ایک خبر کے مطابق پاکستان نے آئی ایم ایف کو جولائی میں گیس اور بجلی کی قیمت بڑھانے کی یقین دہانی کرادی۔ آئی ایم ایف اور وزارت خزانہ حکام کے درمیان جاری مذاکرات میں کرنٹ اکائونٹ خسارے اور پرائمری خسارے میں کمی کے لیے بات چیت جاری ہے جب کہ اگلے سال کے بجٹ اہداف پر آئی ایم ایف کو بریفنگ دی جاچکی ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارت خزانہ کی آئی ایم ایف مشن سے ریاستی ملکیتی اداروں کی کارکردگی جانچنے کیلئے سینٹرل مانیٹرنگ یونٹ کی کارکردگی پر بھی بات چیت چل رہی ہے۔وزیر خزانہ کی ایف بی آر کو آئی ایم ایف کے مطالبات کا گہرائی سے جائزہ لیکر جواب دینے کی ہدایت۔آئی ایم ایف نے گردشی قرض میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا ہے، پاور سیکٹرکے گردشی قرضے میں 150ارب روپے کا اضافہ ہوگیا ہے اور پاکستان نے رواں سال کے آخر تک گردشی قرض 2300 ارب روپے تک محدود رکھنے کا وعدہ کیا ہے۔پاکستان کی جانب سے آئی ایم ایف کو جولائی میں گیس اور بجلی کی قیمت بڑھانے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔اس کے علاوہ آئی ایم ایف کو ایس آئی ایف سی کے آپریشنز میں شفافیت کی یقین دہانی کرائی گئی جب کہ حکام نے بریفنگ میں کہا کہ سرمایہ کاری پبلک انویسٹمنٹ مینجمنٹ فریم ورک کے تحت ہوگی، ایس آئی ایف سی کے ذریعے سرمایہ کاری کے غیر مساوی مواقع پیدا نہیں ہوں گے، کسی قسم کی ترغیبات یا گارنٹی شدہ واپسی کا کوئی وعدہ نہیں کیا جائے گا۔ آئی ایم ایف کو ملک میں سرمایہ کاری کے ماحول کو مسخ نہ کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی گئی جس میں کہا گیا کہ ایس آئی ایف سی کے لیے شفافیت کا طریقہ کار اپنایا جائے گا۔ذرائع کا بتانا ہے کہ آئی ایم ایف کو سینٹرل مانیٹرنگ یونٹ کی آپریشنل کپیسٹی بہتر بنانے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔پاور ڈویژن نے بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق خبروں پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔پاور ڈویژن کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق آئی ایم ایف سے مذاکرات میں بجلی کی قیمتیں بڑھانے سے متعلق کوئی بات نہیں ہوئی۔ اس سے پہلے آئی ایم ایف کو جولائی سے بجلی اور گیس مزید مہنگی کرنے کی یقین دہانی کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔ پاکستان نے رواں مالی سال کے آخر تک گرشی قرضہ دو ہزار تین سوارب روپے تک محدود رکھنے کا وعدہ کیا تھا۔ وزارت خزانہ کے حکام نے آئی ایم ایف کو ایس آئی ایف سی کے آپریشنز میں شفافیت کی یقین دہانی کرائی ہے، آئی ایم ایف کو بریفنگ دی گئی ہے کہ ایس آئی ایف سی کے ذریعے سرمایہ کاری کے غیرمساوی مواقع پیدا نہیں ہوں گے۔ذرائع کے مطابق ایف بی آر کے چیئرمین اور ممبران نے آئی ایم ایف وفد سے ملاقات سے قبل وزیرخزانہ محمد اورنگزیب سے ملاقات کی جس میں عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ جاری مذاکرات کی پیش رفت کا جائزہ لیا گیا جب کہ ایف بی آرحکام نے وزیرخزانہ کو آئی ایم ایف کے نئے مطالبات اور ان کے اثرات پر بریفنگ دی۔ وزیرخزانہ نے ایف بی آر حکام کو آئی ایم ایف کے تمام مطالبات کاگہرائی سے جائزہ لینے کے بعد جواب دینے کی ہدایت کی۔اس کے علاوہ وزیرخزانہ نے ایف بی آر کو ڈیجیٹلا ئزیشن اورٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کیلئے ہر ممکن اقدامات کی بھی ہدایت کی ہے۔ ایف بی آر اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات کے دو دور ہوں گے جن میں ایف بی آر کے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے سے متعلق آئی ایم ایف کو آگاہ کیا جائے گا۔ آئی ایم ایف وفد کے ساتھ مذاکرات میں رواں سال ٹیکس وصولیوں پر پیشرفت اور اگلے مالی سال کیلئے ٹیکس ہدف پربات ہوگی، اس دوران رئیل اسٹیٹ اور زراعت کو ٹیکس نیٹ میں لانے اور اس میں آنے والی قانونی مشکلات پر بات ہوگی جب کہ تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے اقدامات پر آئی ایم ایف کو اعتماد میں لیا جائے گا۔آئی ایم ایف نے آئندہ مالی سال میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے اور گردشی قرض کی روک تھام کا مطالبہ کیا ہے، بجلی کی قیمتوں اور مختلف حوالوں سے دی جانے والی سبسڈیز بتدریج ختم کی جائیں۔جنوری 2024 تک 976 ارب روپے کی سبسڈی میں سے ایک تہائی فیصد دی جا چکی ہے، ٹیرف ڈیفرینشیئل اور دیگر کی مد میں 249 ارب روپے کی سبسڈی ختم کی جائے۔آئی ایم ایف نے کہا کہ پی ایچ ایل سٹاک اور بجلی پیداوار سے متعلق بقایا جات کی مد میں 255 ارب روپے بھی بتدریج ختم کئے جائیں، بقایا جات اور جرمانوں کی اضافی سبسڈی کے 125 ارب روپے کا بھی خاتمہ کیا جائے۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی نے آئندہ مالی سال میں بجلی صارفین پر347 ارب روپے بوجھ ڈالنے کی تجویز دی ہے، سی پی پی اے نے آئندہ مالی سال کیلئے بجلی کی خریداری ریٹ متعین کرنے کی درخواست نیپرا میں دائر کردی ہے۔ بجلی صارفین امریکا میں ہونے والی مہنگائی کی قیمت بھی ادا کریں گے، امریکی مہنگائی کے 2.40 فیصد بھی ٹیرف میں شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے، ملکی مہنگائی 12.20 فیصد شرح سے آپریٹر فیس شامل کرنے کی تجویز ہے۔بجلی کی خریداری میں 21.37 فیصد سود بھی صارفین سے وصول کرنے کی سفارش کی گئی ہے جبکہ کپیسٹی چارجز کے نام پر 17 روپے 42 پیسے فی یونٹ تک وصول کرنے کی تجویز ہے۔سی پی پی اے نے فیول کاسٹ کی مد میں 9 روپے 34 پیسے فی یونٹ متعین کرنے کی درخواست دی ہے جبکہ آئندہ مالی سال میں بجلی کمپنیوں کو کم ازکم 27 روپے 11 پیسے فی یونٹ تک بجلی فروخت کرنے کی تجویز دی گئی ہے، بجلی کمپنیاں ٹیکسز شامل کر کے صارفین کو بجلی فروخت کریں گی۔بجلی کے نرخوں میں 3 روپے 48 پیسے فی یونٹ ماہانہ آپریٹر فیس شامل کرنے کی بھی تجویز نیپرا کو بھجوائی گئی ہے جبکہ آئندہ مالی سال کے لیے بجلی کی خریداری 300 روپے فی ڈالر میں کرنے کی تجویز ہے۔ملک میں بجلی کے بڑھتے ہوئے بحران اور آئے روز مہنگی بجلی کی قیمتوں سے تنگ آکر عوام سولر کی طرف منتقل ہونا شروع ہوئے ہیں ۔حکومت کی جانب سے ٹیکس میں کمی کے باعث سولر کی قیمتوں میں نمایاں کمی دیکھنے کو ملی۔سولر ڈیلرز کا کہنا ہے کہ سولرپینلز درآمد کرانے پر انہیں نمایاں منافع حاصل ہوا ہے۔ لوگوں کی کثیر تعداد بجلی کے بڑھتے ہوئے بلوں سے تنگ آکر سولر کی طرف تیزی سے منتقل ہورہی ہے۔ بجلی کے بلبں میں ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ، سہ ماہی اضافہ، جنرل سیلز ٹیکس، فیول ایڈجسٹمنٹ پر سیلز ٹیکس اور اضافی ٹیکسز اس کے علاوہ ہیں۔پی ٹی وی کی فیس 35 روپے ماہانہ الگ ہے اور حکومت اب بجلی صارفین سے 15 روپے ماہانہ ریڈیو فیس بھی وصول کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ نیپرا کے مطابق بجلی کی قیمت میں 71 فیصد کیپسٹی چارجز شامل ہیں۔بجلی کی قیمت میں 30 فیصد ٹیکسز ہیں۔ حکومت عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے بجلی بلز پر ٹیکسز کم کرے اور جو لوگ ٹیکس نہیں دے رہے ان سے ٹیکس وصول کرے۔پاکستان میں مہنگے ذرائع سے بجلی کی پیداوار بڑھ رہی ہے۔دوسری طرف بجلی کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے وفاقی کابینہ بجلی کی قیمت بڑھانے پر غور کر رہی ہے ۔بجلی کی قیمت میں اضافہ حکومت کی نااہلی کا ثبوت ہے، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں اور ترسیلی نظام میں اصلاحات کیے بغیر یہ بوجھ عوام پر ڈالا جا رہا ہے۔گزشتہ پانچ سال سے عام آدمی کے بجلی کے استعمال میں کمی ہو رہی ہے، بجلی کم استعمال کرنے کی وجہ سے پاکستان کی معاشی شرح نمو بھی کم ہوتی جار ہی ہے۔ پاکستان میں ٹیکسٹائل کی صنعت کے لیے بجلی کی قیمت علاقائی ممالک کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔انڈیا میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بجلی آٹھ سینٹ، بنگلہ دیش میں 10 سینٹ اور ویت نام میں چھ سینٹ میں فراہم کی جا رہی ہے، جب کہ پاکستان میں یہ قیمت 16 سینٹ فی یونٹ سے زیادہ ہے ۔بجلی کے بلوں پر بھاری ٹیکسز، کراس سبسڈیز اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نااہلی کا بوجھ صارفین پر ڈالا جا رہا ہے اور موجودہ حالات میں ملکی برآمدات عالمی مارکیٹ میں دیگر ممالک کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ دراصل صنعتوں پر بوجھ ڈال کر دیگر صارفین کو سبسڈی دینا ہے۔بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے فیکٹریوں سے نوکریاں ختم ہوں گی، مزید سرمایہ کاری نہیں ہو گی اور برآمدات کم ہوں گی۔بجلی کی قیمتوں میں اضافے اور نامساعد ملکی اور عالمی حالات کے باعث ملکی برآمدات کم ہو چکی ہیں ۔پچاس فیصد ٹیکسٹائل انڈسٹری غیر فعال ہے اگر حالات یہی رہے تو 25 فیصد ٹیکسٹائل انڈسٹری مزید بند ہو جائے گی، جس سے قومی خزانے کو 10 ارب ڈالرز کا نقصان ہو سکتا ہے۔بجلی کا گردشی قرضہ مسلسل بڑھ رہا ہے اور اس میں اضافے کی بنیادی وجہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے لائن لاسز اور چوری ہیں، جب کہ بجلی کے بلوں کی پوری وصولیاں نہ ہونے کی وجہ سے بھی گردشی قرضہ بڑھ رہا ہے۔حکومت نے گزشتہ ایک سال میں بجلی کی قیمتوں میں بے محابااضافہ کیا ہے' بجلی کے شعبہ میں 23 فیصد چوری ہو رہی ہے، جسے ختم کرنا ہو گا عوام پہلے ہی بجلی کے بلوں سے تنگ ہیں ان پر مزید بوجھ لادنے سے گریز کیا جانا چاہیے۔
