتستان میں موجود ہیں ۔ سروے کے مطابق گلگت بلتستان میں روبی کے تین، ایمیرالڈ کے دو، سوامائر دو، سپائل دو ، ایکوامرین بارہ، ٹوپاز پندرہ، ٹورمالین چار، مون سٹون چار، زرقون تین، پارگیسایٹ چار اور گرنائٹ کے پندرہ ذخائر موجود ہیں۔ اتنی وسیع مقدار میں اعلی کوالٹی کے منرلز اور قیمتی پتھر کے ذخائر گلگت بلتستان میں موجود ہونے کے باوجود گلگت بلتستان میں ابھی تک منرل پالیسی پر عمل درآمد ہو رہا ہے نہ ہی گلگت بلتستان میں اس شعبے میں کام کرنے والوں کو کوئی سہولت فراہم کی جارہی ہے۔گلگت بلتستان میں پہلی باقاعدہ منرل پالیسی مائینگ کنسیشن رولز کے نام سے 2013 میں بنائی گئی۔ اس پالیسی کو گلگت بلتستان میں منِرل کے شعبے میں کام کرنے والے بہت ہی موزوں پالیسی قرار دیتے تھے۔ اس کی خوبی یہ تھی کہ اس پالیسی کے تحت محکمہ معدنیات گلگت بلتستان کے سیکرٹری درخواست دہندہ گان کوکام کرنے لئے لیز جاری کر سکتے تھے اور کسی قسم کی ناانصافی کی صورت میں گلگت بلتستان کا چیف سیکرٹری اپیل سننے کا اختیار رکھتا تھا۔اس پالیسی کے تحت تمام معاملات صوبائی حکومت کے تحت انجام پاتے تھے۔ اس پالیسی کے تحت لیز کے حصول کے لئے درخواست دہندہ کے اکاﺅنٹ میں کم سے کم بیلنس چار لاکھ روپے ہونا اور فرم کے ساتھ جیالوجسٹ کاموجود ہونا ضروری ہے جبکہ لیز کے حصول کے لئے ایک لاکھ روپے بطور فیس ناقابلِ واپسی سرکاری خزانے میں جمع کرانا ضروری تھا ۔اس پالیسی کے تحت دوقسم کے لیز دیے جاتے تھے ۔ ایک مایئنگ لیز جو کہ ایسکیویشن کے لئے ہوتا تھا ،اس لیز کے تحت ایک شخص دوسو پچاس مربع کلو میٹر کے احاطے میں کام کرنے کا مجاز تھا۔قیمتی پتھر اور معدنیات گلگت بلتستان کے اہم قدرتی وسائل ہیں جن کو خطے سے غربت کے خاتمے کے لئے ان قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی ےہ ہے کہ اپنے وسائل سے استفادے کے حوالے سے بھی حکمت عملی ترتےب نہےں دی جاتی حالانکہ ہم ان وسائل کے ذرےعے وطن عزےز اور عوام کو خوشحال بنا سکتے ہےں۔اس کے لےے ہمےں اےسے ادارے بنانے کی ضرورت ہے جہاں ان وسائل کی درےافت اور کان کنی کے حوالے سے تربےت فراہم کی جائے۔
