منصوبہ بندی اور ترقیا ت کا جامع منصوبہ

 گلگت بلتستان نے پہلی دفعہ اپنی منصوبہ بندی اور ترقیات کا جامع منصوبہ بنایا ہے۔ اس دستاویز پر2024 سے2029کے عرصے میں عملدرآمد ہوگا۔اسکا بنیادی مقصد قلیل ترقیاتی بجٹ کو با مقصد طریقے سے خرچ کرنا ہے تا کہ عوام کے معیار زندگی کو بلند بنایا جا جا سکے۔ چونکہ ترقیاتی وسائل نہایت قلیل ہوتے ہیں لہذا اس کو بہترین طریقے سے خرچ کرنے کے لئے حکومت گلگت بلتستان نے اپنے محکموں کے ذریعے مشاروت سے اس دستاویز کو مرتب کیا ہے۔ پہلی بار صرف سرکاری وسائل کے بجائے ترقی کے سفر کوڈ ونرز ، PPPاور پرائیویٹ سیکٹر کے اشتراک سے بروئے کارلانے کے لئے منصو بہ بندی اور محکموں کو ذمہ داری سونپی ہے۔ اس سے اگلے پانچ سالوں میں حکومت جی بی اور ان اداروں کے مابین تعلق داری بھی مضبوط ہو گی ۔ اگلے پانچ سالوں کے بعد ہمیں پتہ چل جائے گا کہ وسائل کے حساب سے کہاں کہاں کمزوری رہ گئی ہے اور کہاں بہتر تبدیلی آئی ہے۔ اس دستاویز میں تمام اضلاع میں غربت کی صورت حال کو دکھایا گیا ہے جس کو مربوط منصوبہ بندی کے ذریعے کم کرنے کے لئے وسائل کواستعمال کیا جائے گا۔ اسکے بعد اس منصوبہ بندی کو مد نظر رکھتے ہوئے پھر اگلے مدت کا منصوبہ بنایا جائے۔ اس منصوبہ بندی میں ترقیاتی سرماےہ کاری‘ تعلیم کے شعبے کی بہتری ‘ بجلی و صحت کے شعبے میں ترجیحات‘ سیاحت کے شعبے کے پھیلاﺅ پر توجہ مرکوز کی جائے گی ۔ان دستاویزات کو حکومت گلگت بلتستان کی منظوری کیلئے پیش کیا جائے گا اور اگلے سال سے اس پر عملدرآمد کیا جائے گا۔منصوبہ بندی کی اہمےت سے انکار نہےں کےا جا سکتا لےکن منصوبہ بندی کرنے میں جلد بازی نہےں کی جانی چاہےے ، جو وقت اور کوشش اس کام میں دیں گے نتیجہ اس سے کئی گنا بڑھ کر ملے گا، اس سے پشیمانی اور ناکامی سے محفوظ رہیں گے اور یہی زندگی کی بڑی خواہش ہوتی ہے۔ منصوبہ بندی آپ کو قوت فیصلہ کی طاقت دیتی ہے۔ منصوبہ بنانے کا مطلب ہے کہ آپ اپنے معاملات اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتے ہیں۔صحت مند معاشرہ ہر قوم کا خواب ہوتا ہے۔ خوبصورت زندگی گزارنے کے لئے مکمل طور پر صحت مند ہونا پہلی شرط ہے،اگر کوئی نوجوان اپنی جدوجہد، انتھک محنت، لگن اور جستجو سے آگے بڑھتا ہے اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوتا ہے ‘نظم و ضبط کو منصوبہ بندی کی پہلی سیڑھی بنانا ضروی ہے ۔اعتماد یا اعتبار کی کمی وہ اہم عامل ہے جو طویل مدتی منصوبہ بندی کو دشوار بنا دیتا ہے۔ ارتقائی نفسیات کی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ منصوبہ بندی کرنے کی صلاحیت انسانوں میں انفرادی معاملات کے حل کی خاطر نہیں بلکہ مشکل مسائل سے اجتماعی طور پر نمٹنے کے ضمن میں پیدا ہوئی تھی۔ تعلق باہمی کا ورطہ جس قدر متنوع ہوگا، اتنے ہی زیادہ سماجی معاملات ایسے ہوں گے جن میں انسان ایک دوسرے کا ہاتھ بٹا سکیں گے۔ خاندان کے مسائل کو مل کر حل کرنا ایک بات ہے اور پورے ملک یا پوری انسانیت کو درپیش مسائل پر باہم ہونا دوسری بات۔ہمارے روابط کا دائرہ جس قدر وسیع ہوگا اتنی ہی صحت سے ہم مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے کے اہل ہوں گے۔ اگر روابط کے وسیع دوائر نہیں ہوں گے تو سماج میں اعتبار کی سطح بھی کچھ اتنی بلند نہیں ہو پائے گی یوں لوگ انہیں لوگوں سے رابطے میں ہوں گے جو ہم خیال ہوں گے یعنی ماہرین عمرانیات کے مطابق حلقہ ہائے یاراں جنم لینے لگیں گے جن میں اپنوں اور غیروں کی واضح تخصیص برتی جانے لگے گی۔ یوں بالآخر غیروں سے غیریت بلکہ تنافر جنم لینے لگے گا۔ ایک طویل عرصے تک کی گئی تحقیق کے مطابق عدم برداشت کی سطح جس قدر زیادہ ہوگی، امکانات کا دورانیہ اتنا ہی مختصر ہو جائے گا اور انسان ملک کے مستقبل پر اثرانداز ہونے کی اپنی صلاحیت کو اتنا ہی کمتر آنکنے لگے گا۔مستقبل کے افق کے مختلف زاویوں پر نفسیات کے مختلف پہلو اثر ڈالتے ہیں۔ طویل عرصے پر مبنی منصوبہ بندی کو ہم بہتر خیال کرتے ہیں اس کے برعکس ہم مختصر عرصے کی منصوبہ بندی کے مفاد کا اندازہ کم لگا سکتے ہیں چنانچہ اگر ہم حال سے مطمئن نہ ہوں تو مستقبل کی بہتری کا سہارا لے سکتے ہیں۔ ایسا کیے جانے میں خطرات ہوتے ہیں کیونکہ ہمارے حالیہ مسائل کے حل کا انحصار مستقبل کی بیساکھیوں پر ہوتا ہے۔ وہ عناصر زیادہ سماجی کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں جو اپنے ماضی کو مثبت خیال کرتے ہیں۔ ہمارے ذاتی ماضی میں بہت کچھ ایسا ہو سکتا ہے جو تکلیف دہ ہو جیسے دکھ اور المیے لیکن پھر بھی اچھی باتیں ڈھونڈی جا سکتی ہیں۔ ایسا کرنے سے لوگوں کو دباﺅ برداشت کرنے کی قوت ملتی ہے۔ایسا ہی گروہ کی شکل میں بھی ہو سکتا ہے کہ اگر اپنے ماضی کی بہتریوں کو پیش نظر رکھیں تو نہ صرف باہمی اعتبار کی سطح بلند ہوگی بلکہ طویل المدتی منصوبہ بندی کی صلاحیت بھی بیشتر ہوگی۔ماضی سے متعلق منفی تاثرات مستقبل کی منصوبہ بندی پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔اجتماعی خوف کی فضا سماج میں ہلچل ضرور پیدا کرتی ہے مگر خوف بذات خود قوم کو مضمحل کرنے کا موجب بنتا ہے۔جس معاشرے میں سماجی بھلائی کو دفاع سے کم اہمیت دی جاتی ہے وہاں طاقت سے وابستہ اداروں کے زیادہ بااثر ہونے سے بچا جانا ممکن نہیں رہتا۔ ایسے معاشروں میں اعتبار کی سطح کم ہوتی ہے، سماج سدھار کی فضا مفقود ہوتی ہے اور مذاکرات کرنے کی صلاحتیں ماند پڑ جاتی ہیں۔ ایسے بہت سے تجربات کیے جا چکے ہیں جن سے ثابت ہوا ہے کہ اجتماعی خطرے کی فضا میں بسنے والے لوگ بغیر سوچے سمجھے انتہائی اقدامات لینے کی جانب راغب ہو جایا کرتے ہیں۔ وہ ایسے غیر عمومی فیصلے کر لیتے ہیں جن کی وجہ سے وہ مسائل سے عہدہ برآ نہیں ہو پاتے۔نئی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیوں میں اعلی درجے کی مہارت حاصل کر کے مستقبل کے چیلنجز کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کو بین الاقوامی اصولوں کے مطابق مناسب دور اندیشی کی مشق کے بعد اپنی ترقی کیلئے واضح روڈ میپ تیار کرنا ہوگا تاکہ ہم بدلتے ہوئے عالمی منظرنامے اور ٹیکنالوجی سے متعلق جدید ایجادات اور نئے چیلنجوں سے باخبر رہیں۔ معاشی خوشحالی اب تقریبا مکمل طور پر اعلی معیار کی تعلیم سائنس و ٹیکنالوجی جدت اور انٹرپرینیورشپ پر منحصر ہو چکی ہے۔ دریافت کی دنیا وسیع اور مسلسل پھیلتا ہوا میدان ہے جو کسی ایک شعبے کا نام نہیں بلکہ اِس میں مختلف شعبوں کی کارکردگی شامل ہے اور اِس میں ہر شعبہ انسانی علم و ٹیکنالوجی کی ترقی پر انحصار کر رہا ہے۔ نئے مواد سے لے کر خلائی انجینئرنگ تک بائیو ٹیکنالوجی سے لے کر خود بخود چلنے والی موٹر گاڑیوں تک اِن ابھرتے ہوئے شعبوں میں پیش رفت حیرت انگیز ہے۔ نینو ٹیکنالوجی نینو اسکیل پر مادے کی مختلف حالتوں سے تخلیق پانے والے جوہری اور مالیکیولر مواد اور آلات کو انجینئر کرنے کی صلاحیت کے ساتھ مختلف صنعتوں میں انقلاب کا پیش خیمہ ہے۔ نینو ٹیکنالوجی میں حالیہ پیش رفت میں کینسر کے علاج کیلئے ہدف شدہ ادویات کی فراہمی اِس نظام کی ترقی ماحولیاتی آلودگی کا پتہ لگانے کیلئے انتہائی حساس سنسر اور قابل تجدید توانائی کی پیداوار کیلئے اعلی کارکردگی والے شمسی خلیات شامل ہیں۔ کوانٹم نظریئے اور کاربن نینو ٹیوب جیسے نینو میٹریلز الیکٹرانکس فوٹونکس اور بائیو میڈیسن میں ایپلی کیشنز سے متعدد شعبوں میں جدت طرازی کو فروغ ملا ہے۔ اِسی طرح مصنوعی ذہانت کے کئی پہلو ہمارے سامنے ہیں سال دوہزارپچیس تک اسکے معاشی اثرات پندرہ کھرب ڈالر سے تجاوز کرنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ اینٹی بائیوٹکس کی پہلی قسم حال ہی میں مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے ساٹھ سال بعد دریافت کی گئی جو منشیات کے خلاف مزاحمت کرنے والے بیکٹیریا کے خلاف فعال ہے اور اِس جرثومے کی وجہ سے ہر سال ہزاروں افراد ہلاک ہو رہے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کا اطلاق اب انسانی سرگرمیوں کے تقریبا ہر شعبے میں کیا جا رہا ہے اور اِس کی وجہ سے تہذیب و ثقافت کا چہرہ بھی بدل سکتا ہے۔ پاکستان میں مصنوعی ذہانت کے شعبے میں متعدد بہترین مراکز قائم کئے گئے جو اب بھی فعال ہیں جب مصنوعی ذہانت سافٹ وئر ‘ہارڈ وئر کے ساتھ کام کرنا شروع کرے گی تو اِس سے دنیا میں غیرمعمولی انقلاب آئے گا جس کا کوئی ایک پہلو نہیں ہو گا۔ یہ ایک مائیکرو سیکنڈ میں سب سے پیچیدہ مسائل کا حساب لگا سکتا ہے جبکہ دنیا کے تیز ترین سپر کمپیوٹر فرنٹیئر کو اس کام کو مکمل کرنے میں بیس ارب سال سے زائد کا وقت لگے گا۔ وقت ہے کہ حکومت اور حزب اختلاف کی جماعتیں مشترکہ حکمت عملی تیار کریں تاکہ ٹیکنالوجی کے شعبے میں پائیدار ترقی کے اہداف کو حاصل اور اِن کی روشنی میں قومی ترقی کو عملا ممکن بنایا جا سکے۔ اس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ وسیع مشاورت بھی شامل ہونی چاہئے۔ اِس حقیقت کا ادراک قومی فیصلہ ساز جس قدر جلد کر لیں اتنا ہی بہتر ہوگا کہ ایک مضبوط اور مائل بہ ترقی ٹیکنالوجی پر مبنی علمی معیشت ہی پائیدار اور مساوی سماجی و اقتصادی ترقی کا باعث ہو سکتی ہے۔ مستقبل کی تیاری زمانہ حال پر مبنی ہوتی ہے، اس لیے جو اپنے حال میں اچھے اقدامات کرے اس کا مستقبل روشن ہو جاتا ہے، اور اگر کوئی اپنے حال میں کچھ نہ کرے تو اس کا مستقبل ضائع ہو جاتا ہے، اگر کوئی شخص ےا رےاست اپنی ذہن سازی نہ کرے، اپنے جسم و دماغ کی تعمیر نہ کرے تو اسے نتیجے میں غربت، بے روز گاری اور بیماریاں ہی ملتی ہیں۔درست خطوط پر روشن مستقبل استوار کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہر فرد ےا رےاست اپنی زندگی کو فکری تعمیر کیلئے صرف کرے، اپنی سوچ ایسی بنائے کہ پریشانی میں بھی مایوس نہ ہو، بلکہ اپنے اندر اتنی صلاحیت پیدا کرے کہ دکھ کو سکھ میں بدل ڈالے، مایوسی کو آس میں بدلنے کا دھنی ہو ےہی کامےابی کا راستہ ہے۔