چینی انجینئرز کی حفاظت کویقینی بنایا جائے

گلگت بلتستان نون لےگ کے سابق وزیراعلی و صدر مسلم لیگ حافظ حفیظ الرحمن نے اسلام آباد سے کوہستان آنے والے پاکستانی قوم کے مہمان چینی باشندوں کی گاڑی پر خود کش حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے خودکش حملے میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔سابق وزیراعلی نے خودکش حملے میں جاں بحق افراد کے تمام لواحقین سے دلی تعزیت کا اظہار کیا ہے۔سابق وزیراعلی نے خودکش دھماکے میں پاکستانیوں کی شہادت پر ان کے لواحقین سے دلی تعزیت اور درجات کی بلندی کیلئے خصوصی دعا کی ہے۔سابق وزیراعلی نے کہا ہے کہ بزدل دشمن نے پاکستان کے عظیم دوست چائنہ اور پاکستان کی اقتصادی ترقی کی علامت پاک چائنہ اکنامک کوریڈور کو نشانہ بنایا ہے۔اس بزدل کارروائی سے دہشت گرد عناصر کے مذموم مقاصد کھل کر سامنے آ چکے ہیں۔پاکستان اور چائنہ اس خطے کے ذمہ دار ممالک ہیں دہشت گردانہ کارروائیوں سے عظیم مقاصد کے حصول کو کمزور نہیں کیا جاسکتا۔پاکستان آرمی اور دیگر سیکیورٹی ادارے کے پیچھے پوری قوم کھڑی ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ بزدل دہشت گردوں کو عبرت ناک سزا دی جائے اور صفحہ ہستی سے مٹادیا جائے۔پاکستان آرمی اور پوری قوم ان مذموم عناصر کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گی اور شکست سے دو چار کریں گے۔سابق وزیراعلی نے کہا کہ پوری گلگت بلتستان کی قوم سوگوار ہے اور دکھ کی اس گھڑی میں عظیم دوست چائنہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے کھڑی ہے۔دوروز قبل خیبر پختونخوا کے ملاکنڈ ڈویژن کے ضلع شانگلہ میں حملہ آوروں نے بارود سے بھری گاڑی چینی قافلے سے ٹکرا دی جس کے نتیجے میں پانچ چینی انجینئرز سمیت چھے افراد مارے گئے۔اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ حملے میں استعمال ہونے والی سلور کلر کی ٹویوٹا وِٹز کار تھی۔داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ گیزوبا کمپنی، جس کا عملہ اس حملے میں ہلاک ہوا، اس نے اپنا آپریشن معطل کر دیا ہے اور چینی عملے کو اگلے احکامات تک اپنی رہائش گاہ پر رہنے کو کہا ہے۔چین نے خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ میں خودکش حملے میں چینی انجینئرز کی ہلاکت کے بعد خودکش حملے کی جامع تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔پاکستان میں چینی سفارتخانے کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ چینی سفارتخانے اور قانصلیٹ نے پاکستان نے فوری طور پر ایمرجنسی کام کا آغاز کردیا ہے اور مطالبہ کیا کہ پاکستانی حکام معاملے کی جامع تحقیقات کر کے ذمے داران کو قرار واقعی سزا دیں۔انہوں نے مزید مطالبہ کیا کہ پاکستانی حکام چینی شہریوں کی حفاظت کے لیے موثر اور عملی اقدامات کریں۔بتاےا جاتا ہے کہ ایک خودکش حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی چینی انجینئرز کے قافلے سے ٹکرا دی جو اسلام آباد سے صوبہ خیبرپختونخوا کے علاقے داسو میں اپنے کیمپ کی جانب جا رہے تھے۔ خودکش دھماکے کے بعد بس کھائی میں گر گئی اور اس میں آگ لگ گئی، تاہم ان کی ٹیم نے موقع پر پہنچ کر آگ پر قابو پالیا۔ یہ ایک خودکش دھماکا تھا۔وزیر اعظم شہباز شریف اور صدر مملکت آصف علی زرداری نے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دینے کا اعلان کیا تھا۔ وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ وہ کسی بھی طاقت کو پاکستان اور چین کے تعاون کو سبوتاژ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اسلام آباد اور بیجنگ مل کر چین پاکستان راہداری سی پیک کی ترقی اور باہمی تعاون کو فروغ دینے کے لیے مل کر کام کرتے رہیں گے۔وزیرِ اعظم پاکستان شہباز شریف کی زیرِ صدارت ہونے والے اجلاس میں بھی بشام حملے کی مذمت کی گئی۔ اجلاس میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر سمیت دیگر اعلی حکام شریک تھے۔حالیہ برسوں میں پاکستان میں چینی منصوبوں اور ان پر کام کرنے والے شہریوں کو تواتر کے ساتھ سیکیورٹی کے خطرات لاحق رہے ہیں۔ اس وقت چین پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والا بڑا ملک ہے۔اگر ملک میں سیکیورٹی کی صورتِ حال بہتر نہ ہوئی تو پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کے لیے مشکلات ہو سکتی ہیں کیوں کہ کسی بھی بیرونی سرمایہ کار ملک کے لیے اپنے شہریوں کی سیکیورٹی پہلی ترجیح ہوتی ہے۔ چینی شہریوں کا تحفظ بیجنگ کی اولین ترجیح ہو گی جسے یقینی بنانے کے لیے پاکستان پر دباﺅ بھی بڑھے گا۔ چین کی طرف سے پاکستان میں سی پیک کے تحت توانائی اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں 35 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہو چکی ہے اور اب جو سرمایہ کاری پاکستان میں آنی ہے وہ چین کے نجی شعبے کی طرف سے آنی ہے۔پاکستان کو بیرونی اور چینی سرمایہ کاروں اور یہاں کام کرنے والے غیر ملکی شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہو گا۔ بصورتِ دیگر غیر ملکی سرمایہ کاری متاثر ہو گی۔ اگرچہ چین پاکستان میں طویل مدت کے لیے سرمایہ کاری کے لیے پرعزم ہے لیکن فی الحال ان کی ترجیح اپنے شہریوں کاتحفظ ہو گی۔ اگر یہ خطرہ برقرار رہتا ہے تو نئے منصوبوں میں سرمایہ کاری کی رفتار سست ہو سکتی ہے۔ چین سمجھتا ہے کہ پاکستان ایسے حملے روکنے کے لیے سنجیدہ ہے۔ لہذا اسے پاکستان کی نیت پر شک نہیں ہے۔ چین کو پاکستان کی مشکلات کا بھی پتا ہے اور ان باتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے چین پاکستان میں اپنی سرمایہ کاری جاری رکھے گا۔ چین اپنے شہریوں کے لیے مزید سیکیورٹی کا مطالبہ کرتا رہے گا۔ سیکیورٹی صورتِ حال کی وجہ سے سی پیک سے جڑے منصوبوں کی رفتار سست ہو سکتی ہے لیکن یہ منصوبے جاری رہیں گے۔بیجنگ کو بھی اس بات کا ادراک ہے کہ چینی اہداف پر ہونے والے حملوں کی وجہ صرف پاکستان نہیں ہے بلکہ یہ بعض عناصر کی طرف سے پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کو روکنے کی کوشش بھی ہے۔ لہذا اس حملے کی وجہ سے سی پیک پر کوئی زیادہ اثر نہیں ہو گا۔بشام حملے کی ابھی تک کسی فرد یا تنظیم نے ذمے داری قبول نہیں کی۔ لیکن ماضی میں اس نوعیت کے حملوں کی ذمے داری بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں اور کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان قبول کرتی رہی ہے۔پاکستان میں چینی شہریوں کو اس لیے ہدف بنایا جا رہا ہے کیوں کہ چین اس وقت پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والا بڑا ملک ہے۔ چینی اہداف کو اس لےے نشانہ بنایا جا رہا ہے تاکہ چینی سرمایہ کاری کی پاکستان میں حوصلہ شکنی ہو اور پاکستان میں ایک بحران پیدا ہو جائے۔ چینی شہریوں پر ہونے والے حملے کی وجہ سے پاکستان پر دباﺅ تو ہو گا لیکن یہ ایسا دباﺅ نہیں ہے جس کی وجہ سے تعلقات ٹوٹ جائیں یا ہر چیز رک جائے گی۔افسوسناک امر ےہ ہے کہ پاکستان چینی شہریوں کو سیکیورٹی فراہم کرنے میں بار بار ناکام ہو رہا ہے۔اگرچہ ان حملوں سے دنیا میں منفی پیغام گیا ہے اور یہ پاکستان کے لیے خفت کا باعث بنا ہے۔ لیکن اس سے پاکستان اور چین کے تعلقات متاثر نہیں ہوں گے۔ چین پاکستان کے اندرونی سیکیورٹی اور امن و امان کے چیلنج سے آگاہ ہے اور چین کی پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے کچھ خطرات ہو سکتے ہیں۔پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں ٹی ٹی پی ملوث رہی ہے۔ بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیمیں بھی شامل ہےں ۔ فرقہ وارانہ تخریب کاری بھی اسی سلسلے کی اےک کڑی ہے ۔ ان کی سرپرستی بھارت کی را کی طرف سے کی جاتی ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے لیے بھارت افغانستان کی سرزمین کے ساتھ ساتھ طالبان اور طالبان حکومت کو بھی استعمال کرتا ہے۔افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں موجود ہے۔ ان میں سے بھی کئی کو دہشت گردی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ چونکہ پورے پاکستان میں پھیلے ہوئے ہیں۔ جہاں کہیں بھی دہشت گردی ہوتی ہے عموما ان میں سے ہی کچھ احسان فراموش سہولت کاری کرتے ہیں۔ یہ گاڑی کہیں سے تو لائی گئی۔ کہیں سے تو اس میں بارود بھرا گیا اور کہیں سے تو یہ بارود لایا گیا اور کہیں نہ کہیں تو ان دہشت گردوں کی تربیت کی گئی۔یہ سارا کچھ سہولت کاروں کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا۔ پاکستان اور چین کے مابین دوریاں پیدا کرنے کے لیے بھارت سازشیں کرتا رہتا ہے۔پاکستان اور چین کے مابین غلط فہمیاں پیدا کرنے کی بھی بھارت منصوبہ بندی کرتا رہتا ہے۔چین کے پاکستان میں مفادات کو دہشت گردی کے ذریعے نقصان پہنچانے کے لیے بھارت ہمیشہ سرگرم رہا ہے۔پاکستان میں کام کرنے والے انجینئرز پر کتنی مرتبہ حملے ہو چکے ہیں۔جولائی 2021 میں اپر کوہستان کے علاقے داسو میں ڈیم کی تعمیر کے دوران دہشت گردی کا ایک واقعہ پیش آیا تھا۔اس حملے میں ڈیم کی تعمیر پر کام کرنے والے نو چینی انجینئرز سمیت تےرہ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔پاکستان میں موجود چینی سفارت خانے اور قونصلیٹس پر بھی دہشت گردی ہوتی رہی ہے۔امریکا نے پاکستان میں خودکش کار بم دھماکے میں پانچ چینی انجینیئرز کی ہلاکت پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے دہشت گردی کے واقعے کی مذمت کی ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا ہے کہ خود کش حملے میں لوگوں کی ہلاکت اور زخمی ہونے پر گہرا دکھ ہے۔ متاثرہ افراد کے ساتھ دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔ترجمان میتھیو ملر سے ےہ سوال کےا گےا تھا کہ پاکستان میں پانچ چینی انجینیئرز خود کش کار بم دھماکے میں ہلاک ہوگئے۔ کیا امریکا چین کے ساتھ بھی مشترکہ منصوبے کرنے والے ممالک کے بارے وہی رائے رکھتا ہے جو وہ ایران کے ساتھ رکھتا ہے؟ خاص طور پر سی پیک کے حوالے سے؟اس پر ترجمان میتھیو ملر کا کہنا تھا کہ ہم چینی انجینئرز پر حملے کی مذمت اور متاثرہ افراد کے ساتھ دکھ اور دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ حکام بالا پاکستان میں کام کرنے والے چےنی ماہرےن کی جانوں کی حفاظت کو ےقےنی بنائےں۔