مجلس وحدت المسلمین کے ترجمان حاجی غلام عباس نے کہا ہے کہ نئی نسل کو منشیات کی لعنت سے بچانے کے لئے سخت اقدامات اٹھانے ہوں گے اور تمباکو کنٹرول ایکٹ 2020 پر فوری عملدر آمد وقت کی عین ضرورت ہے۔ تمباکو کے خلاف برسر پیکار سماجی تنظیم سیڈو کے ڈسٹرکٹ کوآرڈینیٹر گلگت سے گفتگو کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم کے ترجمان نے کہا کہ گلگت بلتستان میں تمباکو کا استعمال تشویشناک حد تک بڑھ چکا ہے خصوصا تعلیمی ادارے تمباکو کے آسان ٹارگٹ ہیں جہاں زیر تعلیم طلبہ میں نشہ آور چیزوں کا استعمال دن بدن بڑھ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں تمباکو اور منشیات کے خلاف آگہی سیشنز ہونے چاہیے تاکہ نئی نسل کو تمباکو اور منشیات جیسی لعنت سے دور رکھا جائے۔ تمباکو منشیات کے جانب راغب ہونے کی پہلی سیڑھی ہے لہذا نئی نسل کو اس سے روکنے کے لئے مختلف اداروں بالخصوص محکمہ صحت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دی جائے جو کہ اس پر کڑی نظر رکھے۔ ہماری نوجوان نسل ہمارا مستقبل ہے ہمیں اس پر سوچنا ہوگا کہ ہم اپنی نسل کو تمباکو اور منشیات سے کیسے دور رکھ سکیں۔ تمباکو مافیا آئے روز نئی مصنوعات مارکیٹ میں لا رہا ہے جن کو ایمرجنگ ٹوبیکو پراڈکٹ بھی کہا جاتا ہے۔ ان مصنوعات کا استعمال نئی نسل بالخصوص خواتین اور بچے بھی کرنے لگے ہیں جو کہ قابل تشویش ہے۔ سیڈو کی کوشش ہے کہ اس پر جلد قانون سازی کے ذریعے اس کے استعمال کو روکا جائے۔ تمباکو کنٹرول ایکٹ پر عملدرآمد کے لئے کام کیا جا رہا ہے۔ نارکوٹکس کنٹرول اس ضمن میں تیزی کے ساتھ کام۔کر رہا ہے جس کے دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔بچو ں اور نوجوانوں میں نشے کا بڑھتا رجحان انتہائی تشویشناک صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے ،خاص طور پر تعلیمی اداروں میں طلبا اور طالبات میں بری طرح پھیل ہا ہے ۔دنیا بھر میں یہ لعنت تیزی سے پھیل رہی ہے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان تمباکو کے استعمال اور درآمد کے لحاظ سے دنیا کے پہلے چار ممالک میں شامل ہے ۔یہاں چالےس فےصد مرد اور نو فےصد خواتین تمباکو نوشی کے عادی ہیں ،ماہرین کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال صرف تمباکو نوشی سے ایک لاکھ افراد لقمہ اجل بن جا تے ہیں ،تمباکو نوشی کے عادی افراد میں پچاس فی صد افراد اوسطا چودہ سال قبل زندگی کی بازی ہار جا تے ہیں۔زیادہ خطرناک اور مضر صحت نشوں جن میں گٹکا، چھالیہ ،ہیروئن ،حشیش اورچرس شامل ہیں بھی اکثر لوگوں کے استعمال میں ہیں ۔یہاں یہ امر انتہائی تکلیف دہ ہے کہ نشہ آور اشیا کے استعمال کا رجحان ہمارے طلبا اور طالبات میں تیز ی سے پھیل رہا ہے ایک سروے کے مطابق ہمارے کالج اور یونیورسیٹیزمیں دس میں سے ایک طالب علم اس لعنت کا شکار ہے ، ان نشوں میں ایک اور انتہائی خطرناک اور مضر صحت لت ہے زیادہ تر کم آمدنی والے یا متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد یہ استعمال کرتے ہیں جبکہ شہروں اور دیہاتوں کی گنجان آبادی والے علاقوں میں پان کی دکانوں ،چھوٹے چھوٹے جنرل اسٹوروں اور ٹھیلوں وغیرہ پر بھی دستیاب ہوتی ہےں ۔اسکے علاوہ ہیروئن ،کوکین ور حشیش جیسے نشے کا رجحان کالجوں اور یونیورسیٹیوں کے طلبا میں تشویشناک حد تک بڑھ رہا ہے ۔یہ منشیات صاحب ثروت افراداور کالج اور یونیورسیٹیز کے طلباو طالبات میں زیادہ مرغوب ہیںےہ انکشاف بھی ہو چکا ہے کہ بڑے پرائیوٹ اسکولوں کے ترپن فیصد طلبا مختلف قسم کی منشیات کے بشمول ہیروئن کے عادی ہیں جن کی عمر یں بارہ سے انیس سال کے درمیان ہیں اور جن کا تعلق امیر گھرانوں سے ہے۔اےک بڑی تعداد اسکول کالج اور یونیورسیٹیز کے طلبا کی ہے ۔ یہ نشے انسانی جسم میںداخل ہو کر اسکی پوری شخصیت کو تباہ و برباد کر دیتے ہیں ،ان کی رگوں میں زہر دوڑ رہا ہوتا ہے ،بھوک اڑ جاتی ہے ،کھانے کا ذائقہ ختم ہو جا تا ہے ،وزن گرنے لگتا ہے اور زندگی بے مقصد لگتی ہے۔حکومت کو چاہئے کہ منشیات کے استعمال پر قابو پانے کے لئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرے۔ نشہ آور اشیا سے دور رکھنے کے لئے والدین کو چاہئے کہ بچوں پر اندھا اعتبار نہ کریں ،ان پر گہری نظر رکھیں شروع ہی سے احتیاطی تدابیر اختیار کریں کیونکہ بچوں پر صرف گھر ہی کا نہیں بلکہ خارجی ماحول کابھی اثر ہوتا ہے۔آٹھویں سے دسویں جماعت کے بچوں پر والدین کی خصوصی توجہ ہونی چاہئے ،اس کے دوستوں پر اور اس کی باہر کی سرگرمیوں پر۔ نوٹ کریں کہ کبھی باہر سے گھر لوٹنے پرکپڑوں سے سگریٹ کی بو کا احساس ہوتو بچے سے باز پرس کریں، اگر بھوک کم لگے، تھکن اور سانس لینے میں تکلیف کی شکایت کرے، وزن کم ہورہا ہو، گھر سے زیادہ غائب رہنے لگے ،پیسوں کی مانگ بڑھ جائے، یا پیسوں کے لئے جھوٹ بولے، ہاتھوں میں کپکپاہٹ، تنہائی پسندی، لمبی نیند، چہرے کا پیلاپن اور پڑھائی کی طرف سے لا پروائی محسوس ہو تو ایسی صورت میںفوری طور پر طبی معائنہ کرائیں تاکہ خدشات دور ہوجائیں یا بروقت راست اقدام اور علاج کیا جاسکے۔پاکستان میں آئے روز منشیات کے بڑھتے دلدل نے ہماری نوجوان نسل کے روشن مستقبل کو داﺅ پر لگا کر لاکھوں پڑھے لکھے معزز خاندانوں کا سکون برباد کر رکھا ہے۔ نوجوان نسل خاص طور پر کالجوں، یونیورسٹیوں، ہاسٹلوں کے طلبا طالبات، جیلوں کے قیدیوں میں آئیس، ہیروئن، کوکین، چرس، افیون، شراب، مارفین کے ٹیکے سگریٹ نوشی، شیشہ نوشی کے استعمال میں خطر ناک حد تک اضافہ ہو تا جار ہا ہے۔ جس پر والدین کے ساتھ ساتھ تمام حکومتی ادارے بری طرح ناکام نظر آ رہے ہیں۔ پاکستان نارکاٹکس کنٹرول پولیس، ایکسائز پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے منشیات کی بھاری کھیپ قبضے میں لے کر قانونی کاروائی کرتے رہتے ہیں۔ سزاﺅں کے قانون میں سخت ترامیم کی گئی ہیں۔ اس کے باوجود ملک میں دہشت گردی کے بعد دوسرا سب سے سنگین جرم منشیات کی فیکٹریاں اور سمگلنگ ہے۔ جن کے خلاف پاک آرمی کے زیر نگرانی فوری گرینڈ آپریشن کی ضرورت ہے۔پولیس ڈرگ مافیا کے خلاف کریک ڈاﺅن کرنے کی بجائے چھوٹے موٹے فروشوں کو پکڑ کر اپنی کارکردگی دکھانے کے لئے مقدمات درج کر لیتی ہے لیکن ان کی پس پشت کار فرما بااثر افراد پر ہاتھ نہیں ڈالتی۔ یہی وجوہات ہیں جن سے تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم طلبا میں منشیات کے استعمال میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ بڑے اور مہنگے تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ متوسط درجے کے اسکولوں میں بھی منشیات کے استعمال کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ تعلیمی اداروں میں یہ منشیات پہنچتی کس طرح ہے؟ اس بارے میں طلبا کا کہنا ہے کہ تعلیمی اداروں کے گارڈز منشیات کی فراہمی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، اگر کوئی گارڈ پکڑا بھی جائے تو چند دن کے بعد وہ اپنی ڈیوٹی پر واپس آ جاتا ہے۔تعلیمی اداروں میں منشیات کی روک تھام کے لئے پولیس کو چاہئے کہ وہ تمام تعلیمی اداروں کے باہر خصوصا چھٹی کے اوقات میں غیر متعلقہ افراد کے کھڑے ہونے پر پابندی عائد کریں۔محکمہ پولیس کی کئی کالی بھیڑیں بھی منشیات فروشی میں ملوث اور منشیات فروشوں کی سر پرست ہیں، جب کہ منشیات فروشوں کو سیاسی شخصیات کی سرپرستی بھی حاصل ہے جس کی وجہ سے پولیس ان پر ہاتھ نہیں ڈالتی۔طلبہ میں آئس سمیت دیگر نشہ آور اشیا کا استعمال بڑھتا جارہا ہے۔ منشیات کی وبا کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر اور تعلیمی اداروں میں منشیات کے بڑھتے ہوئے رجحان کے خاتمہ کے لئے نیٹ ورک پوری ذمہ داری سے حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر کام کررہا ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق وطنِ عزیز میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد تقریبا ڈیڑھ کروڑ کے قریب پہنچ چکی ہے۔ صرف ہیروئن استعمال کرنے والوں کی تعداد تےن لاکھ سے زائد ہے جب کہ پندرہ فیصد افراد انجکشن کے ذریعے نشہ کرتے ہیں۔ اس تعداد میں کم عمر بچوں سے لے کر 65 سال کے بزرگ افراد بھی شامل ہیں۔پاکستان میں منشیات کی روک تھام کے لئے باقاعدہ قوانین موجود ہیں جن کے تحت اب تک منشیات فروشی میں ملوث متعدد افراد کو گرفتار کر کے عدالتوں کے ذریعے سزائیں ہوچکی ہیں۔اس ضمن میں محکمہ ایکسائز، کسٹم اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے منشیات فروشوں کے خلاف کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔ ان ساری کارروائیوں کے باجود پاکستان میں منشیات استعمال کرنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ تشویشناک ہے۔اس کے استعمال سے سینکڑوں لوگ کینسر، ہیپاٹائٹس اور دیگر بیماریوں کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جب کہ نوجوان نشہ حاصل کرنے کی خاطر ہر قسم کے جرائم کرنے پر آمادہ رہتے ہیں۔منشیات کے کاروبار میں ملوث اسمگلرز کی پشت پر اثر و رسوخ کے حامل افراد ہوتے ہیں جو قانون کی گرفت میں آنے سے پہلے ہی اپنے ایجنٹوں کی ضمانت پر رہائی کا بندوبست کر لیتے ہیں۔اس لےے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مسئلے کو ترجےحی بنےادوں پر حل کےاجائے تاکہ نوجوان نسل منشےات کی لعنت سے محفوظ رہ سکے۔
