وزیراعلی گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے سویٹ ہوم گلگت کے بچوں کی بہتری رہائش، خوراک اور تعلیم و تربیت کے حوالے سے محکمہ سوشل ویلفیئر اور پاکستان بیت المال کے مابین مفاہمتی یاداشت پر دستخط کرنے کے حوالے سے منعقدہ تقریب کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ معاشرے کے نادار اور غریب بچوں کی دیکھ بھال اور ان کی تعلیم و تربیت کےلئے صوبائی حکومت سنجیدہ اقدامات اٹھا رہی ہے۔ اس حوالے سے پاکستان بیت المال اور محکمہ سوشل ویلفیئر کے مابین دستخط کئے جانے والے مفاہمتی یاداشت کی منظوری صوبائی کابینہ میں دی گئی تھی۔ پہلی مرتبہ سویٹ ہوم کے بچوں کی رہائش کےلئے محکمہ سوشل ویلفیئر کی جانب سے تعمیر کئے جانے والا دارالامان کا کچھ حصہ پاکستان بیت المال کو دیا جارہا ہے جس میں بچوں کی بہترین رہائش، ان کو اچھا کھانا فراہم کرنا اور ان کی اچھے سکولوں میں تعلیم کی ذمہ داری پاکستان بیت المال کی ہوگی۔ معاشرے کے نادار طبقے کی فلاح و بہبود اور بہتری کےلئے ہر ممکن اقدامات کئے جائیں گے۔ وزیر اعلی نے اس موقع پر صوبائی وزیر سوشل ویلفیئر دلشاد بانو اور سیکریٹری سوشل ویلفیئر کو ہدایت کی کہ دیگر اضلاع میں بھی یتیم بچوں کی پرورش اور تعلیم کےلئے سویٹ ہوم کے منصوبے کو وسعت دی جائے۔محکمہ سوشل ویلفیئر اور پاکستان بیت المال کے مابین مفاہمتی یاداشت پر دستخط خوش آئند ہے۔معاشرے میں ضرورت مندوں کی مدد کرکے احساس محرومی کا خاتمہ ممکن ہے۔ ہمارے ہاں وسائل کی کمی ہرگز نہیں، بلکہ تقسیم کا طریقہ کار کمزور ہے۔ معاشرے میں غریب، نادار بچوں کا معیار زندگی بہتر بناکر ان کی صلاحیتوں سے مستفید ہوکر صحت مند معاشرے کو پروان چڑھایا جاسکتا ہے۔ہمیں نئی نسل میں آگہی پیدا کرنا ہوگی کہ ہمیں اپنے کام کاج کے ساتھ احساس محرومی کے خاتمے کے لیے دوسروں کی مدد بھی کرنا ہے ۔وہ بچے جو ماں یا باپ کی شفقت سے محروم ہو گئے یا ناموافق معاشی حالات کا سامنا کر رہے ہیں ان کی تعلیم و تربیت اور صحت کی ضروریات پوری کرنا ہم سب کی مذہبی اور سماجی ذمہ داری ہے۔ بچے وہ معصوم کلیاں اور کونپلیں ہوتے ہیں جو کسی بھی معاشرے کا حسن ہوتے ہیں۔ قوموں اور ملک کے مستقبل کا انحصار انہی پرہوتا ہے۔ یہ گھروں کی رونق ہوتے ہیں۔ یہ بچے پڑھ لکھ جائیں تو کل کون کیا بنے گا۔ انہی بچوں میںسے پڑھ لکھ کر کوئی ڈاکٹر بنتاہے ، کوئی انجینیئر ، کوئی قانون دان، کوئی سیاست دان تو کوئی صحافی ، الغرض زندگی کے مختلف شعبوںسے وابستہ ہو کروہ ملک و قوم کی خدمت میں حصہ لیتے ہیں۔ یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا غریب کا بچہ جو دوقت کی روٹی کے لئے ترس رہاہے، ایسے بچے جن کا نہ کوئی گھر ہے نہ ٹھکانہ ،جو والدین کے ہوتے ہوئے بھی یتیمی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں اور مختلف سڑکوں اور گلیوں کی خاک چھانتے پھر رہے ہیں جو آج کسی فٹ پاتھ پر توکل کسی دوسری گلی کی نکڑپراور تیسرے دن کسی بڑے پائپ میں تو کبھی کسی دکان کے آگے بسیرا کرتے دکھائی دیتے ہیں،ایسے بچوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ کیا ان بچوں کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔آخر ان معصوموں کا کیا قصور ہے ۔ مستقبل کے ان معماروں کا اپنا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ کیا یہ ریاست کی ذمہ داری نہیں کہ وہ ان معصوموں کو ان کے حقوق دے، انہیں تعلیم اور دو وقت کی روٹی فراہم کرے۔ اگر کسی قوم نے ترقی کی راہ پر گامزن ہونا ہو تو وہ سب سے پہلے اپنے مستقبل کے معماروں کی طرف توجہ دیتی ہے۔ اگر قوم اپنے معماروں کی تعلیم و تربیت میں کوتاہی کرتی ہے تو اس قوم کو زوال گھیر لیتا ہے مگر افسوس ہم یہ سب نہیں سوچتے ۔ہم تیسری دنیا کے لوگ صرف پہلی دنیا کی تقلید کرنا جانتے ہیں۔ وطن عزیز میں نہ تو غربت کو کم کرنے کے لئے کوئی منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور نہ ہی مہنگائی میں کمی ہوتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا بھر میں غربت ، محرومی ، عدم مساوات کے انسداد اور غریب و نادار افراد کی فلاح و بہبود کے منصوبوں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے مختلف سیمینار اور خصوصی پروگرام ترتیب دیئے جاتے ہیں تا کہ غریبوں کے بچوں کی تعلیم ، صحت ، تفریح اورذہنی تربیت ہو سکے تاکہ یہ بچے بھی معاشرے کے مفید شہری بن سکیں۔ ہمارے ہاں ہر سال بچو ں کا عالمی دن بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ تقاریب کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ غریبوں کے بچوں کے حوالے سے کافی بات چیت ہوتی ہے انکی بہتری کیلئے خوب غور وفکرکیاجاتاہے۔ تقاریر بھی ہوتی ہیں لیکن افسوس یہ تقاریر صرف تقاریرہی ہوتی ہیں ان پرکسی سطح پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوتا۔ یہ معصوم بچے ہمارے قوم کا مستقبل ہیں۔ ہمارا سرمایہ ہیں ہمیں ان کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ یہ صرف ریاست کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ان پھولوں کو مرجھانے سے بچائیں۔غور طلب بات ےہ ہے کہ کیا ہم ان بچوں کےلئے صحت ، تعلیم و تفریح کی بنیادی سہولتیں مہیا کررہے ہیں۔ کیا ہم ان معصوم پھولوںکے ساتھ نرمی سے، محبت سے پیش آتے ہیں۔ گھروں میں ، ہوٹلوں میں اور دیگر کاروباری مراکز میں کام کرنے والے مجبور بچوں سے اپنی اولادوں جیسا سلوک کرتے ہیں؟ سڑکوں پر گاڑیاں صاف کرتے بچوں ، کوڑا کرکٹ اٹھانے والوں یا پھر بھیک مانگنے والے بچوں کی پڑھائی کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔ ہرکوئی ان کو دیکھتا ہے، کوئی انہیں بھکاری سمجھ کر حسب توفیق بھیک دیتا ہے یا پھران سے اپنی گاڑی صاف کروا کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ اکثر لوگ ان غربت کے ماروں کو دھتکاردیتے ہیں لیکن کوئی انکے طرز زندگی پر غور نہیں کرتا بلکہ ان کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ بچوں کی تربیت اور تعلیم کسی فرد واحد کا کام نہیں ،اس میں ریاست اور عوام دونوں کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی ہوتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وطن عزیز میں اتنی مہنگائی ہے کہ ایک فرد کی کمائی سے گھر چلنا ناممکن ہو چکا ہے۔ اس لئے چھوٹے چھوٹے بچوں سے محنت مزدوری لی جاتی ہے۔والدین اپنے دل پر پتھر رکھ کر ان معصوموں کو مشقت پر لگا دیتے ہیں۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ان معصوموں کے ہاتھوں میں قلم اور کتابیں ہونی چاہےں ۔ہمارے ہاں بڑی تعداد میں غربت کے مارے بچے چھوٹی فیکٹریوں ، ہوٹلوں، کارخانوں ، اینٹوں کے بھٹوں اور دوسرے کاروباری مراکز پر کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان غریبوں کو بھی دنیا میں جینے کا حق ہے۔ بلاشبہ یہ بچے خواہ غریب کے ہوں یا امیر کے ہمارا سرمایہ افتخار ہیں۔ ہمار ا اور ہماری قوم کا مستقبل ہیں۔ان کی بہترین پرورش پر ہمیں توجہ دینی چاہئے۔ جب تک ریاست اور معاشرہ ان غریبوں کے لئے بنیادی سہولتیں مہیا نہیں کریں گے، تعلیم ، صحت و علاج معالجے کے مواقع فراہم نہیں کریں گے، یہ غربت کے مارے بچے کوڑا کرکٹ سے اپنے لئے رزق تلاش کرنے پر مجبور رہیں گے۔ فضا میں اڑتی دھول کو اپنی سانسوں میں کھینچتے رہیں اور اسی کو اپنا مقدر سمجھتے رہیں گے۔ ہمیں اس بات کی قطعی فکر نہیں ،ہمیں تو صرف تقلید کرنی آتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں غریبوں کی حالت کو بہتر بنانے کے لئے کوئی لائحہ عمل تیار نہیں کیا جاتا ،نہ ہی صاحب اختیار ملک میں غربت کے خاتمے کے لئے بہتر پالیسیاں وضع کرتے ہیں اورنہ کوئی اقدامات کرتے ہیں جس سے ملک میں غربت ختم ہو سکے۔ ہماری ناقص پالیسیوں کی وجہ سے روز بروز غربت میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ صورت حال جو ںکی توں ہے بلکہ غربت میں اضافے کے ساتھ عوام کی قوت خرید میں بھی کمی آتی جا رہی ہے۔ عام طور پر بڑھتی ہوئی غربت اور مہنگائی کو ہی بیان کیا جاتا ہے مگر یہ بات درست نہیںکیونکہ جو بچے کام کر رہے ہیں وہ مکمل طور پر اپنے خاندانوں کے لئے سہارا نہیں بن سکتے کیونکہ ان کی کمائی بہت تھوڑی ہوتی ہے جس سے پورے خاندان کی کفالت ممکن نہیںہو سکتی ۔ لوگ بچوں سے محنت مزدوری اس لئے بھی کرواتے ہیں کیونکہ انہیں بہت کم تنخواہ پر ملازم رکھا جا سکتا ہے ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں میں بڑھتی ہوئی محنت مزدوری کی وجہ بہتر تعلیم و تربیت کا فقدان ہے۔ کیا ہمیں اس بات کی خبر نہیں کہ ان معصوموں سے مزدوری کروانا اخلاقی طور پر بھی جرم ہے۔ کسی بھی ملک یا معاشرے میں جب بچوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہو جائیں، ان کی تعلیم و تربیت متاثر ہونے لگے یا پھر ان کی نشو ونما متاثر ہو جائے یا ان کے کھیلنے کودنے کی راہ میں مشکلات او ررکاوٹیں کھڑی کر دی جائیں تو پھر ایسے ملک یا معاشرے میں اس قسم کے سوال اٹھتے ہیں کہ بچوں کے بنیادی حقوق کہاں گئے ۔ان حقوق کو یقینی بنانا کس کی ذمہ داری ہے، آیا ریاست کی یا معاشرے کی؟ معاشرے میں معمولی تنخواہ کے بدلے ان معصوم بچوں کی خدمات خریدلی جاتی ہیںاور پھر انہیں بنیادی حقوق سے بھی محروم کردیا جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ اس دنیا میں پیدا ہونے والے ہر بچے کو جینے کا حق حاصل ہو اور وہ بھی دنیا میں ایک خوش و خرم زندگی بسر کر سکے۔ہم سمجھتے ہےں کہ ان غرےب اور نادار بچوں کی کفالت اور تعلےم و تربےت کے لےے سوےٹ ہوم اوربےت المال اہم کردار ادا کر رہے ہےں‘اس ضمن میں تےزی سے مزےد پےشرفت کی ضرورت ہے ۔
