پانچ سالہ منصوبہ بندی پروگرام

وزیر اعلی گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے کہا کہ ترقی کے لئے منصوبہ بندی بہت ضروری ہے۔ اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ پانچ سالہ منصوبہ بندی کا پروگرام انتہائی اہمیت کا حامل پروگرام ہے۔ گلگت بلتستان کو ملنے والا فنڈ پہلے سے ناکافی ہے اس کو آج تک گلگت بلتستان میں پلاننگ کے ساتھ استعمال نہیں کیا۔ یہ پلاننگ کرنا ضروری ہے کہ کتنا پیسہ کس محکمے میں خرچ کرنا ہے۔ جب بھی سرمایہ کار آتے ہیں تو سب سے پہلے وہ پلان کا پوچھ لیتے ہیں اگر ہمارے پاس پلان نہیں ہوگا تو سرمایہ کاری کیسی آئے گی۔گلبر خان نے کہاکہ آج ہنزہ تعلیم میں سب سے آگے ہے لیکن وہاں پانی اور بجلی نہیں جبکہ دوسری جانب دیامر میں سکول کی بڑی عمارتیں بنی ہیں لیکن ہمیں خواتین اساتذہ نہیں مل رہی ہیں۔ یہ سب پلاننگ نہ ہونے کی وجہ سے ہورہا ہے۔ وزیراعلی نے کہاکہ گلگت بلتستان کےلئے پانچ سالہ ڈویلپمنٹ پلان انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ صحیح منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے محدود ترقیاتی بجٹ اور وسائل کے استعمال کے حوالے سے چیلنجز درپیش رہتے ہیں۔ صوبے میں سرمایہ کاروںکو راغب کرنے کے حوالے سے بھی ڈویلپمنٹ پلان کا ہونا لازمی ہے۔ پانچ سالہ ڈویلپمنٹ پلان میں صوبے کے پسماندہ اضلاع پر خصوصی توجہ دینا ہوگی ۔پانچ سالہ ترقیاتی منصوبے کے تحت وسائل کا درست استعمال ممکن ہوگا۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت صوبے میں بڑے منصوبے شروع کئے جاسکتے ہیں۔ وزیر اعلی نے کہاکہ ہماری حکومت کی ترجیح وسائل کا منصفانہ تقسیم ، منظم منصوبہ بندی کے تحت صوبے میں تعمیر و ترقی کے عمل کو آگے بڑھاناہے۔ غیر منظم منصوبہ بندی کی وجہ سے ترقی کا عمل متاثر ہورہا ہے۔ مختلف حکومتوں کی پالیسیز کا جاری نہ رہنا بھی ترقیاتی عمل میں رکاوٹ رہا ہے۔ گلگت بلتستان میں ترقی کے عمل کو تیز اور بہتر بنانے کےلئے پہلی مرتبہ پانچ سالہ منصوبہ تیار کیا گیا ہے، جس سے ترقیاتی بجٹ کا بہتر انداز میں استعمال ہوگا جس کے ثمرات عوام کو پہنچیں گے۔ماضی میں مالیاتی نظام حکومت کی ذمہ داریوں کی طرح سیدھا سادہ ہوتا تھا۔ عام طور پر حکومت کی ذمہ داریاں محدود ہوتی تھیں۔ اس لیے محصولات میں کوئی پیچیدگیاں نہیں ہوتی تھیں۔ محصولات کا بڑا حصہ زمین کی لگان اور اس کے محصول پر مشتمل ہوتا تھا۔ جب کہ زرخیز علاقوں پر عام طور زیادہ محصول ہوتا تھا یا ان پر کچھ خصوصی محصول کسی خاص مد میں لگائے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ جزیہ، تجارت اور وراثت پر بھی محصول لگائے جاتے تھے۔ جو کم و بیش روم، ایران و مصر اور دوسرے علاقوں میں قبل اسلام یہی محصولات مختلف شکلوں میں عائد کیے جاتے تھے۔ بنیادی طور پر ہمیں بھوک مٹانے کے لیے غذا، ،تن ڈھانپنے کے لیے کپڑا اور رہنے کے لیے مکان درکار ہے۔ لیکن اس کے علاوہ انسان کو بہت سی ایسی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے جو آرام و آسائش بہم پہنچاتی ہیں اور تفریح کا سامان مہیا کرتی ہیں۔چنانچہ ان حاجات کو پورا کرنے کے لیے انسان محنت کرتا ہے اور دولت کماتا ہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ کسان کھیتوں میں، مزدور کارخانوں میں، کلرک دفتروں میں سرگرم عمل ہیں۔ غرض ڈاکٹر، پروفیسر، وکیل، دھوبی اور نائی ہر شخص اپنا کام کر رہا ہے تاکہ روپیہ حاصل کرکے ضرورت کی اشیا حاصل کرسکے۔ انسان کی اس جدوجہد کا اور اس کی کوششوں کا تعلق معاشیات سے ہے۔دراصل انسان کی خواہشات بے شمار ہیں لیکن انہیں پورا کرنے کے ذرائع تھوڑے ہیں۔ لہذا اسے یہ مسئلہ درپیش ہوتا ہے کہ وہ اپنی خواہشات کو اس قلیل ذرائع سے کیسے پورا کرے۔ گویا اسے بے شمار خواہشات میں انتخاب اور ذرائع میں کفایت کرنی پڑتی ہے۔ انسانی طرز عمل کے اس پہلو کے مطالعہ کا نام معاشیات ہے۔حاجات کی کثرت اور وسائل کی قلت کے باعث دنیا کی بیشتر آبادی مسائل سے دوچار ہے۔ مثلا غربت، جہالت، بیماری، قحط، بے روزگاری اور افراط زر وغیرہ ہیں۔ چنانچہ معاشی ماہرین ان مسائل پر غور و فکر کرتے ہیں اور انہیں حل کرنے کے لیے معاشی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور معاشی ترقی پر زور دیتے ہیں، ایسی تجویزیں پیش کرتے ہیں جس سے ملک میں اشیا کی پیداوار بڑھے، روزگار ملے اور لوگوں میں دولت کی تقسیم منصفانہ ہو، خوش حالی کا معیار بلند ہو اور ان کی ضرورتیں احسن طریقے سے پوری ہوں۔ لہذا ضروری ہے کہ معاشیات کے جدید اصولوں اور نظریات سے فائدہ اٹھا کر اقتصادی ترقی کے لیے کوشش کی جائے۔ تاکہ اشیا کی پیداوار بڑھے، لوگوں کو روزگار ملے اور لوگوں کو ضرورت کی اشیا ملیں اور معاشرہ خوش حالی کی طرف گامزن ہو۔انسان کے معاشی مسئلہ کے مختلف پہلوﺅں کو سامنے رکھتے ہوئے ایسا نظام بنایا جائے کہ کس طرح تمام انسانوں کو ان کی ضروریات زندگی بہم پہچانے کا انتظام ہو اور کس طرح معاشرے میں ہر فرد اپنی قابلیت اور استعداد کے مطابق ترقی کرکے اپنی شخصیت کو نشوو نمادینے اور اپنی لیاقت کو درجہ کمال پر پہنچانے کے مواقع حاصل کرے۔معاشی نظام کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ معاشرے کے ہر فرد کو وہ بچہ ہو یا بوڑھا، عورت ہو کہ مرد بلا امتیاز و فرق کے کم از کم اپنا سامان حیات ضرور میسر ہو۔ جس کے بغیر عام طور پر ایک انسان اطمینان کے ساتھ زندہ نہیں ر ہ سکتا اور نہ ہی اپنے فرائض و واجبات ٹھیک طرح سے ادا نہیں کر سکتا ہے۔ جو مختلف حیثیت سے اس پر عائد ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے کے ہر ایک فرد کے لیے کسی نہ کسی درجہ میں خوراک لباس اور مکان کے علاوہ علاج، تعلیم اور روزگار کا مناسب انتظام ہو اور کوئی فرد ان بنیادی ضروریات سے محروم نہ رہے اور یہی ایک معاشرے کا مقصد ہے۔عام طور پر حکومت کی ذمہ داریاں محدود ہوتی تھیں۔ اس لیے محصولات میں کوئی پیچیدگیاں نہیں ہوتی تھیں۔ محصولات کا بڑا حصہ زمین کی لگان اور اس کے محصول پر مشتمل ہوتا تھا۔ جب کہ زرخیز علاقوں پر عام طور زیادہ محصول ہوتا تھا یا ان پر کچھ خصوصی محصول کسی خاص مد میں لگائے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ جزیہ، تجارت اور وراثت پر بھی محصول لگائے جاتے تھے۔ جو کم و بیش روم، ایران و مصر اور دوسرے علاقوں میں قبل اسلام یہی محصولات مختلف شکلوں میں عائد کیے جاتے تھے۔دراصل انسان کی خواہشات بے شمار ہیں لیکن انہیں پورا کرنے کے ذرائع تھوڑے ہیں۔ لہذا اسے یہ مسئلہ درپیش ہوتا ہے کہ وہ اپنی خواہشات کو اس قلیل ذرائع سے کیسے پورا کرے۔ گویا اسے بے شمار خواہشات میں انتخاب اور ذرائع میں کفایت کرنی پڑتی ہے۔ انسانی طرز عمل کے اس پہلو کے مطالعہ کا نام معاشیات ہے۔انسان کے معاشی مسئلہ کے مختلف پہلوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایسا نظام بنایا جائے کہ کس طرح تمام انسانوں کو ان کی ضروریات زندگی بہم پہچانے کا انتظام ہو اور کس طرح معاشرے میں ہر فرد اپنی قابلیت اور استعداد کے مطابق ترقی کرکے اپنی شخصیت کو نشوو نمادینے اور اپنی لیاقت کو درجہ کمال پر پہنچانے کے مواقع حاصل کرے۔معاشی نظام کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ معاشرے کے ہر فرد کو وہ بچہ ہو یا بوڑھا، عورت ہو کہ مرد بلا امتیاز و فرق کے کم از کم اپنا سامان حیات ضرور میسر ہو۔ جس کے بغیر عام طور پر ایک انسان اطمینان کے ساتھ زندہ نہیں ر ہ سکتا اور نہ ہی اپنے فرائض و واجبات ٹھیک طرح سے ادا نہیں کر سکتا ہے۔ جو مختلف حیثیت سے اس پر عائد ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے کے ہر ایک فرد کے لیے کسی نہ کسی درجہ میں خوراک لباس اور مکان کے علاوہ علاج، تعلیم اور روزگار کا مناسب انتظام ہو اور کوئی فرد ان بنیادی ضروریات سے محروم نہ رہے اور یہی ایک اسلامی معاشرے کا مقصد ہے۔آج کا معاشی نظام عہدوسطی کے مقابلے میں بہت مختلف ہے۔ پہلے صرف سونے کو زر کی حیثیت حاصل تھی، مگر اب اس کی جگہ کاغذی زر نے لے لی ہے، جس کی قدر وقت کے ساتھ گرتی رہتی ہے اور قیمتوں میں اضافے کا عمل مسلسل جاری رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر کے لوگ اپنا پیسہ جائےداد یا اس طرح کی خریداری میں لگاتے ہیں اور کاروبار کے لیے قرض کو ترجیح دیتے ہیں اور واپسی کے وقت اصل کے مقابلے میں زائد رقم خوشی خوشی ادا کرتے ہیں، کیوں کہ قرض لیتے وقت جو زر کی قدر تھی وہ ادائیگی کے وقت گھٹ چکی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے سود کے خلاف جتنے دلائل دیے جاتے تھے وہ جدید معاشی نظام پر صادق نہیں آتے ہیں۔ کیوں کہ زر کی وقت کے ساتھ گرتی قدر نے سود کے خلاف تمام دلائل بیکار کردیے ہیں اور سود پوری طرح معاشی معاشرے میں رائج ہو چکا ہے۔ کاروباری شعبے کی ترقی سب کے لیے ایک اچھی خبر ےہ ہے کہ یہ سماج کو ترقی دینے، دولت کی پیداوار اور اس کی تقسیم کے ذریعے کے طور پر کام کرتا ہے۔مسلم کولا، جینز یا کاروں کی تیاری اس حقیقت کی نشان دہی کرتی ہے کہ مسلمان ان اشیا سے لطف اندوز ہو رہے ہیں جو ایک طویل عرصے سے مغرب کے صنعتی سماج میں تیار ہو رہی تھیں۔چنانچہ مسلمانوںکے لےے کامرس کے ابھرنے کو کسی طرح کی رکاوٹ نہیں سمجھناچاہیے بلکہ اس سے دنیا بھر کے کاروباری طبقوں کوایک دوسرے کے قریب آنے اور ایک ایسی صارف منڈی دریافت کرنے، اسے ترقی دینے اور اس میں کام کرنے کے کاروباری امکانات اور مواقع میسر آئیں گے جو اپنے اقتصادی مقام اورموقع سے پوری طرح آگاہ ہے۔