خطرناک گلوف ایونٹ اور سیلاب کے خطرات

محکمہ موسمیات نے گلگت بلتستان کے رہائشیوں کو رواں ہفتے ممکنہ گلیشیئل لیک آﺅٹ برسٹ فلڈ (گلوف)کے واقعات اور سیلاب کے خطرے سے خبردار کیا ہے۔ محکمہ موسمیات کی جانب سے پیر کو جاری کردہ الرٹ میں کہا گیا ہے کہ گلگت بلتستان اور خیبر پختونخواہ میں 21 سے 27 مئی کے درمیان دن کے وقت درجہ حرارت آندھی اور گرج چمک کے ساتھ چارسے چھے ڈگری سینٹی گریڈ رہنے کی توقع ہے، جو کہ معمول سے زیادہ ہے۔اس سے گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے ضلع چترال کے برفانی علاقوں میں خطرناک گلوف ایونٹ یا سیلاب آسکتا ہے۔محکمہ موسمیات نے انتظامیہ اور مقامی تنظیموں، برادریوں کو چوکنا رہنے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ بھی دیا ہے۔ گلگت کے ڈپٹی کمشنر امیر اعظم حمزہ نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ شدید موسم میں غیر ضروری سفر سے گریز کریں اور بل بورڈز، بجلی کے تاروں اور درختوں کے نیچے کھڑے نہ ہوں۔اےک بیان میں کہا گیا ہے کہ گلیشیئرز کے قریب رہنے والے لوگ احتیاطی تدابیر اختیار کریں، اس کے علاوہ سیاحوں کو بھی بارش کے دوران محتاط رہنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ قبل ازےں2022 میں گلگت بلتستان کے اضلاع ہنزہ، نگر، غذر، استور، اسکردو اور کئی دیہاتوں کو سیلاب اور گلوفس نے متاثر کیا تھا۔ برفانی جھیلیں پھٹنے سے سیلاب یعنی گلیشیئل لیک آﺅٹ برسٹ فلڈ، یا جی ایل او ایف، گلیشیئر پگھلنے سے کھل جانے والی جھیل سے پانی کے اچانک اخراج سے پیدا ہوتا ہے۔ گلگت بلتستان کے بالائی علاقوں میں بڑے گلیشےئرز کے مختلف حصوں میں گرمی کی شدت کے باعث گلیشےئر پگھلنے کے عمل کے دوران بہت سی چھوٹی بڑی جھیلیں بھی بن جاتی ہیں جن میں رفتہ رفتہ گلیشےئر پگھلنے سے جمع ہونے والے پانی کی مقدار بڑھتی جاتی ہے، بعض دفعہ یہ پانی گلیشئیر کے کسی حصہ کو کاٹ کر اپنا راستہ بنا لیتا ہے اور بعض اوقات راستہ بنانے کے عمل کے دوران گلیشےئر میں زیادہ بڑا شگاف پڑ جائے تو جھیل کی صورت میں جمع ہونے والا سارا پانی بیک وقت نیچے بہہ نکلتا ہے۔ اس عمل سے نقصان کا دارومدار جھیل میں جمع پانی کی مقدار پر ہوتا ہے۔ 2017میں یو این ڈی پی نے پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں مکینوں کی زندگی کوقدرتی آفات سے تحفظ فراہم کرنے کی غرض سے وفاقی وزارت برائے موسمیاتی تبدیلی سے 37.5ملین ڈالر 3کروڑ 75 لاکھ ڈالرکی لاگت کے پروجیکٹ کا معاہدہ کیا تھا۔پروگرام کے تحت خطرناک جھیلوں کو محفوظ بنایا جانا تھا اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے ڈیم، آبی گزرگاہیں، قبل از وقت سیلاب کی وارننگ سسٹم بھی قائم کیا جانا تھا شمالی علاقوں میں مجموعی طور پر 250 انجینئرنگ اسٹرکچرز پر کام ہونا تھا۔یواین ڈی پی نے گرین ہاﺅس گیسوں کا اخراج زمین کو گرم سے گرم ترین کرنے کا باعث بن رہا ہے جس کی وجہ سے شمالی علاقہ جات میں ہندوکش،قراقرم اور ہمالیہ گلیشیئرزتیزی سے پگھل رہے ہیں جس کی وجہ سے 3ہزار 44 گلیشیئل جھیلیں پیدا ہوچکی ہیں، ماہرین نے 33 گلیشیئل جھیلوں کو آفت زدہ قرار دیا ہے۔ماحول خراب کرنے والے ممالک میں پاکستان کا نمبر 135 ہے لیکن آلودگی سے متاثرہ ملکوں میں ہمارا نمبرآٹھواں ہے۔ شمالی علاقہ جات میں قدرتی آفت سے 70لاکھ انسانی جانوں کوخطرہ درپیش ہے، مذکورہ پروجیکٹ کے تحت ڈیمز،تالاب،آبی گزر گاہیںاور نالیاں بنائی جائیں گی، جھیلوں کے اطراف شجرکاری کی جائے گی،ڈیزاسٹر مینجمنٹ پالیسیز، موسمیاتی مانیٹرنگ اسٹیشنز، قبل از وقت وارننگ نظام تشکیل دیا جائے گا جب کہ شمالی علاقہ جات میں سیلاب متاثرین بالخصوص خواتین کو معاشی وسماجی طور پر بااختیار بنانا بھی ترجیحات میں شامل ہے۔پاکستان ان دس ممالک میں شامل ہے جو عالمی سطح پر خطرناک گیسوں کے اخراج، جنگلات کی کٹائی کی بلند شرح اور گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے کی وجہ سے زیادہ تر ہمالیہ خطے میں گلوبل وارمنگ کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے انتہائی خطرے سے دوچار ہیں۔ 2010 اور 2022 کے تباہ کن سیلاب اور گلیشیئل لیک آﺅٹ برسٹ فلڈ کی وجہ گلگت بلتستان میں عطا آباد جھیل بن گئی تھی ، پاکستان کا اوسط سالانہ درجہ حرارت 1980 کے بعد کے سالوں میں تقریبا 24.6 سینٹی گریڈ اور 2022 سے پہلے آخری سالوں میں تقریبا 25.6 سینٹی گریڈ تھا اور اس میں 43 سال سے بھی کم عرصے میں اس میں اےک سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا۔ یہ اضافہ جنوبی ایشیائی خطے میں موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کی نشاندہی کرتا ہے۔گلوبل وارمنگ میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ڈالنے کے باوجود پاکستان کی معیشت جس کا زیادہ تر انحصار زراعت اور ٹیکسٹائل کے شعبوں پر ہے، موسمیاتی تبدیلیوں سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ترقی یافتہ ممالک اور اقوام متحدہ پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ وہ موسمیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ کو کنٹرول کرنے کے خلاف جدوجہد میں پاکستان سمیت ترقی پذیر ریاستوں کی مدد کریں۔ گلوبل وارمنگ اور درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے ہمالیہ کے علاقے میں گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں اور مستقبل میں پاکستان اور ہمسایہ ممالک میں سیلاب کے زیادہ امکانات ہیں۔موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے موسمی حالات بشمول درجہ حرارت میں اضافہ، ہیٹ ویوز، سیلاب اور سمندری طوفان انسانوں کے لیے سنگین خطرات کا باعث ہیں اور گلوبل وارمنگ کے منفی اثرات کو دور کرنے کے لیے بھرپور شجرکاری ضروری ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے موسمی حالات اور جنگلات کی غیر قانونی کٹائی کی وجہ سے پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک کے لیے ریگستان ایک بڑے چیلنج کے طور پر ابھرا ہے۔ریگستانی بننے کی وجہ سے موسم کی تبدیلی، طویل خشک سالی اور زمین کی تنزلی کی وجہ سے زرخیز زمین ویران ہوتی جا رہی ہے۔ پاکستان ہر سال تقریبا 27000 ہیکٹر جنگلات کو کھو رہا ہے جس میں زیادہ تر خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کے جنگلات شامل ہیں۔ حکومت پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے نمٹنے کیلئے اقدامات کر رہی ہے تاہم اس حوالے سے عالمی برادری کی جانب تعاون کی ضرورت ہے۔بدقسمتی سے، ہم گزشتہ سالوں میں بھاری قومی اور بین الاقوامی فنڈنگ کے باوجود موسم گرما کے گلیشیئر پھٹنے اور اچانک سیلاب سے بچنے کیلئے پائیدار یا دیرپا حل تیار نہیں کر سکے۔ممکنہ طور پر خطرناک جھیلوں میں سے کسی کا پھٹنا ایک تباہی کا سبب بن سکتا ہے جو اس کے راستے پر ہر چیز کو بہا لے جاتا ہے۔اس وقت، پاکستان کی وفاقی حکومت شمالی پاکستان میں گلیشیئل لیک آﺅٹ برسٹ فلڈ رسک ریڈکشن کی سکیلنگ اپ کیلئے 38ملین ڈالر مالیت کے گرین کلائمیٹ فنڈ منصوبے پر عمل درآمد کر رہی ہے۔ گلیشیئر پھٹنے کے ابھرتے ہوئے خطرات سے نمٹنے کیلئے دو پالیسیوں کا جائزہ لیا گیا ہے اور ان پر نظر ثانی کی گئی ہے۔ معاش پر گلیشیئر پھٹنے واقعات کے اثرات کو کم کرنے کیلئے کم از کم 250چھوٹے پیمانے پر انجینئرنگ ڈھانچے قائم کیے جائیںگے ۔پچاس موسم کی نگرانی کرنے والے سٹیشن اور408ریور ڈسچارج سینسر زندگی اور معاش کے تحفظ کیلئے موثر پیش گوئی اور اس کے مطابق منصوبہ بندی کیلئے متعلقہ ڈیٹا اکٹھا کریں گے۔ تمام منصوبہ بندی اور تیاریاں صرف ایک گلیشیر پھٹنے کی آفت میں دھل جاتی ہیںپاکستان کے پہاڑ انتہائی موسمی حالات کی وجہ سے تیزی سے کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔ لہذا گلیشیئر پھٹنے کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام، یو این ڈی پی کے فنڈ سے چلنے والے گلوف ٹو پراجیکٹ کے تحت ضلع لوئر، اپر چترال کے علاوہ دیر بالا اور سوات کے مختلف مقامات میں حفاظتی دیواریں ، کمیونٹی سنٹرز، آبپاشی کی نہریں تعمیر کرنے سے یہ علاقے سیلاب کی تباہ کاریوں سے کافی حد تک بچ سکیں گے۔چترال اور اس کے پڑوس کے اضلاع میں پہاڑوں کی چوٹیوں پر صدیوں پرانے گلیشیئرز، برفانی تودے پڑے ہیں جو عالمی حدت کی وجہ سے گرمیوں میں اکثر پھٹ جاتے ہیں جو گلوف ایونٹ کا باعث بنتا ہے، ان برفانی تودوں کا گرمی کی شدت کی وجہ سے پھٹنے کے باعث بغیر کسی بارش یا پیشگی اطلاع کے اکثر تباہ کن سیلاب آتے ہیں جو بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان کا باعث بن جاتے ہیں۔گلیشےئرکے نیچے رہنے والے ان وادیوں میں لوگوں کو سیلاب کی پیشگی اطلاع دینے کیلئے گلوف ٹو پراجیکٹ کے تحت قبل از وقت اطلاع دینے کیلئے محکمہ موسمیات کی اشتراک سے ان علاقوں میں ای ڈبلیو ایس کی مشینری بھی لگائی گئی ہے جو سیٹلایٹ سے کنیکٹ ہو گی اور سیلاب کی صورت میں مقامی لوگوں کو ایک سگنل کے ذریعے پیشگی اطلاع دی جائے گی جس سے آس پاس کے لوگ خبردار ہوکر محفوظ مقامات کو منتقل ہوں گے۔