رمضان المبارک اور مہنگائی

 گلگت بلتستان کے وزےراعلی کے ترجمان فیض اللہ فراق نے کہا ہے کہ وزیر اعلی گلگت بلتستان حاجی گلبر خان کے احکامات کی روشنی میں تمام ڈویژن کے کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز نے اسسٹنٹ کمشنرز کی نگرانی میں رمضان پرائس کنٹرول آپریشن کا آغاز کردیا ہے ، صوبہ بھر کے تمام شہروں اور تحصیلوں میں اسسٹنٹ کمشنرز نے مہنگائی کے خلاف کریک ڈاﺅن کرتے ہوئے درجنوں گراںفروشوں کو جیل بھیج دیا ہے‘ درجنوں دکاندار گرفتار اور کچھ دکانوں کو سیل بھی کیا گیا ہے ۔ رمضان المبارک کے مقدس مہینے کے آغاز سے پہلے خودساختہ مہنگائی کے خلاف صوبائی حکومت کے ایکشن کا مقصد عوام کو ریلیف پہنچانا ہے ، ترجمان نے کہا کہ صرف گلگت شہر میں رمضان پرائس کنٹرول ایکشن کے تحت سات افراد گرفتار کئے جاچکے ہیں ، چارگراںفروشوں کو جیل بھیج دیا ہے اور چار دکانیں سیل کی گئی ہیں ،اس کے علاہ صوبہ بھر کے دس اضلاع میں مزید درجنوں گرفتاریاں عمل میں لائی جاچکی ہیں ، طے شدہ سرکاری نرخ ناموں کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف حکومت کاروائی کرے گی اور عوام سے بھی گزارش ہے کہ وہ اجناس ، پھلوں اور دیگر اشیا کی خریداری کے وقت سرکاری نرخ نامے کا خیال رکھیں اور تمام اشیا سرکاری نرخ نامے کے تحت خریدیں اور کسی دکاندار نے مذکورہ نرخ نامے کی خلاف ورزی کی تو فوری متعلقہ مجسٹریٹ کو شکایت کریں ۔ ےہ المےہ ہے کہ مقدس مہےنے کی آمد کے ساتھ ہی مہنگائی کی شرح میں ناقابل برداشت اضافہ ہو جاتا ہے۔رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی ملک میں مہنگائی میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ رواں ہفتے کے دوران چودہ اشیا ضروریہ کے دام بڑھ گئے ہےں ۔ ادارہ شماریات کی ہفتہ وار جاری کردہ رپورٹ کے مطابق رواں ہفتے پیاز، آلو، ٹماٹر اور انڈے سمیت کئی اشیا مہنگی ہو گئیں، ایک ہفتے کے دوران پیاز کی فی کلو قیمت 178 روپے سے بڑھ کر 238 روپے ہوگئی۔رواں ہفتے کے دوران آلو فی کلو 13 روپے 36 پیسے بڑھی، ایک ہفتے کے دوران ٹماٹر فی کلو 19 روپے 26 پیسے مہنگے ہوئے۔ایک ہفتے کے دوران انڈوں کی فی درجن قیمت میں چھے روپے 71 پیسے کا اضافہ دیکھا گیا۔ایل پی جی کا گھریلو سیلنڈر 140 روپے 59 پیسے مہنگا ہوا۔ پیٹرول، جلانے کی لکڑی، بیف اور مٹن بھی مہنگی ہونے والی اشیا میں شامل ہیں۔چکن، چائے، بریڈ اور گڑ سمیت چودہ اشیا سستی بھی ہوئیں۔ایک ہفتے کے دوران چکن 31 روپے فی کلو سستا ہوا، چاول، چینی، مصالحہ اور دال مسور بھی سستی ہونے والی اشیا میں شامل ہیں۔ ایک ہفتے کے دوران تازہ دودھ، دہی سمیت 23 اشیا کے دام مستحکم رہے۔مارچ کے پہلے ہفتے میں مہنگائی کی شرح میں اےک اعشاریہ گےارہ فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا، مہنگائی کا مجموعی پارہ 32 اعشاریہ 39 فیصد کی سطح پر پہنچ گیا۔ان حالات میں ضروری ہے کہ حکومت ٹارگٹڈ سبسڈیز کے ذریعے بلند قیمتوں کا مقابلہ کرے ساتھ ہی اس بات کویقینی بنایا جائے کہ تاجرسرکاری قیمتوں کی فہرست کی خلاف ورزی نہ کرسکیں۔حکومتی سکیموں میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے تاکہ خوراک کا راشن آبادی کے ضرورت مند طبقوں تک پہنچ سکے جبکہ اشیائے خورونوش کے معیار پر سمجھوتہ نہ کیاجائے، اس طرح کی سکیموں کے علاوہ مقامی انتظامیہ کو بچت بازارلگانے کی بھی ضرورت ہے جہاں پر اشیائے خورونو ش کے معیار کو برقرار رکھا جائے۔ٹارگٹڈ سکیموں کے علاوہ ریاست کو مقامی سطح پر اپنی قیمتوں کی نگرانی کرنے والی کمیٹیوں کو فعال کرنا چاہئے تاکہ تاجروں کو قلت کے نام پر صارفین کو لوٹنے کا موقع نہ ملے اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ رمضان المبارک کے دوران بعض اشیا کی بہت زیادہ مانگ ہوتی ہے، تاجر بھی قلت کاحیلہ تراش کر اشیائے خورونوش کی قیمتیں بڑھا دیتے ہیں،اس منافع خوری کو روکنے کی ضرورت ہے، صوبائی حکومت اس کیلئے فوری طورپر تمام متعلقہ محکموں اور عملے کوفعال بنائے ۔ملک بھر میں پہلے ہی سے مہنگائی کے مارے عوام اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے سے پریشان ہےں اوپر سے رمضان کی آمد سے پہلے ہی قیمتوں میں مزید اضافے نے ان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ افسوس کہ رمضان کے قریب آتے ہی مہنگائی کا میں پہلے سے کہیں اضافہ ہو گیا ہے۔آلو، پیاز، ٹماٹر، ادرک، لہسن اور پھلوں کی قیمتوں میں بے جا اضافہ سے سفید پوشی مِں گزر بسر کرتے شہری خاصے رنجیدہ ہیں۔ دوسری جانب دکانداروں نے خود کو بے قصور قرار دیتے ہوئے تمام تر ذمہ داری حکومت، آڑتھیوں اور ذخیرہ اندوزوں پر ڈال دی ہے۔ اس تمام صورتحال کے برعکس حکومت کی خاموشی تشویشناک ہے۔ہر سال ماہِ مقدس رمضان المبارک کی آمد پر اشیائے خورونوش کی قیمتیں بلند ترین سطح پر پہنچ جاتی ہیں ، جن پر حکومت بھی اگر کوئی ریلیف دے تو پھر بھی یہ عام حالات سے مہنگی ہی رہتی ہیں۔ افسوس کہ امسال بھی ایسا ہی دیکھنے میں آیا ہے اورخود ساختہ اضافے کے باعث انتہائی بنیادی ضرورت کی اشیاکی قیمتیں یکدم آسمان کو چھونے لگی ہیں، سبزیوں کے دام بڑھا دیے گئے جبکہ پھلوں کی قیمت میں بھی اضافہ کیا گیا۔ دنیا بھر کے مہذب ممالک میں ان خصوصی دنوں اور تہواروں کے موقع پر اشیائے ضرور یہ کی قیمتیں کم کر دی جاتی ہے جب کہ وطنِ عزیز میں الٹی گنگا بہتی ہے۔ ہر سال ہی رمضان المبارک میں گرانی اپنے عروج پر پہنچی ہوتی ہے۔ دودھ، آٹا، گھی، تیل،سبزیاں وغیرہ سب مہنگے ہو جاتے ہیں اور پھل تو غریبوں کے لیے شجر ممنوعہ اس لیے ہو جاتے ہیں کہ وہ ان کی خریداری کے متحمل نہیں ہو سکتے۔وفاقی اور صوبائی حکومتیں فوری طور پر ناجائز منافع خوروں کے خلاف کاروائی کرنے کے لیے اقدامات کا اعلان کریں اور منافع خوروں پر صرف جرمانہ عائد کرنے کے بجائے انہیں سخت ترین سزائیں بھی دیں تاکہ خود ساختہ مہنگائی کا سلسلہ رک سکے۔افسوس ہم رمضان کی برکتیں سمیٹنے کی بجائے رمضان میں عوام کو لوٹنے میں مصروف ہو جاتے ہیں رمضان ہمیں بھوک برداشت کر کے غریب پروری کا درس دیتا ہے مگر ہم اس کے بر عکس رمضان میں غریب کو مارنے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔ جبکہ بہت سے غیر اسلامی ممالک میں رمضان کی مناسبت سے سیل لگائی جاتی ہیں جہاں پر مسلمانوں کو ارزاں نرخوں پر اشیائے خورونوش دستیاب ہوتی ہیں جہاں پر امیر و غریب دونوں اس بابرکت مہینے کی برکتوں و رحمتوں سے استفادہ حاصل کرتے ہیں۔ خصوصی رمضان ڈسکاﺅنٹ پیکیج متعارف کروائے جاتے ہیں۔ مسلم بھائیوں کے لئے بڑے بڑے افطار۔ دستر اخوان سجائے جاتے ہیں لیکن بدقسمتی سے عالم اسلام کی واحد ایٹمی قوت اور اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والی مملکت خداداد پاکستان میں رمضان جیسے با برکت اور رحمت کے مہینے کو باعث زحمت بنا دیا جاتا ہے۔رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی ذخیرہ اندوز متحرک ہوجاتے ہیں۔ ملک میں مہنگائی کا طوفان برپا ہوجاتا ہے۔ روز مرہ کی اشیا کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ حکومت جو بھی ہو وہ صرف رمضان پیکیج کا اعلان کر کے یوٹیلیٹی اسٹورز میں چند اشیا پر سبسڈی دے کر اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو جاتی ہے ۔ہر رمضان میں انتظامیہ عوام کو مہنگائی کے سیلاب سے بچانے کے دعوے تو کرتی ہے مگر گراں فروشی اور مہنگائی پھر بھی کنٹرول سے باہر ہوجاتی ہے۔ دکاندار، تاجر اور خوردہ فروش شہریوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں اور حکومت مہنگائی کے جن کو قابو نہیں کرپاتی۔ لہذا ماضی کی طرح تاریخ اس بار بھی مہنگائی اور بے روزگاری کے سیلاب کے سامنے بے بسی کی تصویر بنی نظر آتی ہے ۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں فوری طور پر ناجائز منافع خوروں کے خلاف کاروائی کرنے کے لئے اقدامات کا اعلان کریں اور منافع خور وں پر جرمانہ عائد کرنے کے بجائے سخت ترین سزاﺅں کے اقدامات کئے جائیں۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ضلعی حکومت کے نمائندوں کو صحیح معنوں میں عوام کا خادم بنایا جائے اور ان سے مہنگائی کے خاتمے کے لئے مرکزی کردار اداکروایا جائے۔ضروری ہے کہ حکومتی عمل داری یقینی بنائی جائے،کیوں کہ اس کے بغیر اب چارہ بھی نہیں۔ملک بھر میں مہنگائی کے عفریت پر قابو پانے کے لئے نہ صرف راست اقدامات کئے جائیں بلکہ رمضان المبارک میں عوام کو گرانی سے بچانے کا موثر بندوبست بھی کیا جائے۔ذمہ داران سرکاری نرخ نامے کے مطابق اشیا ضروریہ کی فروخت ممکن بنائیں،گراں فروشوں کے خلاف کڑی کارروائیاں کی جائیں۔بصورت دیگر مہنگائی کا سونامی غریب عوام کی کمر توڑ کر رکھ دے گا کیونکہ منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں نے قیمتوں میں من مانا اضافہ کیا ہے اور ساتھ ہی مصنوعی قلت بھی پیدا کر دی ہے۔لہذا حکومت کو ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کے ساتھ ساتھ منافع خوروں کے خلاف بھی سخت کاروائی کرنی چاہئے۔جب رمضان آتا ہے تو اسے زیادہ سے زیادہ کمائی اور منافع کا مہینہ سمجھتے ہوئے ہر چیز کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کر دیا جاتا ہے اور غریب آدمی اس مہینے میں رحمتوں کو سمیٹنے کے بجائے اپنا نان نفقہ پورا کرنے کی فکر میں ہی مبتلا رہتا ہے ۔ ماہ صیام تو نیکیاں کمانے کامہینہ ہے مگر وطن عزیز میں سفید پوش طبقے کی مجبوریوں کا خوب فائدہ اٹھایا جا تا ہے اور ان منافع خوروں ، ذخیرہ اندوزوں سے پوچھ گچھ کرنے والا کوئی نہیں ؟