انتخابات میں دھاندلی کے الزامات پر مستعفی ہونے والے کمشنر راولپنڈی ڈویژن لیاقت علی چھٹہ کو گرفتار کر لیا گیا۔سی پی او راولپنڈی نے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کرنے والے کمشنر راولپنڈی ڈویژن لیاقت علی چٹھہ کو پنڈی کرکٹ اسٹیڈیم سے گرفتار کیا۔پولیس لیاقت علی چھٹہ کو لیکر نامعلوم مقام پر ساتھ لے گئی ہے اور سی پی او آفس کے باہر بھی پولیس کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی ہے۔لیاقت علی چھٹہ نے پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ انہوں نے انتخابات میں ہارے ہوئے امیدواروں کو پچاس پچاس ہزار کی لیڈ سے جتوا کر قوم کے ساتھ بہت زیادتی کی، ضمیر کی آواز پر عہدے سے استعفی دیتا ہوں اور اس کام میں ملوث الیکشن کمیشن، چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس پاکستان کو بھی عہدوں سے مستعفی ہو جانا چاہیے۔الیکشن کمیشن نے کمشنر راولپنڈی ڈویژن لیاقت علی چٹھہ کے الیکشن میں دھاندلی کے الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔ ترجمان الیکشن کمیشن نے تمام تر الزامات کی تردید کی اور کہا کہ چیف الیکشن کمشنر یا الیکشن کمیشن کے کسی عہدیدار نے الیکشن نتائج کی تبدیلی کیلئے کمشنر راولپنڈی کو کبھی کوئی ہدایات جاری نہیں کیں۔ترجمان الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کسی بھی ڈویژن کا کمشنر ڈی آر او،آر او یا پریذائیڈنگ آفیسر نہیں ہوتا، نہ ہی کمشنر کا الیکشن کے کنڈکٹ میں کوئی براہ راست کردار ہوتا ہے، الیکشن کمیشن اس معاملے کی جلد از جلد انکوائری کرائے گا۔لیاقت علی چٹھہ نے الزام عائد کیا تھا کہ اس کام میں الیکشن کمیشن، چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس پاکستان بھی ملوث ہیں، ان لوگوں کو بھی عہدوں سے مستعفی ہو جانا چاہیے۔الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری اعلامیے میں بتایا گیا تھا کہ کمیشن اکا دکا واقعات سے انکار نہیں کرتا لیکن تدارک کے لیے متعلقہ فورمز موجود ہیں، الیکشن کمیشن کی جانب سے شکایات پر فوری فیصلے کیے جارہے ہیں۔ مشکلات اور مسائل کے باوجود آٹھ فروری کو انتخابی عمل پر امن اور منظم رکھنے میں کامیاب رہے، انتخابات ایک بہت بڑا آپریشن تھا جسے کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا، الیکشن منیجمنٹ سسٹم نے ریٹرننگ افسران کے دفاتر میں تسلی بخش کام کیا۔ موبائل سروس کی بندش سے پریذائیڈنگ افسران الیکٹرانک ڈیٹا بھیجنے سے قاصر رہے، معمول کی کوآرڈینیشن اور نقل و حمل کو موبائل سروسز کی بندش نے بری طرح متاثر کیا۔ 2018میں انتخابات کا پہلا نتیجہ اگلے روز صبح چار بجے موصول ہوا تھا، اس مرتبہ پہلا نتیجہ رات دو بجے موصول ہوا، کچھ حلقوں کے علاوہ انتخابات کے نتائج ڈیڑھ دن میں مکمل کیے گئے 2018کے انتخابات میں نتائج کی تکمیل میں تےن روز لگے تھے، کچھ حلقوں میں نتائج کی تاخیر سے کسی مخصوص سیاسی جماعت کو فائدہ یا نقصان نہیں پہنچا ہے۔ آٹھ فروری کے عام انتخابات کے نتائج پر پاکستان تحریک انصاف کا احتجاج جاری ہے۔ جمعے کو پی ٹی آئی نے اپنے ہارے ہوئے امیدواروں کے مبینہ فارم 45 میڈیا کے سامنے پیش کر دیے ہیں۔عام انتخابات کے نتائج آنے کے بعد سے ملک کی مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کی جانب سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔کئی سیاسی جماعتوں کا الزام ہے کہ انتخابات میں دھاندلی اور بے ضابطگیاں ہوئیں۔ تاہم الیکشن کمیشن اور پاکستان حکام کے مطابق الیکشن صاف اور شفاف انداز میں منعقد ہوئے۔پی ٹی آئی کی پریس کانفرنس میں انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی ویڈیوز اور فارم 45بھی دکھائے گئے۔رﺅف حسن نے الزام لگایا کہ پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی ووٹ ڈکیتی کی گئی۔2024کی خوش آئند بات یہ ہے کہ الیکشن ہوئے۔ لیکن ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا ووٹر فراڈ بھی ہوا۔ فارم 45 اور فارم 47میں واضح فرق ہے۔ ان کے بقول یہ بنچ مارک رکھا ہے، اس کے علاوہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں ووٹوں کا فرق ایک اور بینچ مارک ہے جب کہ تیسرا بینچ مارک ہار جیت اور مسترد ووٹوں کا فرق ہے۔درےں اثناءجسٹس قاضی فائز عیسی نے کمشنر راولپنڈی کے الزامات پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کا الیکشن سے کوئی تعلق نہیں۔ کل مجھ پر چوری کا الزام لگا دیں، قتل کا الزام لگا دیں۔ آپ کچھ بھی الزام لگا سکتے ہیں۔ الزام لگانا آپ کا حق ہے تو ساتھ میں ثبوت بھی پیش کر دیں۔ اچھے اور برے کا تعین بعد میں ہو گا۔ عام انتخابات میں سامنے آنے والے نتائج کے مطابق کوئی بھی سیاسی جماعت سادہ اکثریت حاصل نہیں کر سکی ہے۔ جس کے بعد کم نشستیں حاصل کرنے والی پارٹیاں مخلوط حکومت بنانے کے لیے تیار ہیں جب کہ سب سے زیادہ سیٹوں پر کامیابی حاصل کرنے والی جماعت نتائج کے خلاف احتجاج جاری رکھے ہوئے ہے ۔تین بار سابق وزیر اعظم نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ نواز پچھہترنشستوں کے ساتھ دوسرے اور پاکستان پیپلز پارٹی چون نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی۔عمران خان کی جانب سے مسلم لیگ نون، پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ سے اتحاد سے انکار کے بعد یہ تینوں جماعتیں اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنانے کے لیے کام کر رہی ہیں۔اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ووٹ ڈالنے کی شرح تقریبا اڑتالےس فیصد تھی اور چھ کروڑ سے زیادہ ووٹروں نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔ یہ تعداد اس سے قبل کے عام انتخابات کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ تھی۔انتخابات کے انعقاد میں تاخیر، انتخابی مہم کے سست آغاز، عمران خان کی پارٹی کے خلاف فوج کی ممکنہ ایما پر کریک ڈاﺅن اور انتخابی عمل پر اعتماد میں کمی نے بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا کیا کہ آیا ووٹ ڈالنے کے لیے ووٹروں کی ایک معقول تعداد اپنے گھروں سے باہر نکلے گی بھی یا نہیں۔سابق سفارت کار ملیحہ لودھی نے کہا تھا کہ ان پیش گوئیوں کے برعکس کہ سیاسی صورت حال کی وجہ سے لوگ انتخابی عمل میں زیادہ دلچسپی نہیں لیں گے، ووٹروں کی کافی تعداد سامنے آئی، جس سے جمہوری عمل پر اور اپنے ووٹ کی اہمیت پر ان کے اعتماد کا اظہار ہوتا ہے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ اس برہمی کا رخ بنیادی طور پر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی طرف تھا، جس کی پاکستان کے سیاسی منظر نامے کو تبدیل کرنے کی تاریخ ہے۔نواز شریف اور عمران خان دونوں اعلی فوجی حکام پر الزام لگاتے رہے ہیں کہ انہوں نے انہیں زبردستی اپنے عہدوں سے ہٹایا۔انتخابات کے نتائج تقریبا پندرہ گھنٹوں کی تاخیر سے آنا شروع ہوئے جس پر بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات شروع ہو گئے۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ایک بیان میں سب سے اپیل کی ہے کہ وہ انتشار اور پولرائزیشن کی سیاست سے باہر نکلیں۔انتخابات سے قبل نواز شریف کو اسٹیبلشمنٹ کی پسندیدہ شخصیت کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔ انہوں نے دو انتخابی حلقوں سے الیکشن لڑا جس میں ایک سیٹ پر وہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار سے ہار گئے جب کہ لاہور کی اپنی آبائی نشست انہوں نے جیت لی جہاں ان کا مقابلہ پاکستان تحریک انصاف کی ایک مضبوط امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد سے تھا۔ ان کی جیت کو پی ٹی آئی نے متنازعہ قرار دیا ہے۔نواز شریف نے مرکز میں مخلوط حکومت کی قیادت کرنے کے لیے اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کو وزیر اعظم اور اپنی بیٹی مریم نواز کو سب سے بڑے صوبے پنجاب کی وزیر اعلی کے لیے نامزد کیا ہے۔ نواز شریف اپنی پارٹی کی جانب سے آئندہ کے حکومتی سیٹ اپ میں کردار نہ ہونے کا مطلب سیاسی کیرئیر کے خاتمے کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ فیصلہ سازی کے عمل کی قیادت کریں گے۔2022میں عدم اعتماد کی تحریک میں شکست کے بعد، عمران خان کی پارٹی نے اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کے بجائے پارلیمنٹ چھوڑ دی اور سڑکوں پر احتجاج کرنے لگی جسے عوامی حمایت نو حاصل ہو گئی، لیکن وہ قبل از وقت انتخابات پر مجبور کرنے میں ناکام رہی ۔تاہم اس دوران فوج کے ساتھ اس کی رسہ کشی بڑھتی چلی گئی۔تحرےک انصاف احتجاج کی سےاست پر ےقےن رکھتی ہے اگر وہ پارلیمنٹ کے اندر کام کرنے کے لیے تیار ہو، جمہوری عمل کے حصے کے طور پر کام کے لیے تیار ہو ، تواس پارٹی کو مرکزی دھارے کی سیاست میں واپس آنے میں مدد مل سکتی ہے۔ملک بھر میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ پی ٹی آئی اور کئی دیگر جماعتوں نے دعوی کیا ہے کہ ان کے مینڈیٹ چوری ہو گئے ہیں۔نگران حکومت نے دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے بین الاقوامی مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ انتخابی عمل ایک خودمختار ملک کا اندرونی معاملہ ہے۔ موسم اور سیکیورٹی کے مسائل کے باعث ووٹوں کی گنتی میں تاخیر ہوئی۔ فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک فافن نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ بہت سے انتخابی اہل کار قواعد پر عمل کرنے یا بروقت نتائج جمع کرنے کے لیے ضروری انتظامات کرنے میں ناکام رہے۔نومنتخب پارلیمنٹ آئندہ دو ہفتوں میں حلف اٹھائے گی۔ جس کے بعد ایوان اپنے لیڈر کا انتخاب کرے گا، جو وزیر اعظم کے طور پر کام کرے گا۔کہا جا رہا ہے کہ الیکشن میں دوسرے درجے پر رہنے والی جماعتوں کا اتحاد ملک میں شاید وہ سیاسی استحکام نہیں لا سکے گا جو چوبےس کروڑ کی آبادی پر مشتمل اس قوم کو اپنے گہرے ہوتے ہوئے معاشی بحران اور دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کے لیے درکار ہے۔ےہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے باوجود ایک ایسی اقلیتی حکومت زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی جس کے پاس قانونی اور اخلاقی جواز موجود نہ ہو۔وطن عزےز میں دھاندلی کا شور ہر انتخابات میں مچاےا جاتا ہے دراصل ہارنے والا اپنی ہار کو خوشدلی سے قبول کرنے پر آمادہ ہی نہےں ہوتا۔
