ملک اور نظام کو خطرے میں نہ ڈالیں


مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف نے کہا ہے کہ تمام جماعتیں اپنی سیاست اور مخالفت ضرور کریں لیکن پاکستان اور نظام کو خطرے میں نہ ڈالیں، حکومت کے پہلے ڈیڑھ دو سال مشکلات سے بھرپور ہوں گے اور ہمیں اس دوران مشکل فیصلے کرنے ہوں گے۔ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کے بعد شرکا سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ آپ کا واسطہ اس مرتبہ بھی ایسے لوگوں سے پڑا ہے جن کی ذہنیت مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی اور یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ہم 2013 کا الیکشن جیتے تو شروع سے ہی دھاندلی، دھاندلی کی رٹ لگنی شروع ہو گئی۔ وہ ہر روزپینتیس پنکچر کی بات کیا کرتے تھے، پھر حکومت بننے سے قبل انتخابی مہم کے دوران وہ گر کر زخمی ہو گئے، ہم سب سے پہلے ان کی مزاج پرسی کے لیے ہسپتال پہنچے اور ہم نے اپنی انتخابی مہم کو چوبیس گھنٹے کے لیے بند کردیا تھا، ہماری پارٹی کے جیتنے کے بعد میں ان کے گھر گیا کیونکہ میں سمجھتا ہوں جکہ سب جماعتوں ایک خاص ایجنڈے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ تمام جماعتیں اپنی سیاست ضرور کریں، سیاست میں مخالفت بھی ضرور کریں لیکن پاکستان اور نظام کو خطرے میں نہ ڈالیں، میں بنی گالا میں ان کے گھر گیا اور وہاں طے ہوا کہ سب اکٹھے چلیں گے، اس کے بعد ہم نے اپنا کام شروع کیا۔ اس وقت ملک میں لوڈشیڈنگ اور دہشت گردی ایک سنگین ترین مسئلہ تھا، معیشت کو سنبھالنا بہت بڑا مسئلہ تھا، اس وقت بھی پاکستان ڈیفالٹ کے قریب تھا اور فیٹف کی گرے لسٹ میں آ چکاتھا اور اس کو ہم وائٹ میں لے کر آئے۔میں بنی گالا میں مل کر آیا تو پتہ چلا کہ چند ہفتوں میں لندن میں اتحاد بن گیا ہے، طاہر القادری، موصوف اور کچھ دیگر لوگ پاکستان کے اندر دھرنوں کا پروگرام بنا رہے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے دھرنے شروع ہو گئے۔ دھرنے ہوتے رہے لیکن ہم نے اس کے باوجود کئی منصوبے شروع کیے، موٹرویز بناتے رہے، لوڈشیڈنگ ختم کرتے رہے اور بجلی کے کارخانے لگاتے رہے، دھرنے ہوتے رہے اور ہم دہشت گردی کا مقابلہ کرتے رہے۔نواز شریف نے کہا کہ دھرنوں، احتجاج، گالی گلوچ کے باوجود ہم نے قوم سے کیے تمام وعدے پورے کیے، 2017 میں جب سپریم کورٹ نے مجھے فارغ کیا، بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر وزیراعظم کو نااہل کیا گیا، ایسا نہ پہلے میں نے سنا نہ آپ نے سنا ہو گا لیکن آج وہ جج کیا کسی کو منہ دکھانے کے لائق ہیں اور وہ جج جس نے چند مہینے میں ملک کا چیف جسٹس بننا تھا وہ استعفی دے کر گھر جا رہے ہیں، یہ وہ جج تھے جنہوں نے میرے خلاف فیصلہ دیا، آج وہ سب کہاں ہیں۔ان ججوں کے علاوہ اور بھی کھلاڑی تھے، 2017  میں تو ایسا لگ رہا تھا کہ 2018 میں مسلم لیگ نون پھر جیتے گی اور زیادہ اکثریت سے واپس آئے گی، تو انہوں نے مسلم لیگ نون یا نواز شریف نہیں پہنچایا بلکہ پاکستان کو تباہ و برباد کیا ہے۔ ہمارا واسطہ ایسے لوگوں سے ہے کہ آپ کچھ بھی کر لیں، آپ جب بھی جیتیں گے تو ان کا رویہ ایسا ہی ہو گا جیسا دیکھنے میں آ رہا ہے، 2013  میں بھی یہی رویہ تھا کہ 35  پنکچر لگے ہیں، دھاندلی ہوئی ہے، وہ چار سے پانچ سال ہمارے اور نظام کے خلاف سازشیں کرتے رہے لیکن ان کے کسی بھی الزام سے نہ ڈرنا چاہیے نہ گھبرانا چاہیے۔ ہم نے عوام کی ترقی اور فلاح و بہبود کے لیے دن رات محنت کی، ڈالر 104 روپے پر باندھ کر رکھا ہوا تھا، کس کے زمانے میں ڈالر 104 سے باہر نکلا اور پھر دو سو سے بھی تجاوز کر گیا اور جو بھی ان کو لے کر آئے وہ پاکستان کے بہت بڑے مجرم ہیں اور آج پاکستان کو ٹھیک کرنا جان جوکھم کا کام نظر آتا ہے۔ یہ بہت مشکل حالات ہیں اور پاکستان کے عوام کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے، ابھی پہلے ڈیڑھ دو سال مشکل سے بھرپور ہوں گے لیکن اس دوران ہمیں ایک ہو کر رہنا ہے اور مخالفین کا بھرپور مقابلہ کرنا ہے، مجھے یقین ہے کہ اگلے ڈیڑھ دو سال میں ان مشکلات سے باہر نکل جائے گا۔ پاکستان اس وقت بہت زخمی ہے، ہمیں مل کر زخم بھرنے ہیں، میں دہائیوں سے اس ملک کو دیکھ رہا ہوں لیکن اس طرح کا زخمی پاکستان میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا، اس ملک کو مصیبتوں اور مشکلوں سے نکالنا ہے۔ ان ڈیڑھ سے دو سال میں ہمیں مشکل فیصلے کرنے ہوں گے، ہم نے چوبیس کروڑ عوام کو سکون دینا ہے اور بجلی گیس کے بلوں کو کم کرنا ہے، روپے کی قدر کو ٹھیک کرنا ہے، پاکستان کو پاؤں پر کھڑا کرنا ہے اور سوچے سمجھے منصوبے کے ساتھ چلیں گے تو یہ سفر آسان ہو جائے گا۔ شہباز شریف نے جس ہمت حوصلے کے ساتھ پچھلا ڈیڑھ سال گزارا تو یہ انہی کی ہمت ہے، ان کی جگہ میں ہوتا تو شاید میں نہ چل سکتا، ابھی بھی شہباز ہی سب سے بہترین انتخاب ہیں۔انہوں نے اس موقع پر شہباز شریف کو وزیراعظم اور سردار ایاز صادق کو اسپیکر قومی اسمبلی کے عہدے کے لیے نامزد کیا۔ مسلم لیگ نون کے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کے بعد شہباز شریف نے خطاب کرتے ہوئے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے مسلم لیگ کے اراکین قومی اسمبلی کو مبارکباد پیش کی۔ ملک کے مختلف حصوں سے آزاد حیثیت میں کامیاب ہو کر مسلم لیگ نون میں شامل ہونے والے اراکین قومی اسمبلی کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا۔2017  میں نواز شریف نے ملک میں لوڈشیڈنگ مکمل طور پر ختم کردی تھی، سی پیک کے منصوبے آپ لے کر آئے اور پوری قوم اس کی گواہ ہے۔ یہاں پر دھرنے تھے جس کی وجہ سے صدر شی جن پنگ کا دورہ ملتوی ہوا اور پوری قومی مایوسی کا شکار تھی لیکن آپ نے اس مایوسی کو پھیلنے نہ دیا اور چینی صدر اپریل 2015  میں وہ دوبارہ تشریف لائے تو معاہدے طے پائے۔نواز شریف کا شکریہ ادا کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ آپ نے ملک کے چاروں صوبوں کو موٹروے سے جوڑ دیا، موٹروے کا بانی کوئی اور نہیں بلکہ آپ ہیں، اسی طریقے سی آپ نے کراچی کا امن واپس بحال کیا، کراچی کے تباہ شدہ کاروبار کو رونقیں لوٹائیں اور لوگوں نے سکھ کا سانس لیا۔ دہشت گردی کی آگ دیکھ کر لگتا تھا کہ یہ آگ کبھی بجھ نہیں پائے گی، افواج پاکستان کے جوانوں، پولیس، ڈاکٹر اور اس عوام نے عظیم قربانیاں دیں لیکن آپ کی ہی قیادت میں دہشت گردی کی اس آگ کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ نواز شریف نے جو منصوبے لگائے ان کی تختیاں گننے میں مہینوں لگ جائیں گے لیکن اس کے بدلے آپ کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا، یہاں جلاؤ، گھیراؤ اور جی ایچ کیو پر حملے جیسے واقعات ہوئے لیکن آپ نے آپ نے صبر سے کام لے کر منفی قوتوں کا مقابلہ کیا، عدالتوں کا سامنا کیا۔ نواز شریف نے جعلی نے جھوٹے مقدمات کا سامنا کیا لیکن کبھی نہیں کہا کہ فلاں میر جعفر ہے، فلاں غدار ہے، اداروں کے خلاف اس ملک میں ایسی بدترین زبان استعمال کی گئی۔ انہوں نے کہاکہ انتخابات میں بعض جگہوں پر ہمیں کامیابی ملی لیکن بعض جگہوں پر نواز شریف پر مر مٹنے والے کارکن  ہار گئے، اس کا مطلب ہے کہ ہم جو ہار گئے وہ ٹھیک ہارے اور جو جیت گئے وہ غلط جیتے، یہ دوغلا پن ہے، خیبر پختونخوا میں ان کی اکثریت آئی ہے تو کیا وہاں سب دھاندلی ہوئی ہے، ہم پنجاب میں جیتے ہیں تو وہ دھاندلی اور جہاں ہارے ہیں وہ ٹھیک ہارے ہیں، یہ انا، تکبر اور رعونت ہے، کبھی کسی نے اس طرح کی سوچ اختیار نہیں کی اور یہی وہ سوچ ہے جس نے پاکستان کو تباہی کے کنارے لا کھڑا کیا ہے۔ صدر پاکستان ایک مرتبہ پھر آئین کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں اور آئین کو تار تار کررہے ہیں، اسمبلی کا اجلاس بلانا ان کا آئینی فریضہ تھا جس کو انہوں نے نظرانداز کیا اور عمران خان کے نیازی کے اشارے پر ایسا کیا۔نامزد وزیر اعظم نے کہا کہ صدر مملکت نے جس طرح ماضی میں تحریک عدم اعتماد کے موقع پر آئین کی خلاف ورزی کی، اسی طرح آج وہ پھر آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں، خیبر پختونخوا میں حلف لیا جا رہا ہے تو وہ آئینی ہے اور یہاں آئینی نہیں ہے، اس دوہرے معیار نے ہماری جڑوں کو کاری ضرب لگائی ہے۔نواز شریف کا یہ کہنا درست ہے کہ ملک اور نظام کو خطرے میں نہ ڈالیں ہم سمجھتے ہیں کہ جنہیں صوبوں میں وزارت اعلی کا موقع مل رہا ہے وہ اپنے صوبوں میں عوام کی خدمت کریں اور جنہیں وفاق میں موقع مل رہا ہے وہ مجموعی طور پر ملک و قوم کی خدمت کو اپنا ہدف بنائیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ خیبر پختون خوا میں حکومت بنائیں مرکز میں عقل و شعور سے کام لے کر ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں، غیر ضروری مزاحمت اور بیان بازی سے گریز کریں، مظاہروں، احتجاج سے صرف نقصان ہونا ہے اگر مزید نقصان کرنا ہے تو سڑکوں پر آئیں لیکن یہ ضرور یاد رکھیں کہ منفی سیاست ہر وقت برداشت نہیں ہوتی۔ قومی اسمبلی میں ملک کے بہتر مستقبل کے لیے کام ہونا چاہیے نہ کہ سیاسی قائدین اس فورم کو صرف اور صرف ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کے لیے استعمال کریں اور گھنٹوں ایک دوسرے پر الزامات لگا کر ملک و قوم کا وقت اور سرمایہ ضائع کرتے رہیں۔ہمارے ملک کی بد قسمتی ہی کہہ لیں کہ ہمارے ملک کو قائداعظم اور خان لیاقت علی خان کے بعد کوئی مخلص لیڈر نہیں ملا جو بھی آیا اس نے سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور بیورو کریسی کا تحفظ کیا سیاست دان جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو عوام دشمن پالیساں بنا کر عوام کو لوٹتے ہیں انہیں عوام کی فکر نہیں ہوتی ان حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ مل جل کر ملک کو اس نازک صورتحال سے نکالیں کیونکہ یہ کسی ایک پارٹی کا کام نہیں ہے یہ سوچا جانا چاہیے کہ ملک ہے تو ہم سب ہیں۔