شمسی توانائی کی جانب پیشرفت

 صوبائی معاونین خصوصی نے رمضان المبارک میں گلگت شہر سمیت پورے خطے میں بجلی کی منصفانہ تقسیم یقینی بنانے اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے حکومتی اقدامات کے حوالے سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ماہ صیام میں عوام کو سحری اور افطار کے اوقات میں بجلی فراہم کرنے کیلئے حکومت سنجیدہ اقدامات اٹھا رہی ہے اور صوبائی حکومت کے فیصلے کے تحت تمام اسپیشل لائنز کا خاتمہ کرکے عوام کو اضافی بجلی فراہم کی جائیگی، نیز گلگت اور سکردو سمیت بڑے شہروں میں بجلی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے ڈیزل جنریٹرز سے بجلی فراہم کی جائیگی اور صوبائی حکومت نے اس مقصد کیلئے 25 کروڑ مختص کئے ہیں اور اس ضمن میں فوری طور پر گےارہ کروڑ روپے ریلیز کر دئیے گئے ہیں۔ صوبائی سیکرٹری برقیات ثنا اللہ نے اس موقع پر گلگت بلتستان میں بجلی کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے سال پلانٹ مشینری اور پرزہ جات کی درآمد کے لیے ایل سیز منظوری میں تاخیر سے بجلی کے منصوبے بروقت مکمل نہیں ہوسکے اور اب صوبائی حکومت کی کاوشوں سے گلگت بلتستان کیلئے ایل سیز کھولنے کے اقدامات سے امسال جون تک 13 میگا واٹ بجلی سسٹم میں داخل کی جائیگی متبادل ذرائع سے بجلی پیدا کرنے اور تعطل کا شکار بجلی کے منصوبے جلد مکمل کرنے سے توانائی کے بحران کے حل میں مدد ملے گی۔ےہ درست ہے کہ شمسی توانائی کی ناقابل اعتماد، زمین کی سطح شمسی تابکاری حاصل کرنے کے لئے، عالمی توانائی کی طلب کو دس ہزارگنا اوقات کا سامنا کرنا پڑتا ہے شمسی بجلی کی پیداوار محفوظ اور قابل اعتماد ہے، اور توانائی کی بحران یا ایندھن کی مارکیٹ کی عدم استحکام سے متاثر نہیں ہوگی۔شمسی توانائی کی پیداوار کسی بھی فضلہ، آلودگی، شور اور دیگر عوامی خطرات پیدا نہیں کرتی ، ماحول پر کوئی منفی اثر نہیں، مثالی اور صاف توانائی ہے۔بجلی کے اس شدید شارٹ فال سے پوری قوم ایک طرح کی اذیت میں مبتلا ہے۔ بجلی کے مسلسل بحران سے بہت ساری چھوٹی بڑی فیکٹریاں بند ہو چکی ہیں۔ اس خود ساختہ اذیت کی وجہ سے عوام نفسیاتی مریض بنتے جا رہے ہیں۔ اگر شمسی توانائی کے منصوبوں کا بر وقت آغاز کیا جاتا تو یقینا آج پاکستان لوڈ شیڈنگ کے اس عذاب میں مبتلا نہ ہوتا۔ بجلی کے بحران سے نجات حاصل کرنے کے لئے ہمیں ہر سطح پر شمسی توانائی کے حصول کی ہر ممکن کوشش کرنا ہوگی۔ شمسی توانائی کے ذریعے بجلی حاصل کرنے کا طریقہ انتہائی سادہ اور ہر قسم کی آلودگی سے پاک ہے۔شمسی توانائی کے ذریعے بجلی کے حصول کے لئے ہمیں صرف ایک مرتبہ سرمایہ کاری کرنا پڑتی ہے جبکہ کے اس سرمایہ کاری کے نتیجہ میں طویل المدت کے لئے بجلی کا مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی دس ہزارکے مقابلہ میں سورج کی روشنی سے 36 گنا زیادہ توانائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اور سب سے زیادہ خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ، سال کے تقر یبا تےن سو دن، سورج توانائی میسر ہوتی ہے۔ سورج سے حاصل ہونے والی توانائی انسان کے پاس ایک ایسا خزانہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگا۔ اب ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم قدرت کی عطا کردہ اس نعمت سے کتنا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اگر ہم ملک اپنے ملک میں خوشحالی دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کا بہترین حل یہ ہے، کہ ہمیں شمسی توانائی کی اہمیت کے شعور کو عام کرنا ہوگا۔ خاص طور وہ این جی اوز جو عوام کی فلاح وبہبود کیلئے کام کرتی ہیں ان کوشمسی توانائی کے حصول کیلئے عوام کی رہنمائی اور مدد کرنی ہوگی۔سورج سے حاصل ہونے والی توانائی کسی بھی ملک کی معیشت کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اوراگرہم صرف یہ فیصلہ کر لیں کہ ہم نے پاکستان سے بجلی کے بحران کو جڑ سے ختم کرنا ہے تو ایک دن ایسا آئے گا جب ہر گھر میں شمسی توانائی کے ذریعے بجلی پیدا کر نے کی سہولت موجود ہو گی۔سولر پینل ایک ایسی ڈیوائس ہے جو سورج کی روشنی کو بجلی میں تبدیل کر دیتی ہے ۔ ایک سولر پینل بہت سے مختلف چھوٹے چھوٹے سولر سیلز سے مل کر بنتا ہے ۔ ان سولرسیلز کو ایک بڑی شیٹ پر لگا کر بجلی حاصل کی جاتی ہے۔ ایک سولر سیل صرف 0.5 وولٹ ہی پیدا کرتا ہے جبکہ سیل کے مختلف سائز کی وجہ سے ایمپیر کم یا زیادہ ہو جاتے ہیں۔ سولر پینل کی ایک شیٹ پر جو چھوٹے سیلز لگے ہو تے ہیں ان کی تعداد کو گن کر بھی وولٹ معلوم کئے جا سکتے ہیں ۔0.5 وولٹ کا ایک سولر سیل آدھے واٹ کی بجلی بناسکتا ہے ۔تمام سولر پینل جو بجلی پیدا کرتے ہیں ان کو واٹ میں شمار کیا جاتا ہے۔مثال کے طور پر اگر ہم 180 واٹ کا ایک بہترین سولر پینل لیتے ہیں تو اس سولر پینل سے 26 وولٹ حاصل ہوں گے۔ظلم کی انتہا تو یہ ہے کہ پاکستان میں زیادہ تر لوگ لوکل سولر پینل کو جرمنی کا نام دے کر بیچ رہے ہیں۔شمسی توانائی جو کبھی نہ ختم ہونے والا ذریعہ ہے۔ روایتی توانائی کے ذرائع ہیں کوئلہ، معدنی تیل، لکڑی اور گوبر وغیرہ جب کہ غیر روایتی توانائی حاصل کرنے کے ذرائع ہیں شمسی توانائی، آبی یا موجی توانائی، ہوائی توانائی،پودوں سے پٹرول کشید کرکے توانائی حاصل کرنا، جوہری توانائی، بائیو گیس اور ارضی حرارتی توانائی۔ کوئلہ، معدنی تیل اور برقاب توانائی حاصل کرنے کے تین اہم وسائل ہیں جن میں جوہری توانائی کا اضافہ ابھی حال میں ہوا ہے۔ کوئلے کے علاوہ قدرتی تیل یا پٹرولیم توانائی حاصل کرنے کا دوسرا ذریعہ ہے۔ اور یہ نہایت کار آمد ایندھن بھی ہے۔ کچے قدرتی تیل سے ہمیں مٹی کا تیل، ڈیزل، پٹرول، اسپرٹ، کھانا پکانے کی گیس وغیرہ حاصل ہوتی ہے۔ ہماری روزانہ کی زندگی میں قدرتی تیل اور اس سے بنی ہوئی اشیا کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ اسکوٹر، موٹر سائیکل، کار، بسیں، ریل گاڑیاں، جہاز، ہوائی جہاز ملیں اور فیکٹریاں وغیرہ پٹرول اور ڈیزل سے چلتے ہیں۔ غرض یہ کہ قدرتی تیل یا پٹرولیم ہماری معاشی زندگی کی شہہ رگ ہے۔ زمین کی گہرائیوں میں حرارت کا بے شمار خزانہ دفن ہے۔ زمین اندر سے بہت گرم ہے اور اس میں جگہ جگہ پر گرم پانی کی دھار یا سوکھی بھاپ کی تیز دھار پھوٹتی رہتی ہے۔ اس حرارت کو اگر توانائی میں بدل دیا جائے تو ہزاروں سال تک توانائی کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ کوئلہ سے پٹرول بنانے کا طریقہ جنوبی افریقہ میں شروع ہوا۔ وہاں کوئلے کی کانیں وافر مقدار میں کوئلہ فراہم کر سکتی ہیں مگر یہ طریقہ بہت مہنگا ہے اور اس میں کوئلے کی کھپت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ کوڑا کرکٹ سے بھی توانائی پیدا کی جا سکتی ہے۔ ماہرین کے مطابق امریکا میں سالانہ 25 کروڑ ٹن کوڑا پھینکا جاتا ہے۔ اس سے دس کروڑ ٹن کوئلے کے برابر توانائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ پودوں سے بھی پٹرول حاصل کیا جاتا ہے۔ ماہرین کی تحقیق کے مطابق گنے کے رس سے الکوحل بنائی جاتی ہے اور اس الکوحل کو بطور پٹرول استعمال کرکے گاڑی چلائی جا سکتی ہے۔ دنیا بھر میں پودوں سے الکوحل کا سب سے زیادہ ایندھن پیدا کرنے والا ملک برازیل ہے کیونکہ وہاں گنا بہت پیدا ہوتا ہے۔ اس تکنیک کا ہمارے ملک میں بھی استعمال ہو رہا ہے۔ عہد حاضر کے سائنس داں سورج کی روشنی سے توانائی حاصل کرنے کے تجربات میں مصروف ہیں اور کافی حد تک انھیں کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے۔ ہوا کی طاقت کا استعمال دنیا کے کچھ ممالک نے آٹے کی چکیوں کو چلاکر کیا ہے۔ بہتے ہوئے پانی کوباندھ کے ذریعے روک کر بہت اونچائی سے گرا کر بجلی پیدا کرتے ہیں۔ اگر سائنسی ترقی اسی رفتار سے ہوتی رہی تو وہ دن دور نہیں جب سورج کی روشنی سے طاقت حاصل کرکے ہر وہ کام کیا جائے گا جو آج قدرتی تیل سے ہو رہا ہے اور جس کے ذخائر محدود ہیں۔ شمسی توانائی کبھی نہ ختم ہونے والی توانائی ہے۔سورج کی دھوپ اپنے آپ میں آلودگی سے پاک ہے اور بہ آسانی میسر ہے۔ ہمےں یہ سہولت حاصل ہے کہ سال کے 365 دنوں میںسورج کی پوری دھوپ ملتی رہتی ہے۔ دن میں سورج چاہے دس سے بارہ گھنٹے تک ہی ہمارے ساتھ رہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ سورج کی گرمی ہمیں رات دن کے 24 گھنٹے حاصل ہو سکتی ہے۔ اس میں نہ دھواں ہے، نہ کثافت اور نہ ہی آلودگی۔ دھوپ سے حاصل ہونے والی توانائی سولر انرجی یا شمسی توانائی کہلاتی ہے۔ دھوپ کی گرمی کو پانی سے بھاپ تیار کرکے جنریٹر چلانے اور بجلی بنانے میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ دھوپ قدرت کا عطیہ ہے، ہر روز دنیا پر اتنی دھوپ پڑتی ہے کہ اس سے کئی ہفتوں کے لیے بجلی تیار کی جا سکتی ہے۔ سورج زمین سے تقریبا 15کروڑ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ زمین سے تیرہ لاکھ گنا بڑا ہے۔ چونکہ آفتاب میں صرف تپتی ہوئی گیس پائی جاتی ہے، اس لیے اس کی کثافت کم ہے۔ اس کا وزن زمین سے سوا تین لاکھ گنا زیادہ ہے۔ سورج کی باہری سطح کا درجہ حرارت تقریبا 6ہزار ڈگری سیلسیس ہے۔ اس کے مرکزی حصے کا درجہ حرارت ایک کروڑ ڈگری ہے۔ اس کے چاروں طرف روشنی اور حرارت نکلتی رہتی ہے۔ سورج کی سطح کے فی مربع سینٹی میٹر سے پچاس ہزار موم بتیوں جتنی روشنی نکلتی ہے اور زمین سورج سے نکلی ہوئی طاقت کا محض دوسو بیس کروڑواں حصہ ہی اخذکر پاتی ہے۔ شمسی توانائی کے بغیر زمین پر زندگی ممکن نہیں۔ لہذا ہمےں اس توانائی سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔