صحت سہولت کارڈ بحالی کی قرار داد



گلگت بلتستان اسمبلی نے ایک قراردادکی متفقہ طورپرمنظوری دی ہے جس میں وفاقی حکومت سے گلگت بلتستان میں صحت سہولت کارڈکوجلدازجلد بحال کرنے کامطالبہ کیا گیا ہے۔ قراردادمیں کہاگیا ہے کہ گلگت بلتستان کایہ مقتدرایوان صحت سہولت کارڈکی بندش کی وجہ سے عوام کودرپیش مسائل پربھرپورتشویش کااظہارکرتا ہے حال ہی میں سننے میں آیا ہے کہ وفاقی حکومت نے ایکنک کے فورم پر اس کی دوبارہ بحالی پرغور کیاگیا ہے یہ ایوان وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ صحت سہولت کارڈ کوجلدازجلد گلگت بلتستان میں بحال کرنے کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں۔صحت کارڈکوختم کرکے غریب دشمنی کاثبوت دیا گیا ہے صوبائی وزیر حاجی رحمت خالق نے قراردادکی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ صحت کارڈکی بحالی ایک اہم مسئلہ ہے تمام اراکین نے قراردادکی حمایت کی جس پرسپیکرنذیراحمدایڈووکیٹ نے قراردادکی متفقہ منظوری کااعلان کیا۔حکومتی دستاویز اقتصادی سروے کے مطابق پاکستان میں صحت کی سہولیات خطے کے دیگر ممالک کی نسبت کافی کم ہیں۔ پاکستان بھر میں ہزار کے قریب ہسپتال موجود ہیں۔ جبکہ پاکستان میں دو لاکھ کے قریب ڈاکٹر، اٹھانوے ہزار کے قریب ڈینٹسٹ یا دانتوں کے ڈاکٹر اور ستر ہزار کے قریب نرسز ہیں۔ پاکستان میں بنیادی صحت مراکز اور رورل ہیلتھ سینٹرز کی تعداد چھ ہزار کے قریب ہے لیکن وہاں اکثر تربیت یافتہ عملے اور ادویات کی عدم دستیابی کی شکایات سامنے آتی ہیں۔ ایشیا میں بچوں کی شرح اموات سب سے زیادہ پاکستان میں ہے۔ جوکہ نوزائدہ بچوں میں فی ہزار پر پینسٹھ اور پانچ برس سے کم عمر والے بچوں میں شرح فی ہزار پر پچانوے بنتی ہے۔سرکاری اعداد وشمار کے مطابق سنہ دو ہزار سے اب تک ہر سال مجموعی ملکی پیداوار یا جی ڈی پی کے اعتبار سے مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے صحت کے اخراجات میں کمی ہو رہی ہے۔حکومتی اعداد وشمار کے مطابق بائیس کروڑ سے زیادہ آبادی والے پاکستان میں پونے بارہ سو افراد کے لیے ایک ڈاکٹر جبکہ سترہ ہزار افراد کے لیے ایک ڈینٹسٹ موجود ہے۔ پاکستان میں اوسطا تقریبا سولہ سو افراد کے لیے ہسپتال کا صرف ایک بستر موجود ہے۔ صحت اللہ پاک کی ایک انمول نعمت ہے۔صحت کی سہولیات کی فراہمی ہرانسان کا بنیادی حق ہے۔ایک صحت مند انسان ہی صحت مند زندگی گزارسکتاہے۔عوام کو صحت کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کے دعوے نہیں حقیقی معنوں میں یقینی بناناہوگا۔پاکستان آبادی کے لحاظ سے اگلے بیس سال بعد دنیاکاتیسرابڑاملک ہوگا۔پاکستان کی عوام کو آبادی کے لحاظ سے صحت کی بہترسہولیات فراہم کرنی ہوں گی۔عوام کو صحت کی بہترسہولیات فراہم کرنے کیلئے ہمیں اپنے انفراسٹرکچرکوبہترکرنا ہوگا۔ہمیں صحت مند معاشرہ کی بنیاد رکھنے کیلئے صحت مندلائف سٹائل اپناناہوگا۔اللہ پاک نے رمضا ن المبارک کا مہینہ ہمیں اپنالائف سٹائل تبدیل کرنے کیلئے تحفہ دیا ہے۔ہماری نوجوان نسل میں دل کی بیماریاں،کینسراور دوسری مہلک بیماریاں بہت جلدجنم لے رہی ہیں۔حکومت ہر سرکاری میڈیکل یونیورسٹی کے ہرطالب علم کی تعلیم پر ایک کروڑروپے سے زائد کی رقم خرچ کررہی ہے۔بیماریوں سے لڑنے کی بجائے بیماریوں کی روک تھام پرکام کرنازیادہ اہم ہے۔عوام کو صحت کی بہترسہولیات فراہم کرنا بہت بڑی ذمہ داری ہے۔نگران وزیراعظم کہہ چکے ہیں کہ بنیادی صحت کی سہولیات عام آدمی کی دہلیز تک پہنچائی جائیں گی۔ پاکستان میں 464  صحت کے بنیادی مراکز کی اپ گریڈیشن ایک میگا پراجیکٹ ہے اس پر کام آئندہ دو ماہ کی قلیل مدت میں مکمل کر لیا جائے گا۔ منصوبے کے تحت اپ گریڈ طبی مراکزمیں سے 202 سندھ، 64 خیبر پختونخوا ، 131 بلوچستان ، 26 پنجاب جبکہ 41 آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں ہوں گے۔ اس منصوبے سے پاکستان میں بنیادی طبی سہولیات کے نظام کی مضبوطی اور اس کے فروغ کے لئے مدد ملے گی جس سے بڑے ہسپتالوں پر مریضوں کا بوجھ کم ہو گا۔طبی سہولیات کو کمپیوٹرائزڈ کیاجائے گااور انہیں ستر جدید سہولیات سیلیس کیاجائیگا۔ اپ گریڈیشن کی جا رہی ہے۔پاکستان اور عالمی ادارہ صحت صحت کے شعبے میں تعاون کے لئے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کر چکے ہیں۔پاکستان کو صحت کی دیکھ بھال کی فراہمی کا نظام  آزادی کے وقت برطانوی عہد سے ملا تھا۔یہ نظام صحتِ عامہ کی خدمات اور کچھ علاج معالجہ کی شکل میں تھا ۔ پاکستان میں صحت کی پالیسیاں بنانے اور منصوبہ بندی کا معاملہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری تھی لیکن آئین میں کچھ ترامیم ہوئیں جس کے تحت اب صوبے بھی  صحت عامہ کے معاملات کو خود دیکھ سکتے ہیں۔ تاہم وفاقی حکومت کی طرف سے جو پالیسیاں بنائی جاتی ہیں صوبائی حکومتوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان پالیسیوں کے نفاذ کو یقینی بنائیں ۔ سب سے بڑا مسئلہ جو نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ صوبائی حکومتیں پبلک ہیلتھ سکولوں اور ٹیکنیشین ٹریننگ اداروں کو متعارف کروا کر میڈیکل پروفیشنلز کو تربیت دے کر صحت کی دیکھ بھال کے معیار کو بہتر بنانے میں سرمایہ کاری کرنے کی بجائے میڈیکل کالجوں اور یونیورسٹیوں کی ترقی میں اپنے محدود وسائل خرچ کر رہی ہیں۔آئینِ پاکستان کے مطابق سوائے وفاقی حکومت کے زیرِ انتظام علاقوں کے ، صحت کی دیکھ بھال بنیادی طور پر صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ کورونا، ایڈز ، پولیو اور کچھ دیگر توسیعی پروگراموں کے نفاذ کی اور حفاظتی ٹیکوں کے توسیعی پروگرام کی ذمہ داری بڑی حد تک وفاقی وزارتِ صحت پر ہے ۔پاکستان میں صحت کی دیکھ بھال کا شعبہ پرائیویٹ  اور سرکاری شعبہ پر مشتمل ہے ۔پاکستان میں نظامِ صحت کی حالت یہ ہے کہ پرائیویٹ شعبہ ، آبادی کے تقریبا ستر فیصد حصے کو سہولیات فراہم کر رہا ہے ۔ نجی شعبہ جو سہولیا ت لوگوں کو فراہم کر رہا ہے وہ اس کے لیے اپنی فیس وصول کرتا ہے اور یہ فیس ایک متوسط فرد یا غریب فرد ادا نہیں کر سکتا۔ صحت کا نظام اس قدر خراب ہے کہ نہ تو نجی اور نہ ہی سرکاری شعبے ریگولیٹری فریم ورک کے اندر کام کرتے ہیں ۔ کوالیفائیڈ پیرا میڈیکل اسٹاف، ڈاکٹر، نرسز کی کمی ہے۔خواتین کی صحت کے حوالے سے اقدامات کیے تو جار ہے ہیں لیکن اس کے کوئی دور رس نتائج نہیں آرہے۔ خواتین کے لیے صحت کے معاملات میں سب سے اہم زچگی اور زچگی کے دوران لاحق ہونے والے پچیدہ امراض ہیں۔ جس کی وجہ سے زچگی کے دوران خواتین کی شرح اموات بہت زیاد ہ ہے۔ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں تیس فیصد سے بھی کم آبادی کو پرائمری ہیلتھ کیئر سینٹرز کی سہولیات تک رسائی حاصل ہے ۔ اوسط ہر فرد ایک سال میں ایک سال سے بھی کم ہیلتھ کیئر سینٹرز تک جاتا ہے ۔ ہیلتھ کیئرسینٹرز میں جانے میں عدم دلچسپی کی وجہ صحت کی دیکھ بھال کرنے والے پیشہ ور افراد اور خاص طور پر وہاں خواتین کی کمی ، غیر حاضری کی اعلی شرح ، سہولیات کا ناقص معیار اور ادویات کی عدم دستیابی شامل ہے ۔ جبکہ دوسری طرف پاک فوج ، پاکستان ریلوے ، اٹامک انرجی اور بہت سے دیگر ادارے ایسے بھی ہیں جو اپنے ملازمین کو بہترین صحت کی سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔صحت کی بہترین سہولیات عوام کو فراہم کرنا حکومتوں کی اولین ترجیح ہونا چاہیے۔  وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر لازم ہے کہ وہ مل بیٹھ کر عوام کو صحت کی بہترین سہولیات فراہم کرنے کے لیے واضح اور جامع پالیسی مرتب کریں ۔ نئے جدید ٹیکنالوجی پر مشتمل ہسپتال بنائے جائیں ۔نئے ڈاکٹرز اور لیڈی ڈاکٹرز کو ملازمتیں دی جائیں ۔ پیشہ ور نرسز کو تعینات کیا جائے  ۔ ہسپتالوں میں دوائی کی فراہمی اور دستیابی کو یقینی بنایا جائے۔  تاکہ غریب عوام کو بہتر اور مفت صحت کی سہولیات میسر آ سکیں اور انکا معیارِ زندگی بہتر ہو سکے۔انسانی حقوق کے عالمی اعلانیے مجریہ 1948 میں کہا گیا ہے: ہر فرد اور اس کے خاندان کو صحت کی مناسب سہولیات کا حق حاصل ہے۔ اس کے علاوہ اقوامِ متحدہ کے ادار صحت کے آئین میں درج ہے: صحت کے بلند ترین معیار سے استفادہ کرنا ہر فرد کا بنیادی انسانی حق ہے۔دنیا میں 120 سے زیادہ ممالک نے صحت کو منصفانہ نظامِ قانون اور جمہوری سیاسی نظام کی طرح آئین کا حصہ بنا رکھا ہے۔نہ صرف 1973 کے آئین میں صحت کو شامل نہیں کیا گیا بلکہ آئین میں ہونے والی 18ویں ترمیم میں پرائمری تعلیم کو تو شامل کیا گیا لیکن صحت کے حق کو شامل کرنے کا موقع کھو دیا گیا۔اگر کوئی حکومت صحت کی سہولیات عام کر دے تو اسے خود اس کا سیاسی فائدہ ہوتا ہے۔ برازیل، تھائی لینڈ، میکسیکو اور وینزویلا کی حکومتوں نے صحت کو آئینی حق بنا کر عوام میں زبردست مقبولیت حاصل کر لی، اور انہیں انتخابات میں بڑی کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ہمارے ہاں سرکاری نظامِ صحت میں بہت سی کمزوریاں ہیں: کہیں ڈاکٹر نہیں، کہیں دوائی نہیں ہے، کہیں ٹیسٹ نہیں ہیں، سرکاری ہسپتالوں میں بھی پیسے دینے پڑتے ہیں اس لیے لوگ پرائیویٹ علاج کو ترجیح دیتے ہیں۔ پاکستان میں صحت پر اٹھنے والے کل خرچ کا 73 فی صد حصہ لوگ اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں، جب کہ بقیہ 27 فیصد میں فلاحی ادارے اور پرائیویٹ ادارے بھی شامل ہیں اور حکومت کا حصہ انتہائی کم ہے۔پاکستان صحت پر بہت کم خرچ کرتا ہے اور اس ضمن میں صومالیہ اور افغانستان جیسے ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ پاکستانی حکومت کا صحت پر فی کس خرچہ صرف چھ سے آٹھ ڈالر ہے، حالانکہ عالمی ادارہ صحت کی سفارشات کے مطابق ترقی یافتہ ممالک کو صحت پر فی کس 35 سے پچاس ڈالر خرچ کرنے چاہیں۔ان حالات میں ضروری ہے کہ گلگت بلتستان جیسے پسماندہ علاقے میں صحت سہولت کارڈ کو فوری بحال کیا جائے تاکہ عوام کو آسانی ہو سکے۔