خواتین کی آزادی اور صحافیوں کی تربیت

قراقرم ایریا ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن کے زیر اہتمام میڈیا سے وابستہ افراد کے لئے ایک روزہ تربیتی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے معاون خصوصی برائے اطلاعات ایمان شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان کے دس اضلاع کی اپنی رویات اور اقدار ہیں۔ ہر علاقے کی اچھی روایات کو دوسرے علاقوں تک پھیلانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ این جی اوز گلگت بلتستان میں اچھا کام کر رہی ہیں۔ گلگت بلتستان میں اے کے ڈی اےن کی خدمات قابل تعریف ہیں۔ انہوں خواتین کے حقوق پر بات کرتے ہوئے کہا کہ دین اسلام نے خواتین کا جو عزت اور مقام دیا ہے وہ کوئی دوسرا مذہب سوچ بھی نہیں سکتا۔ اسلام میں ماں کے قدموں تلے جنت رکھی ہے، اس سے بڑا مقام اور کیا ہوسکتا ہے۔ دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ جن لوگوں کے عقائد کمزور ہےں وہ دنیا میں ناکام ہیں۔گلگت بلتستان میں خواتین کو جو آزادی حاصل ہے، وہ پاکستان کے کسی دوسرے صوبے میں نہیں ہے۔ گلگت بلتستان وہ علاقہ ہے جہاں چھے سوسال قبل ایک خاتون نے حکمرانی کی ہے۔ این جی اوز میرٹ کی بنیاد پر صحافیوں کے لئے باضابطہ طور پر تربیت کا اہتمام کریں۔ ایک روزہ تربیت سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا۔ تربیتی ورکشاب سے کاڈو کی ہیڈ نور جبین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان کو پلاسٹک فری بنانے کے منصوبے پر کام کیا جارہا ہے جس میں ابتدائی طور پر ضلع ہنزہ میں کامیابی ہوئی ہے جبکہ خواتین کو بااختیار بنانے‘انفارمیشن ٹیکنالوجی،جینڈر بیسڈ سوسائٹی اور خواتین کو سود سے پاک قرضہ جات کی فراہمی کے منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔بلاشبہ صحافیوں کو بھی انکی استعدادکار میں اضافے کی ضرورت ہوتی ہے اس کے لئے بہتر چیز ہے کہ مطالعہ کیا جائے یا مزید تعلیم حاصل کی جائے۔ بہت سے صحافی اپنے معمولات زندگی کی وجہ سے مزید تعلیم نہیں حاصل کرپاتے تو انکو ورکشاپ اور ٹریننگز مدد دیتی ہیں۔ورکشاپس ٹریننگز صحافیوں کو مزید تعلیم آگاہی دینے میں معاونت دیتی ہےں ۔ مل جل کر کام کرنا اور نئی چیزیں سیکھنا ہمیشہ ایک منفرد تجربہ ہوتا ہے۔ پھر اپنے ہی کولیگز سے بہت عرصے بعد ملاقات انسان کو فریش کردیتی ہے۔ مباحثے، سیر حاصل گفتگو اور تجربات کا تبادلہ خیال ہمیشہ انسان کی کارکردگی کو نکھار دیتا ہے۔ورکشاپس اور کورسز میں صحافیوں کو دورحاضر کی جدید چیزوں سے آگاہی دی جاتی ہے۔صحافی چھوٹا ہو یا بڑا وقت کے ساتھ ساتھ صحافیوں کے مسائل میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے پاکستان میں جہاں اخبارات اور ٹی وی چینلز کے منتظمین بغیر کسی صحافتی تربیت اور ڈگری کے صحافی بنا رہے ہیں وہاں وڈیروں، جاگیرداروں سیاسی جماعتوں، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے روز بروزصحافیوں پر تشدد اور ہراسمنٹ کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ وفاقی یا صوبائی حکومتوں کی جانب سے صحافیوں اور ان کے اداروں کے تحفظ کے لیے کبھی کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔ صحافیوں کی تمام یونینز کو اس مسئلے پر لکھنے اور تربیتی نشتوں کے اہتمام پر توجہ دینی چاہیے کہ یہی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ صحافتی امور کی انجام دہی کے دوران سیاستدانوں، ورکروں اور سےکیورٹی اداروں کی جانب سے صحافیوں کی ہراسمنٹ عام سی بات ہے زیادہ تر واقعات میں دیکھا گیا ہے کہ سےکیورٹی اداروں کے اہلکار صحافیوں پر تشدد کرتے ہوئے کیمرے بھی توڑ دیتے ہیں جن کی قیمت ادارے کیمرہ مین سے پوری وصول کرتے ہیں۔میڈیا کے اداروں کو چاہیے کہ وہ اپنے صحافیوں کی تربیت کے لیے اقدامات اٹھائیں کہ کس موقع پر کون سا سوال کس سے کرنا ہے اور کس لہجے میں بات کرنی ہے بعض اوقات صحافی سخت لہجے میں سوال و جواب کرتے ہیں جس کی وجہ سے صورت حال بگڑ جاتی ہے ۔ موجودہ دور میں صحافت کا چہرہ مسخ شدہ ہے بہت سارے اچھے صحافیوں کو معاشرے میں برا کہا جاتا ہے جس کی وجہ صرف وہ لوگ ہیں جو جرائم میں ملوث تھے اور انہوں نے صحافتی لبادہ اوڑھ لیا۔انسٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن آئی بی اے میں اےک ادارہ قائم کےا گےا تھا جسے صحافیوں کے لئے اہم سنگ میل قرار دےا جا رہا تھا۔اس کا مقصد پاکستانی صحافیوں کو اسٹیٹ آف دی آرٹ ٹریننگ مہیا کرنا تھا۔سی ای جے صحافیوں کی ٹریننگ کا اہم ادارہ ہے، جس میں پاکستانی صحافیوں کے ساتھ امریکہ سے بھی کئی معروف صحافی آکر کراچی میں ٹریننگ دیتے ہیں۔امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے اس ادارے کو چالےس لاکھ ڈالر کی معاونت حاصل ہے۔ سی ای جے کراچی، میڈل اسکول آف امریکہ، آئی سی ایف جے اور آئی بی کے اشتراک سے تشکیل دیا گیا تھا اےسے ادارے بنانے کی اہم ضرورت ہے۔معاشرتی حدود میں رہ کر عورتوں کی آزادی اہم ضرورت ہے‘عورت کو ایک بلند مرتبہ انسان کی حیثیت سے دیکھا جانا چاہئے تاکہ معلوم ہو کہ اس کے حقوق کیا ہیں اور اس کی آزادی کیا ہے؟ عورت کو ایسی مخلوق کے طور پر دیکھا جانا چاہئے جو بلند انسانوں کی پرورش کرکے معاشرے کی فلاح و بہبود اور سعادت و کامرانی کی راہ ہموار کر سکتی ہے، تب اندازہ ہوگا کہ عورت کے حقوق کیا ہیں اور اس کی آزادی کیسی ہونا چاہئے۔ عورت کو خاندان اور کنبے کے بنیادی عنصر وجودی کی حیثیت سے دیکھا جانا چاہئے، ویسے کنبہ تو مرد اور عورت دونوں سے مل کے تشکیل پاتا ہے اور دونوں ہی اس کے معرض وجود میں آنے اور بقا میں بنیادی کردار کے حامل ہیں لیکن گھر کی فضا کی طمانیت اور آشیانے کا چین و سکون عورت کے مزاج پر موقوف ہے۔عورت اور معاشرے میں اس کے ساتھ ہونے والے برتاﺅ کا موضوع قدیم ایام سے ہی مختلف معاشروں اور تہذیبوں میں زیر بحث رہا ہے۔ دنیا کی آدھی آبادی عورتوں پر مشتمل ہے۔ دنیا میں انسانی زندگی کا دار و مدار جتنا مردوں پر ہے اتنا ہے عورتوں پر بھی ہے جبکہ فطری طور پر عورتیں خلقت کے انتہائی اہم امور سنبھال رہی ہیں۔ خلقت کے بنیادی امور جیسے عمل پیدائش اور تربیت اولاد عورتوں کے ہاتھ میں ہے۔ لہذا عورتوں کا مسئلہ بہت ہی اہمیت کا حامل ہے اور قدیم زمانے سے ہی معاشروں میں مفکرین کی سطح پر اسی طرح مخلتف قوموں کی رسوم و روایات اور عادات و اطوار میں اس پر توجہ دی جاتی رہی ہے۔حالات کی ستم ظریفی یہ ہے کہ پوری تاریخ میں ہمیشہ عورت ظلم کی چکی میں پسی ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ رہی کہ عورت کی قدر و منزلت اور مقام و اہمیت کو نہیں سمجھا گیا۔ عورت کو اس کی شان و شوکت حاصل ہونا چاہئے، عورت ہونے کی وجہ سے اس پر کوئی زیادتی نہیں ہونی چاہئے۔ شاید یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ عورت کے حق میں سب سے بڑی ناانصافی ہے کیونکہ یہ چیز اسے ارتقا اور کمال کے تمام اہداف اور امنگوں سے غافل اور منحرف کرکے انتہائی بے وقعت اور گھٹیا چیزوں میں مشغول کر دیتی ہے۔انسان نے اپنے تمام تر دعوﺅں کے باجود، اپنی تمام تر پر خلوص اور ہمدردانہ مساعی کے باوجود، عورت کے سلسلے میں انجام دئے جانے والے علمی و ثقافتی کاموں کے باوجود ہنوز دونوں صنفوں بالخصوص صنف نازک کے بارے میں کوئی صحیح راستہ منتخب اور طے کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کی۔ جس انسان نے مادی شعبوں میں، فلکیات کے میدان میں، سمندروں کی گہرائیوں میں اتر کر بے شمار دریافتیں کیں اور جو نفسیات کی موشگافی اور سماجی و معاشی امور میں باریک بینی کا دم بھرتا ہے، اور حقیقت میں بھی بہت سے میدانوں میں اس نے ترقی کی ہے،عورت کے مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہا ہے۔کوئی بھی سماجی کام اسی وقت صحیح سمت میں آگے بڑھ سکتا اور نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا ہے، جب غور و فکر، عقل و خرد، تشخیص و توجہ، مصلحت اندیشی و بار آوری اور صحیح و منطقی بنیادوں پر استوار ہو۔ عورتوں کے حقوق کی بازیابی کے لئے انجام دئے جانے والے ہر عمل میں اس چیز کو ملحوظ رکھنا چاہئے یعنی ہر حرکت دانشمندانہ سوچ پر مبنی ہو اور حقائق، عورت کے مزاج و فطرت سے آشنائی، مرد کے رجحان و رغبت سے آگاہی، عورتوں کے مخصوص فرائض اور مشاغل سے واقفیت، مردوں کے مخصوص فرائض اور مشاغل سے روشناسی اور دونوں کی مشترکہ باتوں اور خصوصیات کی معلومات کے ساتھ انجام دی جائے، غیروں سے مرعوب ہوکر اور اندھی تقلید کی بنیاد پر انجام نہیں دی جانی چاہئے۔اگر کوئی ملک حقیقی معنوں میں تعمیر نو کا خواہاں ہے تو اس کی سب سے زیادہ توجہ اور اس کا بھروسہ افرادی قوت پر ہونا چاہئے۔ جب افرادی قوت کی بات ہوتی ہے تو اس کا خیال رکھنا چاہئے کہ ملک کی آدھی آبادی اور نصف افرادی قوت عورتوں پر مشتمل ہے۔ اگر عورتوں کے سلسلے میں غلط طرز فکر جڑ پکڑ لے تو حقیقی اور ہمہ جہتی تعمیر و ترقی ممکن ہی نہیں ہے۔ خود عورتوں کو بھی چاہئے کہ اسلام کے نقطہ نگاہ سے عورت کے مرتبہ و مقام سے واقفیت حاصل کریں تاکہ اپنے حقوق کا بخوبی دفاع کر سکیں، اسی طرح معاشرے کے تمام افراد اور مردوں کو بھی اس سے واقفیت ہونا چاہئے کہ عورت کے تعلق سے، زندگی کے مختلف شعبوں میں عورتوں کی شراکت کے تعلق سے، عورتوں کی سرگرمیوں، ان کی تعلیم، ان کے پیشے، ان کی سماجی، سیاسی، اقتصادی اور علمی فعالیتوں کے تعلق سے اسی طرح خاندان کے اندر عورت کے کردار اور معاشرے کی سطح پر اس کے رول کے تعلق کا نقطہ نگاہ کیا ہے۔معاشرے کو لڑکیوں کی تعلیمی قابلیت کی ضرورت ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے تعلیم یافتہ لڑکوں کی ضرورت ہے۔