نائب وزیر اعظم اسحق ڈار نے کہا ہے کہ بشکیک حملے میں چارسے پانچ پاکستانی طلبہ زخمی ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ بشکیک میں پیش آنے والا واقعہ انتہائی افسوسناک ہے، کرغزستان میں طلبہ میں تصادم ہوا جس کی وجہ سے یہ واقعہ پیش آیا، میری کرغزستان کے وزیر خارجہ سے تفصیلی بات ہوئی ہے۔انہوں نے بتایا کہ وزیر اعظم صاحب اس معاملے میں خود شامل ہوئے ہیں، وزارت خارجہ میں ایمرجنسی یونٹ فعل ہے اور لمحہ با لمحہ ہمیں تمام پیشرفت کے حوالے سے تفصیلات مل رہی ہیں، کرغزستان کے صدر سے سفارت خانے کے ذریعے رابطہ رہا، ہم نے نائب سفیر کو ہفتے کو طلب کیا اور ان سے کہا کہ ہمیں ساری تفصیلات چاہیے اور ہمارے سفیر بھی وزارت خارجہ کو تفصیلات فراہم کرتے رہے، وزیر اعظم نے پاکستانی سفیر سے خود بھی بات چیت کی۔اسحق ڈار نے کہا کہ کرغزستان کے وزیر خارجہ نے جو ہمیں نمبر دیے اس کے مطابق اس واقعہ میں سولہ طلبہ زخمی ہوئے ہیں اور وہ ہسپتال میں داخل ہیں، اس میں چارسے پانچ پاکستانی طلبہ بھی شامل ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ کل 130 بچے پاکستان پہنچ چکے ہیں، تین خصوصی پروازوں میں 540 مزید طلبہ واپس آئیں گے، ہم نے ایئر فورس سے بات کی ہے اور ان کی آج فلائٹ جائے گی جس میں 130 لوگوں کی گنجائش ہے، ابھی تک 50 کے قریب بچوں نے سفارت خانے میں انٹری کروائی اور بتایا ہے کہ ہم ایئر فورس کے طیارے میں جانا چاہتے ہیں۔ کرغزستان کے وزیر خارجہ نے بتایا کہ ہم، ہمارے صدر اس معاملے کو خود مانیٹر کر رہے ہیں اور یہاں کوئی اور مسئلہ نہیں ہوا، یہ کوئی غلط فہمی کی بنا پر واقعہ ہوا، ہماری بھی اپوزیشن ہے اور اپوزیشن جماعتیں غیر ملکی طلبہ کے خلاف مہم چلاتی ہیں کہ ہمارے ملک میں غیر ملکی طلبہ کیوں آتے ہیں؟ وہ حکومتی پالیسی کے خلاف بات کرتے ہیں، دوسری بات یہ کہ نا جانے پیڈ بلاگرز کا ایجنڈا کیا ہے وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ جھوٹ پھیلاتے ہیں، اس واقعہ کے بعد سے علاقے امن قائم ہے۔اسحق ڈار نے کہا کہ یہ بد قسمتی ہے کہ ایسے واقعات پر بھی سوشل میڈیا کے ذریعے نفرت پیدا کی جاتی ہے، لوگوں کو اکسایا جاتا ہے تو کہیں تو حد کا تعین کرنا ہوگا، ہر ملک میں یہ بات ہو رہی ہے اس طرح کے منفی ایجنڈا پھیلانے والوں کے خلاف، یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں، ایسا کیوں ہورہا ہے یہ دیکھنا پڑے گا، وزیر خارجہ نے کہا کہ جھوٹی خبریں چلائی گئی کہ پاکستانی طلبہ ہلاک ہوئے تو ایسا کچھ نہیں ہوا ہے۔ کرغزستان کے وزیر خارجہ نے مجھے بتایا کہ ہمارے بچے ان کو اتنے ہی عزیز ہیں جتنے انہیں ان کے بچے عزیز ہیں، میں نے رات میں سوچا کہ میں اور امیر مقام صاحب وزیر اعظم کی ہدایت پر کرغزستان خود چلے جاتے لیکن ہمیں کرغزستان سے درخواست آئی کہ آپ ہم پر بھروسا کریں، آپ لوگ سینئر لوگ ہیں اور یہاں کچھ بھی نہیں ہے، اگر آپ لوگ آئیں گے تو اپوزیشن اس کو ہوا دے گی، ہم ان پر تنقید کرنے نہیں جارہے تھے بلکہ بچوں کو تسلی دینے جارہے تھے تو اس وجہ سے ہم نے ان کی درخواست قبول کرلی، ہم نے ہمارے مشن کو فعال کردیا ہے اور دو اضافی افسر کو بھیج دیا تھا، اگر ضرورت ہوگی تو سیکرٹری خارجہ یا ایڈیشنل سیکرٹری خارجہ کو بھی بھجوا دیں گے۔دیکھنے والی بات یہ ہے کہ اتنی جو مہم پھیلائی گئی اس کے برعکس حقائق کچھ اور ہیں تو یہ بہت دکھ کی بات ہے، ہم سب پاکستانی ہیں اور یہ سب ہمارے بچے ہیں جو تعلیم حاصل کرنے گئے ہوئے ہیں، میں یقین دہانی کرواتا ہوں کہ کوئی خوفناک صورتحال نہیں ہے، اور ڈپٹی سفیر ہم سے ساری بات کر رہے ہیں، ہم دن میں کئی باردفعہ اس کو مانیٹر کریں گے اور ہمارا سفارتخانہ بھی کہہ رہا ہے کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں، جو زخمی ہیں ان کی دیکھ بھال بھی کی جارہی ہے، ہم ہر صورتحال کے لیے تیار ہیں، اگر بچے واپس آنا چاہ رہے ہیں ان کو واپس لایا جائے گا۔بعد ازاں وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا کہ پاکستانی طلبہ اس حملے کا ہدف نہیں تھے، یہ عرب اور وہاں کے بچوں کا معاملہ تھا جس کی زد میں ہمارے بچے آگئے، ہمارے کرغزستان سے اچھے تعلقات ہیں، اس واقعہ کے فورا بعد وزیر اعظم کا دفتر اور وزارت خارجہ فوری طور پر حرکت میں آگئے، میں سفارت کار کو بھی سلام پیش کرتا ہوں کہ وہ ایسے حالات میں باہر نکلے اور وہاں بچوں کی تیمارداری کی۔وہاں حالات معمول پر واپس آگئے ہیں، کرغزستان کے کچھ طلبہ بھی بچوں کے پاس خیر سگالی کا پیغام لے کر پہنچے ہیں، افسوسناک بات یہ ہے کہ وزیر اعظم صاحب نے اس پر کام کیا، میں نے بچوں سے رابطہ کیا مگر ایک سیاسی جماعت جو کبھی آئی ایم ایف کو خط لکھتی ہے تو کبھی ملک میں انتشار پھیلانا چاہتی ہے ان کی طرف سے مخصوص پروپیگنڈا کیا گیا، والدین کو بتایا گیا کہ ان کی بچیوں کے ساتھ ریپ کیا گیا ہے، والدین کو بتایا گیا کہ ان کے بچے فوت ہوگئے ہیں، تو وہ اللہ سے ڈریں، ایسے حالات کسی پر بھی آسکتے ہیں، اس صورتحال کو سیاست پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال کرنا افسوسناک ہے، اس کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔وفاقی وزیر نے بتایا کہ وزیر اعظم کی طرف سے کل صبح 10 بجے بیان جاری ہوا کہ کوئی طالب علم ہلاک نہیں ہوا، چھے طلبہ ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں تو حکومت نے بر وقت رد عمل دیا، حکومت لمحہ بہ لمحہ اس کو دیکھ رہی ہے، محسن نقوی صاحب خود ایئرپورٹ گئے مگر پینک پھیلایا گیا کہ ہلاکتیں ہوئی، ریپ کیا گیا، ہر پاکستانی کی حفاظت حکومت کے ذمے ہے، حکومت مکمل طور پر اس معاملے کو ڈیل کر رہی ہے۔اس موقع پر اسحق ڈار نے کہا کہ میں نے ریپ کی بات خود نہیں کی، کرغزستان کے حکام نے کہا یہ خبر غلط چلائی گئی، وہاں کے لوگ تو خود پاکستانی بچوں سے جا کر مل رہے ہیں، بد قسمتی ہے کہ ہم سوشل میڈیا کے ذریعے ایسے جھوٹ پھیلاتے ہیں جس سے نفرت پیدا ہوتی ہے۔صدر مملکت آصف علی زرداری کی ہدایت پر ایوانِ صدر نے کرغزستان میں پاکستانی سفیر سے رابطہ کرکے پرتشدد صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایوانِ صدر نے بشکیک میں پاکستانی طلبہ کی حفاظت کے لیے اقدامات لینے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ایوان صدر کے مطابق کرغزستان میں پاکستانی طلبہ کو تعلیم کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنے کی ضرورت ہے، طلبہ کی حفاظت اور تعلیم جاری رکھنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔پاکستانی سفیر نے کہا کہ کرغزستان میں پاکستانی طلبہ کی سیکیورٹی کی صورتحال بہتر ہو رہی ہے، پاکستانی طلبہ کی سیکیورٹی کے لیے اقدامات لے رہے ہیں۔کرغز حکومت کے ساتھ رابطے میں ہیں، کرغز حکومت اور جامعات پاکستان واپس جانے والے طلبہ کے لیے آن لائن کلاسز کا اہتمام کریگی۔واضح رہے کہ 18 مئی کو کرغزستان میں طلبہ کے ہاسٹل پر مقامی انتہا پسند عناصر نے حملہ کیا تھا جس میں متعدد طالبعلم زخمی ہو گئے تھے اور ان حملوں کے بعد پاکستانی طالبعلم بشکیک میں محصور ہو کر رہ گئے تھے۔بشکیک میں پاکستانی سفارتخانے کے حوالے سے بتایا کہ بشکیک میں مقامی افراد نے مقیم غیر ملکی طلبہ بشمول پاکستانیوں پرحملہ کر دیا، جن کا چند روز قبل مصری شہریوں کے ساتھ جھگڑا ہوا تھا۔بشکیک میں میڈیکل یونیورسٹیوں کے متعدد ہاسٹلز اور پاکستانیوں سمیت بین الاقوامی طلبہ کی نجی رہائش گاہوں پر حملے کیے گئے۔گزشتہ رات کرغزستان میں حملوں کے بعد پاکستانی طالب علموں کی روانگی شروع ہوئی تھی، رات 12 بجے کے بعد پہلی پرواز 140 پاکستانی طلبا سمیت 180 مسافروں کو لے کر لاہور پہنچی تھی۔وزیراعظم شہباز شریف نے کرغزستان میں پاکستانی سفیر حسن علی ضیغم سے ٹیلیفونک رابطہ کرتے ہوئے خصوصی طیارے سے متعلق ضروری انتظامات کرنے کی ہدایت کی۔ بشکیک سے پاکستانی طلبہ کو وطن واپس لانیکے لیے خصوصی طیارہ روانہ ہو چکا ہے خصوصی طیارہ رات کو 130 پاکستانی طلبہ کو لے کر پاکستان پہنچے گا۔خصوصی طیارے کے تمام تر اخراجات حکومت پاکستان ادا کرے گی۔وزیراعظم نے ٹیلیفونک رابطے میں تمام پاکستانی طلبہ، خاندانوں کے ساتھ رابطے میں رہنے کی ہدایت بھی کی ہے۔شہباز شریف نے کہا ہے کہ زخمی پاکستانی طلبا کو ترجیحی بنیادوں پر وطن لایا جائے گا۔ پاکستانی سفیر نے کرغز نائب وزیر خارجہ سے ہونے والی ملاقات سے وزیر اعظم کو آگاہ کیا، انہوں نے بتایا کہ کرغز حکومت نے کہا ہے کہ حالات پر مکمل طور پر قابو پالیا گیا، کل رات اور آج تشدد کا کوئی نیا واقعہ نہیں ہوا، سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے، پاکستانی اور دیگر غیر ملکی بالکل محفوظ ہیں۔ گزشتہ رات کرغزستان میں حملوں کے بعد پاکستانی طالب علموں کی روانگی شروع ہوئی تھی، رات بارہ بجے کے بعد پہلی پرواز 140 پاکستانی طلبا سمیت 180 مسافروں کو لے کر لاہور پہنچی تھی۔کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک مقامی افراد نے پاکستانی خواتین طالبات کے ہاسٹلز پر بھی حملہ کیا۔ خاتون طالبہ نے بتایا کہ ہم نے ہاسٹل کے واش روم میں پناہ لی ہے، یہاں پر خواتین طلبہ کو ہراساں کیا جار رہا ہے، ہم چھے طلبہ ایک واش روم میں موجود ہیں ہمیں یہاں سے بچایا جائے۔پاکستانی طالبہ کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاسٹلز پر حملے کرکے توڑ پھوڑ کی گئی ہے، انہوں نے مطالبہ کیا کہ پاکستانی سفارتخانہ جلد ہمارے لیے اقدامات اٹھائے۔
