وزیر اعلی گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے کہا ہے کہ عوام کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کےلئے پی ایس ڈی پی کے میگا منصوبے شروع کئے گئے ہیں۔ تمام پی ایس ڈی پی منصوبوں میں مستقل طور پر الگ پروجیکٹ ڈائریکٹر تعینات کئے جارہے ہیں جس کےلئے احکامات دیئے گئے ہیں تاکہ پی ایس ڈی پی کے منصوبوں کی ٹائم لائن پر عملدرآمد اور ان منصوبوں کی معیار کو یقینی بنایا جاسکے۔ سروس ڈیلوری اور گورننس کے نظام کو بہتر بنانے کےلئے آفیسران کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایمانداری سے اپنے فرائض انجام دینے ہوں گے۔ وزیراعلی گلگت بلتستان نے 250 بیڈ ہسپتال سکردو کے منصوبے کی رفتار پر اطمینان کا اظہا ر کرتے ہوئے کہا کہ ہیلتھ کے دیگر پی ایس ڈی پی منصوبوں کی نسبت اس پروجیکٹ کی رفتار تسلی بخش ہے۔ مستقبل میں سکردو میں میڈیکل سٹی کا قیام حکومت کا ویژن ہے جس کو عملی جامعہ پہنانے کےلئے اقدامات کئے جائیں گے۔ وزیر اعلی 250 بیڈ ہسپتال سکردو کےلئے درکار انجینئرز کی بھرتیوں کے عمل کو بھی تیز کرنے کی ہدایت کی۔ وزیر اعلی نے 300 بیڈ ہسپتال چلاس کی کنسلٹنسی اور پی سی ون کی تیاری میں سست روی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ منصوبے کو پروجیکٹ ڈائریکٹر اور کنسلٹنٹ کی نااہلی کی وجہ سے التوا کا شکار ہورہا ہے کنسلٹنسی میں پانچ مہینے کی غیر ضروری تاخیر کی وجہ سے پی سی ون تیار نہیں ہوا ہے۔ 25 مئی تک اس منصوبے کی کنسلٹنسی کو حتمی شکل دی جائے۔کارڈک ہسپتال گلگت کے حوالے سے وزیر اعلی گلگت بلتستان نے کہاکہ یہ منصوبہ گلگت بلتستان کےلئے انتہائی اہمیت کاحامل ہے۔ کارڈک ہسپتال کےلئے درکار مشینری کی خریداری کو شفاف بنانے کےلئے پی وی ایم ایس کے تحت منظور شدہ سپیسی فیکیشنز کو یقینی بنایا جائے۔ کارڈک ہسپتال گلگت میں جدید مشینری کی تنصیب کا عمل مکمل کیا جائے۔ سکردو میں مےڈےکل سٹی کا قےام اہم پےشرفت ہے۔صحت اللہ پاک کی ایک انمول نعمت ہے۔صحت کی سہولیات کی فراہمی ہرانسان کا بنیادی حق ہے۔ایک صحت مندانسان ہی صحت مند زندگی گزارسکتاہے۔عوام کو صحت کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کے دعوے نہیں حقیقی معنوں میں یقینی بناناہوگا۔عوام صحت کی بہترسہولیات فراہم کرنا ہوں گی۔عوام کو صحت کی بہترسہولیات فراہم کرنے کیلئے انفراسٹرکچرکوبہترکرنا ہوگا۔ہمیں صحت مند معاشرہ کی بنیاد رکھنے کیلئے صحت مندلائف سٹائل اپنانا ہوگا۔ہماری نوجوان نسل میں دل کی بیماریاں،کینسراور دوسری مہلک بیماریاں بہت جلدجنم لے رہی ہیں۔بیماریوں سے لڑنے کی بجائے بیماریوں کی روک تھام پرکام کرنازیادہ اہم ہے۔عوام کو صحت کی بہترسہولیات فراہم کرنا اللہ تعالی کی جانب سے بہت بڑی ذمہ داری ہے۔عام آدمی تک صحت کی بہترسہولیات کی فراہمی میں صرف نیک نیتی ہی کافی ہوتی ہے۔تمام شہریوں تک صحت کی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے کےونکہ صحت عامہ کی سہولیات تک رسائی ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔حکومت کی ساری توجہ پرائمری، سیکنڈری اور ٹرشری ہیلتھ کیئر، طبی نگہداشت ، طبی تعلیم اور گورننس کو بہتر بنانے پر رہنی چاہےے ۔صوبے میں میڈیکل سٹی اور آپریشنلائزیشن، کینسر کیئر ہسپتال کا قیام اور پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ کی سہولیات کا قیام حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہےے ۔ شہریوں کے لیے یونیورسل ہیلتھ کوریج اور یونیورسل ہیلتھ انشورنس کا اہتمام ہونا چاہےے ۔ کم آمدن افراد کے لیے صحت کی سہولیات کی مفت فراہمی کے لئے اقدامات اٹھائے جانے چاہیں ۔ہر شہری کو معیاری صحت کی خدمات تک رسائی حاصل ہو۔مےڈےکل سٹی کے قےام سے عوام کو صحت عامہ کے لےے سہولےات دستےاب ہوں گی۔طبی سہولیات کو کمپیوٹرائزڈ کیاجائے ۔ بہتر سہولیات کی فراہمی کیلئے ایک جامع لائحہ عمل مرتب کرکے پیش کےا جائے ۔ہمےں صحت کی دیکھ بھال کی فراہمی کا نظام آزادی کے وقت برطانوی عہد سے ملا تھا۔یہ نظام صحتِ عامہ کی خدمات اور کچھ علاج معالجہ کی شکل میں تھا ۔ پاکستان میں صحت کی پالیسیاں بنانے اور منصوبہ بندی کا معاملہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری تھی لیکن آئین میں کچھ ترامیم ہوئیں جس کے تحت اب صوبے بھی صحت عامہ کے معاملات کو خود دیکھ سکتے ہیں۔ تاہم وفاقی حکومت کی طرف سے جو پالیسیاں بنائی جاتی ہیں صوبائی حکومتوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان پالیسیوں کے نفاذ کو یقینی بنائیں ۔ سب سے بڑا مسئلہ جو نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ صوبائی حکومتیں پبلک ہیلتھ سکولوں اور ٹیکنیشین ٹریننگ اداروں کو متعارف کروا کر میڈیکل پروفیشنلز کو تربیت دے کر صحت کی دیکھ بھال کے معیار کو بہتر بنانے میں سرمایہ کاری کرنے کی بجائے میڈیکل کالجوں اور یونیورسٹیوں کی ترقی میں اپنے محدود وسائل خرچ کر رہی ہیں۔آئینِ پاکستان کے مطابق سوائے وفاقی حکومت کے زیرِ انتظام علاقوں کے ، صحت کی دیکھ بھال بنیادی طور پر صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ کورونا، ایڈز ، پولیو اور کچھ دیگر توسیعی پروگراموں کے نفاذ کی اور حفاظتی ٹیکوں کے توسیعی پروگرام کی ذمہ داری بڑی حد تک وفاقی وزارتِ صحت پر ہے ۔ صحت کی دیکھ بھال کا شعبہ پرائیوٹ اور سرکاری شعبہ پر مشتمل ہے ۔نظامِ صحت کی حالت یہ ہے کہ پرائیوٹ شعبہ ، آبادی کے تقریبا ستر فیصد حصے کو سہولیات فراہم کر رہا ہے ۔ نجی شعبہ جو سہولیا ت لوگوں کو فراہم کر رہا ہے وہ اس کے لیے اپنی فیس وصول کرتا ہے اور یہ فیس ایک متوسط فرد یا غریب فرد ادا نہیں کر سکتا۔ صحت کا نظام اس قدر خراب ہے کہ نہ تو نجی اور نہ ہی سرکاری شعبے ریگولیٹری فریم ورک کے اندر کام کرتے ہیں ۔ہمارے ہاں کوالیفائیڈ پیرامیڈیکل اسٹاف، ڈاکٹرز، نرسز کی کمی ہے۔ خواتین کی صحت کے حوالے سے اقدامات کیے تو جار ہے ہیں لیکن اس کے کوئی دور رس نتائج نہیں آرہے۔ خواتین کے لیے صحت کے معاملات میں سب سے اہم زچگی اور زچگی کے دوران لاحق ہونے والے پچیدہ امراض ہیں۔ جس کی وجہ سے زچگی کے دوران خواتین کی شرح اموات بہت زیاد ہ ہے۔ملک میں 30 فیصد سے بھی کم آبادی کو پرائمری ہیلتھ کیئر سینٹرز کی سہولیات تک رسائی حاصل ہے ۔ اوسط ہر فرد ایک سال میں ایک سال سے بھی کم ہیلتھ کیئر سینٹرز تک جاتا ہے ۔ ہیلتھ کیئرسینٹرز میں جانے میں عدم دلچسپی کی وجہ صحت کی دیکھ بھال کرنے والے پیشہ ور افراد اور خاص طور پر وہاں خواتین کی کمی ، غیر حاضری کی اعلی شرح ، سہولیات کا ناقص معیار اور ادویات کی عدم دستیابی شامل ہے ۔ صحت کی بہترین سہولیات عوام کو فراہم کرنا حکومتوں کی اولین ترجیح ہو نی چاہیے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر لازم ہے کہ وہ مل بیٹھ کر عوام کو صحت کی بہترین سہولیات فراہم کرنے کے لیے واضح اور جامع پالیسی مرتب کریں ۔ نئے جدید ٹیکنالوجی پر مشتمل ہسپتال بنائے جائیں ۔نئے ڈاکٹرز اور لیڈی ڈاکٹرز کو ملازمتیں دی جائیں ۔ پیشہ ور نرسز کو تعینات کیا جائے۔ ہسپتالوں میں دوائی کی فراہمی اور دستیابی کو یقینی بنایا جائے تاکہ غریب عوام کو بہتر اور مفت صحت کی سہولیات میسر آ سکیں اور انکا معیارِ زندگی بہتر ہو سکے ۔انسانی حقوق کے عالمی اعلانیے مجریہ 1948 میں کہا گیا ہے: ہر فرد اور اس کے خاندان کو صحت کی مناسب سہولیات کا حق حاصل ہے۔ اس کے علاوہ اقوامِ متحدہ کے ادارے صحت کے آئین میں درج ہے: صحت کے بلند ترین معیار سے استفادہ کرنا ہر فرد کا بنیادی انسانی حق ہے۔ نہ صرف 1973 کے آئین میں صحت کو شامل نہیں کیا گیا بلکہ گذشتہ دورِ حکومت میں آئین میں ہونے والی 18ویں ترمیم میں پرائمری تعلیم کو تو شامل کیا گیا لیکن صحت کے حق کو شامل کرنے کا موقع کھو دیا گیا۔ہمارے ملک میں عام لوگ پرائیویٹ علاج کرواتے ہیں، حالانکہ عوام کو صحت کی سہولیات فراہم کرنا سرکار کا کام ہے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ ترجیحی بنیادوں پر صحت کے پروگراموں کی منصوبہ بندی کرے، لیکن یہ منصوبہ بندی صرف اسی وقت ہو سکتی ہے جب حکومت کے پاس سیاسی عزم موجود ہو۔اگر کوئی حکومت صحت کی سہولیات عام کر دے تو اسے خود اس کا سیاسی فائدہ ہوتا ہے۔ جن ممالک سے پولیو کا خاتمہ ہوا ہے ان سب میں پولیو کی روٹین امیونائزیشن پاکستان سے بہتر رہی ہے، اور پاکستان میں روٹین امیونائزیشن پر اتنی توجہ نہیں دی گئی جتنی دینی چاہیے تھی۔ ہمارے ہاں سرکاری نظامِ صحت میں بہت سی کمزوریاں ہیں: کہیں ڈاکٹر نہیں، کہیں دوائی نہیں ہے، کہیں ٹیسٹ نہیں ہیں، سرکاری ہسپتالوں میں بھی پیسے دینے پڑتے ہیں اس لیے لوگ پرائیویٹ علاج کو ترجیح دیتے ہیں۔ پاکستان میں صحت پر اٹھنے والے کل خرچ کا 73 فی صد حصہ لوگ اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں، جب کہ بقیہ 27 فیصد میں فلاحی ادارے اور پرائیویٹ ادارے بھی شامل ہیں اور حکومت کا حصہ انتہائی کم ہے۔پاکستان صحت پر بہت کم خرچ کرتا ہے اور اس ضمن میں صومالیہ اور افغانستان جیسے ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ پاکستانی حکومت کا صحت پر فی کس خرچہ صرف چھ ڈالر ہے، حالانکہ عالمی ادار صحت کی سفارشات کے مطابق ترقی یافتہ ممالک کو صحت پر فی کس 35 سے 50 ڈالر خرچ کرنے چاہیں۔
