گےس کے نرخوں میں بے رحمانہ اضافہ


نگران حکومت نے آئی ایم ایف کی شرط پر گیس مزید ستاسٹھ فیصد مہنگی کردی۔ وفاقی کابینہ نے گیس کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دے دی ہے۔ ذرائع کے مطابق پروٹیکٹڈ صارفین کے لیے گیس قیمتوں میں سوروپے فی ایم ایم بی ٹی یو اضافہ کیا گیا ہے۔وفاقی کابینہ نے نان پروٹیکٹڈ صارفین کے لیے گیس قیمتوں میں تےن سو روپے فی ایم ایم بی ٹی یو اضافے کی منظوری دی ہے۔علاوہ ازیں بلک میں گیس استعمال کرنے والوں کے لیے فی ایم ایم بی ٹی یو قیمتوں میں نو سو روپے کا اضافہ، سی این جی سیکٹر کے لیے فی ایم ایم بی ٹی یو قیمتوں میں 170روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔گیس کی قیمتوں میں اضافے کا اطلاق یکم فروری سے ہوگا۔ نگراں حکومت نے گیس کی قیمتوں میں 193فیصد تک اضافے کی منظوری دی ہے۔ دعوی یہ کیا جارہا ہے کہ صارفین سے حاصل ہونے والی اضافی رقم سے گیس کمپنیوں کو دیوالیہ ہونے سے بچانے میں مدد ملے گی۔کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کی پیر کے روز ہونے والی میٹنگ میں گھریلو، تجارتی اور کمپریسڈ نیچرل گیس استعمال کرنے والوں کے لیے گیس کی قیمتوں میں اضافے کے علاوہ سیمنٹ مینوفیکچررز کے لیے ٹیرف بڑھانے کی اجازت دے دی گئی۔ای سی سی نے گھریلو صارفین کے لیے گیس کی قیمتوں میں 172فیصد تک اضافے کو منظوری دے دی جب کہ کمرشیل صارفین کے لیے 137فیصد اور سیمنٹ مینوفیکچررز کے لیے گیس کی قیمتوں میں 193فیصد تک اضافہ کر دیا گیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ گیس کی قیمتوں میں اضافے سے صارفین سے 350ارب روپے کی اضافی وصولی ہو گی اور اس سے گیس کمپنیوں کو دیوالیہ ہونے سے بچانے میں مدد ملے گی۔عوام کے سالانہ بل میں ڈےڑھ سو فیصد تک اضافے کا تخمینہ ہے۔نگران وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد پیٹرولیم ڈویژن کی جانب سے جاری کردہ سمری میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت نے اوگرا کے مشورے کے مطابق صارفین کی مختلف کیٹیگریز کے لیے گیس کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دے دی ہے۔ پروٹیکٹڈ صارفین کے لیے فکسڈ چارجز دس روپے سے بڑھا کر چار سو روپے کر دیے گئے، جو انتالےس سوفیصد اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گیس، بجلی کی پیداوار کا ایک بڑا ذریعہ ہے اور صنعتوں کے لیے گیس کے نرخوں میں اضافہ پیداواری لاگت کو بڑھا دے گا۔ تاہم صنعتی شعبہ اس اضافے کو صارفین تک منتقل کر دے گا اور اس کے نتیجے میں آنے والے مہینوں میں مہنگائی مزید بڑھے گی۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے مہنگائی میں یقینی طور پر اضافہ ہوگا لیکن توانائی کے باقی تمام ذرائع میں قیمتوں میں پہلے ہی بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے۔ پاکستان میں توانائی کے حصول کے تمام ذرائع اس سے پہلے ہی مہنگے ہوچکے ہیں اور اس وقت تمام ذرائع کی قیمتوں میں گیس کے مقابلہ میں پندرہ گنا تک قیمتیں بڑھ چکی ہیں۔ اس میں لکڑی ہو،فرنس آئل، کیروسین آئل یا دیگر کوئی بھی ذریعہ ان سب کی قیمتیں پہلے ہی بڑھ چکی ہیں۔ ماضی میں ہر چھ ماہ بعد گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا تھا۔اس وقت گیس صارفین کے علاوہ باقی صارفین پہلے ہی گیس کے مقابلہ میں کہیں زیادہ قیمت ادا کررہے ہیں۔اس وقت موجودہ کمر توڑ مہنگائی میں صرف ایک گیس سیکٹر نہیں ہے بلکہ آئندہ چند دنوں میں جی ایس ٹی میں ایک فی صد اضافہ، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اور دیگر عوامل بھی شامل ہوں گے۔اس اضافے سے تعمیراتی شعبہ بھی متاثر ہونے کا امکان ہے۔ موجودہ اضافے سے اسٹیل کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوگا اور تعمیرات میں استعمال ہونے والے سریے کی قیمتوں میں فی ٹن چار سے پانچ ہزار روپے اضافہ متوقع ہے۔اسی طرح سیمنٹ کی قیمتوں میں بھی اضافہ متوقع ہے۔حکومت نے براہ راست گیس کے شعبے کے نقصانات عوام کو منتقل کر دیے ہیں اور نام حسب معمول آئی ایم ایف کا لیا جا رہا ہے۔ حکمراں طبقہ قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرضے لینے سے بھی نہیں ہچکچاتا اور قرضوں کی شرائط خواہ جیسی بھی ہوں یہ منظور کرلیتے ہیں کیونکہ انہیں اپنی جیب سے یہ قرضے نہیں دینے ہوتے۔ اس لیے ہر شرط منظورکر لیتے ہیں اور یہ بھی ان کے پیش نظر ہوتا ہے کہ آنے والی حکومت پر اس کا دباﺅ پڑے گا۔ شرحِ سود میں اضافے سے لوگوں کو یہ ترغیب ملتی ہے کہ وہ اپنی قابل ِ خرچ آمدنی کو خرچ کرنے کے بجائے بچتوں میں لگائیں، جب کہ دوسری طرف حکومت اپنی بہتر حکمت عملی اور اچھی معاشی پالیسیوں کی مدد سے اشیا ضروریہ کی قیمتوں پر کنٹرول کرسکتی ہے۔ پڑوسیوں کے ساتھ تجارت کا آغاز، زرعی پیداوار میں بہتری، ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کارروائی، سیاسی استحکام، بجٹ خسارے میں کمی، لوکل انڈسٹری کو فروغ دینا اچھی حکمت عملی کہلاتی ہے۔ ایندھن کی اونچی قیمتیں پیداوار اور نقل و حمل کے اخراجات میں اضافہ کرتی ہیں جس سے خوراک مزید مہنگی ہو جاتی ہے اور چونکہ پاکستان اپنی اشیائے خورو نوش کا بہت بڑا حصہ درآمد کرتا ہے جب کہ خوردنی تیل سمیت پام آئل وغیرہ بھی ہم زیادہ تر دوسرے ممالک سے امپورٹ کرتے ہیں، اس لیے اگر ان چیزوں کی قیمتیں عالمی سطح پر بڑھتی ہیں تو ہمیں یہ چیزیں پاکستان میں بھی مہنگی ملتی ہیں۔ فیصلہ سازوں کی جانب سے عوام کو باورکرایا جاتا ہے کہ اس طرح کے رجحانات عارضی ثابت ہوں گے اور معیشت مندی کے بعد پھر سے بحال ہوجائے گی، لیکن ایک عرصے سے ایسا نہیں ہو رہا۔ حکومت کو یہ چاہیے کہ عوام پر ٹیکسوں کی شرح کم کرے لیکن بدقسمتی سے نہ صرف ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کیا جا رہا ہے بلکہ ایسے ٹیکس بھی عائد کیے جا رہے ہیں جو غریبوں پر سرے سے لاگو ہی نہیں ہونے چاہئیں۔ اِس سلسلے میں قومی معاشی و اقتصادی فیصلہ سازی اپنے ہاتھ میں لینا ہوگی اور وہ سبھی معاشی فیصلے خود کرنا ہوں گے جن سے عام آدمی براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ عوام کے نکتہ نظر سے پاکستان کا مالیاتی بحران کسی بھی صورت آئی ایم ایف پروگرام پر انحصار کرنے سے حل نہیں ہو سکتا، جب تک کہ کم خرچ طرز حکمرانی کی داغ بیل نہ ڈالی جائے۔ نگران حکومت، ایک عام آدمی کو ریلیف فراہم کرنے سے قاصر ہے جب تک وہ ان شعبوں پر ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ نہیں کرتی جن سے آمدنی حاصل کرنے والے اپنے حصے کا ٹیکس ادا نہیں کر رہے۔ اِن میں زراعت، رئیل اسٹیٹ جائداد کی خریدو فروخت اور ہول سیل سیکٹرز شامل ہیں، جن سے اگر ٹیکسوں کا منصفانہ حصہ وصول کیا جائے تو سالانہ کئی کھرب روپے، اضافی آمدنی حاصل ہو سکتی ہے۔ اِس مرحلہ فکر پر مزید کسی غلطی کی گنجائش نہیں رہی۔ اِس سے نکلنے کا راستہ قرض نہیں بلکہ قومی آمدنی کے وسائل کو ترقی دینا ہے۔ مہنگائی بڑھنے کی کئی وجوہات ہیں۔ بڑھتے ہوئے ملکی و غیر ملکی قرضے، سرکاری اداروں کو بھاری سبسڈیز سمیت دیگر کئی غلط اقتصادی فیصلے اور گورننس کے متعدد مسائل اس کی وجہ ہیں اور جن کی بدولت ہی ہم آج ان برے اقتصادی حالات تک پہنچے ہیں۔ کسی بھی ملک کا مرکزی بینک یعنی اسٹیٹ بینک مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے شرح سود میں اضافہ کرتا ہے جس کی وجہ سے معیشت کچھ حد تک سست ہو جاتی ہے اور چیزوں کی قیمتیں نیچے آنے لگتی ہیں۔ اس وقت ملک میں مہنگائی کے خود ساختہ محرکات میں بے لگام منافع خور مافیا کی سازشوں کا عمل دخل ہے جو مارکیٹ کی قیمتوں میں اضافے کا اختیار رکھتے ہیں اور ناجائز منافع خوروں کے ایسے گروہوں کے خلاف خاطرخواہ کارروائی دیکھنے میں نہیں آرہی۔ درحقیقت پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے ساتھ ایک ایسی مضبوط پالیسی کی بھی ضرورت ہے جس میں حکومتی اداروں کو چوکس، بیدار اور فعال کیا جائے۔ اِس سلسلے میں جب تک مائیکرواکنامک مینجمنٹ نہیں کی جائے گی اس وقت تک خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ ڈویژنز اور اضلاع کی سطح پر پرائس کنٹرول بیوروکریسی اور بالخصوص ضلعی انتظامیہ بنیادی طور پر مہنگائی اور مہنگائی سے براہ راست متاثرہ عوام کی حالت زار کے لیے ذمے دار ہیں۔اس کے لےے قوانین اور قواعد و ضوابط پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے اور قانون کا خوف بحال کیا جائے، جس کے لیے انتظامی اصلاحات اور اِس جوش و جذبے کی بھی ضرورت ہے کہ منافع خوروں کے بجائے عوام کے مفادات کا تحفظ کیا جائے۔ مارکیٹ کی رسد اور طلب میں توازن اور قیمتوں کو برقرار رکھنے کے لیے مداخلت ناگزیر حد تک ضروری ہو چکی ہے۔ ایک عام آدمی اگر دو وقت کی روٹی روزی جیسے تفکرات سے آزاد ہو جائے تو اِس کے بعد اس کی خواہشات زیادہ نہیں ہوتیں اور یہی وہ نکتہ ہے جس میں سماجی وسیاسی استحکام کا راز پنہاں ہے۔ موجودہ حالات میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ بہت سی چیزیں اتنی مہنگی ہو گئی ہیں کہ لوگوں کی قوتِ خرید سے باہر ہو چکی ہیں۔ لوگوں نے یا تو وہ خریدنی چھوڑ دی ہیں یا لوگ ان کے متبادل تلاش کر رہے ہیں۔ مختلف اقتصادی ماہرین کا یہی کہنا ہے کہ طلب میں کمی اگر صرف قیمتوں کی وجہ سے ہو تو ان کے واپس بڑھنے کا امکان رہتا ہے۔ جب تک لوگ مستقل طور پر ان کے متبادل پر نہ منتقل ہو جائیں۔ سوال بہت سے ہیں۔ حکومت اور اقتصادی ماہرین کو ان سوالوں کا جواب اور حل تلاش کرنا ہو گا، ورنہ مسائل بڑھتے جائیں گے جس سے مختلف نوعیت کے مسائل اور پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔موجودہ صورتحال میں حکومتوں پر لازم ہے کہ عوام کی حالت زار پر رحم کرےں اپنے اللوں تللوں کے لےے عوام پر ظلم سے باز آ جائےں۔