چیف سیکرٹری ابرار احمد مرزا نے کہا ہے کہ معیار تعلیم پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا جائے گا تعلیم صحت اور مواصلات کے شعبوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا سکولوں میں اساتذہ کی کمی نہیں ہونے دی جائے گی۔ ہسپتالوں میں صحت کی سہولیات کی فراہمی میں کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کریں گیا ۔ تعلیم ہی سے قوموں کی تعمیر وترقی ممکن ہوتی ہے معیاری اور جدید نظام تعلیم کیلئے جامع منصوبہ تیار کیا گیا ہے اب کوئی بچہ سکول سے باہر نہیں رہے گا۔انہوں نے کہاکہ ترقیاتی منصوبوں پر کام کی رفتار تیز کی جائے اس معاملے میں غفلت برتنے اور قومی وسائل ضائع کرنے والوں کو نہیں بخشا جائے گا بائی منصوبہ سکردو کیلئے بڑی اہمیت رکھتا ہے ۔بتایا جاتا ہے کہ چیف سیکرٹری نے تعلیمی مسائل جاننے کیلئے سکولوں پر خفیہ چھاپے مارنے کا فیصلہ کرلیا ہے وہ چاہتے ہیں کہ سکولوں کی تعلیمی صورت حال کا وہ خود اپنی آنکھوں سے جائزہ لیں اور اساتذہ اور طلبہ کی شرح کا بھی جائزہ لیں۔ سکردو کے متعدد سکولوں میں مطلوبہ تعداد سے زیادہ اساتذہ تعینات ہیں جبکہ کئی سکولوں میں تعداد سے کم اساتذہ موجود ہیں کئی سکولوں میں واش رومز تک موجود نہیں ہیں کچھ سکولوں سے پانی کی عدم دستیابی کی شکایات موصول ہوئی ہیں اس لئے چیف سیکرٹری بنفس نفیس جاکر سکولوں کی صورت حال کا جائزہ لینا چاہتے ہیں۔چیف سکریٹری کو سکردو کے کچھ ترقیاتی منصوبوں میں کام کی رفتار سے متعلق بھی شکایات موصول ہوئی ہیں۔ اسی طرح چیف سکریٹری ترقیاتی منصوبوں کا معائنہ بھی کررہے ہیں ان کے اس عمل سے ترقیاتی منصوبوں میں شفافیت پیدا ہوگی۔ بلاشبہ قومی وسائل کا ضیاع لمحہ فکریہ ہے۔ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں علمی و ادبی اداروں کا کردار ازبس اہمیت کا حامل ہے۔ اداروں کے طفیل ہی قوم اپنے تاریخی و تہذیبی ورثے سے آگاہ رہتی ہے اور اس ورثے کو نئی نسلوں تک منتقل کرنے کی امنگ بیدار ہوتی ہے۔ ہم اس لوگ لحاظ سے بڑے خوش نصیب ہیں کہ ہمیں بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناح کی براہِ راست قیادت میں حصول پاکستان کی جدوجہد کا شرف حاصل ہوا تھا، لہذا قومی زندگی کے کسی شعبے میں بگاڑ کا مشاہدہ کریں تو دلی ملال ہوتا ہے۔ یہ بگاڑ ادارہ جاتی سطح پر ہو تو مالی وسائل کے ضیاع کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کی بدنامی کا باعث بھی بنتا ہے۔لاہور شہر کو بجا طور پر علم و دانش کا گہوارہ کہا جاتا ہے اور اس تاریخی شہر کو ہی یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں ان گنت نابغہ روزگار ہستیاں قیام فرما رہی ہیں۔ یہاں تاریخ، ادب اور ثقافت کے حوالے سے بہت سے ادارے موجود ہیں جن میں سے بعض وفاقی حکومت اور بعض صوبائی حکومت کی مالی امداد سے سرگرم عمل ہیں۔نرسنگھ داس بلڈنگ میں بھی مجلس ترقی ادب، ادارہ ثقافت اسلامیہ اور بزم اقبال کے نام سے تین ادارے ایک طویل عرصے سے قائم ہیں جو محکمہ اطلاعات و ثقافت، حکومت پنجاب کے زیرانتظام کام کر رہے ہیں۔ یوں تو ایک زمانے میں ان دونوں اداروں سے نامور علمی و ادبی شخصیات وابستہ رہی ہیں مگر اب یہ ادارے حکومت پنجاب کے لئے سفید ہاتھی بن گئے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ فنڈ خور ادارے بن چکے ہیں۔ بھاری مالی امداد حاصل کرنے کے باوجود ان کی کارکردگی ایک سوالیہ نشان ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حکومت پنجاب ان اداروں کو باقاعدگی سے مالی امداد فراہم کر رہی ہے تو کیا کبھی فراہم کردہ فنڈز اور کارکردگی کا حساب بھی طلب کیا ہے؟یہ ملک اس لئے نہیں بنایا گیا تھا کہ ضرورت مند افراد تو پائی پائی کے لئے ترستے رہیں اور یہاں کے غریب عوام کی جیبوں سے ٹیکسوں کی صورت میں پیسہ نکلوا کر اسے غیر تسلی بخش کارکردگی کے حامل اداروں پر لٹا دیا جائے۔ یہ پیسہ حکمرانوں کا نہیں بلکہ عوام الناس کا ہے۔ اس تناظر میں ہم حکومت پنجاب سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان دونوں اداروں کے حسابات کی جانچ پڑتال کروائے اور ان سے ان کی کارکردگی کا حساب لے کیونکہ قومی خزانے کے غلط استعمال پر ہم سب کو اللہ تعالی کے حضور جوابدہ ہونا پڑے گا اگر حکومت پنجاب قومی وسائل کے اس ضیاع کو روکنے کے لئے فوری عملی قدم اٹھائے تو یقینا بہرتی پیدا ہو گی ۔اسی طرح کرپشن یا بدعنوانی ایک ایسا موضوع بن چکا ہے جس پر عام گلیوں میں پھیری لگا کر اپنی روزی کمانے والے سے لیکر عالی شان محلوں میں عیاشی کی زندگی گزارنے والے تک، سب ہی بحث کرتے نظر آتے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ نہ تو کوئی اس لعنت کو دور کرنا چاہتا ہے اور نہ ہی اس کے حل کے لیے کوئی ٹھوس قانون بنانے کے لیے تیار ہے البتہ جب بھی کوئی انگلی اس کی جانب اٹھتی ہے وہ دوسرے بدعنوانوں کے حوالے دے کر اپنے لیے بدعنوانی کو جائز قرار دینے مصروف ہو جاتا ہے۔ بدعنوانی کا عالم یہ ہے کہ اعلی ایوانوں میں رہنے والوں سے لیکر نہایت نچلے درجے تک کے انسانوں کے روئیں روئیں تک سرایت کر چکی ہے۔ اختیار و قدرت کے مطابق سب ہی اس کی شیطانیت کی زد میں ہیں۔ اگر ایمانداری کے ساتھ اس کے خاتمے کا آغاز کیا جائے تو بڑی بڑی شارکوں اور مگر مچھوں سے بلا امتیاز آغاز کیا جانا ضروری ہے، چھوٹی چھوٹی مچھلیاں اور چھپکلیاں خود ہی سہم کر اپنے آپ میں سے اس لعنت کو نکال پھینکیں گی۔پاکستان میں بہر لحاظ جو جتنا طاقتور اور اختیار والا ہے وہ اتنے ہی بڑے پیمانے پر بدعنوانی میں ملوث ہے۔ کیا سیاستدان، کیا طاقتور ادارے، کیا دولت مند، کیا وڈیرے، کیا چودھری، کیا ملک، کیا سردار، کیا عدالتوں کے ٹھیکیدار اور کیا قانون نافذ کرنے والے ادارے، سب کے سب بدعنوانی کی بہتی گنگا سے اپنے اپنے لیے بڑی بڑی نہریں نکالنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ بد قسمتی سے ہمارے الیکٹرونک میڈیا اور سماجی ویب سائٹوں نے صرف ملک کی دولت میں خورد برد کرنے ہی کو کرپشن یا بد عنوانی قرار دیا ہوا ہے۔ کسی کی بھی توجہ اس بات کی جانب نہیں جا رہی کہ ملک کے مالی وسائل کا بے دریغ اور بے جا استعمال بھی بڑے کرپشن کی ایک بھیانک شکل ہے۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے پچاس پچاس گاڑیوں کا قافلہ، الیکشن میں سرکاری وسائل اور مشینری کا استعمال، جلسوں میں سرکاری جہاز اور ہیلی کاپٹروں کا سفر، پورے ملک میں ایک شہر سے دوسرے شہر آنے جانے کے لیے ملنے والی سفری رعایتوں کا ناجائز استعمال، اپنے فرائض ِ منصبی کے بجائے حکمرانوں کے بے شمار غیر ملکی دورے، اعلی ہوٹلوں میں قیام جیسے نہ جانے کتنے پہلو ہیں جن کو بدعنوانی میں جیسے شمار ہی نہیں سمجھا جاتا۔ایک بدعنوانی یہ بھی ہے کہ الیکشن کے مواقع پر ہمارے رہنمایانِ قوم کئی کئی حلقوں سے الیکشن میں کھڑے ہوتے ہیں۔ بے شک اس کا مقصد اپنی شہرت کو منوانا ہو یا ایک ہی حلقے سے الیکشن لڑ کر ہارجانے کے نتیجے میں سیاسی موت کا خوف، ہر دو صورت میں قوم کا سرمایہ اور عوام کے وقت کا ضیاع سامنے آتا ہے کیونکہ کئی کئی نشستوں پر کامیابی کے بعد بھی ایک کے علاوہ سب خالی ہوجانے والی نشستوں پر ضمنی الیکشن کی صورت میں قوم و ملک کا اربوں روپیہ ضائع ہوتا ہے جس کو نہ جانے بدعنوانی میں شمار کیوں نہیں سمجھا جاتا۔یہ امر بڑی بد عنوانیوں میں سے ایک ہے لہذا اس سلسلے کو نہ صرف ختم کیا جانا چاہیے بلکہ اس کے لیے قانون سازی کی جائے ۔ جب تک بہت سارے بدعنوانی کے راستوں پر مضبوط پشتے تعمیر نہیں کیے جائیں گے اور جرم کے مرتکب افراد کے خلاف قوانین بنا کر انہیں قانون کے تحت سخت ترین اور بر وقت سزائیں نہیں سنائی جائیں گی اس وقت تک یہ سمجھ لینا کہ کسی بھی قسم کی بدعنوانی کا خاتمہ ممکن ہے، دیوانے کی بڑ کے علاوہ اور کچھ نہیں۔قدرتی وسائل کسی ملک کے لیے اہم ہوتے ہیں کیونکہ وہ اس کی معاشی ترقی، سماجی بہبود اور ماحولیاتی استحکام کو بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ قدرتی وسائل کو سامان اور خدمات کی پیداوار، آمدنی اور روزگار پیدا کرنے، معاش اور خوراک کی حفاظت میں مدد، اور معیار زندگی اور انسانی وقار کو بڑھانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ قدرتی وسائل کو ماحولیاتی نظام کے تحفظ اور بحالی، حیاتیاتی تنوع اور ثقافتی ورثے کی حفاظت اور موسمیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات کو کم کرنے اور ان کے مطابق ڈھالنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔پاکستان متنوع قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، جیسے زمین، پانی، جنگلات، جنگلی حیات، معدنیات، توانائی اور سمندری وسائل۔ تاہم، پاکستان کو اپنے قدرتی وسائل کو موثر طریقے سے استعمال کرنے میں بہت سے چیلنجز اور رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ ان میں سے کچھ چیلنجز اور رکاوٹیں ہیں۔قدرتی وسائل کی ناقص حکمرانی اور انتظام، جس کے نتیجے میں بدعنوانی، نااہلی، ضیاع اور وسائل کی غلط تقسیم ہوتی ہے۔قدرتی وسائل کے استعمال اور تقسیم میں شفافیت اور جوابدہی کا فقدان، مختلف اسٹیک ہولڈرز اور خطوں کے درمیان عدم مساوات، ناانصافی اور تنازعات کا باعث بنتا ہے۔قدرتی وسائل کی تلاش، نکالنے،تیاری اور نقل و حمل کے لیے بنیادی ڈھانچے اور ٹیکنالوجی میں ناکافی سرمایہ کاری، کم پیداوار اورزیادہ لاگت ماحولیاتی انحطاط کا باعث بنتی ہے۔قدرتی وسائل کے تحفظ اور ان کے ضابطے، ان کی ملکیت اور حقوق، اور ان پر ٹیکس لگانے اور قیمتوں کا تعین کرنے کے لیے کمزور قانونی اور ریگولیٹری فریم ورک، قدرتی وسائل کے شعبے میں غیر یقینی صورتحال، عدم تحفظ اور غیر موثریت پیدا کرتا ہے۔ اس صورتحال میں چیف سیکرٹری کی جانب سے قومی وسائل کے ضیاع کو روکنے کے اقدامات خوش کن کہے جا سکتے ہیں ۔
