حکومتی اخراجات میں کمی کا لائحہ عمل

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ملکی معیشت کی ترقی کے لیے پانچ سالہ معاشی روڈمیپ پر معیشت کے مختلف شعبوں کے تمام اسٹیک ہولڈرز سے عملدرآمد کے لیے مشاورت کی جائے، حکومتی اخراجات کم کریں گے اور غریب عوام کے پیسے مزید ضائع نہیں ہونے دیں گے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت ملکی معیشت کی ترقی کے لیے پانچ سالہ معاشی روڈمیپ پر اعلی سطح کا جائزہ اجلاس منعقد ہوا۔اجلاس میں ملکی معیشت کی ترقی کے لیے آئندہ پانچ سال کا معاشی روڈمیپ پیش کیا گیا۔ مہنگائی میں کمی، غربت کی تخفیف اور روزگار کی فراہمی روڈمیپ کا حصہ ہیں۔اجلاس کو ملکی معیشت کی ترقی کے لیے روڈ میپ اور کلیدی شعبوں میں مجوزہ اقدامات کے حوالے سے تفصیلی طور پر آگاہ کیا گیا۔اجلاس کو بجلی، زراعت و لائیو اسٹاک، برآمدی شعبہ، درمیانے و چھوٹے پیمانے کی صنعت، ٹیکس، انفارمیشن ٹیکنالوجی، سرمایہ کاری اور نجکاری کے حوالے سے اقدامات پر بریفنگ دی گئی۔وزیراعظم نے کہا کہ معیشت کے مختلف شعبوں کے تمام اسٹیک ہولڈرز سے اس پلان پر عملدرآمد کے لیے مشاورت کی جائے، وقت ضائع کیے بغیر ملکی معیشت کے استحکام و ترقی کے لیے منصوبوں پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔انہوں نے ہدایت کی کہ ان منصوبوں کے حوالے سے عملدرآمد کا شیڈول بنا کر پیش کیا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ زراعت، لائیو اسٹاک، انفارمیشن ٹیکنالوجی، بیرونی سرمایہ کاری، چھوٹے و بڑے پیمانے کی صنعتوں کی ترقی کی استعداد میں اضافے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جائیں، حکومتی اخراجات کو کم کریں گے، غریب عوام کے پیسے کو مزید ضائع نہیں ہونے دوں گا۔شہباز شریف نے کہا کہ آئندہ پانچ برس میں ملکی معیشت کو استحکام دے کر اسے ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے، ڈیجیٹلائزیشن اور جدت سے محصولات بڑھائیں گے۔زرعی شعبے میں بھی جدت سے فی ایکٹر پیداوار بڑھائیں گے، نقصان میں چلنے والے حکومتی اداروں کی ترجیحی بنیادوں پر نجکاری کی جائے گی۔حکومتی بجٹ سے مراد مالیات کا وہ پورا مجموعہ جو ایک حکومت وصول یا خرچ کرتی ہے۔ بجٹ کے دو مختلف پہلو ہوتے ہیں ایک حکومتی آمدنی اور دوسرا حکومتی اخراجات ہے۔ بجٹ جمہوری ممالک میں پارلیمان میں وزیراعظم کی منظوری سے وزیر خزانہ پیش کرتا ہے۔حکومتی آمدنی ہر حکومت مختلف طریقوں سے وصول کرتی ہے جیسے اشیا پر ٹیکس لگا کر یا ملک میں موجود وسائل کو بیرون ملک بیچ کر۔ اس سے جو پیسہ آتا ہے وہ سرکاری خزانے میں جمع ہوتا ہے۔حکومتی اخراجات یا حکومتی خرچے سے مراد وہ اخراجات یا خرچہ ہے جو ایک حکومت مختلف شعبوں اور مختلف منصوبوں پر کرتی ہے، اس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہیں، پنشن، ترقیاتی کام ،تعلیم اور صحت جیسی چیزیں شامل ہیں۔معاشی ماہرین کے مطابق حکومتی اخراجات سالانہ ساڑھے چودہ ہزار ارب روپے سے زےادہ تک پہنچ چکے ہیں۔مارچ 2023 تک مالی سال کے نو ماہ میں پاکستان کے ملکی اور غیر ملکی قرضے مزید 10ہزار ارب روپے بڑھ کر 59ہزار 247ارب روپے ہو گئے تھے ۔ ا نفرادی و قومی سطح پر مضبوط معیشت کفایت شعاری اور قناعت پسندی میںمضمر ہے۔ جب ملک اتنے قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوکہ اس کا نوزائیدہ بچہ بھی لاکھوں روپے کا مقروض ہو وہاں حکومتوں کو زیب نہیں دیتا کہ ہزاروں ارب روپے کے غیر ضروری اخراجات سے ملکی معیشت کا مستقبل مزید تاریک کر دیں۔ ہر حکومت عوام کو کفایت شعاری کا درس دیتی ہے اور خود بھی اخراجات میں کمی کے نعرے لگاتی ہے لیکن اپنی سہولتوں اور آسائشوں میں کٹوتی کے لئے کوئی عملی اقدامات نہیں اٹھاتی جس کے نتیجہ میں ملک مزیدقرضوں کے بوجھ تلے دبتا چلا جا رہا ہے۔ ملک کے معاشی مستقبل کو مزید تاریک ہونے سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ حکومتی اخراجات میں کم از کم ساٹھ فیصد کٹوتی کی جائے۔ غیرضروری اور غیر ترقیاتی اخراجات کم کئے جائیں۔ حکمران ملکی اورغیر ملکی دوروں میں غیرمتعلقہ افراداور اپنے اہل خانہ کو لے جانے اور سرکاری خزانہ خرچ کرنے سے اجتناب کریں ۔ پاکستان چوبےس کروڑ کی آبادی رکھنے والا عظیم ملک ہے جو اپنے محل وقوع کے لحاظ سے اہم تجارتی سنگم پر واقع ہے ۔ پاکستان اپنے محل وقوع کی بنیاد پر خطے میں رابطے کا ذریعہ ہے۔قدرت نے پاکستان کو بے پناہ نعمتوں سے نوازا ہے ۔ افغانستان بھی ہمارے ہمسائے میں واقع ہے جسے اقبال نے ایشیا کا دل قرار دیا اور وہاں پر استحکام کا پورے خطے پر اثر پڑتا ہے۔ پاکستان ای سی او کا بھی اہم رکن ہے ۔ ہمارے ہمسائے میں چین میں 336ٹریلین ڈالر کی تجارت ہو رہی ہے جبکہ اس سے آگے خلیج تعاون کونسل کے ممالک کی ہائیڈرو کاربن برآمدات نے ان کی معیشت کو مضبوط اور متنوع بنادیا ہے۔ ان کے پاس سرمائے کی بہتات ہے لیکن ان کی آبادی کم ہے جس کی وجہ سے انہیں بیرون ملک سے افرادی قوت منگوانا پڑتی ہے اور اس کے لئے انہیں پاکستان ، بنگلہ دیش اور بھارت سے افرادی قوت میسر ہے۔ پاکستان کوصنعتکاری کے فروغ کے لئے زیادہ پرکشش اور مسابقت کا حامل اور سہولت فراہم کرنے والے ملک کی حیثیت حاصل ہے ۔چین میں جدیدیت کا سفر 1979 کے بعد شروع ہوا اور وہ اپنی کچھ صنعتیں دیگر ممالک میں منتقل کررہاہے، اس کے لئے جنوب ایشیا مشرقی ایشیا کے ساتھ پاکستان بھی وہ ملک ہے جہاں پر یہ صنعتیں لگائی جائیں گی۔ پاکستان میں مختلف نوعیت کے کلچر، زبانیں ، نسلی گروپ اور جغرافیہ موجود ہے اور دنیاکی آٹھ سے نو بلند ترین چوٹیاں پاکستان میں ہی واقع ہیں، یہ کوہ پیمائی کی دلچسپی رکھنے والوں کے لئے انتہائی کشش رکھتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے پاس تھر و بلوچستان کے صحرا اور پنجاب کا وسیع میدانی علاقہ بھی ہے۔ یہ مختلف قسم کے محل وقوع کاایک ایسامجموعہ ہے جس نے پاکستان کو مثالی اہمیت کاحامل ملک بنایاہوا ہے اور پاکستان سیاحت کے لئے ایک بہترین ملک ہے۔ پاکستان کا انسانی وسیلہ ہمارا ایک عظیم اثاثہ ہے۔ چوبےس کروڑ آبادی میں سے ساٹھ فیصد کی عمر تےس سال سے کم عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے اور یہ پاکستان کے لئے ایک بھرپور توانائی کی حیثیت رکھتے ہیں اور اسے رہنمائی کی ضرورت ہے۔ تقریبا پندرہ لاکھ افرادی قوت آئی ٹی کے شعبے میں کام کررہی ہے، ہم سالانہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ پچاس ہزار نوجوان گریجویٹ فراہم کر سکتے ہیں۔ ہمیں چیلنجزکا سامنا ہے ۔ ٹیکس کی وصولی کے لئے ڈھانچہ جاتی تبدیلیاں کی جائےں ۔ لہذا حکومتی اخراجات میں کمی اور آمدنی میں اضافے پر توجہ دی جائے ۔ نجی شعبے کی بھی آمدنی بڑھانے کے لئے حوصلہ افزائی کی جائے ۔ےہ اطلاعات بھی ہےں کہ حکومت نے تنخواہوں اور پنشن سمیت سرکاری اخراجات میں کٹوتی کیلئے نئی کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا ہے۔ کمیٹی کے دائرہ اختیار میں دفاعی بجٹ اور سود کی مد میں اخراجات شامل نہیں جن کا مجموعی وفاقی بحٹ میں حصہ دو تہائی ہے۔ کمیٹی صرف سولہ فیصد اخراجات پر نظر ثانی، پنشن اور ترقی پر اخراجات کو معقول بنانے پر غور کرے گی، جس سے بڑی بچت کا امکان نہیں۔ وزیر اعظم نے کمیٹی کو سرکاری اخراجات میں کٹوتی سے متعلق سفارشات مرتب کرنے کیلئے ایک ہفتے کا وقت دیا ہے، پنشن سکیم پر نظرثانی آئی ایم ایف کیساتھ ہونیوالے جائزہ مذاکرات کا ایک اہم ایشو ہے۔ کمیٹی وفاقی حکومت کے سائز میں کمی کیلئے پہلی تمام کمیٹیوں کی رپورٹس کا جائزہ بھی لے گی۔ نوٹیفکیشن کے مطابق صوبوں کے اختیارات کی منتقلی کے باوجود ڈیڑھ درجن کے قریب وزارتیں ابھی تک وفاقی سطح پر فعال ہیں۔دفاع اور سود کی ادائیگیاں کمیٹی کے دائرہ اختیار میں نہ ہونے کے باعث اسکی سفارشات کے بامعنی ہونے کا امکان نہیں۔ سودی اخراجات میں قابل ذکر کمی کیلئے پاکستان کو قرضوں کی تنظیم نو اور سٹیٹ بینک کو فوری شرح سود میں کٹوتی کی ضرورت ہے۔وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کے مطابق کہ 2024کی پہلی سہ ماہی 2023 کے مقابلے میں بہتر ہے، اب ہم نے میکرو استحکام کو مستقل کرنا ہے، کوئی سوئچ نہیں جو دبانے سے میکرو استحکام کے ثمرات ملنا شروع ہو جائیں۔ آئی ایم ایف سے نیا پروگرام پاکستان کا پروگرام ہو گا۔ عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ پروگرام کے بعد ہماری کریڈٹ ریٹنگ بہتر ہوگی۔ ہم نے ایف بی آر اصلاحات پر کام شروع کر دیا ہے۔ ٹیکس بیس بڑھانے پر توجہ دیں گے، جبکہ ادارے پر اعتماد کے فقدان کو ڈیجیٹائزیشن کے ذریعے دور کریں گے۔ حکومت کو سب سے پہلے اپنے گھر کو درست کرتے ہوئے اپنے اخراجات میں کمی لانا ہوگی۔ ہم نے سی پیک کے دوسرے مرحلے کو فاسٹ ٹریک کرنا ہے۔دوست ممالک امداد نہیں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں‘وزیر خزانہ نے کہاکہ دوست ممالک نے واضح عندیہ دیا ہے کہ وہ امداد نہیں بلکہ سرمایہ کاری سے مدد کرنا چاہتے ہیں۔محمد اورنگزیب نے کہاکہ آئی ٹی میں ساڑھے تےن ارب ڈالر کی برآمدات متوقع ہیں، چاول کی فصل اس سال اچھی ہوئی ہے اور ہم نے برآمد سے دو ارب ڈالر کمائے۔پرائیویٹ انویسٹمنٹ بھی ایس آئی ایف سی کے ذریعے کی جا سکتی ہے۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کا سندھ کا منصوبہ وفاق میں منتقل کر سکتے ہیں۔ توانائی کے مسائل حل ہونے تک صنعتوں کی مسابقتی ترقی نہیں ہو سکتی۔ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو پرائیویٹ سیکٹر کی طرف لے جائیں گے۔ پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے ہم درست سمت میں بڑھ رہے ہیں۔بہرحال جب تک حکومتی اخراجات میں کمی کا لائحہ عمل مرتب کر کے اس پر عمل نہےں کےا جاتا معےشت کی بہتری کے امکانات معدوم ہی رہےں گے۔