ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا سانحہ ارتحال

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی اور وزیرخارجہ حسین امیر عبداللہیان دیگر ساتھیوں کے ساتھ ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق ہوگئے انا للہ وانا الےہ راجعون۔کل صبح حادثے کا شکار ہیلی کاپٹر کا ملبہ ملا جس کے بعد ایرانی صدر اور ہیلی کاپٹر میں سوار افراد کے بچ جانے کی امیدیں دم توڑ گئی تھیں۔برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز نے ایرانی میڈیا مہر کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ابراہیم رئیسی اور ایرانی وزیرخارجہ ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق ہوگئے ہیں۔بعدازاں ایرانی حکام نے بھی ابراہیم رئیسی اور ساتھیوں کی موت کی تصدیق کردی ۔بتاےا جاتا ہے کہ ہیلی کاپٹر میں نو افراد سوار تھے، جن میں صدر ابراہیم رئیسی، وزیر خارجہ امیر عبداللہیان، مشرقی آذربائیجان کے گورنر مالک رحمتی، تبریز کے امام سید محمد الہاشم،صدر کے سےکیورٹی یونٹ کے کمانڈر سردار سید مہدی موسوی، باڈی گارڈ اور ہیلی کاپٹر کا عملہ موجود تھے۔حادثے کی وجوہات پر کوئی باضابطہ معلومات نہیں مل سکےں۔ہیلی کاپٹر کی تلاش کے لیے دشوار گزار اور برفانی علاقوں میں امدادی کارروائیاں رات بھر جاری رہیں، دیگر ممالک کی ٹیمیں بھی شامل تھیں۔قبل ازیں ایران کے ہلال احمر کے سربراہ نے کہا تھا کہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کا لاپتا ہیلی کاپٹر مل گیا ہے لیکن صورت حال اچھی نہیں ہے۔ایک اور ایرانی عہدیدار نے بتایا تھا کہ صدر ابراہیم رئیسی کا ہیلی کاپٹر حادثے میں مکمل طور پر تباہ ہوگیا ہے، بدقسمتی سے، تمام مسافروں کی ہلاکت کا خدشہ ہے۔ایران کے سرکاری میڈیا کا کہنا تھا کہ صدر ابراہیم رئیسی اور ایرانی وزیرخارجہ حسین امیر عبداللہیان کے ہیلی کاپٹر کو پیش آنے والے حادثے کے بعد بڑے پیمانے پر سرچ اینڈ ریسکیو کا کام جاری ہے۔پاسداران انقلاب سمیت مختلف ممالک کی ٹیمیں حادثے کے مقام پر موجود ہیں، ترکیہ اور روس کے ریسکیو ماہرین بھی آپریشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔عرب میڈیا کے مطابق ترکیہ کے ڈرون نے ہیلی کاپٹر کا مقام ڈھونڈا جبکہ شدید دھند اور انتہائی خراب موسمی صورتحال کے باعث ریسکیو اہلکاروں کو مشکلات کا سامنا رہا۔19 مئی کی شام ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کو ملک کے علاقے آذربائیجان کے پہاڑی علاقے میں حادثہ پیش آیا تھا۔ایرانی صدر مشرقی آذربائیجان میں ڈیم کے افتتاح کے بعد واپس تبریز شہر کی طرف جارہے تھے، مقامی میڈیا کے مطابق وہ ایران اور آذربائیجان کے سرحدی علاقے سے واپس لوٹ رہے تھے۔ایرانی صدر کے ہیلی کاپٹر کے ساتھ مزید دو ہیلی کاپٹر بھی شامل تھے، ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کو ملک کے شمال میں دھند کے باعث ہارڈ لینڈنگ کرنا پڑی تھی۔ابراہیم رئیسی 1960 میں شمال مشرقی ایران کے شہر مشہد میں پیدا ہوئے اورصرف بےس سال کی عمر میں انہیں تہران بالمقابل واقع شہر کرج کا پراسیکیوٹر جنرل نامزد کیا گیا تھا۔انہوں نے 1989 سے 1994 تک تہران کے پراسیکیوٹر جنرل کی خدمات انجام دیں جس کے بعد 2004 سے 2014 تک عدالتی اتھارٹی کے ڈپٹی چیف اور پھر 2014 میں نیشنل پراسیکیوٹر جنرل رہے۔انہوں نے 2021 میں ایک ایسے وقت میں بطور صدر ملک کی باگ ڈور سنبھالی تھی جب ایران شدید سماجی بحران کے ساتھ ساتھ اپنے متنازع جوہری پروگرام کے سبب امریکا کی وجہ سے عائد کی گئی پابندیوں کی وجہ سے معاشی دباﺅ کا شکار تھا۔انہیں اپنے دور میں اس وقت شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا جب ستمبر 2022 میں مہسا امینی کی دوران حراست موت کے بعد ملک بھر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے گئے تھے۔تاہم مارچ 2023 میں علاقائی حریف تصور کیے جانے والے ایران اور سعودی عرب نے حیران کن طور پر ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہو گئے تھے۔غزہ میں سات اکتوبر کو شروع ہونے والی جنگ نے خطے میں تناﺅ میں ایک مرتبہ پھر اضافہ کردیا تھا اور اپریل 2024 میں ایران نے اسرائیل پر براہ راست سیکڑوں میزائل اور راکٹ فائر کیے تھے۔اتوار کو آذربائیجان کے صدر کے ہمراہ ڈیم کے افتتاح کے بعد تقریر میں ابراہیم رئیسی نے ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں کے لیے ایران کی غیرمشروط حمایت کا اعادہ کیا تھا۔ایرانی صدر نے کہا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ فلسطین مسلم دنیا کا سرفہرست مسئلہ ہے اور ہمیں یقین ہے کہ ایران اور آذربائیجان کے عوام فلسطین اور غزہ کے عوام کی حمایت اور صہیونی حکومت سے نفرت کرتے ہیں۔ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر حادثے میں جاں بحق ہونے کے بعد ملک کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے محمد مخبرکو حکومت کا نیا عارضی سربراہ مقرر کردیا ہے۔محمد مخبر پچاس روز کے اندر نئے انتخابات کروانے کے پابند ہیں۔ایران کے آئین کے آرٹیکل 131 کے مطابق اگر کوئی صدر اپنے دورِ اقتدار کے دوران نااہل قرار دے دیا جاتا ہے یا پھر انتقال کر جاتا ہے تو سپریم لیڈر کی جانب سے تمام تر صورتحال کی تصدیق ہونے کے بعد نائب صدر اقتدار سنبھالتا ہے۔بعد ازاں نائب صدر، پارلیمنٹ کے اسپیکر اور عدلیہ کے سربراہ پر مشتمل ایک کونسل کو پچاس دنوں کے اندر نئے صدر کا انتخاب کروانا ہوتا ہے۔68 سالہ محمد مخبر ابراہیم رئیسی کی طرح سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں۔1955 میں پیدا ہونے والے محمد مخبر ایرانی مصالحت کونسل کے رکن بھی ہیں۔ابراہیم رئیسی نے اقتدار سنبھالنے کے فورا بعد اگست 2021 میں محمد مخبر کو اپنا پہلا نائب صدر مقرر کیا تھا۔محمد مخبر ایرانی حکام کی اس ٹیم کا حصہ تھے جس نے اکتوبر2023 میں ماسکو کا دورہ کیا تھا اور روس کی فوج کو میزائل اور مزید ڈرون فراہم کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔اس ٹیم میں ایران کے پاسداران انقلاب کے دو سینئر اہلکار اور سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ایک اہلکار بھی شامل تھے۔اس سے قبل محمد مخبر سپریم لیڈر سے وابستہ سرمایہ کاری فنڈ سیتاد کے سربراہ رہ چکے ہیں، اس کے علاوہ وہ سینا بینک کے بورڈ چیئرمین اور صوبہ خوزستان کے ڈپٹی گورنر ہیں۔2013 میں امریکی محکمہ خزانہ نے سیتاد اور اس کے زیر انتظام 37 کمپنیوں کو پابندی کی فہرست میں شامل کیا تھا۔نائب ایرانی صدر کے پاس ڈاکٹریٹ کی دو ڈگریاں ہیں جن میں بین الاقوامی حقوق میں ڈاکٹریٹ کا تعلیمی مقالہ بھی شامل ہے، انہوں نے مینجمنٹ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کی ہے۔ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کو نظام کے سب سے قابل اعتماد لوگوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ایران کی طرف سے امریکہ اور عراق کے ساتھ مذاکرات میں شریک تھے۔ انہی مذاکرات کے بعد ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری امور پر بات چیت ہوئی تھی۔وہ پہلے ایرانی اہلکار تھے جو حسن روحانی کے دور میں تہران میں برطانوی سفارتخانے کے افتتاح کے بعد لندن گئے تھے اور برطانوی وزیر خارجہ فلپ ہیمنڈ سے ملاقات کی تھی۔وہ وزارت خارجہ میں مختلف عہدوں پر فائز رہے ہیں اور خطے میں ایران کے مزاحمتی فرنٹ اور اثر و رسوخ پر بات کرتے تھے۔ان کے پاسداران انقلاب کے کمانڈر قاسم سلیمانی سے قریبی تعلقات تھے جو مشرق وسطی میں ایرانی معاملات کے ذمہ دار تھے ۔انہوں نے تہران یونیورسٹی سے بین الاقوامی امور سے متعلق ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر رکھی تھی۔ وہ بحرین میں ایران کے سفیر رہ چکے ہیں مگر حسن روحانی کی حکومت نے انہیں اس عہدے سے ہٹا دیا تھا۔حالیہ دور میں غزہ جنگ کے دوران ایرانی وزیر خارجہ نے مختلف ممالک کے دورے کیے تھے۔ہیلی کاپٹر کے حادثے میں وزےر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کے جاں بحق ہونے کے بعد خیال ہے کہ ایرانی حکومت نئے وزیر خارجہ کا اعلان کرے گی۔آئین کے آرٹیکل 135 کے مطابق جب کسی وزارت کا کوئی وزیر نہ ہو تو صدر کسی شخص کا انتخاب کر کے انہیں تین ماہ کے لیے اس وزارت کا سربراہ نامزد کر سکتے ہیں۔ایرانی صدر کے ہےلی کاپٹر حادثے پر پاکستان، انڈیا اور حماس کی جانب سے گہرے دکھ کا اظہار کےا گےا ہے‘پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے ایرانی صدر کے جاں بحق ہونے پر یوم سوگ کا اعلان کیا ہے۔ انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ انہیں اس واقعے پر صدمہ پہنچا ہے۔انہوں نے انڈیا اور ایران کے مشترکہ تعلقات کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔غم کے اس لمحے میں انڈیا ایران کے ساتھ کھڑا ہے۔ایک بیان میں حماس نے ایران کے صدر ابراہیم رئیسی، وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان اور دیگر کی اموات پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔ فلسطینی گروہ، جو غزہ میں اسرائیل کے خلاف حالت جنگ میں ہے، نے کہا کہ ہم برادر ملک ایران سے مشترکہ دکھ کا اظہار کرتے ہیں۔ اس افسوسناک واقعے پر ہم اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ مکمل یکجہتی ظاہر کرتے ہیں۔ اس واقعے نے ایران کے بہترین رہنماﺅں کی جانیں لے لیں۔بہرحال اس امر تحقےقات کی جانی چاہےں کہ کہےں ےہ کوئی سازش تو نہےں۔اےرانی صدر کی موت کی تصدےق سے قبل ہی اسرائےلی مےڈےا نے کےوں اور کےسے ےہ خبر برےک کی کہ وہ جاں بحق ہو چکے ہےں حالانکہ اےرانی حکومت کی جانب سے اس بات کی تصدےق نہےں کی گئی تھی‘ےہ دےکھا جانا چاہےے کہ کہےں اسرائےل تو اس سازش میں ملوث نہےں۔