مسلم امہ کا اتحاد

اسرائیل کے خلاف اور فلسطینی مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کیلئے جامع مسجد سکردو سے یادگار چوک تک احتجاجی ریلی نکالی گئی یادگار چوک پر ریلی جلسے میں بدل گئی ریلی کے شرکا نے ہاتھوں میں بینرز، پلے کارڈز اور فلسطینی پرچم اٹھا رکھے تھے یادگار چوک پر اسرائیل کے خلاف شدید نعرے بازی کی گئی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے علامہ شیخ ذوالفقار علی انصاری، شیخ منظور حسین حسینی، شیخ غلام محمد زیدی اور دیگر نے کہا مسلم کمیونٹی بڑی طاقت ہے ‘ہمیں بیدار ہونا ہوگا ورنہ ہم پاش پاش ہو جائیں گے مسلمانوں کا اتحاد یہود و نصاری کی شکست کا باعث بنے گا ہم شیعہ سنی اور دیگر فرقوں میں بٹے رہیں گے تو نقصان ہی ہوگا ہماری نااتفاقی کا سب سے بڑا فائدہ دشمنان اسلام کو پہنچے گا ہمیں آپس کی نفرتیں مٹانا ہونگی ہمیں قرآن و اہلبیت کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر اسلام دشمن طاقتوں کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہونا ہوگا۔ ہمیں وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے باہمی اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے فروعی اختلافات کو پس پشت ڈالنا ہوگا۔ مسلم امہ آج بھی بیدار نہ ہوئی تو اسلام دشمن قوتیں غالب آئیں گی پھر صورت حال قابو سے باہر ہو جائےں گی۔بدقسمتی سے آج مسلمان امہ انتشار کا شکار ہے دنیا میں مسلمان اتنے زیادہ ہیں کہ اگر وہ آپس میں متحد ہو کر ایک ہی ایمانی پھونک ماریں تو غیر مسلم روئی کی طرح اڑ جائے گا۔ افسوس کہ ہر جگہ مسلمان آج غیروں کے لئے تر نوالہ بنا ہوا ہے اور یہ ان کے لئے قدرت کی طرف سے آپس میں نااتفاقی کی سزا ہے ۔ آج مسلم امہ کے اتحاد کی جتنی ضرورت ہے ماضی میں اتنی نہ تھی ۔ وقت کا تقاضا ہے کہ آج ہم مسلمان اپنے تمام علاقائی ملکی اور بین الاقوامی اختلافات کو بھول جائیں اور اتحاد کی اس مثال کو دوبارہ قائم کریں جو اسلامی تاریخ میں مہاجرین و انصار نے قائم کیا۔ اسلامی امہ ایک سمندر ہے ۔ اس میں چھوٹی مثل اقوام کی حیثیت نشان مختصر ہے اسلامی امہ کو مادی لحاظ سے پسماندہ اور کمزور رکھنے کے لیے چار گنا بڑی غیر اسلامی دنیا کے یورپی اور امریکی ممالک کا اشتراک ایک طرف سے بڑے اسلامی ممالک مثلا انڈونیشیا، پاکستان، ایران، ترکی وغیرہ کے خلاف دباﺅ بڑھاتا ہے ۔اسرائیلی ریاست کی تخلیق برطانیہ کا بڑا ظلم تھا اور اس کی تعمیر اور حمایت امریکہ کی ایک بڑی بے انصافی ہے ۔ مشرق وسطی کی اب تک خون ریزی کی اصلا ذمہ داری ان دونوں پر عائد ہوتی ہے ، امریکہ نے ہر معاملہ میں اسرائیل کی اندھا دھند حمایت کی ہے ۔ صرےحا ناجائز اقدامات پر بھی امریکہ نے کچھ نہیں کیا ۔ کئی دفعہ ایسا بھی ہوا ہے کہ اقوام متحدہ اور دوسرے بین الاقوامی فورموں پر امریکہ اور اسرائیل ایک طرف اور باقی ساری دنیا دوسری طرف اسرائیل امریکی امداد کے سہارے زندہ ہے ۔ اس کے باوجود امریکہ نے فلسطین ریاست کے قیام کے لیے بھی اسرائیل پر حقیقی دباﺅ نہیں ڈالا ۔ اگر امریکہ چاہے تو مختصر عرصہ میں مشرق وسطی میں امن قائم ہو سکتا ہے ۔ اس وقت عالم اسلام میں امریکہ کے متعلق تین رویے ہیں ۔ ایک یہ ہے امریکہ مجموعہ شر اور شیطان کبیر ہے ۔ وہ مسلمانوں کا دشمن ہے اور انہیں نیست ونابود کرنا چاہتا ہے ۔ وہ مسلمانوں کو معاشی اور سیاسی طور پر ہمیشہ کمزور دست نگراور اپنی گرفت میں دیکھنا چاہتا ہے اور ہر حال میں مسلمانوں کی ترقی اور خوشحالی کا مخالف ہے ۔ اس مقصد کے لیے امریکہ ، یورپ اور اسرائیل ناپاک گٹھ جوڑ مسلسل مصروف عمل ہے ۔ مسلمانوں کی تمام تر خرابیوں اور کمزوریوں کی جڑ امریکہ ہے ۔ مسلم دنیا کے کسی ملک میں امریکہ کے اشارہ اور اس کے سر گرم عمل کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔ ہر حکمران نصب وعزل امریکہ ہی کا مرہون منت ہوتا ہے حتی کہ اگر دو مسلمان گرو ہ یا ملک آپس میں جھگڑتے ہیں تو یہ بھی در اصل امریکی سازش کی وجہ سے ہوتا ہے ۔اس لیے امریکہ جو کچھ بھی کرتا ہے وہ لازما خلاف اسلام خلاف مسلم ہوتا ہے ۔ اس وجہ سے ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ہر امریکی اقدام کی بلا ضرورت نہ امریکہ کی مخالفت کی جائے نہ حمایت بلکہ ہر مسئلے کے مثبت اور منفی پہلوﺅں کا جائزہ لے کر حصولی اور عملی دونوں امور کو سامنے رکھ کر حکمت عملی بنائی جائے ۔ ہر جنگ اور ہر معرکے میں اسی ملک کو کامیابی ملی ہے جس نے بہتر حکمت عملی کا مظاہرہ کیا ۔ہمدلی اور باہمی اخوت کے جذبے سے سرشار یہ قومیں جو سیاہ فام، سفید فام اور زرد فام نسلوں پر مشتمل ہیں اور جو درجنوں مختلف زبانوں سے تعلق رکھتی ہیں، سب کی سب خود کو عظیم امت مسلمہ کا جز جانتی اور اس پر فخر کرتی ہیں۔ سب ہر دن ایک ہی مرکز کی سمت رخ کرکے بیک آواز اللہ تعالی سے راز و نیاز کرتی ہیں، سب کو ایک ہی آسمانی کتاب سے درس و الہام ملتا ہے۔یہ عظیم مجموعہ جس کا نام مسلم امہ ہے بے حد قیمتی ثقافت اور باعظمت میراث کے ساتھ اور بے مثال درخشندگی اور بارآوری کے ساتھ، تنوع اور رنگارنگی کے باوجود بڑی حیرت انگیز یکسانیت اور یگانگت سے بہرہ مند ہے جو اسلام کی گیرائی و نفوذ، اس کی خاص اور خالص وحدانیت کے باعث اس عظیم پیکر کے تمام اجزا، ستونوں اور پہلوں میں نمایاں و جلوہ فگن ہے۔امت مسلمہ کے پاس اپنے وجود اور اپنے حقوق کے دفاع کے تمام وسائل موجود ہیں۔ مسلمانوں کی آبادی بہت بڑی ہے۔ ان کے پاس عظیم قدرتی دولت ہے۔ ان میں نمایاں ہستیاں اور روحانی سرمائے سے مالامال شخصیات ہیں جو لوگوں میں توسیع پسندوں کے سامنے ڈٹ جانے کا حوصلہ و جذبہ پیدا کرتی ہیں۔ مسلمانوں کے پاس قدیم تہذیب و تمدن ہے جو دنیا میں کم نظیر ہے، ان کے پاس لا محدود وسائل ہیں، بنابریں صلاحیت کے اعتبار سے مسلمان اپنے دفاع پر قادر ہیں۔ عالم اسلام کو آج اپنے عز و وقار کے لئے قدم بڑھانا چاہئے، اپنی خود مختاری کے لئے مجاہدت کرنا چاہئے، اپنے علمی ارتقا اور روحانی طاقت و توانائی یعنی دین سے تمسک، اللہ کی ذات پر توکل اور نصرت پروردگار پر تیقن کے لئے کوشش کرنا چاہئے۔ میدان عمل میں قدم رکھنے سے مراد صرف یہ نہیں کہ بندوق اٹھا لی جائے۔ اس سے مراد فکری عمل ہے، عقلی عمل ہے، علمی عمل ہے، سماجی عمل ہے، سیاسی عمل ہے۔ یہ سب کچھ اللہ تعالی کے لئے اور عالم اسلام کے اتحاد کی راہ میں انجام پائے۔ اس سے قوموں کو بھی فائدہ پہنچے گا اور اسلامی حکومتوں کو بھی ثمرہ حاصل ہوگا۔اتحاد کا معنی و مفہوم بہت آسان اور واضح ہے۔ اس سے مراد ہے مسلمان فرقوں کا باہمی تعاون اور آپس میں ٹکراﺅ اور تنازعے سے گریز۔ اتحاد بین المسلمین سے مراد یہ ہے کہ ایک دوسرے کی نفی نہ کریں، ایک دوسرے کے خلاف دشمن کی مدد نہ کریں اور نہ آپس میں ایک دوسرے پر ظالمانہ انداز میں تسلط قائم کریں۔مسلمان قوموں کے درمیان اتحاد کا مفہوم یہ ہے کہ عالم اسلام سے متعلق مسائل کے سلسلے میں ایک ساتھ حرکت کریں، ایک دوسرے کی مدد کریں اور ان قوموں کے درمیان پائے جانے والے ایک دوسرے کے سرمائے اور دولت کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں۔اتحاد بین المسلمین کا مطلب مختلف فرقوں کا اپنے مخصوص فقہی اور اعتقادی امور سے اعراض اور روگردانی نہیں ہے بلکہ اتحاد بین المسلمین کے دو مفہوم ہیں اور ان دونوں کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے۔ پہلا مفہوم یہ کہ گوناگوں اسلامی مکاتب فکر، جن کے اندر بھی کئی ذیلی فقہی اور اعتقادی فرقے ہوتے ہیں، دشمنان اسلام کے مقابلے میں حقیقی معنی میں آپس میں تعاون اور ایک دوسرے کی اعانت کریں اور ہم خیالی اور ہمدلی برقرار کریں۔دوسرے یہ کہ مسلمانوں کے مختلف فرقے خود کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش کریں، ہم خیالی پیدا کریں، مختلف فقہی مکاتب کا جائزہ لیکر ان کے اشتراکات کی نشاندہی کریں۔ علما و فقہا کے بہت سے فتوے ایسے ہیں جو عالمانہ فقہی بحثوں کے ذریعے اور بہت معمولی سی تبدیلی کے ساتھ دو فرقوں کے ایسے فتوے میں تبدیل ہو سکتے ہیں جو ایک دوسرے کے بہت قریب ہوں۔جب یکتا پرست معاشرے میں کہ جس کی نظر میں عالم ہستی کا موجد و مالک، عالم وجود کا سلطان اور وہ حی و قیوم و قاہر کہ دنیا کی تمام اشیا اور ہر جنبش جس کے ارادے اور جس کی قدرت کی مرہون منت ہے، واحد و یکتا ہے تو پھر اس معاشرے کے انسان خواہ سیاہ فام ہوں، سفید فام ہوں یا دیگر رنگ والے اور مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے ہوں اور ان کی سماجی صورت حال بھی مختلف ہو، ایک دوسرے کے متعلقین میں ہیں۔ کیونکہ وہ سب اس خدا سے وابستہ ہیں۔ ایک ہی مرکز سے جڑے ہوئے ہیں اور ایک ہی جگہ سے نصرت و مدد حاصل کرتے ہیں۔ یہ عقیدہ توحید کا لازمی و فطری نتیجہ ہے۔ اس نقطہ نظر کی رو سے انسان ہی ایک دوسرے سے منسلک اور وابستہ نہیں ہیں بلکہ توحیدی نقطہ نظر تو دنیا کے تمام اجزا و اشیا، حیوانات و جمادات، آسمان و زمین، غرضیکہ ہر چیز ایک دوسرے سے وابستہ اور جڑی ہوئی ہے اور ان سب کا بھی انسانوں سے رشتہ و ناتا ہے۔ بنابریں وہ تمام چیزیں جو انسان دیکھتا اور محسوس کرتا اور جس کا ادراک کرتا ہے وہ ایک مجموعہ، ایک ہی افق اور ایک دنیا ہے جو ایک پر امن اور محفوظ دائرے میں سمائی ہوئی ہے۔دنیا کے ہر خطے میں آج مسلمان، خواہ وہ مسلم ممالک ہوں یا ایسی ریاستیں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، اسلام کی سمت جھکاﺅ اور میلان اور اپنی اسلامی شناخت کی بازیابی کا احساس کر رہے ہیں۔ آج علم اسلام کا روشن خیال طبقہ اشتراکیت اور مغربی مکاتب سے بد دل ہوکر اسلام کی سمت بڑھ رہا ہے اور عالم انسانیت کے درد و الم کی دوا کے لئے اسلام کا دامن تھام رہا ہے اور اس سے راہ حل چاہ رہا ہے۔ آج مسلم امہ میں اسلام کی جانب ایسی رغبت پیدا ہوئی ہے جو گزشتہ کئی صدیوں میں دیکھنے میں نہیں آئی۔ اسلامی ممالک پر کئی عشروں تک مغربی اور مشرقی بلاکوں کے گہرے سیاسی و ثقافتی تسلط کے بعد اب عالم اسلام کے نوجوانوں کی فکروں کا افق اور نگاہوں کا مرکز اسلام بن گیا ہے۔ یہ ایک سچائی ہے۔ خود مغرب والے اور دنیا کی سامراجی طاقتیں بھی اس کی معترف ہیں۔ اکابرین سامراج کے لئے جو چیز سوہان روح بنی ہوئی ہے وہ مسلمانوں کا اسلامی تشخص اور یہ احساس ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ یہ چیز مسلمانوں کو متحد کرتی اور ایک دوسرے سے جوڑتی ہے۔