انفارمیشن کمیونیکیشن ٹیکنالوجی

وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی شزہ فاطمہ کا کہناہے کہ آئی سی ٹی انفارمیشن کمیونیکیشن ٹیکنالوجی سروسز کی برآمدات میں اپریل 2024 میں 31 کروڑ ڈالرز کا اضافہ ہوا ہے جو ملکی تاریخ میں پہلی بار ہے۔آئی ٹی برآمدات میں گزشتہ سال اپریل کے مقابلے میں 62.3 فیصد اضافہ ہوا۔ جاری کردہ اپنے بیان میں شزہ فاطمہ نے مزید کہاکہ جولائی 2023 سے اپریل 2024 کے دوران آئی ٹی برآمدات 2.593 ارب ڈالرز تک پہنچ گئیں۔گزشتہ مالی سال کے اسی عرصہ میں آئی ٹی برآمدات 2.135 ارب ڈالرز تھیں۔وزیر مملکت کے مطابق آئی ٹی برآمدات میں یہ اضافہ وزیراعظم کی انتھک محنت کا نتیجہ ہے اور مزید اضافے کے لیے اقدامات جاری ہیں، امید ہے کہ اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوں گے۔ےہ درست ہے کہ پاکستان میں آئی ٹی کا شعبہ اپنی ترقی سے مسلسل حیران کر رہا۔ ماہرین کے نزدیک عالمی سطح پر پاکستانی آئی ٹی ایکسپرٹس کی صلاحیتوں کا اعتراف اور ملکی معیشت میں اس کا بڑھتا ہوا کردار حوصلہ افزا پیش رفت ہے۔عالمی سطح پر پاکستانی آئی ٹی ایکسپرٹس کی صلاحیتوں کے اعتراف کی ایک جھلک ہانگ کانگ میں منعقد ہونے والی ایشیا پیسیفک انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن الائنس ایوارڈز میں دیکھی جا سکتی ہے جہاں کارکردگی پر پاکستان کی آئی ٹی کمپنیوں نے آٹھ بڑے ایوارڈ اپنے نام کیے، ان میں ایک گولڈ اور سات میرٹ ایوارڈ شامل ہیں۔جبکہ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے فری لانسرز کا 42 فیصد حصہ سافٹ ویئر ڈیویلپمنٹ سے جڑا ہے اور یہ سافٹ ویئر ڈیویلپمنٹ سے وابستہ فری لانسرز کی عالمی تعداد کا 10.5 فیصد بنتا ہے۔ جو بنگلہ دیش، سری لنکا اور جنوبی ایشیا کے کئی دیگر ممالک سے زیادہ ہے۔ مجموعی اعتبار سے تیس فیصد کی شرح نمو کے ساتھ پاکستان کے آئی ٹی شعبے نے گزشتہ پانچ برس کے دوران 178 فیصد ترقی کی جو انتہائی غیر معمولی ہے۔ شرح نمو کے اعتبار سے اس نے ٹیکسٹائل سمیت دیگر تمام مقامی صنعتوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔سرکاری ادارے پاکستان ٹیک ڈسٹینیشن کی پاکستان آئی انڈسٹری کا اجمالی جائزہ کے نام سے شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی آئی ٹی برآمدات 655 ملین ڈالر تھیں جو پانچ برس کے دوران 2.1 بلین ڈالر کی متاثر کن حد تک پہنچ گئیں۔ اس دوران ملک میں رجسٹرڈ آئی ٹی کمپنیوں کی تعداد تین سو پچانوے سے بڑھ کر دو ہزار آٹھ سو چھبیس ہو گئی۔ پاکستان 2025 تک آئی ٹی کے شعبے کو ایک ٹریلین ڈالر تک پہنچانا چاہتا ہے اور اگر 15 فیصد کی شرح نمو کے ساتھ یہ سفر جاری رہا تو ہدف بآسانی حاصل کیا جا سکے گا۔دسمبر2021 میں پاکستان کی آئی ٹی برآمدات 303 ملین ڈالر تھیں جو دسمبر 2022 میں 247 ملین ڈالر کے مقابلے میں 22.67 فیصد زیادہ ہے۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ ترقی کا سفر تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ آئی ٹی میں پاکستانی کی تاریخی ترقی کرونا وبا کے دوران لگنے والی پابندیاں تھیں، تب زیادہ تر امور آن لائن سر انجام دیے جانے لگے۔ ایسے میں نوجوانوں کو شہ ملی اور انہوں نے تیزی سے آئی ٹی انڈسٹری کا رخ کیا جس سے نہ صرف ملک میں فری لانسرز بڑھے بلکہ اس شعبے کو بھی ترقی ملی۔کرونا کے بعد عالمی کمپنیوں کو زیادہ تر کل وقتی ملازمین درکار نہیں تھے۔ آن لائن کام میں یہ بھی بے معنی ہو گیا کہ کون کہاں بیٹھا ہے۔ پھر ہمارے ہاں باصلاحیت نوجوانوں کی کوئی کمی نہیں جو کم پیسوں میں بہتر کام کر سکتے تھے۔ اس طرح انہوں نے مارکیٹ میں اپنی جگہ بنائی اور اس کا کریڈٹ فری لانسرز کو جاتا ہے۔ ایک طرح سے یہ مارکیٹ انہوں نے ڈسکور کی۔ پاکستان میں اس وقت لگ بھگ 10 لاکھ آئی ٹی فری لانسرز ہیں، جنہوں نے گزشتہ برس محض جولائی سے دسمبر کے دوران 20 کروڑ امریکی ڈالرز سے زیادہ زرمبادلہ کمایا۔ پاکستان کی آئی ٹی برآمدات کا حجم 2.6 ارب ڈالر ہے۔پاکستان میں فائیو جی لانے کے لیے دو لاکھ کلومیٹر طویل فائبر آپیٹک بچھائی جائے گی۔ فری لانسرز کی سہولت کیلئے دس ہزار ای روزگار مراکز قائم کیے جائیں گے جہاں دس لاکھ فری لانسرز کے لیے سہولیات میسر ہوں گی۔حکومت مختلف سہولیاتی مراکز قائم کر رہی ہے، فری لانسرز کے لیے بینک اکاﺅنٹ کھلوانا ایک مسئلہ تھا جسے حل کرنے کے لیے بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔ پے پال جیسے نیٹ ورکس سے مذاکرات چل رہے ہیں۔ ہمارے ادارے نے اب آئی ٹی کے شعبے سے وابستہ فری لانسرز اور کمپنیوں کی رجسٹریشن شروع کی ہے جس کی فیس محض ایک ہزار ہے۔ بدلے میں ہم انہیں انشورنس فراہم کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں اچانک ایک شعبے میں نئی پالیسی متعارف کروا دی جاتی ہے جس سے سرمایہ کار اور باہنر کاریگر دل برداشتہ ہو کر پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ سرمایہ کار نے کاروبار کرنا ہے اور اسے سازگار ماحول چاہیے۔ اگر آپ نہیں دیں گے وہ کہیں اور چلا جائے گا۔ مثال کے طور پر پالیسی یہ چل رہی ہے کہ آئی ٹی ایکسپورٹ پر ٹیکس نہیں لیا جائے گا، اچانک ایف بی آر نوٹس جاری کر دے گا کہ فری لانسرز ٹیکس دیں۔ کچھ عرصے بعد پھر پرانی پالیسی آ جائے گی۔ ایسے ماحول میں دیرپا ترقی کیسے ممکن ہے؟ ہم ابھی تک زیادہ کام آوٹ سورسنگ کا کر رہے ہیں۔ ہمیں بڑی بڑی آئی ٹی کمپنیاں کھڑی کرنی ہیں جس کے لیے ضروری ہے کہ اچھے ریسرچ سنٹر بنیں، ٹریننگز دی جائیں اور اس شعبے میں زیادہ ہنر مند افراد پیدا کیے جائیں۔آئی ٹی سیکٹر کے فروغ کے لیے سیاسی استحکام سب سے اہم اور سرفہرست شرط ہے جس سے ملک کا امیج بہتر ہو گا اور تب براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری اور تجارت آسان ہو گی لیکن اس سب کے لیے سیاسی استحکام ناگزیر ہے۔پاکستان کو اس وقت جتنا غیر ملکی قرض ادا کرنا ہے اس سے کہیں زیادہ ڈالرز بھارت کی ٹاپ آئی ٹی کمپنیاں ایک سال میں کما لیتی ہےں۔ اِدھر حالت یہ ہے کہ پاکستان کا پورا آئی ٹی سیکٹر مل کر بھی سالانہ دو ڈھائی ارب سے زیادہ نہیں کما پا رہا ۔آئی ٹی سیکٹر کو تو چھوڑیں پاکستان کے تمام شعبے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر بھی برآمدات کو تیس چالیس ارب ڈالر سے آگے نہیں لے جا سکے ۔ اگر ماضی کی تمام حکومتوں نے آئی ٹی کے حوالے سے یکساں اور مثبت پالیسی اپنائی ہوتی تو آج ہم سیاسی طور پر باہم دست و گریباں ہوتے نہ ہماری ملکی معیشت وینٹی لیٹر پر ہوتی۔ بھارت کی ٹاپ چھ کمپنیوں نے 2022 میں جتنا بزنس کیا ہے اتنا پاکستان نے گزشتہ دس برس میں بھی نہیں کیا ہو گا۔ ٹاٹا کنسلٹنسی سروسز 2022 میں ساڑھے ستائیس ارب ڈالرانفوسیس اٹھارہ ارب ڈالرایچ سی ایل ٹیکنالوجیز بارہ ارب ڈالروائپرو گیارہ ارب ڈالر ٹیک ماہندرا ساڑھے چھ ارب ڈالر اور ایل ٹی آئی مائنڈ ٹری چار ارب ڈالر آئی ٹی ایکسپورٹس کے ساتھ سرفہرست رہی ہیں۔پاکستان کا کل بیرونی قرضہ 126 ارب ڈالر ہے آئی ٹی کے شعبے میں ٹاٹا گروپ نے 1968 میں قدم رکھا جبکہ پاکستان میں آئی ٹی کا شعبہ 1990 کی دہائی میں تقریبا تیس پینتیس سال بعد پنپنا شروع ہوا۔ ٹاٹا کنسٹلنسی سروسز کے بانی جہانگیر رتن جی ٹاٹا نے دیکھتے ہی دیکھتے اپنی کمپنی کو دنیا کے چھ براعظموں چھیالیس ممالک اور ڈیڑھ سو مرکزی دفاتر تک پھیلا دیا۔ آج اس کمپنی میں لگ بھگ چھ لاکھ ملازمین کام کر رہے ہیں اور اس کا سالانہ ریونیو 25 ارب ڈالر ہے جو پاکستان کی کل برآمدات کے لگ بھگ ہے۔بھارت کی دوسری بڑی آئی ٹی کمپنی انفوسیس 1981 میں صرف اڑھائی سو ڈالر کی سرمایہ کاری کے ساتھ قائم ہوئی اور آج ساڑھے تین لاکھ ملازمین کے ذریعے یہ سالانہ 16 ارب ڈالر کا بزنس کر رہی ہے۔ بھارت امریکہ چین آسٹریلیا جاپان مڈل ایسٹ اور یورپ میں اس کے 82سیلز اور مارکیٹنگ دفاتر ہیں جبکہ 123ڈویلپمنٹ آفسز بھی قائم ہو چکے ہیں۔ بھارت کی تیسری بڑی آئی ٹی کمپنی ایچ سی ایل ٹیکنالوجیز 1976 میں قائم ہوئی۔ آج یہ باون ممالک میں سوا دو لاکھ ملازمین کے ساتھ 11 ارب ڈالر سالانہ کا ریونیو کما رہی ہے۔یہ امریکی سویڈش جرمن اور دیگر سولہ بڑی کمپنیوں کو خریدکر بھارت کی ٹاپ 20 تجارتی کمپنیوں میں شامل ہو چکی ہے۔1977 میں قائم ہونے والی بھارت کی چوتھی بڑی کمپنی وائپرو آج سالانہ 10 ارب ڈالر کا ریونیو کما رہی ہے۔ یہ کلاﺅڈ کمپیوٹنگسائبر سکیورٹیڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن آرٹی فیشل انٹیلی جنس اورروبوٹکس کے شعبوں میں خدمات فراہم کر رہی ہے۔بھارت کی پانچویں بڑی آئی ٹی کمپنی ٹیک ماہندرا 1986 میں قائم ہوئی اور آج نوے ممالک میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد ملازمین کے ساتھ کام کر رہی ہے۔یہ سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ سسٹم سپورٹنیٹ ورکنگ ڈیفنس انرجی اور دیگر شعبوں میں خدمات فراہم کر رہی ہے۔ بھارت کی چھٹی بڑی کمپنی ایل ٹی آئی مائنڈ ٹری 1996 میں قائم ہوئی اور آج ایک لاکھ ملازمین کے ساتھ سالانہ 4 ارب ڈالر کا بزنس کر رہی ہے۔ہمےں بھی اس شعبے پر خصوصی توجہ دےنا ہو گی تاکہ ہم اپنے ٹےلنٹ کا استعمال کرتے ہوئے اپنی معےشت کو فروغ دے سکےں۔