مہلک بیماریوں کا پھیلاﺅ

گلگت بلتستان کے وزیرصحت سید سہیل عباس نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان مہلک بیماریوں سے پاک کرنے کے لئے محکمہ صحت ہر اول دستے کا کردار ادا کر رہی ہے۔ خصوصا نوزائیدہ بچوں کو بیماریوں سے بچانے کے لیے حفاظتی ٹیکہ جات لگانے کی مہم منعقد کی جارہی ہے صوبائی وزیر صحت نے اپنے پیغام میں کہا کہ دنیا بھر میں ہر سال 24 سے 30 اپریل تک حفاظتی ٹیکوں کا عالمی ہفتہ منایا جاتا ہے اور اس سال حفاظتی ٹیکوں کے پروگرام نے دنیا بھر میں ویکسینیشن کے پچاس سال مکمل کئے ہیں اور کروڑوں بچوں کو مہلک بیماریوں سے بچایا ہے۔ حفاظتی ٹیکے بچوں کو مہلک بیماریوں سے بچانے کیلئے سب سے موثر طریقہ ہے۔ والدین اپنے نوزائیدہ بچوں کو صرف چھ بار ای پی آئی ویکسینیشن کرانے سے بچے کو12مہلک بیماریوں سے محفوظ رکھ سکتے ہیں ۔ بارہ مہلک بیماریوں کے خلاف ویکسینیشن بالکل مفت ہے اور کسی بھی قریبی ای پی آئی سینٹر سے یہ سہولت حاصل کی جا سکتی ہے۔ ہم مل کر اپنے علاقے میں بچوں کو ان مہلک بیماریوں سے بچانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔ تمام عوام الناس سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ محکمہ صحت کی ٹیموں کے ساتھ تعاون کریں اور اپنے بچوں کی بروقت ویکسینیشن کروا کر ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیں ۔ادھرصوبائی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف محمد کاظم میثم نے کہاہے کہ گلگت بلتستان میں بڑی پیچیدہ بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں ہارٹ اٹیک ‘کینسر ‘بلڈ پریشر کے بڑے کیسز سامنے آرہے ہیں جو تشویشناک بات ہے ہم نے صحت کا خیال ہی نہیں رکھا ہے اور صحت پر بڑا کمپرومائز کیا ہے یہاں پیچیدہ بیماریوں کا پھیلنا ہم سب کیلئے باعث تشویش ہے ہمیں اس بارے میں اصلاح احوال کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے کہاکہ ترقی یافتہ ممالک میں ہسپتال ویران ہوتے ہیں مگر ہمارے ہاں ہسپتال اور قبرستان آباد ہورہے ہیں جو انتہائی تشویش کا امر ہے بہت ساری این جی اوز یہاں ہمارا خون چوسنے اور ہمارے علاقائی اقدار کو خراب کرنے کیلئے آرہی ہیں اور اس حوالے سے یہ این جی اوز باقاعدہ کام بھی کررہی ہیں ہاں البتہ کچھ این جی اوز فلاح انسانیت کیلئے کام کررہی ہیں ایسی این جی اوز کی ہم قدر کرتے ہیں ہم اس وقت انتہائی نامساعد حالات سے گزر رہے ہیں ہم مراعات ضرور لیتے ہیں جب ہم سے کارکردگی کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو ہم جواب دینے کیلئے تیار نہیں ہوتے ہیں یہی سلسلہ ہر محکمے میں ہوتا ہے۔ گلگت بلتستان کے وزیرصحت سید سہیل عباس نے مہلک بےمارےوں کے پھےلاﺅ پر جس تشوےش کا اظہار کےا ہے اس کا تدارک بہتر حکمت عملی سے کےا جا سکتا ہے۔ہم جانتے ہےں کہ ویکسین نے پولیو اور چیچک سمیت بہت سی مہلک بیماریوں پر قابو پانے بلکہ ان کا خاتمہ کرنے میں مدد دی ہے۔ویکسینیں بہت سی مہلک بیماریوں کے پھیلا کو محدود کرنے میں مددگار ثابت ہوئی ہیں امریکہ، جرمنی، برطانیہ اور دیگر ممالک میں اختراع سازوں نے متعدد محفوظ اور موثر ویکسینیں دریافت کی ہیں ۔صدر بائیڈن کا امریکہ کو دنیا کے ویکسینوں کا اسلحہ خانہ قرار دینا، حیاتیاتی طبی تحقیق اور اختراع کاروں کی دہائیوں کی طویل کوششوں میں ان امریکی سرمایہ کاریوں کو آگے لے کر چلنا ہے جن کا مقصد پوری دنیا میں متعدی بیماریوں پر قابو پانا اور ان کو ختم کرنا ہے۔جوناس سلک ایک امریکی ڈاکٹر، طبی محقق اور وبائی امراض کے ماہر تھے۔ انہوں نے 1955 میں پولیو کے علاج کے لیے ایک ویکسین تیار کی۔ اس سے قبل ہر سال پولیو سے لاکھوں بچے مفلوج ہو جایا کرتے تھے۔ امریکہ کے امراض پر قابو پانے اور ان کی روک تھام کے مراکز کے مطابق وسیع پیمانے پر حفاظتی ٹیکے لگانے کے باعت 1988 اور 2013 کے درمیان پولیو کے مریضوں کی تعداد میں 99 فیصد کمی واقع ہوئی۔ پولیو کے خلاف مسلسل حفاظتی ٹیکے لگانے کی وجہ سے پولیو مکمل طور پر ختم ہونے والی اگلے بیماری بننے جا رہا ہے۔ امریکی، جان اینڈرس حیاتیاتی طب کے شعبے کے سائنس دان تھے۔ انہوں نے 1963 میں خسرے کے علاج کے لیے ویکسین تیار کی۔ اب خسرے کے مریضوں کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے۔ سی ڈی سی کا کہنا ہے کہ 2018 میں خسرے سے پوری دنیا میں 142000 ہلاکتیں ہوئیں۔الرجی اور متعدی امراض کے قومی ادارے کا کہنا ہے کہ کووڈ19 کی ممکنہ ویکسین میں سے ایک ویکسین ہسپتالوں میں تیزی سے علاج کے آزمائشی مراحل سے گزر رہی ہے کیونکہ اسے مناسب ردوبدل کے بعد مرس کے علاج کے لیے ویکسین کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ایبولا وائرس کی بیماری بخار، اندرون جسم خون کے بہنے اور موت کا سبب بن سکتی ہے۔ یہ وائرس جسمانی سیالوں کی منتقلی کے ذریعے ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ بیماری افریقہ میں پھوٹتی رہی ہے۔ اس کا حالیہ ترین پھیلاﺅ 2021 میں جمہوریہ کانگو اور گنی میں ہوا ہے۔امریکی اور یورپی ضابطہ کاروں نے حالیہ برسوں میں جس ویکسین کی منظوری دی ہے وہ اس مرض کی زائر کی قسم کے علاج کے لیے امریکی دواساز کمپنی مرک نے تیار کی ہے۔ ایبولا پر قابو پانے کی کاوشوں کے لیے امریکہ بدستور سب سے زیادہ عطیات دینے والا ملک چلا آ رہا ہے۔ امریکہ ان ممالک کی وبائی بیماریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے قومی سطح پر تیار رہنے اور ان سے نمٹنے کے کاموں میں بھی مدد کرتا ہے جہاں یہ وبائی بیماریاں اکثر پھوٹتی رہتی ہیں۔ زیکا وائرس مچھروں سے پھیلتا ہے اور اس کے نتیجے میں 2015 اور 2016 میں مغربی نصف کرے میں ہزاروں بچے پیدائشی طور پر جسمانی نقائص کے ساتھ پیدا ہوئے۔امریکی محکمہ دفاع کے والٹر ریڈ آرمی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے زیکا کی ویکسین کی تیاری میں تیزی سے پیش رفت کی اور 2016 کے آخر میں اس کے آزمائشی تجربات شروع کیے۔این آئی اے آئی ڈی کے سائنس دانوں نے ایک تجرباتی ویکسسین تیار کی اور مارچ 2017 میں اس کے آزمائشی تجربات شروع کیے۔مچھروں سے پیدا ہونے والی ایک اور بیماری ملیریا ہے۔ ہر سال دنیا کی نصف آبادی یعنی 3.4 ارب افراد کو اس بیماری کے خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ صدر جارج ڈبلیو بش کے 2005 میں امریکی صدر کے ملیریا کے پروگرام کے آغاز سے قبل، اس سے افریقہ میں ہر سال سات لاکھ افراد ہلاک ہو جایا کرتے تھے۔ 2017 تک، علاج معالجے کی سہولتیں عام کرنے اور مچھردانیوں کی فراہمی جیسے روک تھام کے اقدامات اٹھانے کی وجہ سے ملیریا سے ہونے والی اموات نصف سے زیادہ کم ہوکر لگ بھگ تین لاکھ سالانہ سے بھی کم پر آ گئیں۔امریکی محققین پانچ سے سترہ ماہ کے بچوں میں ملیریا کی روک تھام میں 77 فیصد کارگر ثابت ہونے والی ویکسین تیار کرنے کی ایک بین الاقوامی کوشش کا حصہ بھی ہیں۔ ٹی بی کی بیماری کا سبب پھیپھڑوں پر حملہ کرنے والا بیکٹیریا ہوتا ہے۔ جب ٹی بی کا کوئی مریض چھینکتا یا کھانستا ہے تو ہوا میں پھیلنے والے اس بیماری کے جراثیم دوسروں تک منتقل ہو جاتے ہیں۔ اس بیماری سے ہر سال 1.5 ملین افراد ہلاک ہوتے ہیں۔ ٹی بی کا مرض ہلاکتوں کے حوالے سے، دنیا کی سب سے زیادہ اموات کا سبب بننے والی متعدی بیماری یعنی ایڈز کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔اس وقت دستیاب ویکسین کی افادیت محدود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ این آئی اے آئی ڈی ویکسینوں اور علاجوں پر تحقیق کے لیے مالی وسائل فراہم کر رہی ہے۔ کئی ایک ممکنہ ویکسینوں کے جانوروں پر کیے جانے والے تجربات کے کامیاب نتائج سامنے آئے ہیں اور اس وقت یہ ویکسینیں ہسپتالوں میں آزمائشی تجربات کے مرحلے سے گزر رہی ہیں۔ ایڈز، ٹی بی اور ملیریا جیسی مہلک بیماریوں کے خلاف برسرپیکار عالمی ادارے دی گلوبل فنڈ نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں ان خطرناک متعدی امراض پر قابو پانے کیلیے کی جانےوالی کوششوں کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔رپورٹ برائے سال 2023 میں عالمی ادارے نے کہا ہے کہ اگرچہ کووڈ کے بعد ان تین مہلک متعدی بیماریوں کے خلاف کی جانے والی کوششیں پھر سے پرانی سطح پر آگئی ہیں تاہم موسمیاتی تبدیلیوں اور مختلف خطوں میں جاری تصادم اور جنگی صورتحال 2030 تک ایڈز، ٹی بی اور ملیریا کو ختم کرنے کے ہدف کی راہ میں بڑا چیلنج بن گئی ہےں۔دی گلوبل فنڈ کی رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی یا موسمیاتی تبدیلیاں ملیریا کے پھیلاﺅ میں اہم کردار ادا کررہی ہیں۔ براعظم افریقا کے وہ علاقے جو انتہائی سرد ہونے کی وجہ سے ملیریا سے محفوظ تھے وہاں اب درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ سے اس بیماری کا پھیلاﺅ دیکھا جارہا ہے۔اس کےساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آنے والے سیلاب اور طوفان نہ صرف متعدی امراض میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں بلکہ ان کی وجہ سے متاثرہ علاقوں میں طبی خدمات کی فراہمی بھی متاثر ہورہی ہے ۔ 2022میں گلوبل فنڈکے تحت ٹی بی کے 67لاکھ مریضوں کا علاج کیا گیا۔ یہ تعداد 2021کے مقابلے میں 14لاکھ مریض زیادہ ہے۔