گلگت بلتستان اور ایڈونچر سیاحت

وزیر سیاحت و خوراک غلام محمد نے کہا کہ گلگت بلتستان کے سیاحتی علاقہ یاسین میں فائیو سٹار ہوٹل کی تعمیرسے گلگت بلتستان میں سیاحت کے فروغ میں مدد ملے گی۔انہوں نے کہا کہ کسی بھی علاقے میں نجی اداروں کے قیام سے علاقے میں ترقی اور ملازمت کے مواقع میسر آئیں گے۔ یاسین سندھی کے مقام پر فائیو سٹار ہوٹل کا قیام گلگت بلتستان کی سیاحت اور ترقی میں ایک خوشگوار تبدیلی ہے۔ گلگت بلتستان میں سیاحت کے بے پناہ مواقع دستیاب ہےں گزشتہ سال صرف ایڈونچر سیاحت سے چالےس کروڑ کی آمدنی ہوئی۔ یاسین میں فائیو سٹار ہوٹل کے قیام کےلئے ہوٹل انتظامیہ کو جس لیول کا حکومتی تعاون درکار ہوگا گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت فراہم کرنے کے لئے تیار ہے۔ یہ میرے لئے ایک دلچسپ عجوبہ سے کم نہیں کہ یاسین میں ہم فائیو سٹار ہوٹل کا سنگ بنیاد رکھ رہے ہیں، گلگت چترال ایکسپریس وے اور گوپس یاسین روڑ ہمارے علاقے کےلئے گیم چینجر ثابت ہونگے۔ یاسین میں فائیو سٹار ہوٹل کا قیام سکوک چین اینڈ ویلنس جیسے ویل نون ادارے کی جانب سے گلگت بلتستان کےلئے ایک تحفہ ہے۔ قدرت نے گلگت بلتستان کو قدرتی حسن سے نوازا ہے اور گلگت بلتستان کے مستقبل کا تعلق بھی سیاحت کے ساتھ وابستہ ہے۔ہمیں آنے والے وقت میں سیاحت سے فائدہ اٹھانے کےلئے تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے ہم نے ہاشوفاﺅنڈیشن اور کالج آف ہسپیٹلیٹی اینڈ ہوٹل منیجمنٹ کےساتھ سرکاری طور پر ایم او یو سائن کیا ہے۔ گزشتہ سال نو لاکھ سیاح گلگت بلتستان آئے ان میں سولہ ہزار غیر ملکی اور دو ہزار ایڈونچرز سیاح تھے۔ سیاحت کی ترقی میں خطے کے حساس ماحولیاتی نظام کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔ قدرتی حسن اور سیاحت کے وسائل کے لحاظ سے ےہ خطہ ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ اس خطے میں بہت بڑا جغرافیائی تنوع پایا جاتا ہے جو کہ ایڈونچر سیاحت کے لیے بڑی گنجائش فراہم کرتا ہے۔ےہاں ایڈونچر سیاحت کو فروغ اور ترقی دینے کےلئے حکمت عملی کو فعال بنانے اور اس پر عمل درآمد کی رہنمائی کےلئے ایڈونچر سیاحت کے لیے ایک بورڈ تشکیل دیا جائے۔ ایڈونچر کھیلوں کی سرگرمیوں کو شروع کرنابھی بہت ضروری ہے۔ ےہاں مختلف سیاحتی مصنوعات اور مقامات کے بارے میں بیداری پیدا کی جائے تاکہ خطے میں سیاحت کو بڑھایا جا سکے۔سیاحت کے بزنس میں سرمایہ لگانے والے افراد کا مقامی ایکو سسٹم یعنی موسم، جنگلی حیات، ماحول اور قدرت کے نظام کو نہ سمجھنا بھی ایک مسئلہ ہی ہے، ہم نے کالام میں دریائے سوات کے بیچوں بیچ کھڑے ہوٹلز کو سیلاب میں بہتے دیکھا۔ہم جانتے ہں کہ نیپال کے دور دراز جنگلات اور نیشنل پارکس مثلا چتون نیشنل پارک میں قدرتی حیات کو دیکھنے کے لیے جیپ کا سفر کیا جاتا ہے، مقامی سرمایہ کاروں کو اس طرف بزنس نظر آیا تو انہوں نے دھڑا دھڑ گروپس جنگل میں لے جانے شروع کردیے، اب وہاں سیاح تو نظر آتے ہیں قدرتی حیات وہاں سے بھاگ گئی۔پاکستان کے لےے ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کا چیلنج بھی ہے۔ سیاحت کےلئے پاکستان ماحولیاتی آلودگی کی بڑی قیمت ادا کر سکتا ہے؟ہمیں فطرت دوست سیاحت کے نئے انداز اپنانا ہوں گے، نئی جہتوں کی جانب سوچنا ہو گا۔پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں وہ سب کچھ ہے جس کی خواہش ایک سیاح اور بالخصوص مہم جوئی کے شوقین لوگ کر سکتے ہیں۔بہت سے سیاح ہر سال اپنی سالانہ تعطیلات کے موقع پر کسی نہ کسی ملک میں ایڈونچر یا مہم جوئی کی سیاحت کے لیے جاتے ہیں۔سیر و سیاحت کے حوالے سے مستند سمجھے جانے والا امریکی میگزین سی این ٹریولر پاکستان کو سیر و سیاحت کے لیے بہترین مقام قرار دے چکا ہے اور بین الاقوامی تنظیم برٹش بیک پیکر سوسائٹی نے پاکستان کو ایڈونچر ٹورازم کےلئے دنیا کا تیسرا بہترین مقام قرار دیا تھا۔ لونلی پلانیٹ نے ممالک، خطوں، شہروں، بہترین ویلیو ٹریول کی کیٹیگریز میں پچاس مقامات کے ناموں کا اعلان کیا تھا جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔2024 میں سیاحت کے لیے بہترین ممالک میں منگولیا کا نام سرفہرست ہے جس کے بعد بھارت، مراکش، چلی، بینن، میکسیکو، ازبکستان، پاکستان، کروشیا اور سینٹ لوشیا بالترتیب دو سے دس نمبروں پر موجود ہیں۔کمپنی کے مطابق2024کے لیے ہمارے انتخاب کیے گئے مقامات کی سیاحت لوگوں کے لیے زبردست ایڈونچر ثابت ہوگی۔لونلی پلانیٹ کی جانب سے کہا گیا کہ اکتوبر کا مہینہ پاکستان میں سیاحت کے لیے بہترین ہوتا ہے جب مون سون کا سیزن ختم ہو جاتا ہے جبکہ خزاں کے رنگ وادی ہنزہ میں نمایاں ہوتے ہیں۔ پاکستان کی وادیاں اور برف سے ڈھکی کوہ ہمالیہ کی چوٹیاں دیکھنے والوں کو دنگ کر دیتی ہیں۔ایڈونچر ٹورازم میں ہر وہ کام شامل ہوتا ہے جو کوئی عام سیاح نہیں کرتا۔ عام سیاح چاہتا ہے کہ وہ تھکے بغیر ہر قسم کی سہولتوں کے ساتھ سیر و تفریح کرے، کچھ دن ہلہ گلہ کرے اور واپس اپنے گھر اور کام کے لیے چلا جائے۔ ایڈونچر ٹورسٹ یا مہم جوئی کا شوقین سیاح خود کو مشکلات میں ڈالتا ہے۔ وہ ان مقامات پر جاتا ہے جہاں پر عام حالات میں بھی عام افراد جانا اور رہنا پسند نہیں کرتے۔کسی بھی مقام پر جا کر نئی وادیاں اور پہاڑیاں تلاش کرنا، یہان تک کہ نئے کلچر، دم توڑتی تہذیبوں، کھانوں، زبانوں کو دنیا کے سامنے لانا بھی ایڈونچر ٹورازم کہلاتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ چند سال پہلے تک ایڈونچر ٹورازم صرف مشغلہ ہوتا تھا۔ مگر اب یہ مکمل پیشہ بن چکا ہے اور اس میں باقاعدہ تربیت حاصل کی جاتی ہے۔پہاڑوں، وادیوں اور صحراﺅں میں مہم جوئی کرنا تو ایڈونچر ہے ہی لیکن اب تو سائیکل و موٹر سائیکل پر یا پیدل سفر کرنا بھی ایڈونچر ٹورازم کا بڑا حصہ ہے۔غیر ملکی مہم جو زیادہ تر بلتستان، ہنزہ، دیامر، استور، غذر، چترال، سوات اور ناران کاغان کا رخ کرتے ہیں۔اگر حکومت سیاحت کو ایک صنعت کے طور پر متعارف کروانا چاہتی ہے اور اس کے لیے کام کررہی ہے تو اس کے نتےجے میں مستقبل میں ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سیاحت سے دس سے پندرہ بلین ڈالر ریوینیو پیدا ہوگا، جس میں پانچ سے چھ ارب ڈالر کا ریوینیو ایڈونچر ٹورازم سے آنے کی امےد کی جا سکتی ہے۔سیاحوں کے لیے بہت طبی، سہولت اور معلومات کے مراکز قائم کےے جانے چاہےں۔ شمالی علاقہ جات میں مناسب رہائش کے لیے ہوٹل وغیرہ کی تعداد بہت ہی کم ہے۔ پیشہ ور اور بڑی مہم جوئیاں کرنے والے تو پاکستان کے بلند و بالا پہاڑوں، میدانوں سے واقفیت رکھتے ہیں، مگر اس کے برعکس شوقین اور مشغلہ نئے طور پر اختیار کرنے والے مہم جو واقفیت نہیں رکھتے، ان کے لیے بین الاقوامی ٹور کمپنیوں سے رابطے پیدا کرنا ضروی ہےں۔ سیاحت اب صنعت اور پیشہ بن چکی ہے، اس لیے اس میں تربیت یافتہ لوگوں کی ضرورت ہے، مگر پاکستان میں ایسے ادارے بہت کم ہیں جہاں پر سیاحت کے حوالے سے کوئی تربیت فراہم کی جاتی ہو۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر تربیت کے مراکز کھولے جہاں پر بین الاقوامی ماہرین کو بلا کر مقامی لوگوں کو تربیت دی جائے۔ اسی طرح گائیڈ، ہوٹل، ڈرائیورز، ویٹرز سب کو یہ تربیت ملنی ضروری ہے تاکہ آنے والے سیاح مطمئن ہوسکیں اور مقامی آبادیوں میں روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں۔اگرچہ حکومت ےہ کہہ چکی ہے کہ سیاحت بالخصوص ایڈونچر ٹورازم کے مختلف شعبوں میں تربیت یافتہ لوگوں کی کمی کو دور کرنے کےلئے پالیسی بنائی جارہی ہے اور ملکی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو سیاحت میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے مناسب ماحول فراہم کیا جا رہا ہے اور حکومت بین الاقوامی ٹور آپریٹرز کے ساتھ بھی رابطوں میں ہے لےکن تاحال اس کا کوئی مثبت نتےجہ سامنے نہےں آےا۔:وزیر مملکت برائے سیاحت و وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے امور نوجوانان وصی شاہ کے مطابق گزشتہ سال پاکستان میں غیر ملکی سیاحت میں 115فیصد اضافہ ہوا جس سے ملک کو1.3بلین ڈالر کا زرمبادلہ کمانے میں مدد ملی ۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ2024 سیاحت کے شعبے میں ایک پاور ہاﺅس کے طور پر ملک کو تبدیل کرنے میں مزید سیاحتی سفری منظر نامے پر لائے گا، پاکستان سیاحت کو فروغ دے رہا ہے ،سندھ اور بلوچستان کے مزید غیر دریافت شدہ سیاحتی مقامات کی نشاندہی کرے گا جن میں ایڈونچر، مذہبی، فطرت، ویک اینڈ، دیہی اور قبائلی سیاحت شامل ہیں۔ہمارا ملک ساحلوں، چٹانوں، جنگلوں، پہاڑیوں، وادیوں اور دریاں اور قدرتی مناظر کی خوبصورتی سے مالا مال ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہ جگہیں زیادہ تر غیر محفوظ ہیں اور یہ زیادہ تر غیر دریافت ہیں جہاں نئی منتخب حکومت کو توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ہم ڈبلیو ٹی ایم جیسے عالمی مارکیٹ کے شوز میں پاکستان کے سیاحت کے مواقع کی نمائش کر رہے ہیں جس سے زیادہ سے زیادہ سیاحوں کو پاکستان کی طرف راغب کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ قوم کے لئے تحفہ ہے کہ پاکستان کو دنیا کا بہترین سیاحتی مقام قرار دیا گیا ہے، حکومت طریقہ کار کو آسان بنا رہی ہے اور نجی شعبے کی حوصلہ افزائی اور شمولیت کو یقینی بنا رہی ہے۔ملک کے چاروں صوبوں، گلگت بلتستان اور آزاد جموںو کشمیر میںدنیا کے تاریخی سیاحتی مقامات اور سیاحت کے نادر مواقع ہےں ‘گلگت بلتستان سیاحت ہی نہیں بلکہ سرمایہ کاری کے لئے بھی بہترین جگہ ہے ۔اس امر میں کوئی شبہ نہےں کہ پاکستان قدرتی وسائل اور مناظر کے اعتبار سے خوش قسمت ترےن ملک ہے لےکن بدقسمتی سے اس کے وسائل سے کماحقہ فائدہ اٹھانے کی کوشش نہےں کی گئی حالانکہ محض سےاحت کے ذرےعے اےک اےک ارب ڈالر کے لےے ورلڈ بنک کی منتےں کرنے والے ملک کو پندرہ ارب ڈالر سالانہ حاصل ہو سکتے ہےں۔