چیئرمین واپڈا انجینئر لیفٹیننٹ جنرل سجاد غنی نے دیامر بھاشا ڈیم اور داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کا دورہ کیا۔ اپنے دورے میں انہوں نے دونوں منصوبوں کی انتظامیہ کو ہدایت کی کہ وہ اپنے اپنے منصوبوں پر تعمیراتی کام میں تیزی لائیں تاکہ قومی اہمیت کے حامل داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اور دیا مربھاشا ڈیم کو ٹائم لائنز کے مطابق مکمل کیا جاسکے۔داسو ہائیڈرو اور پراجیکٹ سے بجلی کی پیداوار 2026 میں جبکہ دیا مر بھاشا ڈیم کی تکمیل 2028 میں شیڈول ہے۔ واپڈا داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پر دریائے سندھ کا رخ موڑنے کا اہم ہدف فروری 2023 میں جبکہ دیا مر بھاشا ڈیم پر دسمبر 2023 میں کامیابی کے ساتھ حاصل کر چکا ہے۔مین ڈیم سے زیریں جانب زیر تعمیر پل اور اپروچ روڈ رواں سال جون میں مکمل ہوں گے۔ دورے کے دوسرے مرحلے میں چیئرمین واپڈا نے داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کا دورہ کیا۔ اپنے دور ے میں انہوں نے زیر زمین پاور ہاﺅس اور ٹرانسفارمر ہال، مین ڈیم کے بائیں کنارے اور اپ سٹریم کوفر ڈیم پر تعمیراتی سرگرمیوں کا مشاہدہ کیا۔ اِس وقت پراجیکٹ کی 13سائٹس پر تعمیراتی کام بیک وقت جاری ہے۔اِن سائٹس میں زیر زمین پاور ہاﺅس،مرکزی ڈیم کے دائیں اور بائیں کناروں اور ٹرانسفارمر ہال کی کھدائی اور مضبوطی کا عمل قابلِ ذکر ہیں۔متبادل شاہراہ ِ قراقرم کی تعمیر کے لئے دو پلوں اور پانچ سرنگوں کے علاوہ کھلی جگہوں پر بھی کھدائی کا کام جاری ہے۔دیا مر بھاشا اور داسو واپڈا کے زیر تعمیراہم منصوبوں میں شامل ہیں۔ دیا مر بھاشا ڈیم کی تکمیل پرآٹھ اعشاریہ ایک ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ ہوگا جس سے 12لاکھ 30 ہزار ایکڑ اراضی زیر کاشت آئے گی اور ساڑھے چار ہزار میگاواٹ بجلی بھی پیدا ہوگی، جس سے نیشنل گرڈ کو سالانہ اٹھارہ ارب یونٹ کم لاگت اور ماحول دوست بجلی مہیا کی جائے گی۔ چارہزار تےن سو بےس میگاواٹ پیداواری صلاحیت کے حامل داسو ہائیڈروپاور پراجیکٹ کو دو مراحل میں مکمل کیا جائے گا۔دوہزار ایک سو ساٹھ میگاواٹ کے زیر تعمیر پہلے مرحلے کی تکمیل پر نیشنل گرڈ کو بارہ ارب یونٹ سستی بجلی فراہم ہوگی۔ دیامر بھاشا ڈیم پراجیکٹ ملک کی تعمیر و خوشحالی کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل منصوبہ ہے۔ گلگت بلتستان خصوصا دیامر کے عوام نے اس منصوبے کی تعمیر کیلئے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ دیامر کی سےنتےس ہزار ایکڑ زمین اس منصوبے کی زد میں آئے گی۔گلگت بلتستان کا ضلع دیامرمیں زیرتعمیرمیگا پراجیکٹ دیامر بھاشا ڈیم کا کام تیزی سے جاری ہے۔دریائے سندھ کا رخ ڈائیورژن ٹنل کی طرف موڑنے کا تجربہ کرلیا گیا تھا، پانی کا رخ موڑنے کے بعد دیامیر بھاشا ڈیم کے بند کی تعمیرکی جائے گی۔پانی کا رخ ڈائیورژن ٹنل کی طرف موڑنے کا ابتدائی تجربہ کامیاب رہا،دیامیر بھاشا ڈیم تربیلا ڈیم سے تین سو پندہ کلومیٹرکی بلندی پر بنایا جا رہاہے، ڈیم گلگت سے ایک سو پینسٹھ اور چلاس سے چالیس کلومیٹر دور دریائے سندھ کےنچلی طرف پوراہوگا۔ڈیمز ملک کی تعمیر و ترقی کیلئے ناگزیر ہیں، دیامر بھاشا ڈیم کی تکمیل سے ملکی جی ڈی پی میں نہ صرف دو فیصد اضافہ بلکہ تربیلا ڈیم کی پائیداری بھی بڑھے گی۔ ملکی مفادات میں ڈیمز کی تعمیر ہماری اولین ترجیح ہے، ہماری معاشی خود انحصاری کا دارومدار سستی بجلی اور زراعت پر ہے اور زراعت کی ترقی کا انحصار ڈیمز کی تعمیر پر ہے، اس لئے ان منصوبوں کی بروقت تکمیل نہایت ضروری ہے۔دیامیر بھاشا میں رفاہ عامہ اور عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کی تعمیر کا آغاز ہو چکا ہے جس میں مسجد، بچوں کے سکول، ہسپتال اور کیڈٹ کالج کی تعمیر شامل ہیں اور طے شدہ پروگرام کے مطابق ماڈل ویلجز کے قیام اور وہاں کی عوام کے دیگر مسائل کا حل حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ےہ منصوبہ زراعت کے لئے پانی بھی مہیا کرے گا جس سے ان علاقوں میں ترقی اور خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔ وزیراعظم شہباز شریف کہہ چکے ہےں کہ ہمارا کام ہماری ذمہ داری ہے، مجھے خوشی ہے کہ یہ منصوبہ سابق وزیر اعظم نواز شریف شروع کیا تھا اور شاہد خان عباسی نے اسے جاری رکھا اور اس منصوبے پر کام جاری ہے جو جلد مکمل ہوجائے گا۔ ہمیں امید ہے کہ یہ منصوبہ جلد مکمل ہوگا۔ڈیم سے پاکستان کی معیشت کو مدد ملے گی، ہماری زمینوں پر آبپاشی ہوگی اور بہت سے اہم معاملات اس سے منسلک ہیں، جس میں ہم فوائد حاصل کرسکیں گے۔ پاور ہاﺅسز ہمارے لیے مالی فوائد فراہم کرتے ہوئے بین الاقوامی سرمایہ کاروں کی توجہ حاصل کرنے کا سبب بھی بنیں گے اور میں یہ تجویز دوں گا کہ یہ بہتر ہوگا کہ اسے سی پیک میں شامل کیا جائے، لیکن ہمیں یہ سب بہت جلد کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم کی مقررہ تاریخ 2029 سے قبل 2026 یا 2027 تک یہ منصوبہ مکمل کرلیتے ہیں یہ ایک کرشمہ ہوگا اور یہ ممکن ہے، دنیا میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔ ہمیں مل کا کام کرنا ہوگا اور جدت کے طرف بڑھنا ہوگا، مجھے یقین ہے کہ ہمیں اس منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے درکار وقت کم از کم دو سال کم کا کوئی راستہ ضرور ملے گا۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ مسلم لیگ نون کی حکومت نے شروع کیا تھا اور اس منصوبے کے لیے زمین حاصل کرنے کے لیے فنڈز بھی ہماری ہی حکومت نے جاری کیے تھے، لیکن زمین حاصل کرنے میں خاصی مشکلات تھیں جنہیں حل کرتے ہوئے کام شروع کیا گیا۔ اگر ہم اس منصوبے کو اجتماعی قوت کے ساتھ آگے لے کر چل سکیں تو یہ پاکستان کی تاریخ میں اہم سنگ میل ہوگا، ڈیم پاکستان کی زندگی کو توانائی بخشنے کے لیے ایک اہم منصوبہ ہے۔ اس قوم کے ساتھ اس سے بڑی زیادتی کیا ہوسکتی ہے کہ 125، 130 ملین ایکڑ فٹ پانی یہاں سے گزرتا ہے اور اس میں سے ہم مشکل سے صرف پچےس تےس ملین ایکڑ فٹ پانی بچا پارہے ہیں۔ اگر ماضی میں جائے بغیر مگر ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے اگر ہم اس پانی کو بچا لیں تو یہ ہماری بہت بڑی کامیابی ہوگی اور اس کے لیے یہ ڈیم اہم کردار ادا کرے گا، یہ ترقی نہ صرف پاکستان کو مضبوط کرے گی بلکہ اس سے تربیلا ڈیم کی عمر میں بھی تےس پےنتےس سال کا اضافہ ہوگا۔ ہمارے پاس ہائیڈرل پلانٹ کی صلاحیت موجود ہے، لیکن وہ استعمال نہیں ہو رہا جبکہ ہمارے پاس وافر مقدار میں تیل اور گیس نہیں ہے۔منصوبے میں سیمنٹ اور اسٹیل کی صنعتوں کو ترقی ملے گی، منصوبے سے سولہ ہزار نوکریاں پیدا ہوں گی اور نیشنل گرڈ کوسالانہ اٹھارہ ارب دس کروڑ یونٹ پن بجلی ملے گی، ملک میں پانی کی کمی کو پورا کرنے میں مدد ملے گی اور سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچا جاسکے گا جب کہ قومی خزانے کو290 ارب کا فائدہ ہوگا۔یہ ملکی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل ہے، اس منصوبے سے بھارت کے آبی عزائم ناکام بنانے میں مدد ملے گی۔یہ بلند ترین ڈیم پاک چین دوستی کا مظہر ہوگا، ایف ڈبلیو او اس پروجیکٹ میں تےس فی صد کی شراکت دار ہے، ڈیم کی تعمیر میں مقامی وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہےں ، اس ڈیم کی بلندی 272 میٹر ہے۔ ڈیم کے لیے چودہ اسپل وے بنائے جا رہے ہےں ، کوہستان اور گلگت بلتستان میں سیاحتی سرگرمیوں کو بھی اس ڈیم کی تعمیر سے فروغ ملے گا۔ دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے سلسلے میں ضلع دیامیر میں دسمبر 2020 تک پاک فوج کے 120 دستے تعینات کرنے کی منظوری دی گئی تھی ، محکمہ داخلہ گلگت بلتستان نے آرٹیکل 245 کے تحت فوج طلب کرنے کی درخواست کی تھی، ڈیم کی تعمیر کے لیے زمین کے حصول کے دوران تھریٹ الرٹ موصول ہوئے تھے۔دریائے سندھ پر تعمیر ہونے والا یہ ڈیم دنیا کا سب سے بڑا آر سی سی ہوگا۔ ڈیم کی تعمیر سے پاکستان کے پانی ذخیرہ کی صلاحیت تےس سے بڑھ کر اڑتالےس دن ہو جائے گی۔دیامر بھاشا ڈیم کا خیال پہلی بارسن دو ہزار میں شروع ہوا تھا۔ پاکستان کی بڑھتی ہوئی توانائی کی طلب اور پانی کے بحران کے لئے ڈیم کی اہمیت مسلمہ ہے ۔ دیامر بھاشا ڈیم، ملک کی بقا اور معاشی نمو کے لئے بہت ضروری ہے ۔ جب قومیں آگے کا سوچتی ہیں تو ترقی کرتی ہیں، وہ قومیں ترقی کرتی ہیں جو مشکل فیصلے کرتی ہیں، کبھی بھی اس قوم نے بڑا کام نہیں کیا جو مشکل فیصلوں سے گھبراتی ہیں۔ بڑے فیصلوں کی وجہ سے ہی قومیں بڑی بنتی ہیں اور تیسری اور سب سے اہم چیز یہ ہے کہ وہ قومیں ترقی کرتی ہیں جو اپنے لوگوں کی قدر کرتی ہیں، ان پر سرمایہ کرتی ہیں، اس طبقے پر خرچ کرتی ہیں جو زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہوں۔ اسے انسانی ترقی کہتے ہیں کہ آپ اپنے انسانوں کی تعلیم، ان کی صحت، انصاف دینے، قانون کی حکمرانی پر کام کریں، دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں وہی قومیں آگے بڑھی ہیں جن میں یہ سب چیزیں موجود تھیں۔جو قوم دور اندیش ہوتی ہے وہ بڑی قوم بنتی ہے، چین کی ترقی کو دیکھ لیں کہ ان کے تیس سالہ منصوبے بنے ہوئے ہیں جو ان کی بہت بڑی خوبی ہے اور وہ اسی وجہ سے دنیا میں سب سے آگے نکل گئے ہیں۔تیس سال پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ چین اتنی ترقی کرے گا، چین جس تیزی سے آگے جارہا ہے اس سے دیگر قومیں خوفزدہ ہوگئی ہیں۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ یہاں قلیل المدتی فیصلے کیے گئے اور الیکشن سے پہلے مکمل ہونے والے منصوبوں پر زور دیا گیا تاکہ اگلے الیکشن میں وہ منصوبے دکھا کر ووٹ حاصل کیے جائیں۔ اللہ تعالی نے پاکستان کو دریاں کی نعمت سے نوازا ہے، پاکستان وہ ملک ہے جہاں کے ٹو سے سمندر تک بارہ موسم ہیں اور دریاﺅں کی رفتار سے ہم بجلی بناسکتے تھے۔ جب شروع میں ہماری ترقی ہوئی تو تربیلا اور منگلا ڈیم بنایا اور سستی بجلی پر پاکستان کی صنعت کھڑی ہونا شروع ہوگئی لیکن نوے کی دہائی میں درآمدی ایندھن پر بجلی بنانے کے فیصلے کیے گئے تو اس کا سب سے پہلا نقصان یہ ہوتا ہے کہ کرنٹ اکاﺅنٹ خسارے میں چلا جاتا ہے۔
