آج دنےا بھر میں خواتےن کا عالمی دن مناےا جا رہا ہے ۔اس دن کا آغاز 1908 میں نیو یارک شہر سے ہوا جب 15000 خواتین نے کم گھنٹے کام، بہتر تنخواہوں اور ووٹ کے حق کے لیے مارچ کیا۔ اس سال بعد سوشلسٹ پارٹی آف امریکہ نے پہلا قومی یومِ نسواں منایا۔اس کو عالمی سطح پر لے جانے کا خیال کلارا زتکن نامی خاتون کا تھا جو کہ ایک کمیونسٹ اور خواتین کے حقوق کی کارکن تھیں۔ انہوں نے 1910 میں کوپن ہیگن میں انٹرنیشنل کانفرنس آف ورکنگ ویمن میں یہ خیال پیش کیا۔ وہاں 17 ممالک سے 100 خواتین موجود تھیں جنہوں نے متفقہ طور پر اس کی تائید کی۔یہ پہلی مرتبہ آسٹریا، ڈنمارک، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ میں 1911 میں منایا گیا۔ اس کے سو سال بعد 2011 میں مناےا گےا چنانچہ اس سال ہم 111واں یومِ خواتین منائیں گے۔1975 میں اسے سرکاری طور پر تسلیم کیا گیا جب اقوام متحدہ نے اسے منانا شروع کر دیا۔1996 میں پہلی مرتبہ اس کو ایک تھیم دیا گیا جب اقوام متحدہ نے اسے ماضی کا جشن اور مستقبل کی منصوبہ بندی کے عنوان سے منایا۔جس دن روس میں خواتین کی ہڑتال شروع ہوئی تھی وہ جولیئن کیلنڈر میں 23 فروری تھی جو جورجیئن کیلنڈر میں آٹھ مارچ ہے اور اسی لیے یہ آج کی تاریخ کو منایا جاتا ہے۔کلارا نے خواتین کے عالمی دن کے لیے کوئی خاص تاریخ منتخب نہیں تھی۔اور یہ 1917 تک متعین بھی نہیں ہوئی تھی جب پہلی عالمی جنگ کے دوران روسی خواتین نے روٹی اور امن کے مطالبات کے ساتھ ہڑتال کر دی اور چار دن کے بعد روسی سربراہ کو حکومت چھوڑنی پڑی اور خواتین کو ووٹ کا عبوری حق مل گیا۔جامنی رنگ انصاف اور وقار کی علامت ہے۔ ہرا رنگ امید ظاہر کرتا ہے۔ سفید پاکیزگی کے لیے رکھا گیا ہے تاہم یہ قدرے متنازع ہے۔ یہ رنگ برطانیہ میں 1908 میں ویمنز سوشل این پولیٹیکل یونین سے نکلے ہیں۔اٹلی میں اس دن مموسا بلوسمز پھول دیے جاتے ہیں۔ اس روایات کا آغاز کیسے ہوا یہ تو کسی کو معلوم نہیں مگر کہا جاتا ہے کہ یہ روم میں دوسری جنگِ عظیم کے بعد شروع ہوا۔خواتین کا عالمی دن کئی ممالک میں قومی تعطیل کا دن ہے، بشمول روس کے جہاں آٹھ مارچ کے آس پاس تین چار دنوں میں پھولوں کی فروخت دگنی ہو جاتی ہے۔چین میں حکومت کی جانب سے خواتین کو آدھے دن کی چھٹی دی جاتی ہے مگر بہت سی کمپنیاں یہ چھٹی اپنے ملازموں کو نہیں دیتیں۔امریکہ میں مارچ کا مہینہ تاریخِ نسواں کے مہینے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے ایک صدارتی اعلان بھی کیا جاتا ہے جس میں سال بھر کی خواتین کی کامیابیوں کو اعزاز دیا جاتا ہے۔گزشتہ ایک سال میں دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے ہم کچھ پیچھے چلے گئے ہیں۔برطانیہ میں پولیس اہلکار سارہ ایورارڈ کے قتل کے بعد خواتین کے تحفظ پر بحث شروع ہوئی۔ امریکہ میں اسقاطِ حمل کے حق پر قدغنیں لگائی جا رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کی تےرہ ممالک میں ایک تحقیق میں پتا چلا کہ ہے تقریبا ہر دو میں سے خواتین نے یا تو خود تشدد سہا یا پھر کسی جاننے والی خاتون کے بارے میں تشدد کی کہانیاں سنیں۔تیونس میں پہلی مرتبہ خاتون صدر کو چنا گیا جبکہ ایسٹونیا، سوئیڈن، ساموئا، اور تیونس میں پہلی مرتبہ خواتین وزیرِ اعظم کے عہدوں پر پہنچیں آجکل پاکستان کے صوبہ پنجاب کی وزےراعلی اےک خاتون ہے۔اسلام نے خواتین کو اتنے حقوق دیے ہیں جو شاید ہی دنیا کے کسی اور مذہب میں دیے گئے ہوں۔ مرد و عورت کے لیے اللہ تعالی کے ہاں اجر کا استحقاق برابر قرار پایا۔ ان دونوں میں سے جو کوئی بھی کوئی عمل کرے گا، اسے پوری اور برابر جزا ملے گی۔ ارشاد ربانی ہے : ان کے رب نے ان کی التجا کو قبول کر لیا اور فرمایا کہ میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کے عمل کو ضائع نہیں کروں گا، چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ تم سب ایک دوسرے میں سے ہی ہو۔ قدرت نے عورت کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے، اگر وہ اپنی ان صلاحیتوں کا درست استعمال کرے تو بڑے سے بڑا پہاڑ سر کرسکتی ہے۔ عورت کئی روپ میں ہمارے سامنے ہے اور ہر روپ میں اس نے اپنا کردار بخوبی نبھایا ہے۔ اگر وہ ماں ہے تو اپنے بچوں کیلئے جنت ہے، وہ ان کی تعلیم و تربیت پر بھرپور توجہ دے کر انھیں قابل انسان بناتی ہے۔ عورت اگر بیٹی کے روپ میں ہے تو رحمت ہے، جو اپنے ماں باپ کی خدمت کرتی اور ان کا سہارا بنتی ہے۔ اگر بہن کے روپ میں ہے تو محبت کی بہترین مثال ہے۔ بیوی کے روپ میں ہے تو زندگی بھر اپنے شوہر کا ساتھ نبھاتی ہے، ہر سکھ دکھ میں اس کا ساتھ دیتی ہے اور ہر اونچ نیچ میں قدم سے قدم ملاکر چلتی ہے۔ غرض یہ کہ عورت کا ہر روپ مثالی ہے۔عورت کی لازوال قربانیوں پر خراج تحسین پیش کرنے اور معاشرے میں انھیں جائز مقام اور مردوں کے برابر حقوق دلوانے کیلئے 1911 میں پہلی بار خواتین کا عالمی دن منایا گیا۔ اس سلسلے کو برقرار رکھتے ہوئے آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔خواتین کی اس جدوجہد میں عام طور سے حکومتوں، کام کی جگہوں، کھیلوں، صحت عامہ، دولت اور میڈیا پر کوریج میں صنفی مساوات کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی عالمی سطح پر خواتین کی معاشرتی، معاشی، ثقافتی اور سیاسی کامیابیوں کا جشن منا یا جاتا ہے جبکہ صنفی مساوات پر کام کو تیز کرنے کیلئے عملی اقدامات پر بھی تجاویز دی جاتی ہیں۔دنیا بھر میں خواتین کی حالت زار کے پیش نظر ہرسال یہ دن مخصوص عنوان کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر میں صنفی عدم مساوات پر روشنی ڈالنا ہے تاکہ خواتین بھی مردوں کی طرح اپنے جائز اور برابری کے حقوق حاصل کرپائیں۔ اس مہم کے ذریعے صنفی تفریق کے خاتمے سے متعلق آگاہی فراہم کی جائے گی اور لوگوں میں شعور بیدار کیا جائے گا۔ یہ دن عورتوں کے حق میں صرف نعروں یا طویل تقاریر کا نہیں بلکہ معیشت، اقتصادیات، ثقافت اور سیاست کے شعبوں میں ان کی کامیابیاں تسلیم کرنے کا ہے۔ ان کامیابیوں کو تسلیم کرنے اور صنفی امتیاز کے خاتمے کے حوالے سے ہر سال مختلف فورمز پر بھی مہمات کا آغاز کیا جاتا ہے۔ہمیں چاہیے کہ اپنے اردگرد موجود خواتین کی عزت اور ان کا احترام کریں، ساتھ ہی صنفی امتیاز سے بالاتر معاشرے کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں۔ وقت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کام کریں۔ ترقی کی دوڑ میں جیت کے خواہشمند ملکوں کو خواتین کی کارکردگی بہتر بنانے کیلئے صنفی امتیاز کا خاتمہ کرتے ہوئے انھیں وہ تمام حقوق اور مراعات دینا ہوںگے، جو ان کا حق ہے۔ تمام شعبہ جات میں تقرری صنفی بنیادوں کے بجائے کارکردگی کی بنیاد پر کرنا ہوگی، ساتھ ہی خواتین کو ہراساں کرنے کے مسئلے پر بھی قابو پانا ہوگا۔ معیشتوں اور معاشروں کی ترقی کیلئے صنفی مساوات ضروری ہے۔یہ امر خوش آئند ہے کہ پاکستان میں خواتین اب ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کررہی ہیں۔ پھر چاہے وہ ملک کے دفاع کی خاطر پاک افواج میں شمولیت ہو یا روزگار کیلئے ٹرک یا گاڑی چلانا، اب کوئی ایسا شعبہ نہیںجہاں خواتین کی شمولیت کی حوصلہ افزائی نہ کی جاتی ہو۔ بحیثیت ایک قوم ہم تعصب کا مقابلہ کرنے، خیالات کو وسیع کرنے، حالات کو بہتر بنانے اور خواتین کی کامیابیوں کو منانے کیلئے فعال طور پر کام کرسکتے ہیں۔امریکہ ہر سال 8 مارچ کو عورتوں اور لڑکیوں کی قیادت، قوت اور جرات کا اعتراف کرتے ہوئے دنیا کے ساتھ خواتین کا عالمی دن مناتا ہے۔ امریکہ اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے کہ سماجی، سیاسی اور معاشی زندگی میں خواتین کی مساوی شرکت ہماری مجموعی معاشرت کے امن اور خوشحالی کے لیے نمایاں اہمیت رکھتی ہے۔گزشتہ سال کوویڈ 19 نے عورتوں اور لڑکیوں کے تحفظ اور خوشحالی کو ایک غیرمتوقع مسئلے سے دوچار کیا ہے۔ گھر پر رہنے کے نتیجے میں گھریلو بدسلوکی کے پہلے سے زیادہ خطرے سے لے کر معاشیات اور روزگار سے متعلق پہلے سے زیادہ عدم تحفظ تک، عورتیں اور لڑکیاں اس وبا سے غیرمتناسب طور پر متاثر ہوئی ہیں۔ اس عدم مساوات کے باوجود خواتین نے بلامعاوضہ نگران، طبی کارکن، اساتذہ اور لازمی اہمیت کے دیگر عملے کی حیثیت سے اس وبا کے خلاف جنگ میں اگلی صفوں میں قائدانہ کردار ادا کیا ہے اور آنے والے برسوں میں اپنے معاشروں کے فائدے کے لیے پائیدار تبدیلی لاتے ہوئے لوگوں کے وقار اور حقوق کی حمایت میں کام جاری رکھا ہے۔خواتین نے واضح کر دیا ہے کہ جرات مند خواتین دنیا کو پہلے سے زیادہ بہتر بنانے کا محرک ہوتی ہیں۔ خواتین نے امن، انصاف، انسانی حقوق، صنفی مساوات اور خواتین کو بااختیار بنانے کے حق میں کام کرتے ہوئے غیرمعمولی جرات اور قیادت کا مظاہرہ کیا اور اکثر اس مقصد کے لیے ذاتی خطرات مول لیے اور قربانی دی۔ہم جانتے ہیں کہ جب خواتین بااختیار ہوتی ہیں تو وہ مثبت تبدیلی کا ذریعہ بنتی ہیں۔امریکہ نے یہ امر یقینی بنانے کا تہیہ کر رکھا ہے کہ صنفی مساوات اور خواتین کو بااختیار بنانا ہماری خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے مرکزی اصول ہوں۔ ہر روز کی طرح آج بھی ہم اندرون ملک اور دنیا بھر میں خواتین کو بااختیار بنانے اور صنفی مساوات کے لیے اپنے عزم پر مضبوطی سے کاربند ہیں۔ہمےں ہرعورت اور لڑکی کے طبی، معاشی، سیاسی اور انسانی حقوق کی حمایت اور انہیں ترقی دینے کے لیے تیار ہونا چاہےے کیونکہ جب خواتین بااختیار ہوتی ہیں تو اس سے سب کو فائدہ ہوتا ہے۔
