وفاقی حکومت نے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے اختیارات ختم کر دیے ہیں۔ حکومت نے نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے قیام سے متعلق نوٹیفکیشن گزٹ آف پاکستان میں شائع کیا۔گزشتہ ہفتے چوبےس اپریل کو جاری کردہ نوٹیفیکشن کے مطابق نیشنل سائبر کرائمز انوسٹی گیشن ایجنسی ایک الگ اتھارٹی کے طور پر وزارت داخلہ کے ماتحت کام کرے گی۔نیشنل سائبر کرائمز انوسٹیگیشن ایجنسی کا سربراہ ڈائریکٹر جنرل ہو گا۔ ڈائریکٹر جنرل کم از کم گریڈ اکےس کا افسر ہو گا جبکہ اس عہدے کے لیے عمر کی حد ترےسٹھ برس قبل کی گئی ہے۔اس نئی ایجنسی میں ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل، ڈائریکٹرز، ایڈیشنل ڈائریکٹرز، اسسٹنٹ ڈائریکٹرز اور دوسرے ضروری عہدے بھی ہوں گے۔ نوٹیفیکشن میں بیان کی گئی تفاصیل کے مطابق ڈی جی کو دو برس کے دورانیے کے لیے وفاقی حکومت تعینات کرے گی۔ایف آئی اے سائبر کرائمز کی تمام انکوائریاں، تحقیقات اور اثاثے ایجنسی کے سپرد کر دیے گئے ہیں۔یہ ایجنسی سائبر کرائم سے متعلق مقدمات کی تحقیقات کرے گی۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب پہلے سے سائبر کرائمز کی تحقیقات کرنے کے لیے ایف آئی اے کا سائبر ونگ موجود تھا تو ایک نئی اتھارٹی کا قیام عمل میں کیوں لایا گیا۔ کیا اس عمل کے دوران سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا گیا تھا؟بنیادی سوال یہ ہے کہ نیشنل سائبر کرائم انوسٹیگیشن ایجنسی میں نیا کیا ہو گا اور اس کے ذریعے کن مقاصد کا حصول ممکن بنایا جائے گا؟ماہرین کے مطابق حکومت نے اس نئی اتھارٹی کے قیام کے لیے سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہیں لیا۔انٹرنیٹ پر ریسرچ کرنے والے گروپ بولو بھی کے ڈائریکٹر اور صحافی اسامہ خلجی کے مطابق نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے قیام کی خبر ان کے لیے ایک سرپرائز کے مترادف تھی۔اس پورے عمل کے دوران سٹیک ہولڈرز اور ان ڈیجیٹل رائٹس گروپس سے مشاورت نہیں کی گئی جو سائبر کرائمز کے مسائل پر کام کر رہے ہیں۔اس نئی ایجنسی کے قیام کا کوئی جواز نہیں بنتا کیونکہ پہلے ہی ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ یہ کام کر رہا تھا لیکن اسی سیٹ اپ کے ساتھ اسے نیا نام دے دیا گیا۔ماہرین اسے پرانے ڈھانچے پر نئی کھال چڑھانے کے مترادف قرار دے رہے ہیں جس کی وجہ سے انٹرنیٹ کی فضا مزید مبہم ہوسکتی ہے۔ اس کے باوجود یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ حکومت نے اس سے سیکھا کیا؟ کن کمزوریوں کی نشاندہی کی گئی؟ نئی اتھارٹی کیا کر لے گی جو ایف آئی اے نہیں کر سکی؟جب ایف آئی اے کو سائبر کرائم سے متعلق کیسز کی تحقیقات کا اختیار دیا جا رہا تھا تو اس وقت بتایا گیا کہ ان کے پاس ایسے کیسز کی تحقیقات کرنے کی مہارت ہے۔اس وقت یہ بیانیہ بنایا گیا کہ ایف آئی اے پولیس سے مختلف ہے اور ان کو آئی ٹی کی زیادہ سمجھ ہے اور یہ وائٹ کالر کرائمز کی تحقیقات کرتی آئی ہے اس لیے ان کو اختیارات دیے جائیں گے، لیکن اب آٹھ سال بعد کہا جا رہا ہے کہ ہمیں نئی اتھارٹی کی ضرورت ہے۔کہا جا رہا ہے ایف آئی اے کسی بھی صورت سائبر کے ساتھ نہیں چل پا رہا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے ایس او پیز مختلف ہیں۔ ویزا فراڈ کو بھی ایف آئی اے دیکھ رہا ہے۔ ملزم کو ایک بار بلایا جائے گا نہیں آیا تو دوبارہ بلایا جائے گا لیکن سائبر کرائم کے ایس او پیز یہ ہیں کہ ایک لڑکی کو کوئی بلیک میل کر رہا ہے تو اسے فورا گرفتار کرنا ہے۔ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے ڈپٹی ڈائریکٹر کے مطابق شکایت کنندہ درخواست درج کرتا اور وہ درخواست ویریفائی ہونے کے بعد اگلے دن بیان دیا جاتا، اس کے بعد انکوائری لگتی جس کے بعد ثبوت دیکھے جاتے۔ایف آئی اے میں طریقہ کار تمام کیسز کے لیے یہی تھا۔ اب اگر کسی لڑکی نے بلیک میلنگ کی شکایت کی ہے تو اس پورے عمل کے دوران اس کی عزت تار تار ہو جاتی۔سائبر کرائمز سے نمٹنے کے دوران انٹرنیشنل آرگنائزیشن کے ساتھ کوآرڈینیشن کرنی ہوتی ہے۔ ایف آئی اے کے پاس امیگریشن، حوالہ ہنڈی اور بینکنگ سمیت کئی کام ہیں۔ ایف آئی اے والے سائبر کے مسائل پر توجہ نہیں دے پا رہے تھے۔ اس میں گوگل اور فیس بک کے ساتھ کوآرڈینیٹ کرنا ہوتا ہے۔اس کے علاوہ یہاں بجٹ اور دیگر وسائل ٹھیک طریقے سے بروئے کار نہیں لائے جا رہے تھے۔ اینٹی ٹریفکینگ یونٹ کے پاس کوئی بجٹ نہیں ہے تو وہ سائبر والوں کی گاڑیاں استعمال کرتے تھے۔ سائبر کے افسران کمپیوٹر سائنس کے سپیشلائزڈ افسران ہیں، ہونے بھی یہ ہی چاہییں کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ موبائل سے ثبوت کیسے لینے ہیں، روایتی پولیس افسروں کو یہ نہیں معلوم تھا، انہیں فرانزک کا نہیں پتہ جس کی وجہ سے سزائیں کم ہو رہی تھیں۔ وہ بین الاقوامی معیار برقرار نہیں رکھا جا رہا تھا اور افسران آپس میں الجھ جاتے تھے جس کی وجہ سے عوام کو خمیازہ بھگتنا پڑا۔ اس طرح تمام سپیشلائزڈ افسران سائبر کرائم کو چلائیں گے تو اس میں بڑا فرق دیکھنے کو ملے گا۔سائبر کرائم کی تحقیقات نئی ایجنسی وفاقی وزارتِ داخلہ ماتحت ہوگی۔ البتہ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ نئی ایجنسی کب سے اپنا کام شروع کرے گی۔ سائبر کرائم کی تحقیقات کے لیے نئی ایجنسی کا قیام ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب کہ حال ہی میں پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر سمیت لگ بھگ 27 لاکھ پاکستانی شہریوں کا ڈیٹا لیک ہونے کا انکشاف ہوا تھا۔پاکستانیوں کا ڈیٹا لیک ہونے کی شکایات کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے حال ہی میں وزارتِ داخلہ کو جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتایا تھا کہ 2019 سے 2023 کے دوران لگ بھگ 27 لاکھ پاکستانی شہریوں کا نادرا ڈیٹا لیک ہوا تھا اور یہ ڈیٹا ملتان، پشاور اور کراچی کے سینٹرز سے لیک کیا جا رہا تھا۔سائبر کرائم کی تحقیقات کے لیے نئی ایجنسی کا قیام پریونشن آف الیکٹرانک کرائم پیکا ایکٹ 2016 کے تحت عمل میں لایا جا رہا ہے۔ اسی ایکٹ کے تحت ماضی میں سائبر کرائم کی تحقیقات کے اختیارات ایف آئی اے کو دیے گئے تھے۔بعض سیاسی جماعتوں اور مختلف تنظیموں نے پیکا ایکٹ کی منظوری کے وقت اس کی شدید مخالفت کی تھی۔ اب اسی ایکٹ کے تحت سائبر کرائم کی تحقیقات کے لیے نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی قائم کی گئی ہے۔ نئی انویسٹی گیشن ایجنسی سائبر کرائم کے کیسز کو ڈیل کرنے کی مجاز ہوگی اور اس حوالے سے اس کے علیحدہ تھانے اور فرانزک لیبارٹری ہو گی۔ مگر تاحال یہ واضح نہیں کے نئی انویسٹی گیشن ایجنسی کے سربراہ کی تعیناتی تک اس کی سربراہی کون کرے گا اور سربراہ کی تعیناتی تک یہ ایجنسی کیسے کام کر پائے گئی۔ حکومتی نوٹی فکیشن میں بتایا گیا ہے کہ نئی ایجنسی فوری طور پر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے وسائل، انفراسٹرکچر اور ملازمین کے ساتھ کام کرے گی۔حکومت ایف آئی اے سائبر ونگ کو فراہم ہونے والے وسائل سے زیادہ وسائل نئی ایجنسی کو فراہم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور امکان ہے کہ نئے مالی سال کے بجٹ میں اس کے لیے فنڈز بھی رکھے جائیں گے۔سرکاری نوٹی فکیشن کے مطابق نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی سائبر کرائم کے مقدمات کی تحقیقات کرے گی اور ایف آئی اے سائبر ونگ کے پاس سائبر کرائم کی تمام انکوائریاں، تحقیقات، اثاثہ جات، رائیٹس، پرولیجز نئی قائم کی گئی ایجنسی کو منتقل ہوں گے۔سرکاری نوٹی فکیشن میں یہ واضح نہیں کیا گیا ہے کہ نئی ایجنسی کے افسران کی کل تعداد کتنی ہو گی۔ البتہ یہ کہا گیا ہے کہ ایجنسی کے سربراہ یعنی ڈائریکٹر جنرل کو دو سال کی مدت کے لیے مقرر کیا جائے گا جب کہ کارکردگی کی بنیاد پر ڈائریکٹر جنرل کی مدتِ ملازمت میں مزید دو سال کی توسیع کی جاسکے گی۔وفاقی حکومت ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر ایسا افسر تعینات کرے گی جو کم سے کم 21 گریڈ کا افسر یا 63 برس سے کم عمر ہو۔نئی ایجنسی کے سربراہ کے لیے کم سے کم 15 برس کا کمپیوٹر سائنس، ڈیجیٹل فرانزک، سائبر ٹیکنالوجی، قانون، پبلک ایڈمنسٹریشن اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے تجربے کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ڈائریکٹر جنرل 65 برس کی عمر تک پہنچنے پر یا تقرری کی مدت مکمل ہونے تک عہدے پر فائز رہ پائیں گے جب کہ انہیں پولیس آرڈر 2002 کے تحت صوبے کے آئی جی کو حاصل اختیارات کے برابر اختیارات حاصل ہوں گے۔تفتیشی افسر اور اس کے ماتحت دیگر افسران پولیس آرڈر 2002 کے تحت ادارے میں خدمات انجام دیں گے۔سرکاری نوٹی فکیشن کے مطابق ایف آئی اے کے سائبر ونگ کے ملازمین ڈپوٹیشن پر نیشنل سائبر کرائم ایجنسی میں کام کریں گے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے قیام کا نوٹی فکیشن 24 اپریل کو جاری ہوا تھا لیکن 29 اپریل کو گزٹ آف پاکستان میں شائع ہوا تھا۔وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ اور وزیرِ اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے دو مئی کو مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہنا تھا کہ سائبر کرائم کو ڈیل کرنے کے لیے ایف آئی اے کے پاس مطلوبہ مہارت نہیں اور ڈیجیٹل رائیٹس کے لیے ایف آئی اے فورم نہیں ہے۔
