صوبائی وزیر بلدیات حاجی عبد الحمید نے کہا ہے کہ بلدیاتی الیکشن کیلئے فنڈز کا بندوبست ہوگیا ہے حد بندی اور حلقہ بندی کے 75 فیصد امور بھی نمٹائے گئے ہیں الیکشن کے انعقاد کیلئے ایک ارب دس کروڑ روپے درکار تھے جو وفاق نے فراہم کرنے کی یقین دہانی کرادی ہے اس طرح بڑا مسئلہ حل ہوگیا ہے لہذا الیکشن رواں سال مئی یا جون میں کرانے کی کوشش کریں گے۔ چیف الیکشن کمشنر بھی اس سلسلے میں بالکل سنجیدہ ہیں۔ ڈیلی کے ٹو کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے حاجی عبدالحمید نے کہاکہ گلگت بلتستان میں سیاحت کے بہت بڑے مواقع موجود ہیں وفاقی حکومت کو اس بارے میں ہماری مدد کرنی چاہیئے سیاحت کو فروغ دیا گیا تو یہاں سے غربت ختم ہو جائے گی' لوگ معاشی طورپر خوشحال ہونگے۔ ۔بلدیاتی نظام حکومت کو جمہوریت کی نرسری کہا جاتا ہے ۔کسی ملک میں جمہوریت کتنی مضبوط ہے اس کے لیے اس ملک کا بلدیاتی نظام اور ان اداروں کو حاصل اختیارات ملاحظہ کرلیں آپ کو خود ہی اندازہ ہوجائے گا۔پاکستان کی بدقسمتی رہی ہے کہ جمہوریت کی دعویدار سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ سے ہی بلدیاتی نظام حکومت سے پہلوتہی اختیار کی ہے اور اس نظام کے پنپنے کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے رہے جبکہ اس کے برعکس جسے ہم آمرانہ ادوار حکومت کہتے ہیں ان ادوار میں بلدیاتی نظام نہ صرف مضبوط ہوا بلکہ منتخب نمائندوں کو اتنے اختیارات اور وسائل دیئے گئے جن سے عوامی مسائل کے حل میں نہایت مدد ملی ۔جنرل ایوب خان کابی ڈی سسٹم ہو یا جنرل مشرف کا مقامی حکومتوں کا نظام اس کا براہ راست فائدہ عوام کو ہی پہنچا ہے ۔کچھ سیاسی حلقوں کے مطابق جنرل ضیا الحق کے بلدیاتی نظام میں بھی عوام کو ڈیلیور کرنے کے لیے بہت کچھ تھا ۔دنیا کے جمہوری ملکوں میں برسر اقتدار جماعتوں کی ساری توجہ عوام کے مسائل حل کرنے پر مرکوز رہتی ہے کیونکہ ان ملکوں کے عوام اپنے منتخب نمائندوں پر کڑی نظر رکھتے ہیں کہ وہ اپنے منشور اور انتخابی مہم کے دوران عوام سے کیے گئے وعدوں پر عملدرآمد کر رہے ہیں یا نہیں۔جمہوری ملکوں کے حکمرانوں کی یہ مجبوری ہوتی ہے کہ وہ عوام کے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں۔ترقی یافتہ جمہوریتوں میں صوبائی یا قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے سے پہلے بلدیاتی انتخابات جیت کر علاقائی عوام کے مسائل حل کرنا ضروری ہوتا ہے اور بلدیاتی کارکردگی ہی وہ سرٹیفکیٹ ہوتا ہے جو قانون ساز اداروں میں رسائی کا ذریعہ بنتا ہے۔ لیکن ہماری شاہانہ جمہوریت کا عالم یہ ہے کہ یہاں بلدیاتی انتخابات کی زحمت کی جاتی ہے نہ بلدیاتی اداروں کو کام کرنے دیا جاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ علاقائی مسائل کے حل کے لیے منتخب نمائندوں کے پاس نہ انتظامی اختیارات ہوتے ہیں نہ مالی وسائل ہیں ایسے بے اختیار منتخب نمائندے بھلا کس طرح عوامی مسائل حل کرسکتے ہیں؟ بلدیاتی اداروں کو انتظامی اور مالی اختیارات دینے سے گریز کی ایک وجہ جاگیردارانہ نظام بھی ہے ۔کیونکہ جاگیردارانہ ذہنیت سارے اختیارات اپنے ہاتھوں میں مرکوز رکھنا چاہتی ہے۔ ہماری صوبائی حکومتیں اپنے کلی اختیارات سے دست بردار ہونا نہیں چاہتیں کیوںکہ اس سے ان کے مالی اور سیاسی مفادات وابستہ ہیں۔ہماری سیاسی اشرافیہ اگر بلدیاتی نظام کی مخالفت کرتی ہے اور کمشنری نظام پر اصرار کرتی ہے تو اس کی یہ پالیسی سمجھ میں آجاتی ہے کہ وہ صوبائی حکومتوں کے اقتدار میں تقسیم کو پسند نہیں کرتی اور اقتدار کلی کی مالک بنی رہنا چاہتی ہے۔ اس حوالے سے اسے یہ ڈر بھی لاحق ہے کہ خاندانی حکمرانیوں کے ذریعے اس نے سیاست اور اقتدار پر جو ناجائز قبضہ جما رکھا ہے، بلدیاتی نظام سے اسے خطرہ لاحق ہوجائے گا اور نچلی سطح سے سیاسی قیادت کے ابھرنے کے امکانات پیدا ہوجائیں گے۔لیکن عوامی سیاست کرنے والوں اور عوام کی طاقت پر بھروسہ کرنے والوں کو تو بلدیاتی نظام سے ہرگز خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے۔ اگر یہ مڈل کلاس اپنی بے عملی، سیاسی بصیرت کی کمی، منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے یہ خطرہ محسوس کرتے ہیں کہ انہیں بلدیاتی انتخابات میں عوام کی پذیرائی حاصل نہیں ہوگی تو اس کا علاج سرگرم منصوبہ بند اور عوامی منشور کی سیاست ہے نہ کہ بلدیاتی انتخابات کی مخالفت اور کمشنری نظام کی حمایت۔انتظامیہ کی مکمل ناکامی کے بعد بلدیاتی نظام ہی ایک ایسی امید ہے جو گلی محلوں تک پھیلی ہوئی اور تیزی سے مضبوط ہوتی ہوئی شدت پسندی اور دہشت گردی کے آگے ایک مضبوط دیوار بن سکتا ہے۔ پاکستان میں اشرافیہ نے کرپشن کو جس طرح اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا ہے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری زندگی کا ہر شعبہ کرپشن زدہ ہو کر رہ گیا ہے۔ اگر بلدیاتی نظام بھی کرپشن سے کسی حد تک آلودہ تھا تو اس نظام میں عوام کی براہِ راست شرکت اور علاقائی سطح پر جواب دہی کی وجہ سے اس نظام میں موجود خرابیوں کے دور ہونے کی قوی امید بھی موجود تھی۔ ناظمین کے نظام میں چھوٹی موٹی خرابیوں کی موجودگی کو بہانہ بنا کر ہماری اقتدار مافیا کیوں کمشنری نظام پر اصرار کررہی ہے، یہ کوئی راز نہیں بلکہ یہ شرم ناک حقیقت ہے کہ یہ باری باری چہرے بدل بدل کر اقتدار میں آنے والے نہیں چاہتے کہ اس کے اقتدار کلی میں کمی آئے۔وہ اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہے کہ بلدیاتی نظام خصوصا ناظمین کے نظام کی وجہ اس کے صوبائی اختیارات نہ صرف چھن جاتے ہیں بلکہ سیکڑوں ناظمین کو کنٹرول کرنا اس کے بس سے باہر ہوجاتا ہے جب کہ ایک کمشنر اور چند ڈپٹی کمشنروں کو قابو میں رکھنا اس کے لیے انتہائی آسان ہوتا ہے اور ان بیورو کریٹس سے یہ مافیا اپنی مرضی کے کام کرواسکتی ہے، چونکہ کمشنر عوام کے سامنے نہیں بلکہ صوبائی حکمرانوں کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں، لہذا فطری طور پر ان کی وفاداریاں صوبائی حکمرانوں کے ساتھ وابستہ ہوجاتی ہیں۔ بلدیاتی نظام کی مخالفت درمیانہ طبقات سے تعلق رکھنے والے وہ سیاست دان اور صوبائی حکمران بھی کرتے ہیں جو عوامی سیاست کے دعوے دار ہیں اور عوام کو قوت کا سرچشمہ کہتے نہیں تھکتے۔ احساس کمتری کے مارے ہوئے مڈل کلاسر کو یہ خطرہ لاحق ہے کہ بلدیاتی نظام کے لیے ہونے والے انتخابات ان کی سیاسی حیثیت کا پردہ چاک کردیں گے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتیں اپنی بے عملی اور غیر منصوبہ بند سیاست کی وجہ سے ایک کونسلر کی سیٹ بھی حاصل کرنے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتیں لیکن اس کا ازالہ کمشنری نظام سے کرنا سیاسی وڈیروں کی تابع داری کے علاوہ کچھ نہیں۔ بلدیاتی ادارے جمہوریت کی نرسری ہوتے ہیں،انہی اداروں سے قوم کو مستقبل کی قیادت قوم کو میسر آتی ہے لیکن بد قسمتی سے اکثر سیاسی ادوار میں جمہوریت کی ا س بنیادی اکائی کو نظر انداز ہی کیا گیا ہے جس کے اثرات آج قوم بھگت رہی ہے۔ بلدیاتی انتخابات میں منتخب ہونے والی قیادت ہی مقامی مسائل کو بہتر طریقے سے سمجھتی اورحل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔بلدیاتی الیکشن جمہوری سیاست کا ایک اہم حصہ ہیں۔ الیکشن میں اسی لیے حصہ لیا جاتا ہے کہ عوام ووٹ دیں گے اور اس کے بعد وہ عوام کیلئے کام کریں گے۔ بنیادی طور پر تو سب اپنا یہی مقصد بتاتے ہیں، مگر مسئلہ یہ ہے کہ عوام کے کام کرنے کیلئے انہیں فنڈز کی ضرورت ہوتی ہے۔ فنڈز کے بغیر تو کوئی شخص بھی کام نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی امیدوار ایسا ہوتا ہے جو اپنی جیب سے رقم خرچ کرے۔ چند ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی جیب سے ترقیاتی کام کروا بھی دیتے ہیں لیکن ایسے لوگ انتہائی کم ہوتے ہیں۔ ترقیاتی کاموں کیلیے اچھی خاصی رقم درکار ہوتی ہے، اس کیلیے کروڑوں روپے کے فنڈز درکار ہوتے ہیں، ہر شخص کے پاس تو کروڑوں روپے کے فنڈز موجود نہیں ہوتے، اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ حکومت انہیں فنڈ جاری کرے اور وہ عوام کیلئے کام کریں۔ جن کاموں کا وعدہ کرکے انہوں نے عوام سے ووٹ حاصل کیے تھے۔وطن عزیز پاکستان کا بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں پر بلدیاتی نظام مضبوط نہیں ہوسکا اور اس کی راہ میں خود جمہوری نمائندے ہی رکاوٹ بنتے ہیں، جو خود کو جمہوری تو کہتے ہیں لیکن وہ بلدیاتی نظام کو منظم یا مضبوط نہیں کرنا چاہتے ہیں۔جمہوری معاشرے کے لیے بلدیاتی نظام انتہائی اہم ہوتا ہے کیونکہ بلدیاتی نمائندے ہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو عوام کے بہت قریب ہوتے ہیں اور عوام اپنے مسائل باآسانی ان تک پہنچا سکتے ہیں۔ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کا تو ایک بہت بڑا حلقہ ہوتا ہے، وہ پورے حلقے کے لوگوں کے مسائل نہیں سن سکتے، انہیں قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں بھی شرکت کرنا ہوتی ہے، قومی اسمبلی کے اندر قانون سازی کے عمل میں شریک ہوتے ہیں، دیگر بڑے اجتماعات میں شرکت کرنا اور کئی طرح کے کام ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے حلقے میں زیادہ نہیں جاسکتے۔ جس کی وجہ سے عوام اپنے مسائل حکومت تک نہیں پہنچا سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ بلدیاتی نظام کو اہمیت حاصل ہے کیونکہ بلدیاتی انتخابات کے ذریعے جو نمائندے منتخب ہوتے ہیں وہ عوام کے قریب ہوتے ہیں، اس کے ذریعے اختیارات انتہائی نچلی سطح تک عوامی حقیقی نمائندوں تک منتقل ہوجاتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر گلگت بلتستان میں بلدیاتی الیکشن کے لیے فنڈز کا بندوبست ہو گیا ہے کہ تو بلدیاتی الیکشن کے انعقاد میں تاخیر نہیں کی جانی چاہیے تاکہ عوام کے مسائل نچلی سطح پر حل ہو سکیں۔
