صوبائی وزیر تعلیم غلام شہزاد آغا نے بوائز مڈل سکول بلامیک روندو سردو اور بوائز مڈل سکول ڈاڈئمل نگر میں اساتذہ کی کمی سوشل میڈیا پر گردش خبروں کا نوٹس لیتے ہوئے ڈپٹی ڈائریکٹر ایجوکیشن سکردو اور ڈپٹی ڈائریکٹر ایجوکیشن نگر کو ہدایات دی ہیں کہ ان سکولوں میں اساتذہ کی کمی کو پورا کر کے رپورٹ پیش کریں۔جس کی وجہ سے سکول میں نظام تعلیم بری متاثر ہے طلبا کی پڑھائی متاثر کرنے والے اساتذہ کی حاضری فوری یقینی بنائی جائے۔ تعلیم کے شعبہ میں اقدامات کے ثمرات دےہی علاقوں تک پہنچنا چاہےے دیہی علاقوں میں تعلیم کی صورتحال بہتر ہو سکے ۔ جہاں اساتذہ ڈیوٹیوں سے غیر حاضر رہتے ہیں اگر اساتذہ ڈیوٹی پر نہیں آتے ہیں تو ان کے خلاف محکمانہ کارروائی جائے۔ انہوں نے کہا ہے کہ دور دراز علاقوں کے طلبا اور طالبات کے لئے حصول علم کی سہولیات گھر کی دہلیز پر فراہم کی جائیں۔ حصول علم کی راہ میں رکاوٹوں کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائیگا۔سرکاری تعلےمی اداروں میں اساتذہ کی غےر حاضری اےک بڑا اہم مسئلہ ہے۔بعض اساتذہ سکول سے مسلسل غیرحاضر رہتے ہیں تاہم سرکاری ریکارڈ میں انہیں حاضر لکھا جاتا ہے جس کے عوض وہ حاضری چیک کرنے والے عملے کو ماہانہ رشوت دیتے ہیں۔سندھ میں ےہ صورتحال عام ہے غیرحاضر رہنے والے بیشتر اساتذہ محکمہ تعلیم کے تحصیل اور ضلعی دفتر کے اہلکاروں کی مدد سے ریکارڈ میں خود کو حاضر رکھتے ہیں اور ان کی ماہانہ تنخواہ بھی جاری رہتی ہے۔ایسے اساتذہ سکول کے ہیڈ ماسٹر سے لے کر محکمہ تعلیم کے تحصیل افسر، ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر، ڈویژنل ڈائریکٹر، سکولوں میں اساتذہ کی حاضری چیک کرنے والے عملے اور ضلعی چیف مانیٹرنگ افسر تک سبھی کو مبینہ طور پر رشوت دیتے ہیں۔ سندھ میں غیرحاضر رہنے والے اساتذہ کی بیشتر تعداد پرائمری سکولوں میں تعینات ہے۔ وہ یہ انکشاف بھی کرتے ہیں کہ غیرحاضر اساتذہ کی حاضری لگانے کے لیے ہر ضلعے میں رشوت کا الگ الگ ریٹ ہے۔ ایسے اساتذہ حاضری لگوانے کے عوض چھ سے پندرہ ہزار روپے رشوت دیتے ہیں۔ یہ لین دین محکمہ تعلیم کے تحصیل افسر کے دفتر میں ہوتا ہے اور ہر ضلعے اور تحصیل میں اس کام کے لیے ایک شخص خصوصی طور پر مقرر کیا جاتا ہے۔پاک الائنس فار میتھس اینڈ سائنس نامی ادارے کی جانب سے دی مسنگ تھرڈ کے عنوان سے شائع کردہ رپورٹ کے مطابق سندھ میں پانچ سے سولہ سال کی عمر کے چونسٹھ لاکھ اسی ہزار بچے سکول نہیں جاتے جن میں تقریبا پےنتےس لاکھ لڑکیاں ہیں۔ ان بچوں میں پنتالےس لاکھ بےس ہزار کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے۔ رپورٹ میں بڑی تعداد میں بچوں کے سکول نہ جانے کی ایک اہم وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ سرکاری پرائمری اور سیکنڈری سکولوں میں اساتذہ کی بڑی تعداد غیرحاضر رہتی ہے جس کے باعث بچے تعلیم میں دلچسپی نہیں لیتے اور بالاآخر سکول چھوڑ دیتے ہیں۔ےہ بھی کہا جاتا ہے کہ بڑی تعداد میں پرائمری سکولوں کے اساتذہ کی غیرحاضری کے حوالے سے پایا جانے والا تاثر درست نہیں۔ ملازمین کی بائیو میٹرک تصدیق ہوتی ہے تاہم ےہ بھی کہا جاتا ہے کہ بائیومیٹرک نظام مینوئل اور ناقص ہے جس میں با آسانی ٹیمپرنگ کی جا سکتی ہے۔ غیر حاضر اساتذہ کو سب سے زیادہ مدد بائیومیٹرک کرنے والے عملے سے ملتی ہے جو اساتذہ سے مبینہ طور پر رشوت لے کر انہیں اپنی آمد کے بارے میں اطلاع کر دیتے ہیں اور اس دن اساتذہ سکولوں میں حاضر ہو جاتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں کل 86 فےصد بچے سکول میں داخل ہوتے ہیں جن میں سے 52 فےصد سرکاری جبکہ44 فےصد نجی اےک فےصد مدرسہ اورتےن فےصد دیگر سکولوں میں داخل ہیں۔چودہ فےصد بچے سکول سے باہر ہیں جو کبھی سکول میں داخل نہیں ہوتے۔داخل بچوں میں پندرہ فےصد سے زائد بچے سکول سے عموما غیر حاضر رہتے ہیں۔ایک نجی ادارے اے ڈی کونسل جو کہ عوامی سطح پر فلاحی اور تعلیمی خدمات کے پیغامات پہنچاتا ہے کے مطابق چھیاسی فےصد والدین سمجھتے ہیں کہ تعلیم کی فراہمی اور بہتر تعلیم میں بچوں کی سو فیصد حاضری ضروری ہے۔ انچاس فیصد والدین کے مطابق مہینے میں تین یا چار دن کی غیر حاضری سے تعلیم کی سرگرمی پرکوئی اثر نہیں پڑتا۔بچوں کے سکول نہ آنے کی ایک وجہ والدین کو تعلیم یا سکول کو اہمیت نہ دینا ہے۔ جب والدین ہی تعلےم کو اہمیت نہیں دینے لگ جاتے ہیں نتیجتا بچے سکول کو آنے کی ترجیحات میں شامل نہیں کرتے خاص کر ابتدائی تعلیم کے مرحلے میں پرائمری سطح پر۔ والدین بچوں کے دن بہ دن کی پڑھائی کو اہمیت نہ دینے کی وجہ سے بچے اپنی مرضی سے کتاب کھولتے ہیں یا کھیلنے کودنے کے ساتھ جلدی سو جاتے ہیں۔غیر حاضری کے وجوہات میں سے اہم وجہ سکول کا ماحول بھی ہے۔ اگر سکول کے منتظمین اور اساتذہ سے لیکر طالب علم تک سب کبھی کبھی چھٹی منانے کے عادی ہیں تو بچے بھی اس رویے پر عمل کرتے ہیں۔ سکول کی ترجیحات میں بچوں کی حاضری کے حوالے سخت قوانین ہونے چاہےں۔ ان قوانین کو عملی شکل دینے کے لئے والدین کے لئے آگاہی نشتیں بھی رکھنی چاہئے تاکہ والدین آگاہ ہو اور بچوں کو سکول کی طرف راغب کر سکیں۔ سکول کا ماحول بہت سخت حد تک جارحانہ بھی نہ ہو کہ بچے نام کی حاضری کو ترجیح دیں۔ بعض اوقات اساتذہ یا ہیڈٹیچر بہت جارحیت پسند رویے رکھتے ہیں جس سے بچے اکتا جاتے ہیں۔ غیرحاضری پر بچوں کی بے عزتی اور سزا بھی سکول کے ماحول کو خراب کر دیتی ہے۔ان تمام عوامل پر احتیاط برتنا ضروری ہے۔ےہ ےاد رکھنا چاہےے کہ کسی بھی ادارے کے ملازمین کی حیثیت اجیرِ خاص کی ہوتی ہے، کیوں کہ وہ وقت کے پابند ہوتے ہیں، اور اجیرِ خاص ملازمت کے مقررہ وقت پر حاضر رہنے سے اجرت کا مستحق ہوتا ہے، اگر وہ ملازمت کے اوقات میں حاضر نہیں رہا تو اس غیر حاضری کے بقدر تنخواہ کا وہ مستحق نہیں ہوتا۔ سرکار کی طرف سے مقررہ اوقات میں سکول میں حاضر رہنے کی صورت میں ہی کوئی استاد اپنی تنخواہ کا مستحق ہوگا ،اگر چہ کوئی کام نہ ہو،مقررہ وقت سے پہلے چلے جانے، یا تاخیر سے آنے کی صورت میں غیر حاضر ی والے اوقات کی تنخواہ لینا جائز نہیں، بغیر استحقاق کے جتنے عرصے کی تنخواہ لی ہے وہ سرکاری خزانے میں جمع کروانا ضروری ہے۔اسکول میں کسی استاد کی غیر حاضری کی صورت میں اس کی حاضری لگانا خیانت اور شرعا ناجائز ہے۔ اسکول کے مستقل ملازمین کے لیے سالانہ ملنے والی چھٹیوں کے ایام میں چھٹی نہ کی جائے تو سرکار کی طرف سے ریٹائر منٹ کے بعد ان کا الگ معاوضہ ملتاہے،لہذا چھٹیاں کرنے کے باوجود سالانہ چھٹیوں کی مد میں ان کو شمار نہ کرنا خیانت ہے،اور ان چھٹیوں کا معاوضہ لینا بھی ناجائز ہے۔سرکار کی طرف سے مقررہ اوقات میں استاد کو اسکول میں حاضررہنا ضروری ہے اور اس دورانیہ میں صرف اسکول سے متعلق کام، مطالعہ، اسباق کی تیاری وغیرہ کرے تاکہ بچوں کا تعلیمی حق صحیح طور پر ادا ہو، اس میں حق تلفی یا کوتاہی نہ ہو، استاد کو ذاتی مشغولیات میں وقت صرف کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے۔اگر اسکول کے استاذ اور کلرک اپنی ذمہ داری نہیں نبھارہے اور اساتذہ کو اپنے کام کروانے کے لیے دیگر سرکاری دفاتر میں خود جانا پڑتاہے،تو اس صورت میں اساتذہ کو چاہیے کہ اپنے اسباق پڑھا کر،کوئی ایسا مناسب وقت نکالیں کہ جس سے بچو ں کی تعلیم میں حق تلفی بھی نہ ہو اور اپنے ہیڈماسٹر سے اجازت لے کر اپنے کام کے لیے کسی دفتر جائیں تو اس کی گنجائش ہے۔ ملازمت پر نہ آنے والے اساتذہ کی آمدنی جائز نہیں ہے، اور ہیڈماسٹر یا کلرک کو دی جانے والی رقم رشوت ہے، لہذا جب معلوم ہو کہ یہ ملازمت پر نہ آنے کے باوجود اپنی تنخواہ لے رہے ہیں،اور اس کے علاوہ ان کا کوئی آمدن کا ذریعہ نہیں ہے،تو ایسے ملازمین کی تنخواہ ناجائز ہونے کی وجہ سے ان کی تنخواہ کی رقم سے ان کے ساتھ کھانا پینا جائز نہیں۔صوبائی حکومتوں کے اساتذہ کی سکولوں میں حاضری یقینی بنانے کے تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہےں ، بعض پرائمری سکولوں میں کئی سالوں سے اساتذہ ڈیوٹی سے غائب ہےں جس کے باعث ہزاروں طلبہ کا مستقبل تاریک ہو رہا ہے۔محکمہ تعلیم کے افسران کی جانب سے متعدد بار رپورٹ ہونے کے باوجود ڈیوٹی انجام نہ دینے والے اساتذہ کے خلاف کاروائی نہیں کی جاتی۔ایسے سکولز بھی موجود ہیں جن کے اساتذہ کئی ہفتے سکول سے غیر حاضر رہتے ہیں اور مہینے میں ایک بار آکر پورے مہینے کی حاضریاں لگا دیتے ہیں۔ بار بار رپورٹ ہونے کے باوجود بھی محکمہ تعلیم کی جانب سے ان اساتذہ کے خلاف کسی قسم کی کاروائی عمل میں نہیں لائی جاتی جبکہ سکول سے مسلسل غیر حاضر رہنے کے باعث سکول میں موجود سینکڑوں طلبا کا مستقل داﺅ پر لگ جاتا ہے۔ سکول سے مسلسل غیر حاضر رہنے یامہینے میں ایک دو دن سکول میں حاضر ہو کر بچوں کو ان کے حق کے مطابق پڑھائی نہیں کی جاتی جس کے باعث مذکورہ کلاس کے بچے تعلیمی لحاظ سے بنیادی طور پر پڑھائی میں کمزور ہوتے جاتے ہیں۔اس لےے ضرورت اس بات کی ہے اساتذہ کی تعلےمی اداروں میں حاضری کو ےقےنی بنانے کے لےے ٹھوس و جامع اقدامات کےے جائےں تاکہ بچوں کی پڑھائی کا حرج نہ ہو۔ےوں بھی اساتذہ پر لازم ہے کہ وہ تنخواہ لےنے کے بعد قوم کے مستقبل کی رہنمائی و تدرےس کے لےے اپنا کردار ادا کرےں۔
