معروف ابھرتے ہوئے نوجوان شاعر ادیب مصنف تہذیب الحسن کی جانب سے معروف شاہی قلعہ ”کھرپوچو“ پر بنائی گئی اپنی نوعیت کی منفرد ڈاکیومینٹری کی سکردو میں رونمائی ہوئی۔منفرد اور تحقیقی ڈاکومنٹری منظر عام پر لانے پر زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے تہذیب الحسن کی کاوشوں کو سراہا اور ان کی پوری ٹیم کو خراج تحسین پیش کیا ۔تاریخی منفرد اور تحقیقی ڈاکومنٹری کی تیاری میں تہذیب الحسن اور ان کے ساتھیوں کو پانچ سے چھ ماہ لگے ڈاکومنٹری بنانے سے قبل تمام ضروری پیشہ وارانہ پہلوں کا جائزہ لیا گیا اور تمام پیشہ وارانہ تقاضے پورے کئے گئے ڈاکومنٹری کیلئے بہت پہلے سے کوششیں جاری تھیں ۔صوبائی وزیر پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ راجہ ناصر علی خان مقپون نے کہاکہ تہذیب الحسن کی کھرپو چو قلعہ پر بنائی گئی ڈاکومینٹری دیکھ کر خوشی بھی ہوئی افسوس اور شرمندہ بھی ہوا انشا اللہ سکردو میں کلچرل سینٹر بنائیں گے اس مقصد کیلئے میں اپنی آئندہ اے ڈی پی میں رقم رکھوں گا یہاں کی تہذیب و ثقافت کے فروغ کیلئے کام کرنے والوں کی سرکاری سطح پر حوصلہ افزائی کریں گے ذاتی حیثیت میں بھی ایسے لوگوں کی مدد کروں گا شاہی خاندان نے گلگت بلتستان کی تعمیر و ترقی کیلئے بڑا کرار ادا کیا انشا اللہ ہم سب ملکر ثقافت کے فروغ کیلئے کام کریں گے۔تہذیب و ثقافت یعنی وہ رسم و رواج اور طور طریقے جو ہماری اور آپ کی زندگی پر حکم فرما ہیں۔ تہذیب و ثقافت یعنی ہمارا ایمان و عقیدہ اور وہ تمام عقائد و نظریات جو ہماری انفرادی اور سماجی زندگی میں شامل ہیں۔تہذیب و ثقافت انسانی زندگی کا بنیادی اصول ہے ۔ ثقافت یعنی ایک معاشرے اور ایک قوم کی اپنی خصوصیات اور عادات و اطوار، اس کا طرز فکر، اس کا دینی نظریہ، اس کے اہداف و مقاصد، یہی چیزیں ملک کی تہذیب کی بنیاد ہوتی ہیں۔ یہی وہ بنیادی چیزیں ہیں جو ایک قوم کو شجاع و غیور اور خود مختار بنا دیتی ہیں اور ان کا فقدان قوم کو بزدل اور حقیر بنا دیتا ہے۔تہذیب وثقافت قوموں کے تشخص کا اصلی سرچشمہ ہے۔ قوم کی ثقافت اسے ترقی یافتہ، با وقار، قوی و توانا، عالم و دانشور، فنکار و ہنرمند اور عالمی سطح پر محترم و با شرف بنا دیتی ہے۔ اگر کسی ملک کی ثقافت زوال و انحطاط کا شکار ہو جائے یا کوئی ملک اپنا ثقافتی تشخص گنوا بیٹھے تو باہر سے ملنے والی ترقیاں اسے اس کا حقیقی مقام نہیں دلا سکیں گی اور وہ قوم اپنے قومی مفادات کی حفاظت نہیں کر سکے گا۔ثقافت کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ ان امور اور مسائل سے تعلق رکھتا ہے جو ظاہر و آشکار ہیں اور نگاہیں انہیں دیکھ سکتی ہیں۔ ان امور کا قوم کے مستقبل اور تقدیر میں بڑا اہم کردار ہوتا ہے۔ البتہ اس کے اثرات دراز مدت میں سامنے آتے ہیں۔ یہ امور قوم کی اہم منصوبہ بندیوں میں موثر ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر لباس کیسا ہو، کیسے پہنا جائے اور بدن ڈھانکنے کا کون سا انداز نمونہ عمل قرار دیا جائے؟ یہ چیزیں تہذیب کے ظاہر و آشکار امور میں شمار ہوتی ہیں۔ اسی طرح کسی علاقے میں معماری کا انداز کیا ہے؟ گھر کس طرح بنائے جاتے ہیں، رہن سہن کا طریقہ کیا ہے؟ یہ سب معاشرے کی ظاہری ثقافت کا آئینہ ہے۔عوامی ثقافت کا دوسرا حصہ جو پہلے حصے کی ہی مانند ایک قوم کی تقدیر طے کرنے میں موثر ہوتا ہے لیکن اس کے اثرات فورا ظاہر ہو جاتے ہیں اور انہیں بآسانی محسوس بھی کیا جاتا ہے یعنی یہ ثقافتی امور خود تو نمایاں اور واضح نہیں ہیں لیکن ان کے اثرات معاشرے کی ترقی اور اس کی تقدیر کے تعین میں بہت نمایاں ہوتے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ اہم اخلاقیات ہیں، یعنی معاشرے کے افراد کی ذاتی اور سماجی زندگی کا طور طریقہ کیسا ہے؟عوامی ثقافت میں انسان دوستی، مرد میداں ہونا، خود غرضی اور آرام طلبی سے دور ہونا، قومی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دینا وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے۔بنابریں ثقافت معاشرے کے پیکر میں روح اور جان کا درجہ رکھتی ہے۔ قوموں پر تسلط اور غلبے کے لئے اغیار اپنی تہذیب و ثقافت کی ترویج کی کوشش کرتے ہیں جو کوئی نیا طریقہ نہیں ہے بلکہ بہت پہلے سے یہ طریقہ چلا آ رہا ہے۔ البتہ پچھلے سو دو سو برسوں سے مغربی ممالک نے جدید وسائل کے استعمال سے اپنے تمام اقدامات کو بہت زیادہ منظم کر لیا ہے۔ اب وہ یہی کام پوری منصوبہ بندی سے کر رہے ہیں اور وہ ان مقامات اور پہلوﺅں کی نشاندہی کر چکے ہیں جہاں انہیں زیادہ کام کرنا ہے۔دنیا کی تمام بیدار قومیں اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کسی قوم نے اپنی ثقافت کو بیگانہ ثقافتوں کی یلغار کا نشانہ بننے اور تباہ و برباد ہونے دیا تو نابودی اس قوم کا مقدر بن جائے گی۔ غلبہ اسی قوم کو حاصل ہوا جس کی ثقافت غالب رہی ہے۔ تہذیب و ثقافت کا غلبہ بہت ممکن ہے کہ سیاسی، اقتصادی، اور فوجی غلبے کی مانند ہمہ گیر برتری کا پیش خیمہ ہو۔ثقافتی تسلط، اقتصادی تسلط اور سیاسی تسلط سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ اگر ایک قوم نے دوسری قوم پر ثقافتی اور تہذیبی غلبہ حاصل کر لیا تو قومی تشخص پر سوالیہ نشان لگ جانے کے بعد اس کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ اگر کسی قوم کو اس کی تاریخ، اس کے ماضی، اس کی تہذیب و ثقافت، اس کے تشخص، اس کے علمی، مذہبی، قومی، سیاسی اور ثقافتی افتخارات سے جدا کر دیا جائے، ان افتخارات کو ذہنوں سے محو کر دیا جائے، اس کی زبان کو زوال کی جانب دھکیل دیا جائے، اس کا رسم الخط ختم کر دیا جائے تو وہ قوم اغیار کی مرضی کے مطابق ڈھل جانے کے لئے تیار ہو جاتی ہے۔ اب یہ قوم زندگی سے محروم ہو چکی ہے۔ اب اس کی نجات کا واحد راستہ یہ ہے کہ کوئی عظیم شخصیت پیدا ہو جو اسے اس صورت حال سے باہر نکالے۔ثقافتی یلغار یہ ہے کہ کوئی گروہ یا سسٹم اپنے سیاسی مقاصد کے لئے کسی قوم کو اسیر بنا لے۔ اس کی ثقافتی بنیادوں کو نشانہ بنائے۔ یہ سسٹم اس قوم میں کچھ نئی چیزیں اور افکار متعارف کراتا ہے۔ پھر انہی افکار و نظریات اور طرز عمل کو مستحکم بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی کو ثقافتی یلغار کہتے ہیں۔ ثقافتی تعاون اور لین دین کا مقصد موجودہ ثقافت کو مستحکم اور کامل بنانا ہوتا ہے۔ جبکہ ثقافتی یلغار میں ایک ثقافت کو نشانہ بناکر مٹا دیا جاتا ہے۔ ثقافتی لین دین میں جو قوم کسی دوسری قوم سے کچھ حاصل کرتی اور لیتی ہے، وہ دوسری قوم کی ثقافت کے مختلف پہلوں پر غور کرتی ہے، اس کی خوبیوں کی نشاندہی کرتی ہے اور پھر انہی خوبیوں کو اپنانے کی کوشش کرتی ہے مثال کے طور پر علم و دانش وغیرہ۔ثقافتی لین دین میں انتخاب کا اختیار ہمارے پاس ہوتا ہے جبکہ ثقافتی یلغار میں انتخاب دشمن کرتا ہے۔ ثقافتی لین دین اس لئے ہوتا ہے کہ خود کو کامل بنایا جائے یعنی اپنی قومی ثقافت کو کامل بنایا جائے جبکہ ثقافتی یلغار اس لئے ہوتی ہے کہ ایک ملک کی ثقافت کا خاتمہ کر دیا جائے۔ ثقافتی لین دین اور تعاون اچھی چیز ہے لیکن ثقافتی یلغار بہت مذموم شی ہے۔ ثقافتی تعاون، دو مضبوط ثقافتوں میں انجام پا سکتا ہے لیکن ثقافتی یلغار ایک طاقتور قوم کمزور قوم پر کرتی ہے۔محمد حسن حسرت اپنے مضمون گلگت بلتستان کی ثقافت میں لکھتے ہےں‘اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ مثبت تہذیبی و ثقافتی اقدار کے فروغ سے سماج میں امن و سلامتی کے پھول کھلتے ہیں۔ دنیا میں وہی قومیں زندہ و پائندہ کہلاتی ہیں جو تہذیب یافتہ ہوں۔ وہی معاشرہ کامیاب و کامران ہوتا ہے جس کی ثقافت پائیدار ہو۔ وہی ملک ترقی کر سکتا ہے جس کی جڑوں میں جاندار تہذیب اور مثبت ثقافت کی آبیاری ہورہی ہو۔ وہی معاشرہ امن کا گہوارہ بن سکتا ہے جہاں صحیح معنوں میں مثبت تہذیب و ثقافت فروغ پا رہی ہو۔ہمیں بجا طور پر فخر ہے کہ سندھ کے ساحل سمندر سے سیاچن کے دامن تک اور چاغی کے پہاڑوں سے خنجراب تک پھیلی ہوئی اس دھرتی میں رنگا رنگ تہذیب و ثقافت کے جلوے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ سہائے شاہ لطیف بھٹائی اور شہباز قلندر سے گلگت بلتستان قومی کھیل پولو تک، بیساکھی، بسنت، میلہ مویشیاں سے گلگت میں رسم شاپ، گیننی وبونونوتہوار، ہنزہ نگر میں بوپھاﺅ اور بلتستان کے جشن نوروز، میندوق ہلتنمو اور مے پھنگ تک، بلوچی و سندھی کشیدہ کاری جیسے لوک ہنر ، پنجاب کے چرواہوں کے لوک گیت اور ہیر رانجھا ، ٹرکوں و تانگوں پر بنے ہوئے خوبصورت رنگوں کے نقش و نگار۔ بلتستان کے خپلو محل و چقچن مسجد، شگر فورٹ، گوپس، چلاس اور ہنزہ کے التت و بلتت قلعے تک فن تعمیر کے عظیم شاہکار عالمی سیاحوں کو دعوت نظارہ دے رہے ہیں۔ سکردو کے قلعہ کھرپوچو کو تو انیسویں صدی کے اواخر تک ناقابل تسخیر سمجھ کر غیر ملکی سیاحوں نے اسے جبرالٹر سے تشبیہہ دی ہے۔ خپلو کی چقچن مسجد کا شمار آج بھی پاکستان کی بعض اہم تاریخی اہمیت کی حامل مسجدوں میں ہوتا ہے جس کی بنیاد 783ھ میں شاہ ہمدان کے ہاتھوں پڑی تھی۔ ایک غیر ملکی محقق جیمز ہارلے کے بقول یہ مسجد براعظم ایشیا میں لکڑی سے بنی ہوئی سب سے خوبصورت مسجد ہے۔ اس کے علاوہ شاہ ہمدان کے دست مبارک سے تعمیر ہونے والی شگر کی مسجد امبوڑک اور خپلو میں میر محمد کا آستانہ اب بحالی کے بعد یونیسیف کا ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔ہم سمجھتے ہےں کہ گلگت بلتستان کی تہذےب وثقافت پر حکومتی سرپرستی میں کام کی ضرورت ہے تاکہ اسے آنے والی نسلوں کے لےے محفوظ بناےا جا سکے۔
