وزیر اعلی گلگت بلتستان کے ترجمان فیض اللہ فراق نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان کے صحافیوں نے نامساعد حالات کے باوجود انتظامی اور سیاسی میدان میں اصلاحات میں اپنے حصے کا کردار ادا کیا ہے وفاق نے گلگت بلتستان کی ترقی کے لیے جتنے اقدامات اٹھائے ہیں ان میں مقامی صحافیوں کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے صوبائی حکومت اپنی بساط کے مطابق صحافیوں کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرتے ہوئے ان کو درپیش تمام مسائل حل کرے گی۔ ایوان صحافت اور ایوان حکومت میں خوشگوار تعلقات قائم کرتے ہوئے معلومات تک بروقت رسائی اور صحافیوں کے مسائل کے حل کے لیے کسی طرح کی کوتاہی نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعلی گلگت بلتستان صحافیوں کی بہتری کے بارے میں سوچتے ہیں موجودہ دور میں ہم سب نے مل کر قیام امن اور علاقے کی تعمیر و ترقی کے لیے کردار ادا کرنا ہے ہم سب نے ایک قوم بننا ہے صرف حکومت کی وجہ سے علاقے میں ترقی نہیں ہو سکتی عوام نے حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے ہیں ۔میڈیا کے ساتھ مل کر گلگت بلتستان کی تعمیر و ترقی کو یقینی بنائیں گے حکومت تنقید برائے اصلاح کو کھلے دل سے تسلیم کرے گی اور ہم سب نے مل کر ڈس انفارمیشن اور مس انفارمیشن کا مقابلہ کرنا ہے دور جدید میں ڈیجیٹل جنگ میں صحافیوں کا کردار صف اول کا ہے قلیل آبادی کے باوجود گلگت بلتستان کو اگر ہم مثالی خطہ نہ بنا سکیں تو لمحہ فکریہ ہے صوبے میں ہم دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کا دعوی نہیں کریں گے لیکن اپنی استعداد کے مطابق علاقے کی ترقی کے لیے بھرپور اقدامات ضرور اٹھائیں گے۔صحافیوں کو معلومات کی فراہمی میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کی جائے گی صحافیوں کی بہتری کے لیے قانون سازی میں آسانیاں پیدا کی جائیں گی وسائل کی کمی کے باوجود گلگت بلستان کے صحافی قومی اور بین الاقوامی سطح پر علاقائی مسائل کو بہتر انداز میں اجاگر کرتے ہیں ہماری خواہش ہے کہ صوبے کے صحافیوں کو بھرپور وسائل فراہم کیے جائے تاکہ علاقے کی قومی سطح پر اچھے انداز میں ترجمانی ہو سکے ۔ےہ حقےقت ہے کہ مس انفارمیشن و ڈس انفارمیشن اور فیک نیوز پوری دنیا کا اہم مسئلہ ہے، سوشل میڈیا پر سب سے بڑا چیلنج جعلی خبریں ہیں، ہمارے ہاں ڈس انفارمیشن کے ذریعے پیسے کمانے کا رجحان عام ہوتا جا رہا ہے۔تیزی سے تبدیل ہوتی اس دنیا کے مسائل بھی تیزی سے تبدیل ہو رہے۔ ڈیجیٹل میڈیا پر بڑھتی ڈس انفارمیشن ایک ایسا مسئلہ ہے، جس سے نمٹنے کے لیے بڑے بڑے ادارے اپنے تئیں کوشاں ہیں۔ ہر طرف ڈس انفارمیشن کا پھیلاوو اپنا رنگ دکھاتا ہے اور اس حد تک اثر انداز ہوتا ہے کہ رائے عامہ میں تبدیلی لاکر حکومتیں بناتا اور گراتا ہے۔ صحافت کے لیے سازگار ماحول کی کمی کے باعث بہت سے صحافیوں نے سوشل میڈیا خاص کر یوٹیوب اور فیس بک کا رخ کیا ہے۔ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس 2023کے مطابق 180 میں سے 118ممالک میں کرائے جانے والے سروے کے شرکا کا کہنا تھا کہ ڈس انفارمیشن پھیلانے میں سیاسی جماعتیں بھی ملوث ہوتی ہیں اور یہ سب کچھ ان لوگوں کے ذریعے کرایا جاتا ہے، جو بظاہر غیر جانبدار اور معیاری صحافت کے دعوے دار ہوتے ہیں۔بعض لوگ صحافےوں کے روپ میں ڈس انفارمیشن کے ذریعے ماہانہ دو سے تین لاکھ روپے تک کما رہے ہےں۔ صحافت کا سب سے بڑا اصول یہ ہے کہ ہر بات کو تصدیق کر کے شائع کیا جائے کیونکہ غلط خبروں کی ترسیل معاشرے میں انتشار کا باعث بنتی ہے اور اس کو ہائبریڈ وار فئیر میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ڈس انفارمیشن کی مارکیٹ اتنی پرکشش ہے کہ اس سے ویوز ملنے کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں، کئی صحافی اس سے نام اور پیسہ کما رہے ہیں، جو کہ غلط ہے۔ہر صحافی کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ خبر کی خود تصدیق کرے۔ پاکستان میں ادارے بین الاقوامی اداروں کے تعاون سے فیکٹ چیکنگ کی ٹریننگ تو دیتے ہیں مگر میڈیا ہاﺅسز اس کام کے لیے الگ سے ملازمین ہائر نہیں کر سکتے کیونکہ یہ نہ صرف ایک مہنگا کام ہے بلکہ اس سے بہت کم مالی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر دس میں سے نو افراد یہ سمجھتے ہیں کہ ڈس انفارمیشن بہت بڑا مسئلہ ہے۔ فیس بک یا یو ٹیوب کی کمیونٹی گائیڈ لائنز کے مطابق ڈس انفارمیشن کو پلیٹ فارم سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ تاہم پاکستان جیسے ممالک میں ڈس انفارمیشن یا غلط خبریں مقامی زبانوں میں پھیلائی جاتی ہیں ایسے میں ان پلیٹ فارمز کے لیے ان خبروں کو سمجھنا اور بلاک کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔فیک نیوز زیادہ تر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے پھیلائی جاتی ہیں۔ڈیپ فیک، آرٹیفیشل انٹیلیجنس، فیکٹ چیک پروسس، بوٹ فیک اور جدید صحافتی طریقوں سے ہم آہنگ ہو کر صحافی اپنی کریڈیبلیٹی کو نکھارتے ہیں۔ نجی اداروں کے علاوہ حکومتی اداروں میں بھی فیکٹ چیکنگ کی ٹریننگز دی جا رہی ہیں۔اگر نجی یا سرکاری اداروں کے صحافیوں کی رائے کو مدنظر رکھا جائے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ٹریننگز اور فیکٹ چیکنگ تو ہر جگہ ہو رہی ہے لیکن پھر بھی ڈس انفارمیشن پھیلائی جا رہی ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس بھی ڈس انفارمیشن کے حوالے سے زیر بحث ہے۔ یورپی یونین ریسرچ اینڈ انوویشن میگزین، ہورائزن کے مطابق آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ذریعے ڈیپ فیک تصاویر، ویڈیوز اور آوازیں بنائی جا سکتی ہیں، جن کو پہچاننا مشکل عمل ہے۔اس لےے صحافیوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ڈس انفارمیشن کو ذریعہ معاش نہ بنائیں کیونکہ یوٹیوب پر ایسے چینلز کی بھرمار ہے، جو غلط خبروں کی پھیلا رہے ہیں۔ ملک کے ذمہ دار شہری ہونے کے ناتے ہمیں پاکستان کے خلاف دشمنوں کے پھیلائے ہوئے پراپیگنڈے کو مسترد کرنا چاہئے، نوجوانوں کو مستند معلومات پر انحصار کرنا چاہئے۔سوشل میڈیا پراپیگنڈے کا مقصد بے یقینی، افراتفری اور مایوسی پھیلانا ہے۔اِس کے ذریعے جاری ہونے والی خبروں کی تحقیق بہت ضروری ہے، تحقیق اور مثبت سوچ کے بغیر معاشرہ افراتفری کا شکار رہتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق نوجوان سب سے زیادہ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں،جھوٹی خبروں پر یقین کرتے ہیں اور جانے انجانے ایسی خبریں پھیلانے والی قوتوں کا آلہ کار بن جاتے ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں دشمن ممالک نے پاکستان کے خلاف سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا ہے،اِس کی بہت بڑی مثال یورپ میں موجود ڈس انفو لیب کی رپورٹ ہے جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ بھارت پندرہ سال سے پاکستان کے خلاف مختلف ویب سائٹس کے ذریعے لابنگ اور پراپیگنڈہ میں مصروف تھا۔ پلوامہ حملے کے بعد جھوٹی تصویریں اور ویڈیوز بنا کر عام کی گئیں۔ابھی حال ہی میں جب ایران نے پاکستان میں میزائل داغے تو بھارت نے تنازعہ بڑھانے کی بھرپور کوشش کی، سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلوں پر بڑھا چڑھا کر معاملے کو پیش کیا۔اِس کے علاوہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو ملک سے باہر بیٹھ کر ہزاروں سوشل میڈیا اکاﺅنٹس کے ذریعے پراپیگنڈہ مہم چلا رہے ہیں۔ملک کے اندر بھی ایسی کئی منظم حرکتیں کی جاتی ہیں۔صحافی ارشد شریف کے کینیا میں قتل کے فورا بعد ہی پراپیگنڈہ مہم کا آغاز ہو گیا، بغیر تحقیقات کے ہی ان کے قتل کے ذمہ داران کا تعین کر دیا گیا۔آج پاکستانی معاشرے میں جتنی بھی تقسیم سیاسی بنیادوں پر نظر آتی ہے اِس کا سہرا کافی حد تک سوشل میڈیا کے سر ہے۔سوشل میڈیا کے ذریعے اتنا جھوٹ پھیلایا جاتا ہے کہ وہ سچ لگنے لگتا ہے۔میمز بنا کر کسی کو بھی مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے،ہتک کی جا رہی ہے۔دراصل سوشل میڈیا کے ذریعے جھوٹی خبر پھیلانا یا حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا بہت آسان ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی طرح وہاں کوئی گیٹ کیپر نہیں بیٹھے ہوئے، جو خبر کی سچائی جانچ کر اسے چھاپنے یا نشر کرنے کا فیصلہ کریں،سوشل میڈیا تو شتر بے مہار ہے، حالانکہ سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائی جانے والی فیک نیوز اور ڈس انفارمیشن کے خلاف ایف آئی اے کا سائبر ونگ کام کر رہا ہے، پی ٹی اے اور پیکا آرڈیننس بھی موجود ہے لیکن عملی طور پر اس کے اب تک خاص فوائد نظر نہیں آئے، بہت سے لوگوں کو اِس کے بارے میں معلوم ہی نہیں ہے۔سوشل میڈیا اگرچہ اپنی آواز اٹھانے کا بہترین ذریعہ ہے، اظہارِ رائے کا حق دیتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کو یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ دراصل آزادی اظہارِ رائے ہے کیا اور کہیں اس کی آڑ میں آپ دوسروں کے حقوق تو مجروح نہیں کر رہے، ان کی حق تلفی تو نہیں ہو رہی۔گو جدید ٹیکنالوجی بشمول مصنوعی ذہانت، ڈیپ فیک، وائس کلوننگ، جعلی ویڈیوز، جعلی ٹیکسٹ اور جعلی گرافکس نے سچ اور جھوٹ کی پہچان کافی مشکل کر دی ہے،اس لیے اِس وقت فیکٹ چیک لیبز بنانا ازحد ضروری ہے تاکہ لوگوں تک صحیح معلومات پہنچائی جا سکیں، لوگوں کو بتایا جا سکے کہ جھوٹ کیا ہے اور سچ کیا ہے،دنیا بھر میں اس کا راستہ روکنے کے لیے تحقیقات ہو رہی ہیں، آرٹیفیشل انٹیلی جنس پر کام ہو رہا ہے، پاکستان کو بھی اِس طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔صحافےوں پر بھی لازم ہے کہ وہ حقائق کی موجودگی کے بغےر خبر کی نشرو اشاعت سے گرےز کرےں تاکہ اس سے بے چےنی پےدا نہ ہو۔
